skip to Main Content

دنیا کی حقیقت

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ہے، جیسے تم میں سے کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈالے اور اس کے بعد دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کرلوٹتی ہے۔“ (صحیح مسلم)
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر حدیث میں بہت خوب صورت مثال کے ذریعے سے بہت بڑی بات سمجھا دی ہے۔ ہم اکثر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ ہمیں آخرت کی فکر کرنی چاہیے، اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے، دنیا میں ہمیں ہمیشہ نہیں رہنا، لیکن ہم میں سے کم ہی لوگ ان باتوں پر غور کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک شخص چند ماہ کے لیے کسی جگہ مکان لیتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ چند ماہ بعد اسے اس مکان کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جانا ہے، تو وہ اس مکان کی دیکھ بھال اور مرمت پر زیادہ توجہ نہیں دیتا، البتہ اگر اس کا ارادہ ہو کہ وہ اس مکان میں لمبے عرصے تک رہے گا تو پھر وہ مکان کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی دیکھ بھال، ٹوٹ پھوٹ اور رنگ و روغن پر توجہ دیتا ہے۔
اب او پر بیان کی گئی حدیث نبوی پر غور کیجیے۔ آپ نے سمندر دیکھا ہوگا، اگر نہ دیکھا ہو، تب بھی آپ سمندر کے متعلق اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ یہ کتنا بڑا ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف بہت لمبا چوڑا ہوتا ہے بلکہ بہت گہرا بھی ہوتا ہے۔ سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس کے ایک کنارے پر کھڑے ہوئے شخص کو دوسرا کنارہ نظرنہیں آتا۔

٭……٭……٭

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کی زندگی کی مثال سمندر سے دی ہے اور فرمایا کہ دنیا کی زندگی، آخرت کی زندگی کے مقابلے میں ایسی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈالے اور پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے۔ آپ کبھی ساحل سمندر پر جائیں تو یہ تجربہ کریں۔ سمندر کے پانی میں اپنی ایک انگلی ڈبو کر نکال لیں۔ اب اس انگلی کو غور سے دیکھیں، اس پر کتنا پانی لگا ہوا رہ گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ بہت ہی تھوڑا۔ مشکل سے ایک بوند ہو گی یا دو بوندیں ہوں گی۔
اب ان دو بوندوں کے مقابلے میں سمندر کا تصور کیجیے۔ دونوں کا کیا مقابلہ؟ ایسی کروڑوں اربوں بوندیں مل کر بھی سمندر کے برابر نہیں ہوسکیں گی۔ اب یہ سوچیے کہ ایک یا دو بوندوں کے برابر دنیا کو عیش و آرام سے گزارنے کے لیے، مال و دولت کمانے کے لیے اور دنیا کی نعمتوں کا لطف اٹھانے کے لیے تو ہم دن رات محنت کرتے ہیں، بھاگ دوڑ کرتے ہیں، طرح طرح کے جتن کرتے ہیں، لیکن کروڑوں اربوں سے بھی بہت زیادہ بوندوں کے برابر آخرت کی زندگی کو آرام دہ اور پرسکون بنانے کے لیے، ہم کوئی محنت کرنے، کوئی بھاگ دوڑ کرنے اور کوئی جتن کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا میں ہمیں ہمیشہ کے لیے نہیں رہنا ہے، دنیا کے لیے ہمیں محنت اتنی ہی کرنی چاہیے، آخرت میں ہمیں جتنے عرصے کے لیے رہنا ہو گا، آخرت کے لیے محنت اسی حساب سے ہونی چاہیے، لیکن دنیا کی نعمتیں چونکہ ہماری نظروں کے سامنے ہیں، ان میں بڑی کشش ہے اس لیے ہم دنیا بنانے، اچھی ملازمت حاصل کرنے، عمدہ مکان تعمیر کرنے، شاندار لباس سلوانے، لذیذ کھانے پر اپنی ساری توجہ لگا دیتے ہیں اور آخرت میں جنت کی نعمتیں چونکہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں، اس لیے جنت کو حاصل کرنے اور دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لیے ہم کوئی خاص کوشش نہیں کرتے، جبکہ ہماری ساری کوششیں آخرت کو سنوارنے کی خاطر ہونی چاہییں۔
آخرت کو سنوارنے کے لیے دنیا چھوڑ دینے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم دنیا میں زندگی اس احساس کے ساتھ بسر کریں کہ ہمیں اپنے ہر لمحے کا حساب اپنے رب کے حضور دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی فکر عطا فرمائے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے نوازے۔ آمین۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top