ڈبل خوشی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”رئیس بیٹا، تین انڈے لا دو۔“رئیس کی امی نے کپڑے سیتے ہوئے آواز دی۔
”ا چھا امی، ابھی لاتا ہوں، صرف دو سوال رہ گئے ہیں۔“رئیس نے اسکول کا کام کرتے ہوئے جواب دیا۔ اسکول کا کام مکمل کر کے اس نے کاپی کتاب کو اسکول بیگ میں بڑی مشکل سے ٹھونسا اور امی سے پیسے لے کرگھر سے نکل آیا۔
رئیس ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور پڑھائی میں وہ بہت تیز تھا۔ ہر سال امتحان میں اول یا دوم آتا تھا۔ اساتذہ بھی اس کی ہمیشہ تعریف کرتے تھے لیکن وہ جب بھی صبح کے وقت وہ وزنی بیگ اٹھاتایا اسکول کی چھٹی کی گھنٹی بجنے پر، اپنے صحت مند بیگ پر نظر ڈالتا تو اس کے حلق میں جیسے کڑو اہٹ گھل جاتی۔اسے یقین تھا کہ اس کے بیگ کا وزن دس کلو گرام سے زیادہ ہی ہوگا۔ ایک بار وہ گھر کے لیے دس کلو گرام آٹے کی تھیلی دکان سے اٹھا کر لایا تھا تو وہ اسے اس کے بیگ کے مقابلے میں ہلکی محسوس ہوئی تھی۔
ان ہی سوچوں میں گم وہ بیکری تک پہنچ گیا۔ کراؤن بیکری کے بڑے سے دروازے کے اندر داخل ہوتے ہوئے وہ ٹھٹک گیا۔ دروازے کے قریب ہی ایک بڑا سا رنگین پوسٹر چسپاں تھا۔پوسٹرمیں ایک خوب صورت سے بچے کی تصویر تھی جو ایک چمکتی دمکتی نئی بائیسکل پر سوار تھا۔اس کے چہرے پر خوشی نظر آرہی تھی۔ تصویر کے نیچے موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا،”شان بریڈ کھائیے ……سی ایم ایکس سائیکل چلائیے، جی ہاں!ہر شان بریڈ کے اندر انعامی کو پن موجود ہے۔ اسی وقت اسکر یچ کیجئے، انعام نکلنے کی صورت میں کوپن دکان دار کو دیجئے، وہ آپ کو ایک رسید دے گا۔ یہ رسید سی ایم ایکس سائیکل کے کسی بھی ڈیلر کو دے کرنئی سی ایم ایکس سائیکل فوراً حاصل کیجئے۔ نوٹ: یہ پیشکش محدود مدت کے لیے ہے۔“
رئیس اس پوسٹر کو پڑھ کر گم صم ہو گیا۔ اس نے اشتہار کی عبارت کو اوپر سے نیچے تک کئی بار پڑ ھا۔ لیکن چونکہ وہ بیکری کے دروازے پر کھڑا تھا، اس لیے آنے جانے والے اسے دھکا دیتے ہوئے گزررہے تھے۔ وہ سائیکل کے تصور میں اتنا محو تھا کہ اسے دھکے لگنے کی خبر تک نہ ہوئی۔ آخر ایک بڑی بی نے اس کے کان میں گویا چیخ کر کہا،”اے لڑکے! پرے ہٹ کر کھڑے ہو……تُو تورستہ ہی گھیر کر کھڑا ہو گیا ہے۔“ تب وہ اپنے خیالات کی دنیاسے باہر آیا، اس نے شرمندہ سا ہو کر ادھر ادھر دیکھا، انڈے خریدے اور گھر چلا آیا۔ راستے بھر وہ شان بریڈ کی سائیکل حاصل کرنے کے متعلق سوچتار ہا،رہ رہ کر اسے یہی خیال آتا کہ امی تو کبھی ڈبل روٹی خریدنے کی اجازت نہ دیں گی، اس کے گھر میں تورات کی بچی ہوئی روٹی اور چائے سے صبح کا ناشتہ کر لیا جاتا تھا۔ ڈبل روٹی کھائے ہوئے تو اسے عرصہ ہو گیا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب راولپنڈی سے اس کے ماموں دو دن کے لیے اس کے ہاں رہنے آئے تھے تو امی نے دونوں دن صبح ناشتے میں، ماموں کے لیے ڈبل روٹی منگوائی تھی۔ ماموں کے ناشتہ کرنے کے بعد بچے ہوئے سلائس، رئیس اور اس کی چھوٹی بہن کے حصے میں آئے تھے۔
گھر پہنچ کر اس نے انڈے، امی کے حوالے کیے اور جھجکتا ہوا بولا۔”امی! آپ ناشتے کے لیے ڈبل روٹی کیوں نہیں منگوا تیں؟“
”کیوں بیٹا! ہمارے ہاتھ سلامت نہیں کیا؟“ امی نے کپڑے کی سلائی سیدھی رکھنے کے لیے اسے ایک ہاتھ سے سنبھالتے ہوئے کہا۔ ”اللہ کا کرم ہے، اپنے ہاتھ سے محنت کرتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے روٹی پکاتے ہیں۔“
”لیکن…… باسی روٹی!!“ اچانک رئیس کے منہ سے نکلا۔ دوسرے ہی لمحے اسے بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ امی اسے دیکھتی رہ گئیں تھیں۔ ان کی آنکھوں میں ایساد کھ تھا کہ رئیس دل میں کٹ کر رہ گیا لیکن اس نے ہار نہ مانی اور بولا۔”امی!سب لوگ روٹی بھی کھاتے ہیں اور ڈبل روٹی بھی کھاتے ہیں، ہم لوگ کیوں نہیں کھاتے؟“
”ہم لوگ غریب جو ہیں بیٹا۔“امی کہنے لگی تھیں مگر بیٹے کا اداس چہرہ دیکھ کربولیں۔”اچھا اس اتوار کو تمہارے ابو ڈبل روٹی لے آئیں گے۔“
”ابو کیوں لائیں گے؟ میں خود لاؤں گا۔“رئیس کو خوف محسوس ہواکہ ابو کہیں کسی دوسری کمپنی کی ڈبل روٹی نہ خرید لائیں۔
”اچھا!……چھا!! تم ہی لے آنا۔“ امی دوبارہ سلائی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
اب رئیس کو اتوار کا انتظار تھا۔ اس کے لیے ایک ایک پل کاٹنا مشکل ہو گیا۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ جمعہ کے دن اسکول میں کم پیریڈ ہوتے تھے۔ اس لیے اس دن اس کا بیگ ذرا ہلکا تھا۔ وہ بیگ خوشی خوشی اٹھا کرلے گیا۔ ہفتے کے دن اسکول کی چھٹی ہوتی تھی۔ رئیس سارا دن اپنے دوستوں کی خوشامد یں کر کے ان کی سائیکلیں لے کر چلا تارہا۔ اس کا خیال تھا کہ نئی سائیکل آنے سے پہلے اچھی طرح سائیکل چلانے کی پریکٹس ضروری ہے۔ اتوار کے دن رئیس دیر تک سوتا رہتا تھا، لیکن اس اتوار کو اس کی آنکھ صبح سویرے ہی کھل گئی۔ پڑوسیوں کا مرغااذان دے رہا تھا، ذراد یر بعد مسجد سے موذن کی صدا بھی بلند ہوئی، اللہ اکبر…… اللہ اکبر…… رئیس نے اٹھ کر وضو کیا، نماز پڑھی اور اللہ میاں سے گڑ گڑا کر دعا مانگی۔ ”اللہ میاں! میر اسا ئیکل کا انعام نکل آئے۔“
نماز کے بعد اس نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔ امی اور ابو بھی نماز کے لیے اٹھے لیکن نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ سو گئے تھے۔ رئیس بڑی دیر تک بیٹھا پہلو بدلتا رہا۔ آخر امی کی آنکھ کھلی۔ رئیس کو یوں بیٹھے دیکھ کر سمجھ گئیں کہ انتظار کس چیز کا ہے۔ انہوں نے اٹھ کر رئیس کو پیسے دیے۔ رئیس صاحب تیزرفتاری کے ریکارڈ توڑتے ہوئے بیکری پہنچے۔ کراؤن بیکری میں صرف بیکری کے مالک حاجی رحمت اللہ بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ انہوں نے اسے دیکھ کر کلام مجید رکھا۔ اس نے شان بریڈ طلب کی۔ پیسے ادا کیے اور اسی وقت شان بریڈ کی تھیلی کھول ڈالی۔ اندر سے ایک کو پن بر آمد ہوا۔ رئیس نے بڑی امیدوں سے آسمان کی طرف دیکھا، بسم اللہ پڑھی اور سانس روک کر کو پن کو ایک سکے کی مدد سے کھرچ دیا۔ یہ کیا……؟ اسے یوں لگا جیسے اسے کسی نے کسی اونچی عمارت سے نیچے پھینک دیا ہو۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودا رہو گئے۔ کو پن پر صرف ایک لفظ لکھا ہوا تھا۔”Sorry“ حاجی رحمت اللہ اسے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جتنی تیزی سے دوڑ تا ہو ابیکری تک آیا تھا، اتنی ہی سست رفتاری سے گھر پہنچا۔ ڈبل روٹی بے دلی سے ایک کرسی پر رکھ دی اور اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ اس کی امی سمجھ نہیں سکیں کہ رئیس کو آخر ہوا کیا ہے۔ شام تک رئیس بے چین رہا۔ پھر اسے خیال آیا کہ ہرشان پریڈ میں سائیکل کا کو پن تو ہو نہیں سکتا۔ اگر ایک اور شان بریڈ خرید لی جائے تو شاید اس میں سائیکل کا انعام نکل آئے۔ مگر اب امی روز روز تو ڈبل روٹی منگوا نہیں سکتیں۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اب اگر اس نے ڈبل روٹی کی فرمائش کی تو اچھی طرح ڈانٹ پڑے گی۔ بہت سوچنے کے بعد اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی۔ اب اسے صبح کا انتظار تھا۔ صبح ہوئی تو رئیس جان بوجھ کر اپنے بستر پر لیٹا رہا۔ امی اسے آوازیں دے کر تھک گئیں۔ آخر وہ پوچھنے کے لیے آئیں کہ اسے ہوا کیا ہے؟ رئیس نے جھوٹ موٹ کراہتے ہوئے کہا۔”امی پیٹ میں بڑا شدید درد ہے۔“
”ارے تو سونف کھا لو یا اجوائن دیتی ہوں۔“ امی نے جلدی سے کہا۔
”نہیں، ہائے!اف……بڑا درد ہو رہا ہے۔“ رئیس نے اپنی کامیاب اداکاری پر دل ہی دل میں خود کو شاباش دیتے ہوئے کہا۔
”اچھا تم آج اسکول سے چھٹی کرلو۔“
”نہیں چھٹی تو نہیں کروں گا مگر ہائے ……درد!“
”بیٹا تم ناشتے میں رات کی روٹی مت کھانا۔ میں کھچڑی بنائے دیتی ہوں۔“
”اوں …… ہوں؟ کھچڑی مجھ سے نہیں کھائی جاتی۔“
”اچھا تو پھرڈبل روٹی لے آؤ۔ وہی شام میں بھی کھا لینا۔“
”مگروہ تو مہنگی ہوتی ہے۔“رئیس نے احتیاط کے طور پر ذرا تکلیف سے کہا۔
”میرے بیٹے سے تو مہنگی نہیں!“امی اٹھ کر ساری کے پلو میں بندھا ہوا نوٹ کھولنے لگیں۔
رئیس نے نوٹ لے کر گھر سے باہر قدم رکھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا، اڑ کر بیکری پہنچ جائے۔ آج بھی بیکری میں حاجی رحمت اللہ بیٹھے قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ رئیس نے انہیں پیسے دیے، بقیہ پیسے وصول کر کے شان پریڈ اٹھائی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ پیکٹ چاک کیا۔ اندر سے کو پن نکالا۔ بسم اللہ پڑھ کر سکے کی مدد سے کو پن کو کھر چا۔ اسے یوں لگا جیسے بیکری کی چھت ٹوٹ کر اس پر گر گئی ہو۔ آج بھی وہی پانچ حرفی لفظ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔”Sorry“ رئیس نے کو پن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور انہیں بیکری کے دروازے سے باہر اچھال دیا۔ حاجی رحمت اللہ آج بھی اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔
رئیس کا سارادن منہ بنارہا۔ رات ہوئی تو اس نے سوچا ایک بار اور شان بریڈ خرید کر دیکھنا چاہیے۔ کیا پتا اس بار انعامی کو پن نکل ہی آئے۔ صبح ہوئی تو اس نے پھر پیٹ میں درد کی ”فریاد“ کی۔ امی ذرادیر توسوچتی ر ہیں، پھر دو سرے کمرے میں جا کر نہ جانے کیا کرتی رہیں۔ جب وہ واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں دس روپے کا ایک مڑا تڑا نوٹ تھا۔ رئیس اس مڑے تڑے نوٹ کو لے کر کراؤن بیکری پہنچ گیا۔ ہمیشہ کی طرح اس نے شان بریڈ خریدی اور پیکٹ وہیں کھول کر کوپن نکالا۔اسے پوری امید تھی کہ اس بار تو انعامی کوپن ہی نکلے گالیکن جب اس نے کوپن کی سطح کو کھرچا تو اسے یوں لگا جیسے بیکری میں سامنے رکھی ہوئی ڈبل روٹیاں، بسکٹ وغیرہ گول گھوم رہے ہیں۔ اس کا سر چکرا رہا تھا اور نگاہوں کے سامنے کوپن پر Sorry کا زہریلا لفظ لرز رہا تھا۔رئیس مردہ قدموں سے بیکری سے باہر نکلنے لگا تو حاجی رحمت اللہ نے اسے آواز دے کر بلا لیا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رک کر ان کی بات سننے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ حاجی رحمت اللہ نے اس کا نام اور اسکول کا نام
پوچھا۔ کلاس پوچھی، پھر بولے۔”اچھا بیٹا اب جاؤ۔“ رئیس نے جل کر سوچا۔ اتنی سی بات کے لیے مجھے روکاتھا۔ میں کہیں بھی پڑھوں اس سے ان کو کیا؟
رات ہوئی تو رئیس نے اگلے دن بھی پیٹ کے درد کے امکانات پر غور کیا۔ دو دن سے ”پیٹ کے درد“ کی وجہ سے اسے ڈبل روٹی اور کھچڑی پر گزارہ کر نا پڑ رہا تھا۔ دوبارہ پو دینہ، الائچی، سونف اور زیرے کاعجیب سے ذائقے والا پانی پینا پڑا۔ اسے بعد میں پتا چلا کہ امی الائچی اور زیرہ پڑوسیوں سے مانگ کر لائی تھیں۔
رات خاصی بیت چکی تھی۔ رئیس عشاء کی نماز پڑھ کر سونے کے لیے لیٹ چکا تھا۔ اس نے نماز کے بعد بہت دل لگا کر عاجزی کے ساتھ دعامانگی تھی کہ اس بار سائیکل کا انعامی کو پن ضرور نکل آئے۔رئیس سونے کے لیے لیٹ تو گیا تھالیکن اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ اچانک اسے برابر والے کمرے سے اپنے ابو کی غصیلی آواز آئی۔ وہ شاید رئیس کی امی کو ڈانٹ رہے تھے۔ اس نے کان لگا کر سنا، ابو کہہ رہے تھے۔”کیا حالت بنار کھی ہے تم نے…… نہ ناشتہ ٹھیک طرح کرتی ہو نہ کھانا پورا نصیب ہوتا ہے۔“
”مجھے بھوک نہیں لگتی۔“ امی کی آواز آئی۔
”مجھے معلوم ہے، بھوک کیوں نہیں لگتی۔ آج 25 تاریخ ہو گئی ہے نا۔ اس لیے……“
”جب آپ کو معلوم ہے تو پو چھتے کیوں ہیں۔“ امی نے تھکے تھکے سے لہجے میں کہا۔
”بھئی میں کیا کروں، مجھ سے تمہاری حالت دیکھی نہیں جاتی۔ ایک تو یہ صاحب زادے کا پیٹ کا در دہی ٹھیک نہیں ہو رہا۔ تین دن سے ڈبل روٹی کھا رہا ہے۔ اب ڈبل روٹی بھی کوئی سستی تو نہیں …… اتنے پیسوں میں تو دو دن کی سبزی آجاتی۔“
”اب چھوڑیے اس ذکر کو۔ میں کل قریشی صاحب کے گھر جا کر پوچھوں گی کہ کوئی سلائی وغیرہ کا کام ہو تو دے دیں۔ کم از کم رئیس بیٹے کی ڈبل روٹی اور دوا کا خرچ نکل آئے گا۔ میں تو کہتی ہوں اسے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں۔اس کے پیٹ کا درد تو ٹھیک ہی نہیں ہو رہا۔“
”بھئی تم پچیس تاریخ کو ایسے مشکل مطالبات مت پیش کرو……!“ابو چڑ کر بولے۔
رئیس کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا پورا بدن سرد ہو چکا ہے اور اس کے ہاتھوں پیروں میں جان نہیں رہی۔ اس کے کانوں میں امی کی آواز گونج رہی تھی۔”جب آ پ کو معلوم ہے تو پوچھتے کیوں ہیں!“رئیس کا جی چاہ رہا تھاکہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ شرمندگی کے گہرے احساس نے اسے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ یہ اس نے کیا کردیا۔اپنی ایک چھوٹی سی خواہش کی خاطر جھوٹ بولا اور ماں باپ کو اتنا دکھ پہنچایاجبکہ جھوٹ تو کبھی بولنا ہی نہیں چاہیے۔ احساس ندامت آنسوؤں کا روپ دھار کر رئیس کی آنکھوں کے رستے بہہ نکلا۔ اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا اور ہچکیاں لے لے کر رونے لگا۔
”ارے! اسے کیا ہوا۔ رئیس بیٹے، کیا ہوا؟“اس کی امی اسے ہلا کر خوف بھری آواز میں پوچھ رہی تھیں۔”بیٹے طبیعت تو ٹھیک ہے؟ کیا پیٹ میں درد بہت زیادہ ہورہا ہے……“
رئیس نے باقاعدہ آواز کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ پھر وہ اٹھا اور اس نے امی کا ہاتھ پکڑ کر چو مناشروع کردیا۔ امی ہکا بکا کھڑی رئیس کو دیکھتی رہیں جس کے منہ سے بے ربط سے جملے نکل رہے تھے۔
”امی،معاف کر دیجئے…… میں بہت خراب ہوں …… جھوٹا…… آپ کو میں نے کتنا دکھ دیا……“
امی نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بستر پر بٹھادیا اور پر سکون آواز میں بولیں۔”آرام سے ……ٹھیک طرح بتاؤ کہ کیابات ہے؟“
رئیس پھر ہچکیاں لے کر رونے لگا۔ جب وہ کھل کر رو چکا تو اس نے امی اور ابو کو ساری بات شروع سے آخر تک بتادی۔ ابو نے تو اس کی بات سن کر سر جھکا لیا لیکن امی نے اس کا ماتھا چوم لیا اور بولیں۔ ”بیٹے! اپنی غلطی کا احساس ہو جانا بھی اللہ کی نعمت ہے۔ اب سچے دل سے تو بہ کرو اور آئندہ کبھی دل میں حسرتیں نہ پالنا۔ تم نے پیارے نبی ﷺکی وہ بات نہیں سنی کہ دنیا کے معاملے میں اپنے سے کم تر لوگوں کو دیکھو اور دین کے معاملے میں اپنے سے بر تر لوگوں کو دیکھو۔ تمہارا نام رئیس ہے یعنی دولت مند، سردار…… تو بیٹا! آخرت میں جو دولت کام آنے والی ہے وہ تو نیکیوں کی دولت ہے۔ وہاں تو یہی سکہ کام آئے گا۔ وہاں روپے پیسے یاڈالر، یاریوں کے بل پر توکوئی جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ جنت میں تو وہی جاسکے گا جس کے پاس نیکیوں کی دولت ہو گی۔“
”جی امی! آپ دعا کیجئے کہ میں نیکیوں کی دولت حاصل کر سکوں۔“ رئیس نے نظریں جھکا کر کہا۔
۔۔۔۔۔
اگلے دن شام میں کسی نے رئیس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رئیس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو دو اجنبی کھڑے تھے۔”رئیس تمہارا نام ہے؟“ ایک نے پوچھا۔
”ہاں ……کیا بات ہے؟“
”اپنا اسکول کارڈ دکھاؤ۔“
”مگر کیوں ……؟“
”بھئی چیک کرنا ہے۔“دوسرے نے کہا۔
رئیس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنا سکول کا رڈ لاکران کو دکھایا۔ایک اجنبی نے کارڈ کو غور سے دیکھا پھر دوسرے سے بولا۔”ٹھیک ہے، وہ لے آؤ۔ میں یہیں کھڑا ہوں۔“
رئیس کو اب خوف آنے لگا۔ پتا نہیں یہ لوگ کون ہیں؟ اجنبی نے اس کی یہ کیفیت بھانپ لی اور بولا۔”ڈرو نہیں، ہم تمہارے دوست ہیں۔“ اسی وقت دوسرا اجنبی ایک نئی نویلی، چمکتی ہوئی سی ایم ایکس سائیکل تھامے ہوئے گلی کے کونے پر نمودار ہوا…… قریب پہنچ کر اس نے سائیکل کا ہینڈل رئیس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا۔”ذرا اس رسید پر دستخط کر دو۔ یہ سائیکل تمہارے لیے کراؤن بیکری والے حاجی رحمت اللہ نے بھیجی ہے اور یہ بھی……“ ایک اجنبی نے شان بریڈ کا بڑ اوالا پیکٹ اس کے حوالے کیا۔ پھر دونوں اجنبی واپس چلے گئے۔ رئیس عجیب بے یقینی کے عالم میں، سائیکل اور شان بریڈ لے کر گھر کے اندر داخل ہوا۔ اس کے ابو نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور اس کی امی کو آواز دی۔ رئیس کی ننھی بہن صفیہ تالیاں پیٹ رہی تھی۔”آہاہا ……بھیا سائیکل لائے…… سائیکل لائے! ڈبل روٹی بھی لائے……“
ر ئیس نے ابو کو اجنبیوں کے بارے میں بتا دیا۔ اس کے ابو اسی وقت اٹھ کر گھر سے باہر نکل گئے۔ تقریباً نصف گھنٹے بعد ان کی واپسی ہوئی تو وہ مسکرا رہے تھے۔
”بیٹا، یوں سمجھو کہ اللہ میاں نے تمہاری دعائیں سن لیں۔ تم جو کر اؤن بیکری جا کر روز شان بریڈ خریدتے تھے اور انعامی کو پن نہ نکلنے پر افسردہ ہو جاتے تھے تو حاجی رحمت اللہ صاحب نے اس بات کو محسوس کیا۔ پھر انہوں نے تمہارے اسکول جا کر تحقیق کی۔ تمہارے ٹیچر ز نے بتایا کہ تم بہت محنتی بچے ہو اور ہر سال امتحان میں پوزیشن لیتے ہو ……اس پر حاجی صاحب نے تمہیں ایک سی ایم ایکس سائیکل کا تحفہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اب تم تیار ہو جاؤ۔ ہمیں حاجی صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے چلنا ہے۔“
”مجھے تو آج دوہری خوشی ہے۔“ امی بولیں۔”ایک تو سائیکل ملنے کی، دوسری سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ میرے بچے کو غلطی کا احساس ہو گیا اور اب وہ ان شاء اللہ ہمیشہ نیکی کے راستے پر چلے گا۔“
”دوہری خوشی نہیں امی!……ڈبل خوشی“رئیس ڈبل روٹی اٹھا کر ہوا میں لہراتے ہوئے چلایا۔
امی، ابو اور چھوٹی بہن صفیہ، سب ہی ہنس رہے تھے۔