دُنیا کی پہلی تِیتری
غلام عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی اُس زمانے کی ہے جب یہ دنیا صرف پھولوں سے بھری پڑی تھی۔آدم زاد کا نشان تک نہ تھا۔چرند تھے نہ پرند۔ہاں ہر طرف باغ ہی باغ نظر آتے تھے۔اِن باغوں میں بسنے والی خوب صورت پریاں رنگ برنگ کے پھولوں کے گھر بنا کر رہا کرتی تھیں۔
ایک باغ میں ایک بہت نازک پھول اُگا ہوا تھا۔لاجوردی ،سُرخ ،سیاہ،زرد اِتنے رنگ اُس میں تھے ۔وہ نہایت ہی حسین پھول تھا،مگر پھر بھی وہ خوش نہ تھا۔
صبح کے وقت جب باغ میں بِھینی بَھینی ہوا چلتی۔سُورج کی سنہری دُھوپ میں آس پاس کے پھول خوش ہو ہو کر ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کی باتیں کرتے،لیکن یہ خوب صورت اور نازک پھول چُپ چاپ اپنا سر جُھکائے کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہتا۔جیسے وہ کسی بہت بڑے رنج میں ہو۔اُس کے ساتھی پھول اُس کو بہت سمجھاتے،اُس کا دُکھ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ،لیکن وہ خاموش ہی رہتا۔
پھر ایک دن ایک خوب صورت پری کا اُس باغ میں گُزر ہوا ۔اُس نے دیکھا کہ باغ میں ہر طرف پھولوں کی بہار ہے۔رنگ برنگ پھول خوشی سے جُھوم رہے تھے۔لیکن ایک بہت ہی خوب صورت پھول سر جُھکائے اُداس اُداس ہے۔کسی سے بات ہی نہیں کرتا۔وہ خوب صورت پری اس کے پاس آئی اور مُسکرا کر کہنے لگی:
’’تم کیوں اُداس ہو؟‘‘
پھول نے بڑی حسرت سے پری کی طرف دیکھااور کوئی جواب نہ دیا،بلکہ سر کو اور بھی جُھکا لیا۔
پری نے پھر کہا:
’’پیارے پھول!مجھے بتاؤ،تمھیں کیا دُکھ ہے۔تم کیوں اتنے اُداس ہو۔اگر میرے بس کی بات ہوئی تو میں تمہاری مدد ضرور کروں گی۔
پھول نے ایک سرد آہ بھر کر کہا:
’’ہاں مجھے دُکھ ہے،بہت بڑا دُکھ ہے،جس کی وجہ سے میں اُداس رہتا ہوں مگر میری مدد بھی کوئی نہیں کر سکتا۔‘‘
پری نے جواب دیا:’’جب تک کہ تم یہ نہیں بتاؤ گے کہ تمھیں کیا دُکھ ہے،کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔کہو کہو ،اگر مجھ سے نہ ہو سکا ،تو ہماری ملکہ ضرور تمھاری تمنا پوری کردے گی۔دُنیا میں کوئی بھی بات اُس کی طاقت سے باہر نہیں۔‘‘
پھول نے کہا:’’میں سارا دن سُورج کی طرف تکتا رہتا ہوں۔اور جب رات ہوتی ہے تو میں دوسرے پھولوں کی طرح سو نہیں سکتا۔ہاں میں نیلے آسمان ،چاندی کے ایسے چاند اور جھلملاتے ہوئے ستاروں کو دیکھتا رہتا ہوں۔‘‘
پری نے جواب دیا:
’’افسوس یہ بات تو ہماری ملکہ کے اختیار میں بھی نہیں ہے۔‘‘
پھول نے کہا:’’ہاں،میں جانتا ہوں ۔یہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔لیکن میں یہاں کھڑا کھڑا تھک گیا ہوں۔اگر میں ہوا میں اُڑنے لگ جاؤں تو چاند تاروں اور سورج کے قریب پہنچ جاؤں جنھیں میں بڑی حسرت سے تکتارہتا ہوں۔ اور پھر شاید میرے دل میں کوئی رنج نہ رہے۔‘‘
پری نے ملکہ سے کہنے کا وعدہ کیااور وہا ں سے روانہ ہوگئی۔ دوسرے دن ملکہ خود وہاں آگئی اورغمگین پھول کی طرف دیکھ کر مُسکرانے لگی،بولی:
’’کیا تمھارے دل میں اُڑنے کی تمنا ہے؟اگر اس سے تمھارا دل خوش ہو جائے تو تم ابھی اُڑنے لگ جاؤ گے۔‘‘یہ کہتے ہی پریوں کی ملکہ نے پھول کو جُھک کر بوسہ دیااور پھول آن کی آن میں شاخ سے جُد اہوگیا اور اپنی ننھی ننھی نازک پنکھڑیوں کو ہلا ہلا کر ہوا میں اِدھر اُدھر اُڑنے لگا۔
پیارے بچّو!یہ دُنیاکی سب سے پہلی تِیتری تھی۔