اک ذرا باورچی خانہ میں
حما د ظہیر
………………………………………………………………
ارے بھائی تمہاری روٹی نما چیز پر میں نے قیمہ بچھایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
………………………………………………………………
ہمارا خون کھول کر رہ گیا۔ فوزی آپی کا ہر طنزیہ جملہ ہمیں زہر میں بجھے ہوئے تیر سے بھی زیادہ برا لگ رہا تھا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کبھی ان کی باری آئے گی تو ہم بھی ذرا لحاظ نہ کریں گے اور جی بھر کر بدلے نکالیں گے۔
اب صبح ہی کی بات تھی، جب امی اور فوزی آپی شاپنگ کیلئے جانے لگے تو امی بولیں۔
’’رات کا کھانا فرج میں رکھا ہے، گرم کرکے کھا لینا۔‘‘فوزی آپی نے جھٹ اضافہ کیا۔
’’ انہیں بھلا گرم کرنا کہاں آتا ہے، بازار سے خریدنے کے پیسے دے جائیں۔‘‘
ہم سے اپنی یہ تو ہین برداشت نہ ہوئی، تنک کر بولے ’’ ہاں! ہم گرم کرکے نہیں، بلکہ تازہ کھانا خود سے پکا کر کھائیں گے۔‘‘
فوزی آپی یہ سنتے ہی باورچی خانے کی طرف دوڑ گئیں۔ واپس آکر بولیں۔ ’’چولہا جلانے گئی تھی کہ یہ حضرت اس چکر میں اپنا ہاتھ نہ جلا بیٹھیں۔‘‘ہم دل مسوس کر رہ گئے۔
’’ جس طرح آپ نے ہمارا چولہا جلایا ہے، اسی طرح ہم بدلے کے طور پر آپ کا دل جلائیں گے۔‘‘ ہم بولے ہی تھے کہ امی نے ڈانٹا۔
’’ کیا تم لوگ بات بات پر لڑنے بیٹھ جاتے ہو۔ حمزہ! تمہیں جو کرنا ہو دیکھ بھال کر احتیاط سے کرنا۔‘‘
امی نے کچھ اور ہدایات بھی دیں اور فوزی آپی کو لے کر چلی گئیں۔ ہم نے جذبات میں آکر کھانا پکانے کا کہہ تو دیا تھا مگر حقیقت یہ تھی کہ ہم خیالی پلاؤ تک پکانا نہ جانتے تھے۔ بچپن سے سینکڑوں مرتبہ ہم باورچی خانہ گئے تھے لیکن ہر مرتبہ یہ دیکھنا بھول گئے تھے کہ کھانا آخر پکتا کیسے ہے؟
دماغ پر کافی زور دیا تو یاد آیا ’’ہاں ! دیگچی چولہے پر چڑھی ہوتی ہے اور امی اس میں چمچہ چلاتی رہتی ہیں تو کھانا پک جاتا ہے۔‘‘
اچھا ہوا کہ چولہا جلتا ملا۔ فوزی آپی نے حقیقتاً جلا دیا تھا۔ دیگچی کافی تگ و دو کے بعد ملی۔
’’اونہہ۔ اتنی بھاری دیگچی!‘‘ ہمیں دیگچی اٹھانے میں پسینے آگئے۔ بڑی مشکل سے کسی پہلوان کی طرح اسے اٹھایا اور چولہے پر رکھا۔
چمچے ہمیں پتا تھا کہ کہاں رکھے ہیں، مگر وہ سارے بہت چھوٹے نکلے۔ ہمیں ایک بڑے کف گیر کی تلاش تھی۔ جلدی بھی تھی کہ ادھر ہماری ہانڈی جلی جا رہی تھی۔
آدھا باورچی خانہ ادھر سے ادھر کردینے کے بعد بالآخر ہمیں کف گیر بھی مل ہی گیا اور ہم نے اسے دیگچی میں چلانا شروع کر دیا۔
’’ نہ جانے کب تک چلانا پڑے گا؟‘‘ ہم نے سوچا۔
’’ظاہر ہے جب تک اس میں کھانا نہیں پک جاتا اس وقت تک۔‘‘
ہم بغور دیگچی کو دیکھ رہے تھے کہ نہ جانے کب اور کیسے اس میں کھانا نمودار ہوگا کہ ہم نے ایک عجیب بات محسوس کی۔ دیگچی باہر سے تو بہت بڑی نظر آرہی تھی لیکن اندر سے بہت چھوٹی تھی۔ اس کا ڈھانچہ بہت موٹا تھا اور کئی پلیٹوں کی مدد سے بنایا گیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں اس میں سے عجیب قسم کی بو اٹھنے لگی اور دھواں بھی نکلنے لگا۔ ہم خوش ہو گئے اور آگے آگے دیکھنے لگے کہ ہوتا ہے کیا؟
مگر۔۔۔
نہ ہوا پر نہ ہوا ’’ڈش‘‘ کا انداز نصیب
گو یاروں نے بہت زور اس پہ مارا
آخر ہم نے اپنی عقل کو آواز دے ڈالی۔امی جان مختلف اقسام کے کھانے بناتی ہیں تو کوئی نہ کوئی فرق تو کرتی ہوں گی۔ ہمیں اس فرق کو تلاش کرنا پڑے گا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’پائے‘‘ پک جائیں۔ پائے سے ہمیں خدا واسطے کا بیر تھا۔
ہم جھٹ کتابوں کی الماری کی طرف دوڑے کہ
نہیں ہے کوئی رفیق کتاب سے بڑھ کر
فوزی آپی کی گھریلو معاشیات کی کتابوں کے ساتھ درج ذیل کتب ملیں۔
فرزانہ کا باورچی خانہ (لگتا ہے فوزی آپی غلطی سے اپنی دوست فرزانہ کی کتاب لے آئیں)،سلطان کے پکوان(ہم بھلا شاہی باورچی کب ہیں جو یہ سب پکائیں)اوردُختر خان کا دستر خوان(ہمیں حیرت تھی کہ کھانا پکانے کی کتابوں کے بجائے یہاں دستر خوان وغیرہ بنانے کے قصے رکھے تھے)
کسی نہ کسی طرح ہم نے ایک کتاب کو کھانا پکانے سے متعلق تسلیم کیا۔ اس کے اندر ہم اپنی من پسند ڈش ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ ہمارے نتھوں نے ہمیں دھوئیں کی موجودگی کا احساس دلایا۔ ہم بھاگے بھاگے باورچی خانہ پہنچے تو وہ کالے دھوئیں سے بھرا بیٹھا تھا۔ یعنی ہماری پہلی ڈش جل چکی تھی۔
ہم نے چولہا بند کیا۔ ایگزاسٹ فین چلایا تو دھند چھٹی اور کچھ نظر آنا شروع ہوا۔
کتاب میں سے ہم نے تین چیزیں منتخب کیں۔
قیمہ فرائی
چائنیز کری
اطالوی نان
دراصل ہمارا منشا یہ تھا کہ آج ہی تو موقع ملا ہے، تو کیوں نہ دنیا بھر کے ذائقوں اور ان کی تہذیب سے آشنا ہواجائے۔
سب سے پہلا مسئلہ دیگچیوں کا تھا کہ کم از کم دو درکار تھیں، جبکہ ہمارے گھر میں صرف ایک تھی، اور وہ بھی جل چکی تھی۔
’’ امی تو مختلف حجم کی چھوٹی بڑی دیگچیاں استعمال کرتی رہتی ہیں، آخر وہ سب کہاں گئیں!‘‘ ہم نے ڈھونڈنا شروع کیا اور سارا باورچی خانہ الٹ دینے کے باوجود بھی ایک نہ ملی۔ خدا جانے زمین نگل گئی تھی یا آسمان کھا گیا تھا۔ شاید امی نے اس میں اتنے مزے کی چیز پکائی تھی کہ دیگچی سمیت کھا گیا۔
ہم جلی ہوئی دیگچی ہی کو دھونے کیلئے نلکے پر جانے لگے کہ ہاتھ چھلکا اور دیگچی زمین پر آرہی۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ بجائے دیگچی دو ٹکڑوں میں ٹوٹتی وہ ایک بڑی اور ایک چھوٹی دیگچی میں تقسیم ہو گئی۔
’’ارے واہ! یہ تو جادو ہے۔ گویا دیگچی نے ایک بچہ دیا۔‘‘
ہم نے بڑی دیگچی کو ایک بار پھر زمین پر گرایا تو اس مرتبہ بھی اس میں سے ایک دیگچی نکلی۔
شور تو بہت مچا، لیکن ہم نے کئی دیگچیاں پیدا کر لیں۔ اس وقت ہم اپنے آپ کو بہت بڑا موجد خیال کررہے تھے۔
پڑوسی گھنٹی بجا کر کہنے لگے کہ کیا بات ہے، آپ لوگوں میں پہلے تو کبھی اتنی زوردار لڑائی نہیں ہوئی۔ہم نے سمجھا بجھا کر انہیں چلتا کیا۔
ہم کافی وقت ضائع کر چکے تھے۔ لہٰذا ہم نے بڑی پھرتی دکھائی۔ فریزر سے قیمہ نکالاتو وہ جما ہوا تھا۔ اسے ہم نے پگھلنے کیلئے دھوپ میں رکھ دیا۔
شملہ مرچ، ٹماٹر وغیرہ نکالے اور جیسے جیسے بن پڑا ان کو کاٹا۔ پیاز کاٹتے وقت تو ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
بظاہر سب سے آسان چیز اٹالین روٹی تھی، جو کہ سب سے مشکل ثابت ہوئی۔ کتاب میں لکھا تھا ’’آٹا گوندھیں اور اس میں یہ یہ ملائیں۔‘‘ مگر یہ تو لکھا ہی نہیں تھا کہ کیسے گوندھیں۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہر چیز کیلئے فقط کتاب کافی نہیں بلکہ استاد کی جوتیاں سیدھی کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ لہٰذا ہمیں پھر اپنی یاداشت ہی کو آواز دینی پڑی۔
’’آٹا اور پانی لے کر اس میں مکے برسانے چاہیے۔‘‘ہم نے ایسا ہی کیامگر آٹا گوندھا ہی نہیں۔
’’اتنا مشکل کام ہے۔ پتا نہیں کیسے حوّاکی بیٹیاں صدیوں سے یہ کام انتہائی مہارت سے کرتی چلی آئی ہیں۔‘‘
ہمارے دل میں امی جان کی اور وقتی طور پر فوزی آپی کی عظمت میں اضافہ ہوگیا۔
ہم نے نان پکانے کیلئے بہت سا آٹا گوندھا آٹا چمچ سے نکال نکال کر فرائی پان میں ڈالا۔ اس کو کچھ دیر بعد پلٹنا تھا۔ مگر فرائی پان کے نان اسٹک ہونے کے باوجود آٹا اس میں بری طرح چپک چکا تھا۔ہم نے فرائی پان ہی پلٹ دیا۔
اس کے بعد چائنیز کا نمبر آیا۔ اس میں عجیب و غریب مصالحہ جات کے نام لکھے تھے۔ ہم نے مصالحوں والا خانہ کھولا تو بے شمار مصالحے رکھے نظر آئے۔
’’ کس قدر نکمی ہیں فوزی آپی۔ ایک بھی مصالحہ پر اس کا نام نہیں لکھا۔ اب ہمیں کیسے پتا چلے کہ چائنیز سالٹ کونسا ہے اور جیپنیز سالٹ کونسا؟‘‘
ہم نے مصالحہ چھانٹی کا کام شروع کیا۔ سرخ مرچ اپنے رنگ کی وجہ سے پہچانی گئی۔ نمک ظاہری بات ہے نمکین تھا۔ گرم مصالحہ اس لیے شناخت نہیں ہو سکا کہ درجہ حرارت ناپنے کا تھرمامیٹر ہمارے پاس نہ تھا۔ کالی مرچ کالی تھی۔ لونگ لمبی تھی وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن یہ کام بہت لمبا ہوتا جا رہا تھا۔ آخر ہم نے ایک اور ترکیب نکالی۔ ہم نے کتاب میں موجود مصالحہ جات کی تعداد گنی اور اپنے پاس موجود شیشیوں کی تعداد دونوں برابر تھی یعنی بائیس!
’’کوئی چیز زیادہ کم ہوجائے تو کیا ہوا۔ ہیں تو ساری کھانے ہی کی چیزیں نا!‘‘ ہم نے اپنے دل کو تسلی دی اور سب ہی کو اپنی ڈش میں شمولیت کا شرف بخشا۔
آخری نمبر قیمہ کا تھا۔ لکھا تھا کہ قیمہ چالیس منٹ تک ابالیں۔ ہم نے پانی میں قیمہ ڈالا اور سکھ کا سانس لیا کہ چالیس منٹ تو آرام کے ملے۔
اس قدر ذہنی اور جسمانی مشقت کر چکنے کی وجہ سے ہم تھک کر چور ہو چکے تھے۔ لہٰذا فوراً ہی آنکھ لگ گئی۔
کیا دیکھتے ہیں کہ میز پر انتہائی لذیذ کھانا لگا ہے اور سب بیٹھے انتہائی شوق سے کھا رہے ہیں۔
’’واہ بھئی ! اتنا مزیدار کھانا کس نے پکایا ہے؟‘‘ ابو نے پوچھا۔
’’ ہمارے حمزہ بیٹے نے بھئی!‘‘ امی فخر سے بولیں اور ہم ان جملوں پر خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔
’’یہ تو مجھے کوئی نئی قسم کی ڈش لگ رہی ہے، آپ نہیں پکاتیں ایسے؟‘‘ ابو نے امی سے پوچھا۔
’’ اب حمزہ سے اس کی ترکیب پوچھوں گی پھر ہی پکاؤں گی۔‘‘
’’ارے امی جان! آپ شرمندہ تو نہ کریں۔‘‘ ہم شرماکر بولے۔
’’فوزیہ کو دیکھو کیسے انگلیاں چاٹ رہی ہے۔‘‘
ہم نے دیکھا فوزی آپی واقعی مزے لے لے کر ہماری پکائی ہوئی ڈش کھا رہی تھیں۔ ہم پر خوشی اور شادمانی کا ایسا نشہ تھا کہ ہمیں ذائقہ تو پتا چل ہی نہیں رہا تھا، ہم تو صرف دوسروں کو دیکھ دیکھ کر ہی سرور محسوس کررہے تھے۔
’’حمزہ! اس ڈش کی ترکیب تو بعد میں بتاؤ گے پہلے یہ تو بتاؤ کہ اس کا نام کیا ہے؟‘‘ فوزی آپی نے پہلی مرتبہ منہ کھولا۔
ہم نے بھی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ پیزا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہمارے دماغ کے اندر چین اور اٹلی کی جنگ چھڑتی، ہمیں فوراً ہی اس بات کا ادراک ہو گیا کہ ہم حقیقی دنیا کے بجائے خوابوں کی دنیا میں ہیں۔ ہمارا سانس حلق میں پھنس کر رہ گیا کہ اگر آنکھ کھل گئی تو کیا ہوگا؟
’’ جب کھلے گی تب بھگتیں گے۔ ابھی تو جی بھر کے خوش ہو لینا چاہیے۔‘‘ ہم نے سوچا اور مطمئن ہو کر خوش ہونے لگے۔
’’ لیکن ہم قیمہ چولہے پر چڑھا کر سوئے ہیں، اگر وہ جل گیا تو کیا ہوگا؟‘‘ ہمیں پھر ایک فکر نے آگھیرا۔
’’کوئی بات نہیں۔ خوابی دنیا میں کئی گھنٹے حقیقت کا ایک لمحہ ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے اس تھیوری کو اپنی آسانی کے مطابق ڈھالا۔
’’ میں بتا دوں ڈش کا نام۔ اسے پیزا کہا جاتا ہے۔‘‘ فوزی آپی کے لہجہ میں طنز کا عنصر تھا۔
’’ کم از کم خواب میں تو چڑانے سے باز آجائیں۔‘‘ ہم نے دل ہی دل میں سوچا۔ ہم زیادہ بولنے سے اس لیے گریز کر رہے تھے کہ خدانخواستہ کہیں آنکھ نہ کھل جائے۔
سوچ بھی آہستہ آہستہ رہے تھے کہ اچانک پیزا سے ایک بھینی سی مہک ہمارے نتھنوں میں گئی اور آ۔۔۔ آ۔۔۔ آچھ ۔۔۔ چھی ی ی !!
ہم نے جلدی سے گردو پیش کا جائزہ لیا کہ کہیں آنکھ نہ کھل گئی ہو لیکن ہم وہیں تھے۔ لیکن یہ کیا؟ ہم نے تو پڑھا تھا کہ انسان کو سوتے میں یا بے ہوشی میں چھینک آہی نہیں سکتی۔ یا تو جاگنے میں آتی ہے یا پھر وہ چھینک سے جاگ جاتا ہے۔ پھر ہم کیوں نہ جاگے۔ ہم نے برسوں کا آزمودہ نسخہ اپنایا اور انگلی چبا کر دیکھی جس سے کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ ہم خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں ہیں۔
’’ارے باپ رے! ہماری ڈش!‘‘ ہمارے منہ سے گھبراہٹ کے مارے نکلا۔
’’یہی تو ہے بیٹا۔‘‘ امی نے تسلی دی۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کتنا مزیدار پیزا بنایا ہے حمزہ صاحب نے!‘‘ آپی نے شرارت سے کہا۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ پیزا بازار سے آیا ہے اور اب صبح کی بات پر ہمارا مضحکہ اڑایا جا رہا ہے۔
ہمارا خون کھول کر رہ گیا۔ فوزی آپی کا ہر طنزیہ جملہ ہمیں زہر میں بجھے ہوئے تیر سے بھی زیادہ برا لگ رہا تھا۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کبھی ان کی باری آئے گی تو ہم ذرا لحاظ نہ کریں گے اور جی بھر کر بدلے نکالیں گے۔ اچانک ہمیں اپنے چڑھائے ہوئے قیمہ کا خیال آیا۔ ہم بھاگے بھاگے باورچی خانہ پہنچے تو دیکھا نہ قیمہ ہے نہ چائنیز ، نہ ہی کہیں اٹالین بریڈ کا نام و نشان ہے۔
’’ کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ پیچھے پیچھے فوزی آپی بھی پہنچ گئیں۔
’’آپ کا سر!‘‘ ہم غصہ سے بولے۔
’’ارے بھائی تمہاری روٹی نما چیز پر میں نے قیمہ بچھایا ، پھر سبزیاں وغیرہ اس کے اوپر سجائیں بہت سا پنیر تھوپا اور اوون میں پندرہ منٹ رکھ دیا، تب ہی تو وہ مزیدار پیزا تیار ہوا جو سب لوگ انتہائی شوق سے کھا رہے ہیں اور میں بھی اور کھانے جا رہی ہوں۔‘‘ فوزی آپی یہ کہہ کر دوبارہ میز کی طرف چل دیں۔
ان کے بارے میں سوچی ہوئی ساری باتیں ہمیں تازیانوں کی طرح پڑ رہی تھیں۔ ساتھ ہی ان کی عظمت کا ایک بار پھر ہمارے دل میں اضافہ ہو چکا تھا اور یہ محض وقتی طور پر نہ تھا۔