دو صندوق
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔
جنگل بیابیان۔دور دور تک ویرانیاں۔کہیں آدم نہ آدم زاد۔گھنے درختوں کے نیچے کوئی جنگلی جانور تیزی سے گزر جاتا تو چند لمحوں کے لیے خوف ناک سناٹے میں زندگی سی آجاتی۔اس کے بعد پھر وہی سکوت،وہی موت کا سناٹااور اونچے اونچے پیڑوں کے اوپر چھائے ہوئے اندھیرے۔
ایسے ویرانے میں یہ اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا کہ دن کے کتنے بجے ہیں اور سورج اپنا سفر طے کرکے کہاں پہنچ گیا ہے۔یکایک مشرق کی طرف سے ایک سانڈنی تیز قدم اٹھاتی ہوئی آئی اور آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئی۔سانڈنی کی پیٹھ پر ایک آدمی بیٹھا تھا۔جس کے سر اور داڑھی کے قریب قریب آدھے بال سفید ہو چکے تھے۔اس آدمی نے اپنی پشت ایک درجن کے قریب ان چھوٹی بڑی گٹھریوں سے لگا رکھی تھی جو ایک دوسرے کے اوپر پڑی تھیں۔ان گٹھریوں میں اس نفیس سفید کپڑے کے تھانوں کو رکھا گیا تھا جو جنگل سے دور ایک قصبے میں تیارہوتا تھا اور جس کی جنگل کے پار شہروں میں بڑی مانگ تھی۔یہ آدمی جس کا نام امجد تھا پیشے کے اعتبار سے ایک تاجر تھا۔مہینے میں دوتین بار کئی قصبوں کے سوداگر ایک قافلے کی صورت میں جنگل کے پار تجارت کی غرض سے شہروں میں جاتے تھے اور وہ بھی انہی قافلوں میں شریک ہو جاتا تھا۔اس روز وہ جب اپنا سامان اپنی سانڈنی کی طرف لے جانے لگا تو اسے خبر ملی کہ قافلہ تو صبح ہی صبح جا چکا ہے۔یہ اطلاع پاکر اسے غصہ تو بہت آیا کہ قافلے کے سردار نے نہ تو اس کا انتظار کیااور نہ اسے شامل ہونے کی دعوت دی تھی،مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔وہ بارہا قافلوں کے ساتھ اس جنگل سے گزرا تھا۔ایک بار تنہا بھی سفر کر چکا تھا،اس لیے گھرمیں بیٹھ کر کڑھنے سے اس نے یہی بہتر سمجھا کہ سامان سانڈنی پر لاد کر چلا جائے اور اس نے یہی کیا۔
سانڈنی کو وہ کوئی بار بردار جانور نہیں سمجھتا تھا بلکہ دوست اور ہمدرد جانتا تھا۔اس سانڈنی نے کئی سال تک اس کا ساتھ دیا تھا اور اب بھی دے رہی تھی۔جنگل کا سفر خطرے سے خالی نہیں ہوتا اور پھر امجد تو تنہا تھا۔وہ قیمتی کپڑا لے جا رہا تھا اور اس کپڑے کی تجارت پر اس کا اور اس کے بیوی بچوں کی ساری ضروریات کا انحصار تھا۔اگر کہیں سے ڈاکو آجائیں تو وہ تنہا ان کا کیوں کر مقابلہ کر سکتا ہے؟یہ خیال دو تین بار اس کے ذہن میں آیا،مگر وہ بہادر آدمی تھا۔خطرے کا خیال زیادہ دیر تک اس کے ذہن میں نہیں رہ سکتا تھا۔اس وقت سفر آدھے سے کچھ زیادہ طے ہو چکا تھا۔وہ اپنے کاروبار کے بارے میں سوچ رہا تھا۔وہ خوش تھا، اس کے پاس جو قیمتی کپڑا ہے وہ بہت کم سوداگرو ں کے پاس ہوگا۔وہ مطمئن ہو گیا ،مگر پھر اس نے سوچا:
”میرے گاہک دو بڑے دکان دار ہیں جو مجھ سے ہی مال خریدا کرتے ہیں،مگر کہیں مجھ سے پہلے کوئی سوداگر ان کے پاس نہ چلا جائے۔“
اس بات کا اسے خطرہ تھا۔یہ خطرہ محسوس کرکے اس نے سانڈنی کو زیادہ دوڑانے کا اپنا طریقہ استعمال کیا۔وہ اس مقصد کے لیے سانڈنی کی گردن میں پیار سے ہاتھ پھیرتا تھا اور ابھی اس کا ہاتھ سانڈنی کی گردن میں ہوتا تھا کہ وہ تیزی اختیار کر لیتی تھی۔سانڈنی اس سفر میں تھک گئی تھی۔جانور بھی اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں خوش رہتا ہے۔ساتھی نہ ہوں تو اداس ہو کر جلدی تھک جاتا ہے۔اس وقت امجد بھی تنہا تھا اور اس کی سانڈنی بھی تنہا تھی۔دونوں ناخوش تھے۔
درختوں کی لمبی قطار ختم ہو گئی۔دوسری قطار ان سے کچھ فاصلے پر تھی۔اچانک اس کی نظر مٹی کے ایک تودے کے پاس ایک انسان پر پڑی۔ کوئی اوندھے منہ گھاس کے اوپر پڑا تھا۔
”یہ کون ہے؟“اس کے دماغ میں یہ سوال آیااور اس نے بے اختیار سانڈنی کی لگام کھینچ لی۔جب سانڈنی بیٹھ گئی تو وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اس اوندھے منہ پڑے ہوئے انسان کی طرف بڑھا۔
”کون ہو تم؟“اس نے سوال کیا۔جواب میں کوئی آواز نہ آئی۔اس نے کئی بار پوچھا۔مگر کوئی جواب نہ ملا۔
اب اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر آواز دی۔وہ کسی بچے یا بوڑھے کا ہاتھ لگتا تھا۔
”کہیں یہ مر تو نہیں گیا۔“یہ بات ذہن میں آتے ہی وہ خوف زدہ ہو گیا۔اس کا جی چاہا کہ اسے چھوڑ کر اپنا سفر جاری رکھے۔وقت گزرتا جا رہا تھااور اس کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں یہ خطرہ بھی بڑھتاجا رہا تھا کہ کہیں دکان دار اس کے جانے سے پہلے سامان خرید نہ لیں۔اس صورت میں اسے بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔وہ اٹھ بیٹھا،مگر اس کے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس انسان کو چھوڑ جائے جو نہ جانے زندہ تھا یا مرچکا تھا۔
”اگر زندہ ہے تو میں اس کی مدد کرسکتا ہوں۔“یہ خیال اس کے دماغ میں آیا اور اس نے اس آدمی کے سر کو ذرا اوپر اٹھایا،مگر وہ تو ایک بوڑھی عورت تھی جو آہستہ آہستہ سانس لے رہی تھی۔
”کون ہیں آپ؟“امجد نے پوچھا،مگر جواب نہ ملا۔وہ اسے خاموشی کے ساتھ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔اس بڑھیا نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھول دیں۔
”کون ہو تم؟“یہ سوال بڑے مدھم لہجے میں بڑھیا نے کیا۔
”میں ایک سوداگر ہوں۔آپ کے ساتھ کیا ہوا؟“
”پانی۔“بڑھیا نے آہستہ سے کہا۔
امجد سانڈنی کی طرف گیا۔گٹھریوں کے درمیان اس نے دو چھاگلیں رکھ چھوڑی تھیں۔ایک چھاگل میں سے دوتین بار پانی پی چکا تھا اور دوسری بھری کی بھری تھی۔اس نے اپنا ہاتھ چھاگل کو اٹھانے کے لیے بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں صرف ایک چھاگل تھی اور یہ وہ چھاگل تھی جو آدھی سے زیادہ خالی ہو چکی تھی۔دوسری چھاگل جو پانی سے بھری ہوئی تھی وہاں نہیں تھی۔وہ حیران تھا کہ دوسری چھاگل کہاں گئی؟
اسے فوراً یاد آگیا کہ سفر شروع کرنے کے تھوڑی دیر بعد اس نے ایک جگہ پڑاﺅ ڈال دیاتھا۔ایک پیڑ کے نیچے آرام کیا تھا۔گٹھریاں ٹھیک حالت میں نہیں تھیں۔سب کچھ اتار کر اس نے دوبارہ ترتیب کے ساتھ رکھا تھا۔اور وہیں پیڑ کے نیچے بھری ہوئی چھاگل چھوڑ آیا تھا۔اس وقت نہ تو واپس جانا مناسب تھا اور نہ وقت ضائع کرنا۔اس نے چھاگل اٹھائی اور بڑھیا کے پاس گیا۔چھاگل ایک طرف رکھ کر اس نے ضعیف اور کم زور بڑھیا کو بٹھانے کی کوشش کی۔وہ کمزور کی وجہ سے بیٹھ نہ سکی۔امجد نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور چھاگل اس کے ہونٹوں سے لگا دی۔جانے وہ کب کی پیاسی تھی اور چھاگل میں بہت کم پانی رہ گیا ۔پیاس بجھانے کے بعد بڑھیاکی توانائی بحالی ہوگئی تو اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”ماں جی ! آپ جنگل میں تن تنہا کیسے رہ گئیں۔“
بڑھیانے پیڑ کے تنے سے ٹیک لگادی اور بولی:
”کیا کہوں بیٹا!ہونی توہو کر رہتی ہے۔جنگل کے پاس شہر وزیر شاہ میں میری دونوں بیٹیاں بیاہی ہوئی ہیں۔کبھی کبھی ان سے ملنے کے لیے تڑپنے لگتی ہوں۔میرے گھر کے پاس سوداگر رہتے ہیں۔وہ مہینے ڈیڑھ مہینے بعد تجارت کی چیزیں لے کر اس شہر میں جاتے ہیں۔میں بھی ان کے ساتھ چلی جاتی ہوں اور واپسی پر وہ ساتھ ہی لے آتے ہیں تو بیٹاہوا یہ۔“
بڑھیا ذرارکی،سانس درست کیااور پھر کہنا شروع کیا:
”آج میں ان سوداگروں کے ساتھ روانہ ہوگئی۔میں سانڈنی پربڑے آرام و اطمینان کے سا تھ بیٹھی تھی کہ ایک دم دور گرد وغبار کے بادل چھاگئے۔بڑا شور ہوا۔سوداگروں نے خطرہ دیکھ کر سانڈوں کی رفتار تیز کردی،مگر ڈاکوﺅں کے گھوڑوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور لوٹ مار شروع ہو گئی۔ایک ڈاکو میری طرف بڑھا۔میں نے کہا:”میں ایک غریب بڑھیا ہوں۔میرے پاس کیاہے۔میں تو اپنی بیٹیوں سے ملنے جا رہی ہوں۔ان کے بچوں کے لیے مٹھائی اور کھلونے ہیں۔لینا چاہتے ہوتو لے لو۔“
”چھوڑدو بڑھیا کو۔“اسے ایک ساتھی نے کہا اور مجھے چھوڑدیا گیا۔سوداگروں نے بچنے کے لیے سانڈنیوں کو دوڑانا شروع کردیا تھا۔ ڈاکوﺅں کے گھوڑے ان کے پیچھے لگ گئے تھے۔“یہ کہہ کر بڑھیا چپ ہوگئی۔
امجد نے پوچھا،”پھر کیا ہوا اماں جی؟“
”پھر بیٹا سوداگر اور ڈاکو نظروں سے دور ہوگئے۔مجھے پتا نہیں پھر کیاہوا؟“
”آپ اکیلی رہ گئیں؟“
”ہاں یہ لمبا چوڑا جنگل اور میں کم زور،ضعیف بڑھیا۔سوچا اب کیا کروں۔کدھر جاﺅں۔اللہ کا نام لے کر چل پڑی کہ راہ میں کوئی نہ کوئی قافلہ مل جائے گا اور مجھ پر رحم کھا کر جنگل کے پار پہنچا دے گا۔“
”آپ واپس چلی جاتیں۔“
”کیوں کر چلی جاتی بیٹا!جانے والے تو شہر کی طرف جا چکے تھے اور چند روز بعد ان کی واپسی ہونی تھی۔“
”آپ نے شہر کو جانے والے قافلے دیکھے؟“
”کہاں دیکھے بیٹا!مجھے صرف یہ پتا تھا کہ سوداگر مال و اسباب لے کر جا رہے ہیں۔خبر نہیں وہ کس راہ سے جا رہے تھے۔ادھر کوئی قافلہ نہ آیا۔ میں آہستہ آہستہ چلتی گئی۔بار بار امید بندھتی گئی کہ قافلہ آرہا ہے،لیکن کوئی بھی نہ آیا۔لگتا ہے میں راہ بھول کر ادھر آگئی تھی۔“
”ہاں اماں یہی ہوا ہے۔یہ قافلوں کا راستہ نہیں ہے۔میں اس راستے سے صرف اس لیے جاتا ہوں کہ ایک تو یہ زیادہ لمبا نہیں اور میں اس سے واقف بھی ہوں۔“
”اور پانی ہے؟“بڑھیا کے ہونٹ خشک ہو گئے تھے۔امجد نے چھاگل اس کے منہ سے لگادی۔جتنا پانی بچ گیا تھا وہ بھی بڑھیا نے پی لیا۔
”اماں اب ہمیں چلنا چاہیے۔“
”تمہاری سانڈنی پر تو بہت کپڑا لدا ہوا ہے!“بڑھیا نے سانڈنی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کوئی بات نہیں اماں!میں اٹھاتا ہوں آپ کو۔“امجد نے سہارا دے کر بڑھیا کو اٹھایا اور اسے سانڈنی کی طرف لے چلا۔گٹھریوں کے آگے تھوڑی سی گنجائش نکل آئی تھی۔امجد نے گٹھریوں کو ذرا پیچھے کردیا اور بڑھیا وہاں بیٹھ گئی۔
”چل میرے بیٹے!اللہ تیر ابھلاکرے۔“بڑھیا کے منہ سے نکلا۔امجد کے بیٹھنے کے بعدسانڈنی جلدی جلدی چلنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد آندھی چلنے لگی۔صحرا کی آندھی بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔آندھی تھمی توگرمی بہت بڑھ گئی۔امجد کو بہت پیاس تھی،مگر چھاگل کا سارا پانی تو وہ بڑھیا کو پلا چکا تھا۔اس نے ضبط سے کام لیا اور بار بار ہونٹوں پر زبان پھیرتا رہا۔اللہ اللہ کرکے جنگل ختم ہوا اورسانڈنی شہر کے دروازے پر پہنچ گئی۔وہاں بڑھیا نے امجد سے پوچھا:
”تم میرے ساتھ میری بیٹی کے گھر چلو گے؟“
”نہیں اماں!مجھے معاف کردیں۔میں بڑی دیر کے بعد دکان دار کے پاس جا رہا ہوں اور دیر ہوگئی تو رہی سہی امید بھی خاک میں مل جائے گی۔“امجد نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”بیٹا! میں تمہیں اپنا محسن سمجھتی ہوں۔اگر تم میری مدد نہ کرتے تو شاید میں زندہ نہ رہتی۔اب جو یہاں خیریت سے پہنچ گئی ہوں تو یہ اللہ کا فضل اور تمہارے احسان کا نتیجہ ہے۔آج کی رات میری بیٹی کے ہاں بسر کرو۔“
امجد بولا۔”اماں جان!میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیا۔ایک فرض تھا جو میں نے ادا کیاہے۔اس وقت تو مجھے جانے دیں۔واپسی پر ان شاءاللہ آکے ہاں آﺅں گا۔“بڑھیا خاموش ہوگئی اور پھر بولی:
”اچھا میں تم کو اپنا پتا بتائے دیتی ہوں۔غور سے سنو!باغیچہ گل محمد،منڈی علاءالدین ۔گل محمد میرے داماد کا نام ہے۔تمہیں گھر ڈھنڈنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔“
”مجھے یاد رہے گا اماں جی،پہنچ جاﺅں گا۔“
”میں انتظار کروں گی بیٹا۔“
”اچھااب اجازت دیجئے۔“
بڑھیا چند قدم طے کرکے گھوڑا گاڑی میں بیٹھ گئی اور امجد اپنے راستے پر چل دیا۔جب امجد بازار میں پہنچا تو دونوں دکان دار اس کو دیکھ کر ہنس پڑے۔یہ وہی دکان دار تھے جو امجد سے ہمیشہ کپڑا خریدتے تھے اور اس کا انتظار کرتے تھے۔
”یہ کیا اٹھا لائے تو امجد؟“ایک بولا۔
”کیا اس مرتبہ یہاں سیر کرنے آئے ہو؟“دوسرے نے اس کا مذاق اڑایا۔
”نہیں میں بیچنے کےلئے سامان لایا ہوں۔“امجد کو ان کی باتیں سن کر غصہ تو بہت آیا،لیکن اس نے غصے کو پی لیا۔
”دیکھو میاں امجد!“پہلا دکان دار بولا،”ہم سامان سنبھال کر نہیں رکھتے۔ہمارا اصول ہے ادھر خریدو، ادھر بیچ دو۔ہم نے کپڑا خرید کر بیچ بھی دیا ہے۔اب اگلے مہینے آنا۔“
امجد کو یہ بات بڑی بری لگی۔وہ بولا:
”میں یہ سامان کیسے واپس لے جا سکتاہوں؟“
”جیسے لے کر آئے ہو۔“
بات بڑھتی گئی۔دوسرے دکان داروں نے مداخلت کرکے ان کو صلح صفائی سے معاملہ طے کرنے پر مجبور کردیا۔غلطی امجد کی تھی۔اسی کو قصوروار ٹھہرایا گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ وہ اپنا سامان بیچ دے۔دکان داروں نے اس کی کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اونے پونے داموں کپڑے کے سارے تھان خرید لئے۔امجد کو توقع سے بہت کم رقم ملی تھی۔اسے غصہ بھی تھا اور پریشانی بھی،مگر اس وقت اسے اپنا وعدہ یاد آگیا جو اس نے بڑھیا سے کیا تھا۔پتا اسے یاد نہیں آرہا تھا۔پیاس کی شدت سے اس کا برا حال تھا۔ایک دکان پر رک کر اس نے شربت پیا اور وہیں بڑھیا کا پتا یاد کرنے لگا۔کاروباری نقصان پر اسے کافی رنج تھا اور کچھ کرنے کو اس کا جی نہیں چاہتا تھا،مگر چوں کہ وعدہ کر چکا تھا اس لئے بڑھیا کے ہاں جانا تو تھا ہی۔اسی دوران ایک آدمی شربت لینے آیا۔شربت والے نے اسے بوتل دیتے ہوئے کہا:
”گل محمد،تم نے پہلی بوتل کے پیسے بھی نہیں دیے تھے۔“
یہ نام سنتے ہی امجد کو یاد آگیا کہ بڑھیا نے اپنے داماد کا نام گل محمد ہی بتایا تھا۔یہ نام یاد آتے ہیں اسے باغیچہ گل محمد بھی یاد آگیا۔امجد نے اسے ہاتھ کی اشارے سے روک کر پوچھا:
”جناب مجھ کو باغیچہ گل محمد جانا ہے ۔کیا آپ مہربانی کرکے مجھے راستہ بتا دیں گے؟“
”ضرور ضرور۔“وہ آدمی بولا،”قریب ہی ہے ،سیدھے جائیں ۔ایک پھل کی دکان آئے گی۔اس دکان کے سامنے ایک گلی ہے۔وہی باغیچہ گل محمد کہلاتی ہے۔“
امجد نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سانڈنی کی لگام پکڑ کر بازار میں چلنے لگا۔تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اسے پھلوں کی دکان نظر آ گئی۔اس کے سامنے جو کشادہ گلی تھی وہیں اس کو جانا تھا۔ایک لڑکے نے گل محمد کے مکان کی نشاندہی کر دی اور اب وہ ایک بڑی شاندار عمارت کے سامنے کھڑا تھا۔وہ اس کے دروازے پر رکاہی تھا کہ ایک آدمی تیزی سے اس کی طرف آیا۔
”آگئے آپ،نانی اماں آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔“یہ کہہ کر اس نے سانڈنی کی لگام اپنے ہاتھ میں لے لی اور کہا،” اندر تشریف لے چلئے۔“
امجد نے دروازے پر قدم رکھا۔خوش آمدید کہتی ہوئی کئی آوازیں بلند ہوئیں۔بچے اور عورتیں اس کا استقبال کرنے کے لئے اس کی طرف آ رہے تھے۔ان میں وہ بڑھیا بھی تھی۔اس نے امجد سے کہا:
”شکر ہے بیٹا،تم آگئے۔سارا گھر تمہارا انتظار کر رہا تھا۔“
”گھر ڈھونڈنے میں آپ کو کوئی دقت تو نہیں ہوئی۔“ایک جوان عورت نے پوچھا۔یہ بڑھیا کی بیٹی تھی۔
”جی نہیں۔“امجد نے جواب دیا۔
”ہم نے نوکر کو ہدایت کردی تھی کہ سارا وقت گلی میں رہے اور آپ کے آنے کا انتظار کرے۔“دوسری جوان عورت بولی۔یہ بڑھیا کی دوسری بیٹی تھی۔امجد جلد واپس جانا چاہتا تھا،مگر بڑھیا، اس کی بیٹیوں اور گھر کے دوسرے لوگوں نے اتنا اصرار کیا کہ وہ ایک رات وہاں گزارنے پر مجبور ہوگیا۔اس کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔دوسرے روز دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد امجد نے اجازت چاہی اور کہا:
”گھر پر میرے بچے انتظار کر رہے ہیں، اب مجھے نہ روکیے۔“
یہ سن کر سب کو مایوسی تو ہوئی لیکن مجبوری تھی۔امجد کو جانا تھا۔جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔امجد نے پانی کی چھاگلیں رکھ لیں۔سنڈنی کو سفر کے لیے تیار کیا اور جب وہ چلنے لگا تو نوکر دو صندوق لے آیا ۔بڑھیا نے صندوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”بیٹا امجد!ایک صندوق میں تو تمہارے بچوں کے لئے کچھ کھلونے اور کپڑے ہیں اور یہ بڑا صندوق تمہارے لیے ہے۔“
”اماں جان آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں۔ان کی ضرورت نہیں ہے ۔“
”نہیں بیٹا! تمہارے احسان کا بدلہ تو دیا ہی نہیں۔یہ تو اس احسان کا اعتراف ہے جو تم نے میری زندگی بچا کر مجھ پر کیا تھا۔“
نوکر دونوں صندوق اٹھا کر دروازے سے باہر لے گیا۔امجد سب سے مل ملا کر رخصت ہوا۔لمبا سفر طے کرنے کے بعد امجد گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی اکلوتی بہن بہت بیمار ہوگئی ہے۔جلدی جلدی سامان گھر میں رکھ کر وہ بہن کے گھر چلا گیا۔دس روز بڑی پریشانی میں گزرے۔گیارہویں دن اس کی بہن کا انتقال ہوگیا۔یہ امجد کے لیے بڑا صدمہ تھا۔اس نے بڑے صبر سے کام لیا،مگر غم دور نہ ہوا۔
دن گزرتے رہے۔جتنی رقم وہ اپنے تھان اونے پونے داموں بیچ کر ساتھ لایا تھا وہ خرچ ہو گئی تھی۔نئے تھان خریدنے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں بچا تھا۔یہ ایک بڑی پریشانی کی بات تھی۔ایک روز اس کی بیوی بولی:
”رشید کے ابا! سب کو بڑا صدمہ پہنچا ہے مگر گھر کو بھی تو دیکھنا ہے۔قرض چڑھ گیا ہے۔ اس طرح کیسے گزارا ہوگا۔گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟کاروبار کا کیا ہوگا؟“
امجد کو غصہ آگیا۔”تو میں کیا کروں؟میرے پاس سامان خریدنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔“بیوی خاموش ہوگئی۔بچے جو جاگ کر ناشتہ مانگ رہے تھے ادھر آ گئے۔انہیں دیکھتے ہی امجد کو ان دو صندوقوں کا یاد آگیا جو رخصت ہوتے وقت بڑھیا نے اسے دیے تھے۔اس نے بیوی کو آواز دی۔
”عائشہ،میں دو صندوق لایا تھا۔“
”ہاں ان کا تو خیال ہی نہیں رہا۔تمہارے پلنگ کے نیچے پڑے ہیں۔“
امجد نے جاکر دونوں صندوق نکالے۔چھوٹا صندوق کھولا تو اس میں سے بڑے خوب صورت کھلونے اور کپڑے نکلے۔بچوں کو بڑی خوشی ہوئی۔
”اب بڑا صندوق بھی کھولو۔“
”میرے کپڑے ہوں گے۔“
”کھولو تو سہی۔“بیوی نے اصرار کیا۔
بڑا صندوق کھولا گیا تو وہ صندوق اعلیٰ درجے کے قیمتی کپڑوں سے بھرا ہوا تھا۔عائشہ ایک ایک کپڑا اٹھا کر الگ رکھنے لگی۔
”یہ کیا ہے؟“عائشہ نے چمکتی ہوئی چیزیں دیکھ کر کہا۔
”کیا ہے!“ امجد بولا۔
”دیکھو کپڑوں کے نیچے یہ اشرفیاں!“ عائشہ نے خوشی بھرے لہجے میں کہا۔
امجد نے دیکھاکہ صندوق میں بہت سی اشرفیاں رکھی ہوئی تھیں۔عائشہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔بولی،” یہ تمہارے اس احسان کا بدلہ ہے جو تم نے اس بڑھیا پر کیا تھا۔“
امجد کہنے لگا،”عائشہ میں کیا اور میرا احسان کیا! اللہ رحمت کرتا ہے تو کسی کو رحمت کا فرشتہ بنا کر بھیج دیتا ہے۔یہ بڑھیا رحمت کا فرشتہ تھی۔“