skip to Main Content

فیصلہ خود کیجئے

عطاء المصطفیٰ سعید

………

وہ دفتر میں داخل ہوا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ دروازے کے عین سامنے بیٹھے کلرک پر اس کی نظریں جم کر رہ گئی تھیں۔ وہ کبھی کلرک کے چہرے کی طرف دیکھتا تھا تو کبھی اس کی میز پر رکھی اس کے نام کی تختی کو جس پر ”مبشر رضا“ لکھا تھا۔ کلرک اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑ اہوا تھا اور وہ بھی نظریں ہٹائے بغیر اسے دیکھے جا رہا تھا۔ان دونوں کی نگاہوں میں پہلے تو شک اور بے یقینی کے تاثرات تیر رہے تھے۔ مگر اب ان کی جگہ شناسائی نے لے لی تھی اور کلرک کا سر آہستہ آہستہ جھکنے لگا تھا۔ پھر اس کی نگاہیں زمین میں گڑ کر رہ گئیں۔دفتر میں موجو د باقی کلرک بھی اپنی جگہوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کا ایک کلرک کو اس طرح گھورنا نہ صرف انہیں حیرت زدہ کر گیا تھابلکہ اس کے ساتھ آئے دیگر محکمہ تعلیم کے عہدے دار بھی آنکھوں میں سوال سمیٹے ہوئے تھے۔ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نیا نیا تعینات ہوا تھا۔ اس کے آتے ہی محکمہ میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ تعلیمی دفاتر کی کڑی نگرانی ہونے لگی تھی۔ وہ خود دفاترکی پڑتال کے لیے چھاپے مار رہا تھا۔ضلع کے محکمہ تعلیم کی کارکردگی اچانک ہی بہت بہتر ہوگئی تھی۔ آج بھی وہ اس دفتر میں اس غرض سے آیا تھااور اب مبشر رضا کے چہرے پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔یہ چہرہ ……اسے بہت کچھ یاد دلا رہا تھا۔ یہ وہ چہرہ تھا جسے وہ ہزاروں میں سے بھی پہچان سکتا تھااور کبھی بھی اپنی یادوں سے اسے کھرچ نہیں سکتا تھا۔ وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں کھونے لگا۔ گزری یادیں اچانک ہی اس پر یلغار کرنے لگی تھیں اور وہ ان میں گھرتا جا رہا تھا، ڈوبتا جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفریح کی گھنٹی بجتے ہی ساری کلاسوں میں ہلچل سی مچ گئی تھی۔ مسلم ہائی سکول کے طلباء اچھلتے کودتے کلاسوں سے باہر آنے لگے۔ ہر لڑکا پہلے باہر نکلنے کی کوشش کررہا تھا۔ایسی افرا تفری میں کسی کو گرانا کیا مشکل ہے۔ دسویں جماعت کے ایک لڑکے نے دروازے میں دوسرے کو ٹانگ سے اڑنگا لگایا تو وہ زمین پر گرکر لڑھکنیاں کھاگیا۔اس کا یونیفارم مٹی سے بھر گیا۔پیچھے سے ایک قہقہہ پڑا۔
”واہ بھئی۔ کتنا پیار ہے تنویر کو اپنے وطن سے۔ اس کی مٹی کو چوم رہا ہے۔“
”ہاں جی! لائق طالب علم تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔وطن کی محبت تو ان کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔“
ایک اور طنزیہ جملہ سنائی دیا اور ساتھ ہی بیہودہ قہقہہ بھی پڑا۔ زمین پر گرے تنویر نے مڑکر دیکھا تو دانت پیس کر رہ گیا۔ یہ مبشر اور اس کے ساتھی تھے۔ ان کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔ تنویر کا دماغ گرم ہونے لگا۔مارے غصے کے اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔مگر اسے اپنے جذبات پر قابو پانا آتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان کی شرارت کا جواب لڑائی نہیں۔
”دیکھ لوں گا میں تمہیں۔“ اس نے نفرت سے کہا اور کپڑے جھاڑتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
”ارے۔ ارے ابھی دیکھ لو نا۔ آج تو ہم تمھارے لیے بن سنور کر آئے ہیں۔“
مبشر نے زور سے کہا مگر تنویر نے سنی ان سنی کر دی۔
یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ مبشر تو اس وقت سے تنویر کا دشمن بنا ہوا تھاجب وہ دسویں جماعت میں داخل ہوا تھا۔ مبشر اکھڑ اور نالائق طالب علم کے طور پر مشہور تھا۔اس کے گروپ کے باعث سارے لڑکے اس سے کتراتے تھے۔ ادھر کسی لڑکے نے ا س سے منہ لگایا اور اُدھر اس بے چارے کی پٹائی ہوئی۔ کئی مرتبہ پرنسپل کے سامنے اس کی حاضری ہوئی،سزا ملی اور سکول سے نکالے جانے کی دھمکی دی گئی، مگر اس پر ذرہ برابر اثر نہ ہوتا تھا۔ ایسے معاملات میں مبشر کے والدکا ایک فون ہی کافی ہوتا تھا۔ وہ اثر و رسوخ اور دولت والا شخص تھا۔ اور اپنی اس طاقت کو بیٹے کو بگاڑنے کے لیے صرف کر رہاتھا۔ وہ بے خبر تھا کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے قیمتی سرمایہ کوتباہ کر رہا ہے۔
تنویر وہ واحد لڑکا تھا جو مبشر کی کسی بھی دھونس میں نہ آتا تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا محنتی لڑکا تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے والدین کا واحد چشم و چراغ تھا جس کے مستقبل کے لیے وہ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اسے اعلیٰ سکول میں تعلیم دلوا رہے تھے۔وہ اساتذہ کی دل سے عزت کرتا تھا۔ شروع شروع میں مبشر نے اس پر رعب جمانے کی کوشش کی تو اس نے اپنے طر ز عمل سے بتا دیا کہ وہ جھوٹے رعب میں آنے والا نہیں۔ جب مبشر کو اپنی ہر حرکت کا منہ توڑ جواب ملا تو وہ جھنجھلا گیا اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔ وہ ہرلمحہ اسے نقصان پہچانے کے درپے ہو گیا۔ تنویر کی دیکھادیکھی باقی لڑکے بھی اسے آنکھیں دکھانے لگے تو اسے احساس ہوا کہ اس کی دادا گیری تنویر کے ہوتے ہوئے نہیں چل سکتی۔
ایک ماہ بعد سکول میں کھیلوں کے سالانہ مقابلے شروع ہورہے تھے۔ مبشر اگر چہ اچھا طالب علم نہ تھا مگر وہ فٹ بال کا عمدہ کھلاڑی ضرور تھا۔ اس خاصیت کی بنا پر اسے فٹ بال کی ٹیم کا کپتان مقرر کیا گیا۔ اس کی سرکر دگی میں سکول ٹیم بہت سے ٹورنامنٹ جیت چکی تھی۔ جب ٹیم کے انتخاب کے لیے لڑکوں کے ٹرائلز شروع ہوئے تو تنویر نے بھی ان میں حصہ لیا،تب یہ بات معلوم ہوئی کہ وہ اچھا طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین کھلاڑی بھی تھا۔ اس کے کھیل کے سامنے دوسروں کی چمک ماند پڑ گئی تھی۔ کپتان ہونے کے ناطے مبشر لڑکوں کے ٹرائلز لے رہا تھا۔ جب تنویر نے اس پر گول کئے تو مبشر کو خطرے کی گھنٹی بجتی محسوس ہوئی۔ آج تک سکول میں اس کا کوئی مقابل پیدا نہ ہوا تھا۔ تنویر کے کھیل نے اس کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ فٹ بال ٹیم کے انچارج سر ریاض کو فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ مبشر کو کپتان رکھا جائے یا تنویر کو ٹیم کی سربرائی دی جائے۔ تنویر نے اگرچہ مبشر سے عمدہ کارکردگی دکھائی تھی۔مگر مبشر کو یوں فوراً نظر انداز کردینا غلط ہوتا۔ کیوں کہ گزشتہ سالوں میں ٹیم کی کامیابیوں کا سبب وہی تھا۔ تاہم یہ تو قانون قدرت ہے کہ بر تر مقام بہتر کا ہوتا ہے۔ چنانچہ سر ریاض کو بھی فیصلہ کرنا تھا اور جلد کرنا تھا۔آخر سر ریاض کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے تنویر اور مبشر کو اجازت دی کہ وہ لڑکوں میں سے اپنی اپنی ٹیم کا انتخاب کریں۔ دو روز بعد دونوں ٹیموں کا مقابلہ ہو گا اور جیتنے والی ٹیم کا کپتان اسکول ٹیم کا کپتان ہو گا۔ اس علان سے اسکول میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ تنویر اور مبشر مقابلے کے لئے ہمہ تن مصروف ہو گئے۔
آخرمقابلے کا دن آپہنچا۔ دونوں ٹیمیں میدان میں آمنے سامنے ہوئیں اور ایک جاندار کھیل کا آغاز ہو گیا۔ دونوں ٹیموں کے حامیوں کے نعروں سے فضا ء گونج رہی تھی۔ آخر مبشر کی ٹیم پہلا گول کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے ساتھیوں نے ایسا غل مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پہلے ہاف کے اختتام پر مبشر کی ٹیم کی یہ برتری قائم رہی۔ مبشر کی گردن اکڑی ہوئی تھی۔ اس نے تنویر کے قریب سے گزرتے ہوئے جملہ کسا۔
”منے میا ں! ٹرائلز والے دن تو میں تیار نہیں تھا، آج تمہاری مہارت کا پول کھولتا ہوں۔“
لیکن تنویر مایوس نہیں تھا۔ ابھی میچ باقی تھا۔ اس نے اپنی ٹیم کو نئی ہدایات دیں اور مبشر کی ٹیم کے کھیل کو دیکھتے ہوئے نئی حکمت عملی بنائی۔ کھیل دوبارہ شروع ہوا تو تنویر کی ٹیم شروع ہی سے حاوی رہی۔ جب وہ یکے بعد دیگرے دو گول کرنے میں کامیاب ہوئے تو میدان کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔ مبشر کے حامیوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ اب میدان تنویر کے ساتھیوں کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ مبشر کی ٹیم نے برتری ختم کرنے کی پوری کوشش کی مگر تنویر کی ٹیم حاوی رہی۔ کھیل کے آخری لمحات میں مبشر گیند لے کر آگے بڑھا۔ دونوں کے پاؤں اُلجھے اور مبشر زمین پر لڑ ھکنیاں کھاتا ہوا کئی فٹ دور جا گرا۔ تنویر جلدی سے اس کی جانب بڑھا۔ مبشر نے اپنا سر اُٹھایا تو تنویر کا دماغ گھوم گیا۔ مبشر کامنہ خون سے بھرا ہوا تھا۔ اس کا اوپری ہونٹ پھٹ گیا تھا ور بھل بھل نکلتا ہوا خون اس کے چہرے کو تر کر رہا تھا۔ مبشر کا دماغ غصے سے پھٹنے لگا۔ ایک تو شکست کی جھنجھلاہٹ اوپر سے چوٹ اور وہ بھی تنویر کے ہاتھ سے…… وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے تنویر کا گریبان پکڑ کر جھٹکا دیا۔

”تمہاری یہ ہمت کہ مجھ پر ہاتھ اُٹھاؤ۔ میں تمہیں چھوڑوں گانہیں۔“ ریفری اور دوسرے لڑکوں نے بڑی مشکل سے ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا۔ اس نے مبشر کی حارجیت کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ وہ اس غصہ کی اصل وجہ جانتا تھا، مبشر کو چند لڑکوں نے قابو کر رکھا تھا۔ وہ بار بار خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں سے خون اور منہ سے انتقام کے شعلے نکل رہے تھے۔
”مزا ضرور چھکاؤں گا تمہیں۔ تم نے جان بوجھ کر مجھے گرایا ہے۔ دیکھنا میں تمھارا کیا حشر کرتا ہوں۔“
تا ہم تنویر کی ٹیم جیت چکی تھی اور تلخ واقعے کے باوجود وہ خوش تھا کہ بالآ خر اپنی محنت سے اس نے اپنی صلاحیت منوالی تھی۔
میچ ختم ہو چکا تھا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کھیل کو کھیل رہنے دیا جاتا اور اس دوران ہونے والی کسی بات کا دوبارہ ذکر نہ کیا جاتا۔ مگر مبشر …… وہ تو چوٹ کی آڑ میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے گروپ کو بھی اس کام پر آمادہ کر لیاتھا۔ وہ سب میچ کے بعد اپنے لباس تبدیل کر کے اسکول سے باہر آگئے اور اسکول سے چند قدم کے فاصلے پر ایک گلی میں چھپ کر کھڑے ہوگئے جہاں سے تنویر گزرا کرتا تھا، تنویر جس وقت اسکول سے باہر نکلا اس وقت تک تقریباً تمام لڑکے گھروں کو جاچکے تھے۔ میچ کے بعد اُس نے سر ریاض سے ٹیم کی پریکٹس کے متعلق گفتگو کی تھی، اور اب فارغ ہونے کے بعد گھر جا رہا تھا۔ آسمان پر اچانک ہی بادل اُمڈ آئے تھے۔ سورج نے اپنا منہ چھپا لیا تھا اور اندھیرا سا چھا گیا تھا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے اس کا موڈ خوشگوار بنا دیا تھا، وہ گنگنا تا ہوا گلی کا موڑ مڑا تو چند قدم چلنے کے بعد رک گیا۔ اس کی چھٹی حس نے کسی خطرے کا واضح اعلان کیاتھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کی گردن کسی شکنجے میں جکڑی گئی ہو۔ حملہ آور نے پوری قوت سے اس کی گردن کو بازوؤں میں کس لیا تھا، تنویر نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کوشش کر کے اپنے آپ کو چھڑا لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے پیچھے گھومتے ہوئے اپنی ٹانگ سے حملہ آور کو کک لگائی۔ اس کا شکار مبشر بنا۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخ نہایت بھیانک تھی۔ تنویر کا اسپورٹس بوٹ اس کے اسی ہونٹ پر لگا تھا جو پہلے سے زخمی تھا۔ پہلے ہی خدا خدا کر کے خون رُکا تھا، اب زخم پہلے سے گہرا ہو گیا،یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کا جبڑا ہی پھاڑ دیا ہو۔ خون فوارے کی طرح اُبل رہا تھا۔ وہ چیختے ہوئے منہ تھام کر زمین پر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ کم از کم اب وہ لڑائی کے قابل نہیں رہا تھا، یہ حال دیکھ کر اس کے ساتھی اپنی جگہوں پر جم کر رہ گئے۔
”مم……مارو۔ ہڈیاں توڑ دو اس کمینے کی۔“ مبشر پوری قوت صرف کر کے چلایا تو جیسے انہیں ہو ش آگیا، وہ تعداد میں چار تھے۔ وہ تنویر پر پل پڑے۔ جب تک بازوؤ ں میں دم تھا۔ اس نے انہیں روکے رکھا۔ مگر وہ تعداد میں زیادہ تھے اور تھکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ انہوں نے اسے ما مار کر نیم بے ہوش کر دیا۔ جانے کتنی دیر وہ یوں ہی زمین پر پڑا رہا۔ بارش بھی شروع ہو گئی۔ بادل زور زور سے گرج رہے تھے۔ اس کے ماتھے کی کھال پھٹ گئی تھی،اور خون نکل نکل کر زمین پر جمع ہو گیا تھا۔ مبشر اور اس کے بد معاش ساتھی جا چکے تھے۔ وہ لڑ کھڑاتا ہوا اُٹھا اور جیسے تیسے کر کے گھر پہنچا اور اس کی حالت دیکھ کر گھر میں کھلبلی مچ گئی تھی مگر اس نے چھوٹے موٹے حادثے کا بہانا بنا لیا۔ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ مبشر نے آج تمام حدیں پھلانگ لی تھیں۔ تنویر کے دل میں لاوا سا اُبل رہا تھا۔ تنویر نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس زیادتی کا انتقام ضرور لے گا۔ مبشر کو یوں ہی سسکنے پر مجبور کرے گا جیسے وہ اس وقت دردسے سسک رہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ پہلے اسکول کے پرنسپل کے سامنے مبشر کی شکایت کرے گا۔ اگر انہوں نے ایکشن نہ لیا تو پھر وہ اپنا بدلہ خود لے گا۔ وہ ابھی پورے ہفتے تک اسکول جانے کے قابل نہ تھامگر تیسرے روز ہی ایک لڑکا اس کے گھر پہنچا اور اسے پیغام دیا کہ پرنسپل اسے بلا رہے ہیں۔ تنویر نے سوچا کہ چلو اچھا ہو ا پرنسپل کو خود ہی واقعہ کی اطلاع مل گئی۔ یقینا اس کی حالت دیکھنے کے بعد وہ مبشر کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔ وہ پرنسپل کے دفتر میں داخل ہوا تو اندر کا منظر دیکھ کر اسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہو گیا۔
پرنسپل کی کرسی کے سامنے مبشر اپنے والد کے ساتھ بیٹھا تھا۔ مبشر کا منہ پٹیوں سے جکڑا ہوا تھا۔ ایک طرف صوفوں پر مبشر کے چاروں ساتھی بھی بیٹھے تھے۔
”تنویر! تم جیسے لڑکے سے اس حرکت کی توقع نہ تھی۔“ پرنسپل صاحب نے گرج کر بات کی ابتدا کی۔ ان کی آواز میں غصہ تھا۔ تنویر سمجھ چکا تھاکہ مبشر کا باپ اپنا کام کر چکا ہے۔
”مبشر شرارتی سہی مگر اس پر اس طرح کے مجرمانہ حملے کا تمہیں کوئی حق نہیں تھا۔ اگر تمہارا مارا ہوا پتھر اس کے سر پر لگتا تو کچھ اور بھی ہو سکتا تھا۔“
پرنسپل کا غصہ انتہا کو چھور رہا تھا۔
”مم……مگر سر میری بات تو سنیں۔“ تنویر نے التجا کی۔
”میں تمہاری کوئی بات سننے کارودار نہیں۔یہ تو شکر کرو مبشر کے والد ایک شریف آدمی ہیں۔ اگر تمہیں پولیس کے حوالے کر دیتے تو سزا بھگتتے رہتے۔“
”سر یقین جانیں میں بے قصور ہوں۔“ تنویر کا لہجہ رو دینے والا تھا۔
”کھلی آنکھوں پر پٹی نہ باندھو۔ تمارا قصور سامنے نظر آرہا ہے۔ تم نے مبشر کو پتھر مارا ہے۔جس سے اس کے منہ پر شدید چوٹ آئی ہے۔ اور باقاعدہ ٹانکے لگے ہیں۔ تمہارے قصور کی گواہی ان چاروں نے بھی دی ہے۔ اب میں تمھارے ساتھ یہی رعایت کر سکتا ہوں کہ تمہیں سزا دئیے بغیر اسکول سے نکال دوں۔ یہ رہا تمہارا سرٹیفکیٹ۔“ پرنسپل صاحب کا آخری جملہ سن کر تنویر کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے۔ اس نے ملتجی نظروں سے مبشر کے باپ کو دیکھا مگر اس نے منہ پھیر لیا۔ تنویر نے سرٹیفکیٹ اُٹھایا اور بوجھل قدموں سے چل دیا۔ مبشر کے ہونٹوں پر طنزیہ اور فاتحانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ تنویر اس کے قریب سے گزرا تو وہ سرگوشی میں بولا۔
”کیوں منے! آج تمہیں پتہ چل گیا ناں کہ تم کتنے چھوٹے ہو۔“یہ الفاظ سیسے کی طرح تنویر کے کانوں میں اُتر گئے۔ نفرت اور انتقام کی ایک لہر اُٹھی اور اس کے سارے وجود میں سرایت کر گئی۔
”یاد رکھنا وقت ضرور پلٹے گا اور پھر تم اپنا حشر دیکھنا ۔“ تنویر نے زہر خند لہجے میں کہا اور دفتر سے نکل گیا۔ مبشر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی تھی۔
اور آج وہی مبشر رضا سر جھکائے کھڑا تھا۔ وقت واقعی پلٹ گیاتھا۔ تنویر، اس کا حاکم بنا اس کے سامنے کھڑا تھا، اس کے باپ کا اثرور سوخ اور اس کی دولت،کچھ بھی تو اس کے کام نہ آیا تھا۔ جیت تو محنت کی ہوئی تھی۔
مسلم ہائی اسکول سے نکلنے کے بعد اس نے ایک اور اسکول میں داخلہ لے لیا تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ کی واحد آس وہ ہے۔ اس نے محنت جاری رکھی اور آخر کار اپنی منزل پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے والدین کی آنکھوں میں سجے ہوئے خواب تعبیر بن کر چمکنے لگے تھے۔ اور دوسری طرف قدرت نے مبشر رضا کو بتا دیا تھا کہ برائی کا بدلہ تباہی ہے۔
اس کی زندگی میں اس وقت بھونچال آیا جب اس کے باپ کو بدعنوانی کے جرم میں حکومت نے دھر لیا۔ اس سے وہ سب کچھ چھین لیا جو وہ اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہو کر لوٹتا رہا تھا۔ مبشر کی اُرانیں دم توڑ گئیں۔سب آوارگی دھری رہ گئی۔
کام چوری کی عادت نے اس کا مستقبل تاریک کرد یا اور وہ بمشکل کلرکی کی نوکری حاصل کر سکا۔ اس نے زندگی کو مذاق سمجھا تھا۔ مگر زندگی نے اسے مذاق بنا دیا تھا۔ آج وہ بری طرح پھنس گیا تھا۔ اس کے ظلم کا نشانہ بننے والااس کے سامنے تھا اور با اختیار تھا۔ اس کے منہ سے نکلنے والے چند الفاظ مبشرکی بقیہ زندگی میں کانٹے بچھا سکتے تھے۔مبشر نے تنویر کے دل میں انتقام کا جو شعلہ روشن کیا تھا۔ آج برسوں بعد ایک بار پھر پوری شدت سے روشن ہوگیا تھا۔ اب وقت نے لاٹھی تنویر کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ وہ مبشر سے ایک ایک زیادتی کا بدلہ لے سکتا تھا۔
تنویر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور کھڑا ہو گیا۔ وہ چند لمحے زمین پر نظریں ٹکائے کھڑا رہا۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ پھر اس نے یک دم سر اُٹھایا تو مبشر کا دل اُچھل کر حلق میں آگیا۔ وہ سمجھ گیا کہ فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے۔ تنویر کا چہرہ یہی بتا رہا تھا۔
ْقارئین! ایک منٹ ذرا ٹھہرئیے۔ ایک لمحے کے لئے آپ تنویر کی جگہ لے لیجئے۔ اب فیصلے کا قلم آ پ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے ضمیر کے مطابق مبشر کے متعلق فیصلہ کیجئے۔ و ہ آپ کا مجرم ہے۔ اس سے جو چاہے سلوک کریں مگر اپنے فیصلے سے ہمیں ضرور آگاہ کریں۔ ہم آپ کو بتائیں گے کہ آپ کتنے اچھے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top