skip to Main Content

احساس

اُمِّ نُسَیْبہ
۔۔۔۔۔

”کیا حال ہیں بونے میاں؟“عمیر نے سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”الحمدللہ ٹھیک ہوں۔“سلمان کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے۔ اس نے آہستگی سے جواب دیا اور آگے بڑھ گیا۔
”ارے ارے۔۔ کہاں بھاگ رہے ہو بونے۔“عمیر نے بلند آواز کے ساتھ ہنستے ہوئے کہا۔ اس کا قہقہہ سن کر اردگرد موجود بچے بھی ہنسنے لگے۔
سلمان بے حد شرمندگی محسوس کر رہا تھا مگر اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی اور پیچھے دیکھے بنا چلتا گیا۔
عمیر چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ اسکول میں ہونہار طلبہ میں شمار کیا جاتا تھا مگر اس کی ایک برائی ساری اچھائیوں پر حاوی ہوگئی تھی۔وہ یہ کہ اسے جب موقع ملتا کسی کا بھی مذاق اڑا نے لگتا اور الٹے سیدھے ناموں سے پکارتا۔ عمیر کی والدہ کو بھی اس میں موجود اس خامی کی خبر تھی اسی لیے وہ اسے اکثر ایسا کرنے سے روکتیں، مگر وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا۔
آج بھی گھر میں اس نے محلے میں رہنے والے عاصم کا ذکر کیا تو اس کا نام لینے کے بجائے اسے ”کلّو“ کہنے لگا۔
”بھائی کتنی بری بات ہے کسی کو ایسا کہنا۔ آپ کو امی نے منع بھی کیا تھا۔“عمیر کی چھوٹی بہن نمرہ بولی۔
”میں نے کون سا جھوٹ بولا ہے۔ وہ ہے ہی اتنا کالا۔ بالکل افریقیوں کی طرح۔ ہاہاہاہا۔۔”عمیر نے باآواز بلند قہقہہ لگایا تو نمرہ کا منہ بن گیا۔
”میری اسلامیات کی ٹیچر بتارہی تھیں کہ کسی کو بھی برے نام سے پکارنا کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت ناراض ہوتے ہیں اس بات سے۔“نمرہ بولی۔
”او بہن! یہ لیکچر اپنے پاس رکھو۔ پکوڑے جیسی ناک والی۔ ہاہاہاہا۔۔“عمیر نے اٹھتے ہوئے کہا اور جاتے ہوئے زور سے نمرہ کی ناک دبائی۔
”افففف۔۔۔“نمرہ نے اپنی لال ہوتی ناک کو سہلایا اور غصے سے عمیر کو جاتا ہوا دیکھنے لگی۔
ہر کوئی عمیر کی اس عادت سے نالاں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا کوئی دوست نہ تھا۔ اسکول میں بھی ہر ایک اس سے کتراتا اور محلے پڑوس میں رہنے والے بچے بھی اس سے دور دور ہی رہتے، مگر اسے کسی کی پروا نہ تھی۔
ایک دن وہ اسکول سے گھر آیا تو امی کو بہت غصے میں پایا۔
”کپڑے تبدیل کرلو پھر فوراً میرے پاس آؤ۔“امی نے اسے سخت لہجے میں کہا۔
”تمہارے اسکول سے کال آئی تھی۔ تمہارے ہم جماعت یاسر کے گھر سے تمہاری شکایت آئی تھی کہ تم اسے تنگ کرتے ہو۔“امی نے اسے گھورا۔
”وہ تو میں اسے۔۔۔“عمیر نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
”مجھے کل اسکول بلایا گیا ہے۔ تمھیں اچھا لگے گا کہ تمہاری وجہ سے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ آخر کب سدھرو گے تم۔“امی کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
”میں نے مذاق کیا تھا۔“عمیر منمنایا۔
”تمہاری میڈم بتا رہی تھیں کہ یاسر بیمار بچہ ہے۔ وہ پہلے ہی بڑی مشکل سے پڑھائی کا بوجھ اٹھا پاتا ہے، اور تم ہو کہ اسے طرح طرح کے ناموں سے پکارتے ہو۔ کب عقل آئے گی تمہیں۔“امی نے غصے سے کہا مگر عمیر ڈھٹائی سے دانت نکالے کھڑا رہا۔
”بیٹا۔۔!!!کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تمھیں معلوم نہیں جس میں انہوں نے فرمایا:”انسان کو ایسا لقب نہ دیا جائے جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔“ (سنن ابی داود/ الادب 71 (4962) (تحفۃ الاشراف: 11882) (صحیح)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے ہمیں اچھے القاب دینے کی مثالیں ملتی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کو فاروق، حضرت ابوبکر کو صدیق، حضرت عثمان کو ذوالنورین، حضرت خزیمہ کو ذوالشہادتین، کسی کو ذوشمالین اور کسی کو ذوالیدین وغیرہ کا لقب دیا۔“امی نے نرمی سے کہا مگر عمیر کی توجہ نہ پاکر ناراضی سے کمرے سے نکل گئیں۔
”یاسر سوکھے تنکے دیکھ لوں گا تمہیں۔“عمیر کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ وہ تو یاسر کی شکایت پر سیخ پا ہونے لگا۔
گھر میں کوئی بھی اس سے بات نہیں کر رہا تھا۔ اسے لگا یہ سب یاسر کی وجہ سے ہوا ہے۔اگلے دن وہ اسکول پہنچا تو اسکول کے میدان میں ہی یاسر کو کھڑا دیکھا۔ عمیر کے تو تن بدن میں آگ لگ گئی۔
”او ماچس کی تیلی۔۔۔ سوکھے تنکے تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم نے میری شکایت۔۔۔“
عمیر کا جملہ ادھورا رہ گیا کیونکہ اس کا پاؤں رات ہونے والی بارش کے پانی سے زور کا پھسلا اور وہ زور سے گرا۔ اس کا سر فرش سے ٹکرایا جس کی وجہ سے اس کا سر پھٹ گیا اور بھل بھل کرتا خون اس کے چہرے پر بہنے لگا۔ فوری طور پر ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد اس کے گھر فون کیا گیا۔ خون کے نہ رکنے کے باعث اس کے ابو اسے اسپتال لے گئے جہاں اس کے سر میں کافی ٹانکے آئے۔ خون کافی بہہ جانے کی وجہ سے اسے نقاہت ہو رہی تھی۔
ایک ہفتے بعد وہ اسکول جانے کے قابل ہوا۔ اسکول کے دروازے سے جیسے ہی اندر داخل ہوا کسی کے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لڑکے اسے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ تھوڑا اور آگے گیا تو کسی نے کہا:
”او گنجے۔۔۔ بال کہاں گئے تمہارے۔“
لڑکوں کی زور زور سے ہنسنے کی آوازیں سن کر وہ جلدی سے کلاس میں چلا گیا۔ سر کے ٹانکوں کی وجہ سے اس کے بال اتار دئیے گئے تھے۔ اصل میں تو اسے آج اندازہ ہوا تھا کہ اس انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے جس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس نے سر جھکایا تو ندامت کے دو آنسو اس کے گالوں پر بہہ گئے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top