skip to Main Content

دوسرا سایہ۔۔۔!

سیما صدیقی

……………

موم بتی سے سفید موم اس تیزی سے پگھل رہا تھا۔۔۔گویا اسے دونوں سروں سے جلا دیا گیا ہو۔۔۔ یہ کون سی تپش تھی جو موم کو پانی کی طرح بہائے دے رہی تھی؟ ہمارا ’’عمل‘‘ اس وقت ایسے نازک مرحلے میں، داخل ہوچکا تھا کہ اس معاملے کی حیرت ناکی کی جانب زیادہ دیر توجہ نہ دے پائے۔ ہماری نگاہیں۔۔۔ موم بتی کے بھڑکتے ہوئے شعلے پر جمی تھیں۔ اچانک کمرے میں نہ معلوم سرسراہٹ ہوئی۔۔۔ اور کسی ان دیکھے وجود، کی موجودگی کا احساس شدت اختیار کرگیا۔۔۔ ہمارا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ گویا دل نہ ہو، ڈھول ہو، جو ہمارے کانوں میں بج رہا ہو۔ کیا تحیر واسرار، تجسس و سنسی کی وہ گھڑی اتنی جلدی آپہنچی، جس کے لئے لوگ مہینوں صبر آزما مشقیں کرتے ہیں؟ کیا وہ ان ہونی، اب ہونے کو تھی۔۔۔ جس کے ہم منتظر تھے؟

*۔۔۔*۔۔۔*

ہم اکثر آپا جان کے بستر اور تکیے کے نیچے کی تلاشی لیتے رہتے تھے۔جب بھی وہ ہم سے کوئی کام کراتیں ہم موقع پاکر ان کے تکیہ کے نیچے سے اپنا معاوضہ نکال لیتے۔ ایک دن اسی تلاش میں ہم نے ان کا سرہانہ ٹٹولا تو ایک موٹی سی کتاب ہمارے ہاتھ لگی۔ چکنی سفید جلد پر، سیاہ رنگ سے دو الفاظ تحریر تھے ’’جنات اور ہم زاد‘‘کتاب ہمارے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچی۔۔۔ پھر تجسس نے سر اٹھا یا تو کتاب لے کہ ہم اپنے کمرے کی جانب کھسک لئے۔۔۔ آپا کہتی تھیں کہ بڑوں کی کتابیں بچوں کو نہیں پڑھنی چاہئیں۔ مگر اب ہم بچہ نہ تھے۔ نویں جماعت میں پہنچ چکے تھے۔ ہم نے بڑی ہڑبڑاہٹ میں کتاب کی ورق گردانی شروع کی۔ (کیونکہ کتاب اپنی جگہ واپس بھی رکھنی تھی) مگرایک سرخی ایسی تھی کہ ہم اسی پر اٹک کر رہ گئے۔ عنوان تھا۔۔۔ ’’ہم زاد کو قابو میں کیجئے!‘‘ اس باب کو پڑھ کر ہماری رگ وپے میں عجیب سی سنساہٹ دوڑ گئی۔ یہ اہم نکات ہم نے جلدی جلدی اپنے پاس نوٹ کرلئے:
(۱) ہر انسان کے اندر ایک اور انسان چھپا ہے۔ جو ہم سے بالکل مختلف اور ماوراء طاقتوں کا مالک ہے۔ جو کام ہمارے لئے ناممکن ہے وہ ہمارا ہم زاد چٹکی بجاتے کردیتا ہے۔
(۲) مسلسل شمع بینی یا سورج بینی کی مشقوں کے بعد، آپ کے اندر ایسی پراسرار قوتیں جنم لیں گی۔ جن کو بروئے کار لاکر آپ اپنے ہم زاد پر قابو پاسکتے ہیں۔
(۳) مضبوط قوت ارادی اور مسلسل ارتکاز آپ کی کامیابی کی بنیاد ہے۔سکوت، تنہائی، تاریکی اور مکمل توجہ کے ساتھ شمع بینی کرنے پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ کے سایہ سے ایک اور سایہ جدا ہوتا دکھائی دے گا۔ یہ آپ کا ہم زاد ہوگا۔۔۔ آپ اس سے جو کام لینا چاہیں گے وہ پلک چھپکتے میں کردے گا۔
نوٹ: کمزور دل اور کمزور اعصاب والے حضرات کے لئے اس عمل میں ذہنی توازن کھودینے کا بھی اندیشہ ہے لہٰذا سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں!

*۔۔۔*۔۔۔*

مگر ہم قدم اٹھا چکے تھے۔۔۔ اور اب واپسی ناممکن تھی۔۔۔ موم بتی کے شعلے پر نظر جمائے جمائے ہماری پلکیں بوجھل ہوچکی تھیں۔۔۔ آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور سر گھومتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔۔۔ ہم نے بہ مشکل تمام خود کو پلکیں جھپکانے سے روکا۔ اب جب کہ دو چار ہاتھ لب بام رہ گئے تھے، ہم پیچھے ہٹنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چند سنسنی خیز لمحے مزید سرک گئے۔ کمرے کا سکوت، ٹھنڈاور تاریکی مزید بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کمرے میں کسی نہ معلوم وجود کے ہونے کا احساس ہمارے دل کو سہمائے دے رہا تھا۔ جیسے ہمارے علاوہ بھی کوئی ذی روح سانس لے رہا ہو۔ اور پھر سامنے دیوار پر ہم نے جو کچھ دیکھا وہ نہ ہمارے وہم کا کرشمہ تھا نہ کوئی جواب! ایک پراسرار سایہ، ہمارے سایہ سے جدا ہوچکا تھا۔۔۔ اب ہماری نگاہوں کے سامنے، دیوار پر ایک کے بجائے دو سائے موجود تھے، ایک ہمارا اور دوسرا ہمارے ہم زاد کا! ہم زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔۔۔ ہمارا سایہ بھی اسی پوزیشن میں تھا۔۔۔ مگر ہمارے ہم زاد کا سایہ بڑا تھا اور چھت تک پہنچتا دکھائی دے رہا تھا اس لئے خاصا خوفناک معلوم ہورہا تھا۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔۔۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔۔۔ اس سنسنی خیز تجربے کے دوران ہم بالکل اکیلے تھے۔۔۔ موم بتی کی زرد روشنی نے کمرے میں ایسی پراسرار فضا قائم کردی تھی جس نے ہم پر سحر سا طاری کردیا تھا۔ تیزی سے پگھلنے کے باعث موم بتی ٹیڑھی ہوکر گرنے کے قریب تھی اور اس کا شعلہ بھی آخری دموں پر تھا۔۔۔ موم بتی بجھ گئی تو کیا ہوگا؟ اس خیال سے ہی ہم نے جھر جھری لی۔۔۔ بے اختیار جی چاہا کہ اٹھ کر لائٹ جلا دیں۔۔۔ مگر کوشش کے باوجود ہم اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کرسکے۔۔۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جسم پتھر کا ہوگیا ہو۔ ہم نے خود کو سرزنش کی۔۔۔ یہ کیا بزدلی ہے؟ کیا سارے کئے کرائے پر خود ہی پانی پھیردو گے۔ اب جبکہ ہم زاد تمہارے قبضے میں ہے۔۔۔ تم بھاگ نکلنے کی سوچ رہے ہو! ہم نے اپنی تمامتر ہمتوں کو یکجا کیا اور دل ہی دل میں ان ’’کاموں‘‘ کی فہرست دہرانی چاہی جو ہم، ہم زاد سے کرانا چاہتے تھے۔۔۔ مگر یہ کیا!!! دہشت کے مارے ہم سارے اہم کام بھول چکے تھے۔ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں ہم زاد ’’غائب‘‘ نہ ہوجائے لہٰذا عجلت اور بوکھلاہٹ میں ہمارے منہ سے نکلا۔
’’جلیبیاں۔۔۔!! دو کلو جلیبیاں لاؤ!‘‘
’’جلیبیاں!!!‘‘ کمرے میں ایک کرخت آواز بھری، ’’میں کیوں لاؤں! تم خود جاکر لاؤ !!‘‘
ہم دھک سے رہ گئے۔۔۔ ہمارا ’’ہم زاد‘‘ اور ایسا غصیلا اور بدمزاج! معلوم نہیں کیوں ہم زاد کی آواز سنتے ہی ہم پر طاری ہونے والا خوف کم ہوگیا تھا۔۔۔ اور حواس بحال ہوگئے تھے۔۔۔ ہم نے بے دھڑک ہوکر کہا:
’’دیکھو! اب تم ہمارے قبضے میں ہو۔۔۔ جو ہم کہیں گے۔۔۔ وہ تم کروں گے۔۔۔ اگر د و کلو مشکل ہے تو ایک آدھ پاؤ ہی لے آؤ۔۔۔ اسے اپنا امتحان سمجھو!‘‘
’’امتحان۔۔۔ کیسا امتحان!!!‘‘ ہم زاد پھر گرجا۔
’’ہم زاد کے بچے۔۔۔ ذرا لائٹ کھولو!‘‘ ہم زاد نے دھاڑ کر کہا ہمیں معلوم تھا کہ لائٹ کھولتے ہی ہم زاد غائب ہوجائے گا۔۔۔ ہمیں ہر حال میں اسے قابو میں لانا تھا۔۔۔ اسی اثناء میں وہ ہیبت ناک سایہ، ہمارے مزید نزدیک آگیا، ہم اس کی بدتمیزی پر آگ بگولا ہوچکے تھے۔ چھ ہفتے ہم نے جان اس لئے نہیں ماری تھی کہ ہم زاد کی جھڑکیاں سنیں۔ ہم نے اپنے غصے پر قابو پاکر کہا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ ہم سمجھ گئے۔۔۔ یہ حلوائی وغیرہ کے چکر لگانا تمہارے شایان شان نہیں۔۔۔ شاید اسی لئے تم برا مان گئے۔۔۔ اچھا چلو اب دوسرا کام سنو۔ اس سال ہم نے نویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دیا ہے۔۔۔ تم پتہ کرو کہ ہمارا ’’حساب‘‘ کا پرچہ کس ممتحن کے پاس پہنچا ہے۔ اگر ہمارا ٹوٹل ’’زیرو‘‘ ہو تو اس کے شروع میں ’’نو‘‘ کا اضافہ کرو۔۔۔ہمارے ابّا بھی خوش ہوجائیں گے۔‘‘
جو اب پانے کے لئے ہم نے ہم زاد کے سایہ پر نگاہ جما دی۔۔۔ اچانک سایہ جھکا۔۔۔ اور عقب سے ہماری گردن پکڑ لی۔۔۔ اسی لمحے موم بتی کالرزتا شعلہ بجھ گیا اور کمرے میں مکمل تاریکی چھاگئی۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ملک الموت ہمیں اڑاتا ہوا جہنم کی طرف لے جارہا ہے۔۔۔ ہماری آنکھیں بند ہوگئی تھیں اور نبض ڈوب رہی تھی۔۔۔ گردن پر پراسرار ہاتھ کا دباؤ۔۔۔ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جارہا تھا۔۔۔ یہ ہرگز ہمارا وہم نہ تھا۔۔۔سایہ ہمیں گھسیٹتا ہوا سوئچ بورڈ تک لے گیا اور ہاتھ بڑھا کر لائٹ کھول دی۔۔۔ ہم نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھولیں اور دھک سے رہ گئے۔۔۔وہ ہم زاد نہیں۔۔۔ ہمارے ابّا جان تھے!

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top