skip to Main Content

ایماندار چرواہا

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عمر فاروق ؓ کے فرزند حضرت عبداللہ ؓ بھی رسول اکرمﷺ کے پیارے ساتھی(صحابی )تھے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ سے باہرتشریف لے گئے۔ایک جگہ ان کے ساتھیوں نے کھانے کے لئے دسترخوان بچھایا۔قریب ہی ایک چرواہا بکریاں چرارہاتھا۔حضرت عبدا للہ بن عمرؓ نے اس سے کہا:

 ”آﺅ بھائی چرواہے،اس دسترخوان سے تم بھی کچھ کھا پی لو۔“

چرواہے نے کہا :”میرا روزہ ہے۔“

حضرت عبدا للہ بن عمر ؓنے فرمایا:

 ”اس سخت گرم دن میں تم روزے کی مصیبت برداشت کر رہے ہو جبکہ سخت گرم لو بھی چل رہی اور پھر ان تپتے ہوئے پہاڑوں میں تم بکریاں بھی چرا رہے ہو۔“

چرواہے نے کہا:

  ”جی ہاں،میں اس وقت کی تیاری کر رہا ہوں جب عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔“

(یعنی مرنے کے بعد کا وقت)اس لئے اس دنیا کی زندگی میں عمل کر رہا ہوں۔(یعنی روزہ رکھ کر حلال روزی کے لئے محنت کر رہا ہوں۔)

 حضرت عبداللہ ؓ نے چرواہے کی پر ہیز گاری اور اللہ کے خوف کا امتحان لینے کے لئے اس سے کہا:

 ”کیا تم اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچ سکتے ہو،ہم تمہیں اس کی نقد قیمت دیں گے اور روزہ افطار کرنے کے لئے تمہیں گوشت بھی دیں گے۔“

چرواہے نے جواب دیا:

 ”یہ بکریاں میری تو نہیں کہ ان میں سے کوئی بکری بیچ دوں۔یہ میرے آقا کی ہیں،وہی ان بکریوں کا مالک ہے۔اس کی اجازت کے بغیر میں کوئی بکری بیچ نہیں سکتا۔“

حضرت عبداللہؓ نے کہا:

  ”تمہارا آقا اگر ریوڑ میں کوئی بکری کم پائے گا اور تم اس سے کہہ دو کہ گم ہوگئی ہے تو تمہیں کچھ نہیں کہے گاکیونکہ ریوڑ سے ایک دو بکریاں گم ہوتی رہتی ہیں۔“

 حضرت عبداللہ کی بات سن کر چرواہا ان کے پاس سے چل دیا۔وہ اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر بار بار یہ الفاظ دہرائے جا رہا تھا کہ این اللہ؟این اللہ؟اللہ کہاں ہے؟اللہ کہاں ہے؟مطلب یہ کہ کیا اللہ سب کچھ نہیں دیکھ رہا۔

  یہ چرواہا ایک شخص کا غلام تھا۔اسکی ایمانداری اور اس کا خوف ِخدا دیکھ کر حضرت عبدا للہ بن عمر ؓ بہت خوش ہوئے اور اپنے آدمی اس چرواہے کے آقا کے پاس بھیج کر اس سے تمام بکریاں اور چرواہے کو خرید کر اسے آزاد کردیا اور پھر تمام بکریاں بھی اسی کو دے دیں۔(اسے ان بکریوں کا ما لک بنا دیا۔)

¤Ÿ ‹Ž ˆŽ¢¦ ‰•Ž„ ˜ŸŽ šŽ¢› æ œ¥ šŽ ‹ ‰•Ž„ ˜‚‹žž¦ æ  ‚§¤ Ž’¢ž œŽŸö œ¥ ƒ¤Ž¥ ’„§¤â”‰‚¤ ᄧ¥ó¤œ ‹š˜¦ œ œŽ ¦¥ œ¦ ¢¦ ƒ ¥ ˆ ‹ ’„§¤¢¡ œ¥ ¦ŸŽ¦ Ÿ‹¤ ¦ ’¥ ‚¦Ž„“Ž¤š ž¥ £¥ó¤œ ‡¦   œ¥ ’„§¤¢¡  ¥ œ§ ¥ œ¥ ž£¥ ‹’„ŽŠ¢  ‚ˆ§¤ó›Ž¤‚ ¦¤ ¤œ ˆŽ¢¦ ‚œŽ¤¡ ˆŽŽ¦„§ó‰•Ž„ ˜‚‹ žž¦ ‚  ˜ŸŽæ  ¥ ’ ’¥ œ¦é     þþ³£¢ ‚§£¤ ˆŽ¢¦¥í’ ‹’„ŽŠ¢  ’¥ „Ÿ ‚§¤ œˆ§ œ§ ƒ¤ ž¢óýý ˆŽ¢¦¥  ¥ œ¦ éþþŸ¤Ž Ž¢¦ ¦¥óýý ‰•Ž„ ˜‚‹ žž¦ ‚  ˜ŸŽ æ ¥ šŽŸ¤é     þþ’ ’Š„ ŽŸ ‹  Ÿ¤¡ „Ÿ Ž¢¥ œ¤ Ÿ”¤‚„ ‚Ž‹“„ œŽ Ž¦¥ ¦¢ ‡‚œ¦ ’Š„ ŽŸ ž¢ ‚§¤ ˆž Ž¦¤ ¢Ž ƒ§Ž   „ƒ„¥ ¦¢£¥ ƒ¦¢¡ Ÿ¤¡ „Ÿ ‚œŽ¤¡ ‚§¤ ˆŽ Ž¦¥ ¦¢óýý ˆŽ¢¦¥  ¥ œ¦é      þþ‡¤ ¦¡íŸ¤¡ ’ ¢›„ œ¤ „¤Ž¤ œŽ Ž¦ ¦¢¡ ‡‚ ˜Ÿž œŽ ¥ œ Ÿ¢›˜  ¦¤¡ Ÿž¥ óýý â¤˜ ¤ ŸŽ ¥ œ¥ ‚˜‹ œ ¢›„ၒ ž£¥ ’ ‹ ¤ œ¤  ‹¤ Ÿ¤¡ ˜Ÿž œŽ Ž¦ ¦¢¡ó⤘ ¤ Ž¢¦ Žœ§ œŽ ‰žž Ž¢¤ œ¥ ž£¥ Ÿ‰ „ œŽ Ž¦ ¦¢¡óá    ‰•Ž„ ˜‚‹žž¦ æ  ¥ ˆŽ¢¦¥ œ¤ ƒŽ ¦¤ Ž¤ ¢Ž žž¦ œ¥ Š¢š œ Ÿ„‰  ž¤ ¥ œ¥ ž£¥ ’ ’¥ œ¦é     þþœ¤ „Ÿ ’ Ž¤¢ Ÿ¤¡ ’¥ ¤œ ‚œŽ¤ ‚¤ˆ ’œ„¥ ¦¢í¦Ÿ „Ÿ¦¤¡ ’ œ¤  ›‹ ›¤Ÿ„ ‹¤¡ ¥ ¢Ž Ž¢¦ š–Ž œŽ ¥ œ¥ ž£¥ „Ÿ¦¤¡ ¢“„ ‚§¤ ‹¤¡ ¥óýý ˆŽ¢¦¥  ¥ ‡¢‚ ‹¤é     þþ¤¦ ‚œŽ¤¡ Ÿ¤Ž¤ „¢  ¦¤¡ œ¦   Ÿ¤¡ ’¥ œ¢£¤ ‚œŽ¤ ‚¤ˆ ‹¢¡ó¤¦ Ÿ¤Ž¥ ³› œ¤ ¦¤¡í¢¦¤   ‚œŽ¤¢¡ œ Ÿžœ ¦¥ó’ œ¤ ‡„ œ¥ ‚™¤Ž Ÿ¤¡ œ¢£¤ ‚œŽ¤ ‚¤ˆ  ¦¤¡ ’œ„óýý ‰•Ž„ ˜‚‹žž¦æ  ¥ œ¦é      þþ„Ÿ¦Ž ³› Ž Ž¤¢ Ÿ¤¡ œ¢£¤ ‚œŽ¤ œŸ ƒ£¥  ¢Ž „Ÿ ’ ’¥ œ¦¦ ‹¢ œ¦ Ÿ ¦¢£¤ ¦¥ „¢ „Ÿ¦¤¡ œˆ§  ¦¤¡ œ¦¥ œ¤¢ œ¦ Ž¤¢ ’¥ ¤œ ‹¢ ‚œŽ¤¡ Ÿ ¦¢„¤ Ž¦„¤ ¦¤¡óýý     ‰•Ž„ ˜‚‹žž¦ œ¤ ‚„ ’  œŽ ˆŽ¢¦   œ¥ ƒ’ ’¥ ˆž ‹¤ó¢¦ ƒ ¤  ž¤ ³’Ÿ  œ¤ –Žš …§ œŽ ‚Ž ‚Ž ¤¦ žš— ‹¦Ž£¥ ‡ Ž¦ „§ œ¦ ¤  žž¦î¤  žž¦îžž¦ œ¦¡ ¦¥îžž¦ œ¦¡ ¦¥îŸ–ž‚ ¤¦ œ¦ œ¤ žž¦ ’‚ œˆ§  ¦¤¡ ‹¤œ§ Ž¦ó      ¤¦ ˆŽ¢¦ ¤œ “Š” œ ™žŸ „§ó’œ¤ ¤Ÿ ‹Ž¤ ¢Ž ’ œ Š¢š ªŠ‹ ‹¤œ§ œŽ ‰•Ž„ ˜‚‹ žž¦ ‚  ˜ŸŽ æ ‚¦„ Š¢“ ¦¢£¥ ¢Ž ƒ ¥ ³‹Ÿ¤ ’ ˆŽ¢¦¥ œ¥ ³› œ¥ ƒ’ ‚§¤‡ œŽ ’ ’¥ „ŸŸ ‚œŽ¤¡ ¢Ž ˆŽ¢¦¥ œ¢ ŠŽ¤‹ œŽ ’¥ ³‹ œŽ‹¤ ¢Ž ƒ§Ž „ŸŸ ‚œŽ¤¡ ‚§¤ ’¤ œ¢ ‹¥ ‹¤¡ó⁒¥   ‚œŽ¤¢¡ œ Ÿ žœ ‚  ‹¤óá

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top