دوسری دنیا کی مسکراہٹ
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔
”حد ہوگئی ابا جی! آپ آج پھر چھوٹے چھوٹے انڈے لے آئے۔“
”اور یہ سارا ہڈیوں والا گوشت لے آئے… ایسا لگتا ہے، جیسے دکان دار ساری ہڈیاں آپ کو ہی دے دیتا ہے۔“
”اورتو اور یہ سیب دیکھو کیسے ہیں… چھوٹے اور شاید کل کے بچے ہوئے… تازہ اور بڑے سیب تو جیسے آپ لا ہی نہیں سکتے۔“
”آخر ایسا کیوں ہے ابا جان… بازار میں دکانوں پر ایک سے ایک اچھی چیز رکھی نظر آتی ہے… آخر ہمارے گھر میں وہ اچھی چیزیں کیوں نہیں آتیں… بڑے بڑے انڈے کیوں نہیں آتے… باسی چیزیں کیوں آتی ہیں… گوشت میں اس قدر ہڈیاں کیوں آتی ہیں… یہ دکان دار آپ سے ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں… آپ ان سے کچھ کہتے کیوں نہیں… بس ہم سمجھ گئے… آپ اب بہت بوڑھے ہوگئے ہیں… دکان دار آپ کو جل دے جاتے ہیں… وہ آپ کا کوئی لحاظ نہیں کرتے… ہم اتنے دولت مند ہیں… ڈھیروں کے حساب سے چیزیں خرید کر لاتے ہیں… لیکن چیزوں کو دیکھ کر رونا آتا ہے… آخر کیوں ابا جان آخر کیوں۔“
یہ وہ سوالات تھے جو آئے دن دادا جان سے کیے جاتے تھے… امی جان… خالہ خان… چچا جان اورابا جان وغیرہ… سبھی ان پر اس قسم کے اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے تھے… اور وہ جواب میں صرف ایک مسکراہٹ… کہتے بھی تو صرف اتنا:
”ہمارے پاس کمی کس چیز کی ہے… یہ تو سوچیں…انڈے اگر چھوٹے آگئے تو کیا ہوا… دو درجن کے بجائے تین درجن بھی تو لے آیا ہوں… گوشت میں ہڈیاں زیادہ ہیں تو کیا ہوا… چار کلو کی بجائے پانچ کلو بھی تو لایا ہوں… جب ہمارے پاس اس قدر دولت ہے تو ہم ایسی باتیں کیوں سوچتے ہیں… کیوں پریشان ہوتے ہیں، سوچ سوچ کر۔“
ان کا جواب سب کو خاموش کر دیتا… لیکن سب جل بھن کر رہ جاتے… انھوں نے اپنا طریقہ… اپنا اصول ہرگز نہ چھوڑا… سب روزانہ جلتے بھنتے رہے… یہاں تک کہ ایک دن ہم سب کا جلنا بھننا ختم ہوگیا… دادا جان مر گئے… دنیا سے رخصت ہوگئے… ان کے مرنے پر بڑے بہت کم روئے… چھوٹے بچے… یعنی ان کے پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں بہت روئے…
تین دن بعد ابا جان زندگی میں پہلی بار گھر سے سودا سلف لینے نکلے… اس روز جب وہ گھر آئے، سب حیرت زدہ رہ گئے… خوش بھی ہوئے… آج بڑے بڑے انڈے آئے تھے، بڑے بڑے تازہ سیب آئے تھے… گوشت میں ہڈیاں بھی معمول کے مطابق آئی تھیں… دوسری چیزیں باسی نہیں تھیں… سب کی سب خوب تھیں… ”واہ! یہ ہوئی نا بات… آج ہر چیز شان دار آئی ہے… خوب سے خوب تر آئی ہے… ابا جان آپ نے پہلے کیوں خریداری اپنے ذمے نہیں لے لی تھی۔“
”بھئی واہ… ابا جان پسند نہیں کرتے تھے۔“ ابا جان بولے۔
”اور ہم سب جو ان کی لائی چیزیں پسند نہیں کرتے تھے۔“
”بس! ایک مجبوری تھی نا… اب ہر چیز خوب سے خوب تر آیا کرے گی… میں جب آج دکان دار کے پاس گیا تو میں نے انڈے اسے اپنے ہاتھ سے نہیں اٹھانے دیے… بلکہ خود میں نے خوب چن چن کر بڑے بڑے انڈے اٹھائے… اس طرح تمام سیب اپنی مرضی کے لیے… باقی تمام چیزیں اپنے ہاتھوں سے چن چن کر لیں… یہی وجہ ہے کہ آج ہر چیز بہترین آئی ہے۔“
”اور ایسا اس گھر میں شاید پندرہ سال میں پہلی بار ہوا ہے… اف مالک… پندرہ سال تک ہم خراب شراب چیزوں پر گزارا کرتے رہے، خون کے گھونٹ پیتے رہے… بڑے ہونے کے ناطے ہم انہیں کچھ نہیں کہتے تھے… بس صرف اعتراض کر کے رہ جاتے تھے… اور وہ ہر ایک کے جواب میں صرف مسکرا دیتے تھے… چلو چھٹی ہوئی۔“
اور اس روز واقعی گھر میں ہر چیز بہترین آنے لگی… بڑے بڑے چنے ہوئے انڈے ،تازہ سرخ بڑے سیب، بہت ہی کم ہڈیوں والا گوشت ، گھر میں اب کسی کو اس سلسلے میں کوئی شکایت نہیں رہ گئی تھی، ایسے میں ایک دن میرے ذہن میں ایک سوال گونجا:
”آخر دادا جان ایسی چیزیں کیوں لاتے تھے؟ کیا وہ حد درجے کنجوس تھے… سستی چیزیں لاتے تھے۔“ میں سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر میں نے اپنا یہ سوال سارے گھر کے سامنے رکھا۔ ابا جان تو فوراً بول اٹھے۔ ”نہیں وہ کنجوس تو ہرگز نہیں تھے۔“
”تب پھر وجہ؟ آخر کیوں وہ ایسی ویسی چیزیں لاتے تھے۔“
”یہ واقعی ایک عجیب سوال ہے اور ابا جان کہتے کہتے رک گئے۔ “
”اور کیا ابا جان! مارے بے چینی کے میرا برا حال ہے…“ میں نے کہا۔
”صرف آپ کا ہی نہیں بھائی جان… میرا بھی۔“ رفعت بول اٹھی۔
”اور اس کا جواب صرف اور صرف وہ لوگ دے سکتے ہیں جن سے وہ چیزیں خریدی جاتی تھیں۔“ انھوں نے کہا۔
”تو کیا ہم یہ سوال ان سے جا کر کریں۔“
”یہ اچھا نہیں لگتا، ہم یوں کیوں نہ کریں، کل شام انہیں چائے پر بلائیں اور یہ سوال ان کے سامنے رکھیں۔“
”واہ! یہ ہوئی نا بات۔“ میں نے کہا۔
”بہت خوب بھائی جان۔“ چچا جان بولے۔
”چلو پھر یہ طے رہا.. میں آج انہیں دعوت دے آتا ہوں۔“
دوسرے دن ہمارے گھر کے ڈرائنگ روم میں وہ تمام دکان دار موجود تھے جن سے دادا جان چیزیں خریدا کرتے تھے۔ پہلے چائے بسکٹ وغیرہ سے ان کی تواضع کی گئی۔ پھر ابا جان نے مسئلہ ان کے سامنے رکھا۔ پوری تفصیل سے بات بتائی۔ ابا جان کے خاموش ہونے پر بھی وہ کتنی ہی دیر خاموش بیٹھے رہے۔ آخر تنگ آکر بھائی جان بولے:
”کیا اس معاملے میں آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے؟“
”یہ بات نہیں۔“ ایک دکان دار نے فوراً کہا۔
”پھر کیا بات ہے۔“
”ہم سوچ رہے ہیں اس بات کی وضاحت کس طرح کریں؟بات کہاں سے شروع کریں۔ ویسے میں تو یہ کہوں گا کہ ہماری زندگیوں میں ان جیسا انوکھا گاہک آج تک نہیں آیا، نہ شاید آئے گا، وہ عجیب تھے، بلکہ عجیب ترین تھے۔“
”آخر کیسے؟“ اب ہمارا تجسس اور بڑھ گیا۔
”دیکھیے میں وضاحت کرتا ہوں۔“ انڈوں والا بولا۔
”بہت مہربانی آپ میں سے کوئی تو وضاحت کے لیے تیار ہوا۔“ ابا جان خوش ہو کر بولے۔
”پہلے وہ خوب چن چن کر بڑے بڑے انڈے اٹھایا کرتے تھے، اپنے ہاتھ سے شاپر میں ڈالتے تھے۔ ایک دن ان کی موجودگی میں ایک گاہک ایک انڈا لینے کے لیے آیا۔ اس نے انڈوں پر نظر ڈالی۔ سبھی انڈے چھوٹے چھوٹے نظر آئے۔ اس نے سرد آہ بھر کر ان چھوٹے انڈوں میں سے ایک انڈا اٹھا لیا۔ ایسے میں اس کی نظر شاپر میں بھرے بڑے بڑے انڈوں پر پڑی۔ اس نے ایک اور سرد آہ بھری اور انڈے کے پیسے مجھے دے کر چھوٹا سا انڈا لے گیا۔ وہ چپ چاپ سے کھڑے رہ گئے۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ خاموش کھڑے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا،شیخ صاحب! کیا بات ہے۔ وہ چونک اٹھے اور پھر انھوں نے ایک عجیب بات کہی۔ کہنے لگے، یہ تمام بڑے انڈے واپس رکھ لو اور میرے شاپر میں سب چھوٹے چھوٹے انڈے ڈال دو۔ میں دھک سے رہ گیا۔ ان کے حکم کی تعمیل کی۔ اس دن کے بعد انھوں نے پھر کبھی بڑا انڈا نہ اٹھایا۔ چن چن کر چھوٹے چھوٹے انڈے لینے لگے۔“یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اسی وقت گوشت والے کی آواز ہمارے کانوں میں گونجنے لگی۔”ایک روز انھوں نے پوری ران تلوائی… میں نے اس کی خوب صورت گول گول بوٹیاں بنائیں اور شاپر مےں ڈال دیں… ایسے میں ایک گاہک آیا، اس نے مجھ سے اڑھائی سو گرام گوشت مانگا… میں نے اپنے طریقے کے مطابق اسے گوشت دے دیا… شیخ صاحب ابھی وہیں کھڑے تھے اور اس شخص کی طرف دیکھے جارہے تھے… اس شخص نے گوشت سے ہڈیاں الگ کیں اور بولا… ایک پاﺅ گوشت میں اتنی ہڈیاں… اتنی غریب مارا نہیں ایک جھٹکا لگا… فوراً وہ اڑھائی سو گرام گوشت اٹھا کر اپنے شاپر میں ڈال لیا اور اس میں سے گول گول بوٹیاںنکال کر ترازو میں رکھ دیں اور بولے… اڑھائی سو گرام پورا کر دیں۔وہ بغیر ہڈی کا ایک پاﺅ گوشت انہوں نے شاپر میں ڈال کر جب اس شخص کو دیا تو اس نے قدرے حیر ان ہو کر ان کی طرف دیکھا جیسے وہ اس دنیا کی مخلوق نہ ہوں… اس روز کے بعد انھوں نے اپنے لیے زیادہ ہڈیوں والا گوشت خریدنا شروع کر دیا۔“
گوشت والا بھی یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگیا۔ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔ پھل فروش کی کہانی بھی ویسی ہی تھی۔ اب ہم ساکت ایک دوسرے پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ کتنی ہی دیر گزر گئی۔ پھر ہم سب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ان آنسوﺅں میں وہ جھلملاتے نظر آرہے تھے اور ان کے چہرے پر ایک لازوال مسکراہٹ تھی۔ جسے ملکوتی مسکراہٹ ہی کہا جاسکتا ہے۔
٭٭٭