اک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحَر نے
اک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحَر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
کہنے لگا مریخ، ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
………………..
ستاروں کی محفل جمی ہے۔ رات کی تاریکی کے آخری حصے میں نمودار ہونے والا ستارہ، جو صبح کا ستارہ ہے، وہ بھی محفل میں موجود ہے۔ وہ دوسرے تمام ستاروں سے سوال کرتا ہے: ’’اے رات کے ستارو! تم نے کبھی اس رات کی تاریکی میں انسان کو بھی جاگتے دیکھا ہے؟‘‘
یہ سوال صبح کے ستارے نے اس لیے پوچھا کہ اس نے رات کے آخری پہر انسان کو ہمیشہ سوتے ہی پایا ہے۔ سوال بڑا عجیب ہے۔ صبح کا ستارہ جواب کا منتظر ہے۔ سکوت ٹوٹتا ہے۔ جوابات کا آغاز ہوتا ہے اور سب سے پہلے مریخ بول پڑتا ہے (کیوں کہ وہ زمین سے قریب ہے)کہ اس آسمانی دنیا کا نظام اللہ نے فرشتوں کو دے رکھا ہے، وہ اس کی حقیقتوں کو جانتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے خیال کیا کہ اس فتنہ پرور انسان کو بیدار نہ کیا جائے۔ مریخ کے جواب پر زہرہ اپنی بات میں انسان کی تذلیل کرتا ہے کہ انسان کی حیثیت کیڑے جیسی ہے جس کو رات میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
دونوں کے جواب پر چاند بھلا کہاں خاموش رہتا؟ کہتا ہے کہ انسان کو میں زیادہ جانتا ہوں کیوں کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ تم انسان کی بات کرتے ہو، وہ زمین کا ستارہ ہے۔ وہ دن میں جدوجہد کا فریضہ انجام دے کر اپنی محنت سے چمکتا ہے۔البتہ وہ شب کی بیداری کو پالے تو جان لو کہ وہ اس آسمان سے بھی بلند ترین مقام کو پا لے گا۔ اس کے نور کے آگے تمام ستاروں اور سیاروں کا نور ماند پڑ جائے گا۔ ابھی یہ باتیں آسمان پر ہو رہی تھیں کہ اذان کی آواز بلند ہوئی۔ گویا انسان کو خدا کی طرف سے بیداری کا پیغام مل گیا تھا۔