احساس
محمد علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آؤ بلال! وقت آ پہنچا ہے کہ ہم اپنے کام کو شروع کریں،آج مکان نمبر 628!!‘‘
’’مگر یہ مکان تو شفیق صاحب کا ہے اور وہ ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں اور اب یہاں صرف۔۔۔۔‘‘ بلال نے بات ادھوری چھوڑ دی جسے منہاج کو معلوم ہواُ سے کیا کہنا ہے۔
’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’مگر بھئی۔۔۔۔‘‘ بلال نے پھر کچھ کہنا چاہا۔
’’اگر مگر کچھ نہیں،چلو!‘‘ منہاج نے اتنا کہا اوربلال کے بازو پکڑ کر چل دیا۔
گھنٹی بجنے پر بابا جی اپنی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے،اپنی کمر کو تھوڑا سا جھکا کر بمشکل سے دروازے تک پہنچے اور دروازہ کھول دیا۔
’’کون ہے؟‘‘ دروازے سے باہر جھانکے بغیر انہوں نے پوچھا
کوئی جواب نہ ملنے پر آگے بڑھے اور گلی میں دور تک دیکھا مگر کوئی نہیں تھا۔ دروازہ بند کرکے واپس پلٹے۔ دروازہ بندہونے پر گلی میں کھڑی گاڑی کے پیچھے چھپے منہاج اور بلال پھر دوڑے دوڑے آئے اور گھنٹی بجا کر پھر چھپ گئے۔ ادھر بابا جی نے ابھی چند قدم کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا کہ واپس پلٹے مگر اس بار بھی کوئی نہ تھا۔اب کی بار انہوں نے دروازہ بند کیا اور وہیں ٹھہر گئے، تھوڑی دیر میں ہی پھرگھنٹی بجی تو بابا جی نے یکدم دروازہ کھول دیا۔ منہاج اور بلال حواس باختہ ہوگئے مگر باباجی انہیں دیکھ کر مسکرا دیئے نہ ہی انہوں نے ڈانٹا اور نہ ہی گھر میں شکایت لگانے کی خطرناک دھمکی دی اور دروازہ بند کر کے اندر چلے گئے۔
ان کی شررات کے انجام میں آج باباجی نے جو رِد عمل ظاہر کیا تھا بلال اور منہاج حیران و پریشان واپس لوٹے۔ اپنی کالونی میں گھنٹی بجا بجا کر دوسروں کو تنگ کرتے اور گھروں میں لگے پھلوں کے درختوں پر سے کچے پھل توڑنے کا مشغلہ انہیں خو ب بھاتا تھا۔ پوری کالونی میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جواِن سے بچا ہو،کئی بار ان کے والدین کے پاس شکایت گئی مگر ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود بھی ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔
بلال پھر بھی کچھ احساس رکھتا تھا مگر منہاج کو کسی کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ دونوں میں جو خاصیت منفرد اور مشترک تھی وہ یہ کہ دنوں محنتی طالب علم تھے۔
منہاج رات کو اپنے بستر پر لیٹا دوپہر کے لمحات کو ذہن میں دھرا رہا تھا اور سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ آخر ہماری وجہ سے تنگ ہونے کے باوجود بابا جی ہنس کر کیوں چل دیئے؟ ورنہ ہمیں تو ہر کوئی سختی سے ڈانٹتا ہے، ہمارے پیچھے مارنے کو دوڑتا ہے۔’’اف! آج تو سردی بھی زیادہ ہے۔‘‘ منہاج نے لحاف کو تھوڑا اور اوپر اوڑھتے ہوئے اپنے آپ سے کہا۔ سردی چاہے کتنی ہی ہو کھڑکی ہمیشہ کھلی رکھنا اس کی عاد ت تھی اس کی والدہ نے اسے کہا کہ کھڑکی کھول کر مت سویا کرو ٹھنڈ لگ جائے گی بیمار ہوجاؤ گے،مگر اس نے سنی ہی کب تھی۔ آدھی سے زیادہ رات گئے مختلف خیالات اس کے ذہن میں گردش کر تے رہے آخر اس نے تما م خیالات کو جھٹک دیا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔
’’کتنی بار کہا ہے کہ کھڑکی کھول کر مت سویا کرو مگر یہ سنتا ہی نہیں۔‘‘ صبح منہاج کو اٹھانے کے لیے اس کی والدہ کمرے میں آئیں تو کھڑکی کو بند کر تے ہوئے اپنے منہ میں بڑ بڑائیں۔’’بیٹا ! اٹھو صبح ہو چکی ہے۔ سکول سے دیر ہوجائے گی۔‘‘منہاج کی والدہ نے آواز لگائی دوسری آواز پر منہاج کی آنکھ کھل گئیں۔ اس کو محسوس ہوا کہ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے اور آنکھیں بھی بوجھل بوجھل ہیں۔
’’لگتا ہے آج نیند پوری نہیں ہوئی۔‘‘ منہاج نے دل ہی دل میں کہا
’’تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا!!؟؟‘‘ والدہ نے اتنا کہا اور جلدی سے سر پر ہاتھ رکھا تاکہ دیکھ سکیں کہ کہیں بخار تو نہیں ہے۔
’’تمھیں تو بخار ہو رہا ہے۔‘‘ کچھ ہی لمحوں میں انہوں نے جان لیا۔’’کتنی مرتبہ کہا ہے کہ سردی لگ جائے گی کھڑکی کھول کر مت سویا کرو آج بہت زیادہ ٹھنڈ کے باعث تمھیں سخت بخار ہورہا ہے۔آج تم اسکول نہیں جاؤ گئے بلکہ گھر پر آرام کرو گے۔‘‘ والدہ نے حکم جاری کر دیا
’’مگر امی میری پڑھائی۔۔۔۔۔‘‘ منہاج نے کچھ کہنا چاہا
’’میں نے کہا نا! بس!! آج تم مکمل آرام کرو میں دوا لا کر دیتی ہوں تم کھا کر لیٹ جاؤ۔‘‘ اتنا کہہ کر منہاج کی والدہ کمرے سے نکل گئیں۔
ہلکا پھلکا ناشتہ کرنے کے بعد اس نے دوا کھائی اور آرام کی غرض سے لیٹ گیا نیند اس سے کوسوں دور تھی اس کے ذہن پر کوئی عجیب بھاری بوجھ تھا جسے وہ ہٹانا چاہتا تھا مگر اس کا دماغ مسلسل اسی بات پر غور و فکر کررہا تھا۔ایک آدھ گھنٹے کے بعد اس کی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں اور پوچھا’’اب کیسی طبعیت ہے؟‘‘
’’بہتر محسوس کر رہا ہوں۔‘‘ منہاج نے مختصر سا جواب دیا
’’شکرہے۔۔۔۔۔۔ بیٹا! مجھے بازار سبزی لینے جانا ہے تم کو بتانے آئی ہوں کہ ذرا گھر کا خیال رکھنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے امی! آپ نے بے فکر ہو جائیں۔‘‘
خدا حافظ کہہ کر منہاج کی والدہ چلی گئیں اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے مین گیٹ کے زور سے بند ہونے کی آواز آئی
تھوڑی دیر بعد ہی گھنٹی بجی۔منہاج کو گرم لحاف سے نکلنا بہت مشکل نظر آرہا تھا مگر گھنٹی دو تین مرتبہ بج چکی تھی آخر اس نے لحاف کو ایک جانب کیا اور مین گیٹ کی جانب بڑھنے لگا۔
’’کون ہے؟‘‘ منہاج دور سے ہی پوچھنے لگا مگر کوئی جواب نہ پاکر وہ دروازے تک پہنچا اور اسے کھول دیا۔باہر ڈاکیا کھڑا تھا۔
’’یہ آپ کے نام منی آرڈر آیا ہے یہاں دستخط کر دیجئے۔‘‘ ڈاکیے نے ایک کاغذ آگے بڑھا کر قلم تھماتے ہوئے کہا
منہاج نے دستخط کیے اور لفافہ پکڑ کر اند ر آگیا اس کے والد باہر رہتے تھے لہذا ان کو ہر ماہ اسی طرح رقم آیا کرتی تھی۔اپنے کمرے میں آکر جب اس نے لحاف اوڑھا تو اسے بڑی طمانیت کا احساس ہوا۔ ابھی وہ لیٹا ہی تھا کہ دوبارہ گھنٹی بجی۔
’’اف خدایا! یہ سب کو آج ہی آنا ہے کیا؟‘‘ منہاج نے تنگ ہو کر بولا
ایک دفعہ پھر وہ اٹھا اور دروازے پر پہنچا تو اس کی نظر دروازے کے نیچے فرش پر پڑی بجلی کے بل پر پڑی’’ اچھا تو بجلی کا بل آیا ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے بجلی کا بل اٹھایا اور اندر آکر وہ بل میز پر رکھ دیا۔
اب کی بار جب وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو کمرے میں پہنچنے سے پہلے ہی اسے پھر گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ منہاج کو غصہ آنے لگا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ گھنٹی کو ہی توڑ ڈالے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری مگر کیا کر سکتا تھا الٹے پاؤں تیزی سے گیٹ پر پہنچا اور دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے اس کی والدہ کھڑی ہیں۔
’’شکر ہے آپ آگئیں۔‘‘ منہاج نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا
’’کیا ہوا بیٹا؟کوئی مسئلہ ہوگیا ہے؟‘‘ والدہ نے پریشانی کے عالم میں پوچھا
’’نہیں امی! کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اتنا کہہ کر منہاج تیزی سے اپنے کمرے میں گیا اور لحاف اوڑھ کر لیٹ گیا۔میں دوسروں کو تنگ کرتا ہوں آج میری طبعیت خرا ب ہے تو مجھے اس طرح باربار اُٹھتے سے کتنی تکلیف ہوئی اور ان باباجی کو جو اتنے بوڑھے ہیں کہ مشکل سے ان سے چلا جاتا ہے ہم نے خواہ مخواہ تنگ کیا یہ میں نے بہت برُا کیا بلال نے مجھے کہا بھی مگر۔۔۔۔ منہاج کا ضمیر اس کو ملامت کرنے لگا اور اسے رہ رہ کر خیال آرہا تھا کہ اس نے کس قدر برُا کیا۔آخر کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے فون کا ریسیور اُٹھایا اوراپنے دوست بلال کے گھر ٹیلی فون کیا اور اس کے گھر والوں سے کہا جب وہ سکول سے آئے تو میری طرف بھیج دیجئے گا پھر وہ بلال کا انتظار کرنے لگا۔
دوپہر کے وقت دروازے کی گھنٹی بجی اسے بلال کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو غالباً اس کی والدہ سے اسی کے متعلق پوچھ رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور بلال کمرے میں داخل ہوا۔
’’ کیا حال ہے بھئی؟ سنا ہے جناب کی طبعیت خراب ہے۔‘‘
’’ہاں بھئی بس! مگر اب میں ٹھیک ہوں۔‘‘منہاج نے اپنے بارے میں کچھ بتاتے ہوئے بات کو جاری رکھا’’دراصل میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کچھ خاص بات ہے کیا؟‘‘ بلال نے تشویش سے پوچھا
’’دراصل بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔‘‘ منہاج نے اپنے ضمیر کی آواز اپنے دوست تک پہنچادی۔
’’واقعی بھئی کل گھر لوٹنے پر مجھے بھی اپنی حرکت پر ندامت محسوس ہوئی ورنہ ہم نے کتنے لوگوں کو تنگ کیا لیکن پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا۔‘‘ بلال نے اپنے دل کا راز بھی کھول دیا۔
’’بھئی تیرے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوا جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے تو خوش نصیب ہے۔‘‘
’’کیا ہوا؟ تیرے ساتھ!‘‘ بلال نے ایک دم پوچھا
’’میری طبیعت خراب تھی امی کے باراز جانے کے بعد میں گھر میں اکیلا تھا۔ مجھے بیمار ہونے کے باوجود باربار دروازے پر آنا پڑتا۔ گھنٹی کی آواز مجھے یوں محسوس ہونے لگی جیسے ہتھوڑا ذہن پر بجتاہو۔دوسروں کی تکلیفوں کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب اس تکلیف کو انسان خود جھیلتا ہے۔‘‘
’’واقعی تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘بلال نے تائید کی
’’بلال میرا دل کرتا ہے کہ ہم ان باباجی کے پاس جاکر ان سے معافی مانگیں۔‘‘
’’ہاں بھئی ! دل تو میرا بھی کرتا ہے۔‘‘ بلال نے اپنی خواہش بھی ظاہر کردی
’’پھر کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’کل سکول سے آنے کے بعد دونوں چلیں گے‘‘ اور پھر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد بلال نے اجازت چاہی اور اپنے گھر کو ہو لیا۔
اگلے دن سکول سے واپسی پر دونوں مقررہ جگہ پہنچ گئے۔ منہاج نے آگے بڑھ کر گھنٹی بجا دی۔تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور باباجی دروازے پر نظر آنے لگے۔
’’وہ۔۔۔۔۔۔در۔۔۔۔۔۔صل ہم۔۔۔۔‘‘ منہاج رک رک کر کہنے لگا۔
’’اندر آجاؤ بیٹا! اند ر چل کر بات کرتے ہیں باہر کھڑے ہو باتیں کرنااچھا نہیں لگتا۔‘‘ باباجی نے اتنا کہا اور اندر چل دیئے۔
منہاج اور بلال ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے گھورنے لگے پھر دونوں دل کو حوصلہ دے کر باباجی کے پیچھے چل دیئے۔لان میں رکھی کرسیوں پر دونوں نے باباجی کے ساتھ نشست باندھی۔
’’ہاں بھئی! کیا بات ہے؟ آج تم گھنٹی بجا کر چھپے نہیں۔‘‘ باباجی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دریافت کیا۔
’’دراصل ہم آپ سے اپنی غلطی کی معافی مانگنے آئے تھے ہماری وجہ سے آپ کو تکلیف پہنچی۔ ہم اپنی غلطی پر نادم ہیں ،آپ ہمیں معاف کر دیں۔‘‘ منہاج نے اپنی بات ایک ہی سانس میں کہہ ڈالی۔ان الفاظ کو سن کر ناجانے بابا جی کن سوچوں میں کھو گئے۔ وہ بیٹھے بیٹھے ساکن ہوگئے ان جانے میں مسکرائے اور پھر اچانک اپنے ذہن کو حاضر کرکے دونوں سے مخاطب ہوئے۔
’’نہیں بیٹا کچھ نہیں ہوا،میں تم سے بالکل ناراض نہیں ہوں۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ہمیں معاف کردیا۔‘‘
’’ہاں اگر واقعی تم اپنی غلطی پر شرمندہ ہو اور عہد کرتے ہوکہ آئندہ دوسرے کو تنگ نہیں کرو گے تو پھر میں تم کو معاف کرتاہوں۔‘‘
’’آپ سے ایک بات پوچھنی تھی۔‘‘بلال نے پہلی مرتبہ بولا
’’ہاں ہاں۔۔۔۔کیوں نہیں پوچھو بیٹا کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’دراصل میں حیران ہوں کہ جب ہم گھنٹی بجاتے ہوئے پکڑے گئے تھے تو آپ ہمیں دیکھ کر مسکرا دیئے اور چلے گئے۔آپ کو تو ہماری اس حرکت پر غصہ آنا چاہیے تھا مگر۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’دراصل بات یہ ہے کہ تم کو یوں شرارتیں کرتے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ۔ میں بھی لوگوں کو اسی طرح تنگ کرتا تھا کئی بار مجھے میرے والدین نے منع کیا۔ میری پٹائی بھی کی۔ وہ کہتے تھے کہ جو دوسروں کو تنگ کرتا ہے پھر ایک دن اسے بھی سزا ضرور ملتی ہے۔اورایک دن مجھے بھی تنگ ہونا پڑا، جس طرح میں نے اپنے والدین سے وعدہ اور اپنی برُی عادت کے خلاف عہد کیا تھا بالکل اسی طرح آج کے روز تم لوگ وعدہ کرو کے آئندہ کبھی دوسروں کو اپنی شرارتوں سے تنگ نہیں کروگے بلکہ تم اگر کسی کو دیکھو گے تو منع کرو گے کیونکہ اچھے بچے صرف نیک بننے کا عزم نہیں رکھتے بلکہ ان کا عزم نیک بننا اور نیکی پھیلانا ہوتا ہے۔تم یوں کرو کہ اپنے والدین کی ہر بات توجہ سے سنو گے اور اس پر عمل کرو گے۔ٹھیک ہے نا!‘‘ باباجی نے اپنے سر کو اوپر نیچے حرکت دیتے ہوئے کہا
’’ہم عہد کرتے ہیں کہ دوسروں کو کبھی تنگ نہیں کریں گے اور اپنے والدین کی ہر بات مانیں گے۔‘‘دونوں نے یک زبان ہوکر بولے
تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد منہاج اور بلال نے بابا جی سے اجازت چاہی اور اپنے گھر کی جانب بڑھے۔ان کو یوں محسوس ہورہاتھا جیسے ان کے سر کا بوجھ اتر گیا ہو۔ان کے عہد نے انہیں عجیب و غریب سکون کا گہرا احسا س دلایا جنہیں وہ دونوں اپنے اندر محسوس کررہے تھے۔