گوریلا فائٹرز۔۲
شان مسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وطن سے محبت کرنے والے جانبازوں کی داستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فولادی جوتوں کی دس…
مصنف: حسن اکبر کمال
کمپوزنگ: محمد فائز المرام
………
دھویں کی مخلوق
اُس روز ارشد کے سکول میں جانے کس تقریب کے سلسلے میں ایک بڑا شان دار جلسہ تھا۔ اس جلسے میں ارشد نے بھی ایک مضمون پڑھا جو بڑا پسند کیا گیا۔
جلسہ جب ختم ہوا تو شام ہو چکی تھی اور آسمان پر گہرے بادل چھا چکے تھے۔ رہ رہ کر بجلی کوند رہی تھی۔ بارش کے آثار نظر آ رہے تھے۔
ارشد سکول سے باہر نکلا تو ہلکا ہلکا اندھیرا چھا چکا تھا۔ اس نے سوچا مجھے جلد ازجلد گھر پہنچنا چاہیے ورنہ ممکن ہے بارش راستے ہی میں آ لے۔
اُس کے گھر کو دو راستے جاتے تھے۔ قریب کا راستہ کچا تھا اور اس پہ جا بجا جھاڑ جھنکاڑ اُگا ہوا تھا۔ ارشد عام طور پر اس راستے سے نہیں آتا جاتا تھا لیکن اُس روز اُس نے جلدی گھر پہنچ جانے کے خیال سے اُسی راستے سے جانے کا ارادہ کر لیا۔ گو اُس کے دل میں راستے کی سنسانی اور ویرانی کا خوف بھی تھا لیکن چوں کہ وہ ایک بہادر، دلیر، ہوشیار اور نڈر لڑکا تھا، اس لئے وہ خوف کو دِل سے نکال کر اُسی راستے پر چل پڑا۔
بادل اب اور بھی گھنے ہو گئے تھے اور ہوا بڑے زور سے چل رہی تھی۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج کسی بڑے طوفان کی خبر دے رہی تھی لیکن ارشد تیزی سے قدم بڑھاتا چلا جا رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں اس وقت طوفان کا کوئی خیال نہ تھا۔ وہ تو اس وقت آج کے اخبار کی اُس خبرکے بارے میں سوچ رہا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کل لاہور میں ایک گول سی گہرے سرخ رنگ کی چمک دار اُڑن طشتری دیکھی گئی۔ اخبار میں اس اُڑن طشتری کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئی تھیں۔
ارشد سوچ رہا تھا کہ وہ اُڑن طشتری والی خبر اگر درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کسی غیر سیارے کی مخلوق اس میں ہو گی۔
لیکن وہ مخلوق یہاں کیوں اور کس مقصد کے لئے آئی ہے؟
پھر اُس نے سوچا ……جانے یہ اُڑن طشتری کس طرح کی ہوتی ہے؟ کتنی تیزی سے یہ اُڑتی ہے؟
اور اُڑتے وقت جانے کیسی لگتی ہے؟
اُس کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی، کاش کبھی وہ بھی کوئی اُڑن طشتری دیکھ سکتا۔ اُسے بڑی حسرت تھی۔
انہی خیالات میں ڈوباہوا وہ تیزی کے ساتھ چلا جا رہا تھا، اپنے ارد گردکے ماحول اور طوفان سے بالکل بے پروا اور بے خبر۔
ارشدتقریباً نصف راستہ طے کر چکا تھا۔ جس جگہ اب وہ پہنچا تھا، وہاں اردگرد بڑی بڑی جھاڑیاں اور سرکنڈے تھے۔ سامنے ہی ایک کھلا سامیدان تھا جس میں سبز گھاس اُگی ہوئی تھی۔
یکایک ارشد کو ایک تیز سیٹی جیسی آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی وہ ہلکے سے نیلے رنگ کی تیز روشنی میں نہاگیا۔
ارشد ٹھٹک کر رُک گیا۔
اُس وقت وہ گھاس کے میدان میں تھا۔ یوں لگتاتھا جیسے روشنی اُس کے ٹھیک اُوپر سے کچھ فاصلے سے آ رہی ہے۔ ایک لحظے میں ارشد کے دل میں سو طرح کے خدشات اور خوف پیدا ہوئے مگر جلد ہی اُس نے خود پر قابو پا لیا اور غور سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
روشنی ایک بہت بڑے گول دائرے کی صورت میں پڑ رہی تھی اور اس دائرے کے عین درمیان میں وہ خود کھڑا تھا۔
یکایک ایک عجیب سی آواز نے اُس کا نام لے کرپکارا:
”ارشد!“
ایک اجنبی سی آواز سے اپنا نام سن کر ارشدکے جسم میں پھرخوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ اس ویرانے میں بھلا اُس کا نام لے کر پکارنے والا کون ہو سکتا ہے؟
وہ سوچ رہا تھا۔ پھر اُس نے ہمت کر کے بلند آوازمیں پوچھا:
”کون ہو تم؟ سامنے آؤ۔ مجھ سے کیا کام ہے تمہیں؟“
”ڈرو نہیں ارشد!“ اُس اجنبی آوازنے جواب دیا۔ ”میں تمہارا دشمن نہیں دوست ہوں۔ مجھے اگر دیکھنا چاہتے ہو تو پیچھے مڑ کر دیکھو۔“
ارشد نے ایک جھٹکے کے ساتھ گھوم کر دیکھا۔ تیز نیلی روشنی میں نیلے سے رنگ کے دھویں کا ایک مرغولہ سا اُس کے پیچھے کھڑا تھا۔ وہ قطعاً کوئی انسانی شکل نہیں تھی۔بس یوں لگتا تھا جیسے زمین سے نیلے رنگ کا دھواں اُٹھ رہا ہو جو ایک خاص اُونچائی تک پہنچ کر جم گیا ہو۔
ارشد چند لمحے بت سا بنا اُس دھوئیں کے مرغولے کو دیکھتا رہا۔
پھر بولا:
”تم کون ہو اور مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
”پیارے دوست ارشد! میں تمہارے دونوں سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ سنو! تمہارا نظامِ شمسی جس کہکشاں میں واقع ہے نا! اُس کہکشاں سے بھی ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ایک اور کہکشاں ہے۔ اس کہکشاں کے اندر بھی ایک نظام شمسی ہے اور اس نظام شمسی میں تمہارے سیارے جیسا ہی ایک سیارہ ہے جس کا نام ”زاجی“ ہے۔ میں اسی سیارے سے ایک اُڑن طشتری میں آیا ہوں۔ ہمارے سیارے کے لوگ تمہارے سیارے کے لوگوں سے میل ملاقات کے بڑے خواہش مند ہیں۔ ہم اکثر اپنی آبزرویٹریوں کے ذریعے تمہارے سیارے کے بارے میں معلومات جمع کر تے رہتے ہیں۔ ہمارے لئے اتنی دور ہونے کے باوجود یہ معمولی بات ہے کیوں کہ ہم لوگ سائنسی ترقی میں تم لوگوں سے بہت آگے ہیں لیکن اتنی بے پناہ ترقی کر لینے کے باوجود ہمارے ہاں کے باشندے اتنے رحم دل، نیک اور اچھے ہیں کہ تعریف نہیں کی جاسکتی اور ہم وہاں بڑے امن و امان اور صلح کے ساتھ رہتے ہیں۔ چوں کہ ہمیں تم لوگوں سے بڑی دل چسپی ہے، اس لئے کبھی کبھار ہمارے ہاں کے کچھ سائنس دان اُڑن طشتریوں میں بیٹھ کر تمہارے سیارے کا ایک آدھ چکر بھی لگا جایا کرتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اس سیارے کے باشندوں کے ساتھ تعلقات بڑھائے جائیں لیکن سال ہا سال میں ہم نے کبھی اس لئے ہمت نہ کی کہ جانے یہ لوگ کیسے ہوں؟ ہمارے ساتھ کس طرح پیش آئیں؟ اور کہیں ہمیں جان سے نہ مار ڈالیں، لیکن اب ہم نے یہ پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ ضروریہاں کے لوگوں کے ساتھ دوستی کی جائے گی اورجو کچھ بھی ہم سے ہو سکا، ہم اس سیارے کی مخلوق کے لئے کریں گے۔ اس کی ترقی اور خوش حالی میں ہم تمہاراہاتھ بٹانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ پہلے یہاں کے لوگوں کا اچھی طرح مطالعہ کیا جائے۔ یہاں رہ کر لوگوں کے رویے، ان کے اخلاق اورعادات کو جانا جائے۔ پھر ہی ہم کوئی اگلا منصوبہ بنا سکیں گے۔ مجھے اسی مقصد کے لئے یہاں بھیجا گیا ہے کہ میں یہاں کچھ عرصہ رہ کر یہ کام کروں۔“
ارشد بت بنا یہ سب کچھ سن رہا تھااور حیران ہو رہا تھا:
”مگر تم تو دھواں ہو، پھر یہاں کس طرح رہ سکو گے؟“ آخر اُس نے پوچھا۔
”اِسی سلسلے میں تو ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے ارشد! یہ ٹھیک ہے کہ میری موجودہ شکل و صورت اس لائق نہیں کہ میں یہاں تمہارے سیارے پر کچھ عرصہ گزارسکوں لیکن مجھ میں اس وقت یہ صلاحیت ہے کہ جو شکل چاہوں، اختیا رکر سکتا ہوں۔ ہمیں کئی روز سے کسی بڑے اچھے لڑکے کی تلاش تھی جو نیک دل، شریف اور بہادر ہو۔ اس معاملے میں میرے آقا کو تم بہت پسند آئے ہو اور آج موقع ملتے ہی میں تم سے گفت گو کر رہا ہوں تا کہ میں جلد از جلد انسانی شکل میں منتقل ہو سکوں۔“
”مگر تمہارا آقا کون ہے اور کہاں ہے؟“
”وہ اس وقت ہزاروں میل دور ایک اُڑن طشتری میں بیٹھا یہ ساری گفت گو سن اور ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ نیلی روشنی اسی اُڑن طشتری سے آ رہی ہے۔ اس روشنی میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ذریعے نہ صرف ہماری ساری گفت گو اوپر سنی جا رہی ہے بلکہ ہمیں دیکھا بھی جا رہا ہے۔“
”بہت خوب!“ ارشد کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔
اب اُس کا خوف بالکل دور ہو چکا تھا اور وہ اس دھوئیں جیسی مخلوق کی باتوں میں دل چسپی لینے لگاتھا۔
”مگر میں کس سلسلے میں تمہارے کام آ سکتا ہوں؟“
”بتاتا ہوں۔ میرے انسانی شکل میں منتقل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ تم اس کی اجازت دو، کیوں کہ جب یہ عمل ہو گا تو میں بالکل تمہارے جیسا لڑکا بن جاؤں گا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ میری جلد کے رنگ میں کچھ فرق ہو گا مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ راز جومیں تمہیں بتارہا ہوں،تم اسے اپنے دل میں رکھو گے اورہرگز ہرگز کسی کو نہیں بتاؤ گے۔ آخری بات یہ ہے کہ چوں کہ میں اس دنیا کے رسم و رواج اور بے شمار دوسری باتوں سے واقف نہیں ہوں، اس لئے تم میری راہنمائی کرو گے اورمشکل وقت میں میری مدد اور حفاظت کرو گے؟ کہو! منظور ہے؟“
ارشد کچھ دیر سر جھکائے سوچ میں ڈوبا رہا۔
”بڑی ذمہ داری کا کام ہے دوست؟“ اُس نے کہا۔ ”لیکن چوں کہ تم نے صرف مجھے ہی اس کام کے لئے چنا ہے، اس لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکا،میں تمہاری ان تمام خواہشات کو پوراکرنے کی کوشش کروں گا۔“
”بہت خوب!“ اُس اجنبی مخلوق نے کہا۔ ”اچھا ارشد! اب تم تھوڑی دیر کے لئے بے حس و حرکت کھڑے ہو جاؤ۔ میں انسانی شکل اختیا رکرنے لگا ہوں۔ ہلنا مت ……کیوں کہ یہ عمل بالکل اسی قسم کا ہے جس طرح تم لوگ کیمرے سے فوٹو لیتے ہو۔“
ارشد بے حس و حرکت کھڑا ہو گیا۔ دھواں اُس کے بالکل سامنے تھا لیکن اب وہ کبھی پھیل اور کبھی سمٹ رہا تھا۔ دھوئیں کی لہریں اور تاریں اب بڑی تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔ ہوتے ہوتے اُنہوں نے ایک انسانی شکل اختیار کرنی شروع کی۔
پھر ارشد کویوں لگا جیسے سچ مچ دھوئیں ہی کا بنا ہوا ایک لڑکا اُس کے سامنے کھڑا ہو۔ کچھ اور وقت گزر گیا۔ اب وہ دھواں منجمد ہونا شروع ہوا اور ہوتے ہوتے وہ سچ مچ کے انسانی قالب میں ڈھل گیا۔
ارشد نے حیرت زدہ ہو کر دیکھا۔ ایک خوب صورت لڑکا اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ ارشد کا رنگ گندمی تھا اور اُس کا رنگ بالکل گورا چٹا اور سرخ و سفید۔
”ہیلو ارشد!“ وہ لڑکا ہاتھ پھیلا کر آگے بڑھا۔
”آج سے ہم دونوں دوست بھی ہیں اور بھائی بھی۔ تم مجھے خالد کے نام سے پکار سکتے ہو۔“
ارشد بھی خوش ہو کر آگے بڑھا اور دونوں بغل گیر ہو گئے۔
چند لمحے کے بعد یکایک ارشد کو یوں محسوس ہوا جیسے آسمان کی طرف سے ایک اور آواز آ رہی ہے:
”سنو ارشد! میرے آقاتمہیں کچھ کہہ رہے ہیں۔“
”ارشد میاں! تمہارا بے حد شکریہ جو تم نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ میں جا رہا ہوں اور جاتے ہوئے تم سے صرف ایک ہی بات کہنا چاہتا ہوں کہ خالد کی ہر طرح سے حفاظت کرنا اور اس راز کو راز ہی رکھنا۔“
”آپ اطمینان رکھیں۔ میں نے جووعدہ آپ سے کیا ہے، اُسے پورا کروں گا۔“
”شکریہ! اب تم دونوں بھی جاؤ۔“ وہ آواز آئی۔
اور اس کے ساتھ ہی نیلی روشنی غائب ہو گئی۔ تیز سیٹی کی آواز لمحہ بہ لمحہ دور ہوتی چلی جا رہی تھی۔
”آؤ بھئی خالد! اب گھر چلیں۔ کہیں بارش نہ ہونے لگے۔“
”ہاں، ہاں! چلو! بارش سے پہلے پہلے ہمیں گھر پہنچ جانا چاہیے کیوں کہ میری جلد اتنی حساس ہے کہ اگر میں بھیگ گیا تو جسم پر ایک عجیب قسم کے چھالے سے نکل آئیں گے اور پھر بڑی مشکل پیش آئے گی۔“
”پھر تو ہمیں جلد از جلد گر پہنچ جانا چاہیے۔آؤ۔“ ارشد نے کہا۔
دونوں چل پڑے۔
گو اندھیرا پھیل چکا تھا لیکن بجلی کی روشنی میں وہ تیزی سے چلتے رہے۔
”ارے، ارے، بچنا خالد……! آگے درخت ہے۔“ ارشد چلایا۔
لیکن خالد اس کے کہتے کہتے بھی سامنے ایک شیشم کے درخت سے جا ٹکرایا جو عین راستے کے موڑ پر تھا۔ ارشد نے جلدی سے آگے بڑھ کر اُسے اوپر اُٹھایا۔
”چوٹ تو نہیں آئی؟“ ارشد نے پوچھا۔
”نہیں! بچ گیا۔“ خالد نے جواب دیا۔ ”حالاں کہ مجھے سب سے زیادہ چوٹوں ہی سے بچنا چاہیے کیوں کہ مجھے اگر کوئی زخم آ گیا اور خون بہنے لگا تو میرا خون نہیں تھمے گا بلکہ جسم میں سے آخری قطرہ بھی بہ جائے گا۔“
”اوہو! پھر تو تمہیں خاص احتیاط برتنا پڑے گی۔ لیکن یہ تم درخت سے ٹکرائے کس طرح؟“
”مجھے نظر ہی نہیں آیا ارشد!“ خالد نے جواب دیا۔
”میرا خیال ہے تمہاری نظر خاصی کمزور ہے۔ کل چل کر تمہیں عینک لگوائیں گے۔ اس کے بعد تمہیں ٹھیک دکھائی دینے لگے گا۔“
اسی طرح کی باتیں کرتے جب دونوں گھر پہنچے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔ دونوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ باقاعدہ بارش ہونے سے پہلے ہی گھر پہنچ گئے۔
……٭……
سکول میں
ارشد دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ سکول میں اس کا شمار ذہین ترین طالب علموں میں ہوتا تھا۔ اس کے والد سرور صدیقی صاحب فوج میں کرنل تھے اور آج کل کسی ٹریننگ کے سلسلے میں انگلینڈ گئے ہوئے تھے۔ اُنہیں گئے ہوئے چار مہینے ہو گئے تھے اور ابھی مزید آٹھ مہینے اُنہوں نے باہر ہی رہنا تھا۔ ارشد سوچ رہا تھا کہ خالد کے بارے میں امی سے کیا کہے گا۔ اگر اُنہوں نے خالد کو اپنے ہاں ٹھہرانے سے انکار کر دیا تو کیا ہو گا۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ ایک بالکل اجنبی لڑکے کو اپنے ہاں کس طرح ٹھہرا لیں گی۔
ارشد اور خالد جب گھر میں داخل ہوئے تو امی منتظر تھیں۔ بارش کے اس طوفان میں وہ ارشد کے آنے کا بڑی بے قراری سے انتظار کر رہی تھیں۔ اُنہوں نے ارشد اور خالد کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور پھر جب کھانے کے کمرے میں ارشد نے اپنی امی کو یہ بتایا کہ خالد اُس کا ایک بے حد گہرا دوست ہے اور یہ کہ اس کے والدین کچھ عرصے کے لیے زیارتوں کے لیے مشرقِ وسطیٰ چلے گئے ہیں اور جب تک وہ واپس نہیں آتے، یہ اُتنی دیر ہمارے ہاں رہے گا۔ تو امی نے کچھ بھی اعتراض نہ کیا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دونوں دوست سونے کے کمرے میں آ گئے۔ نوکر نے ارشد ہی کے کمرے میں ایک اور چارپائی لا کر بچھا دی تھی۔ ارشد نے اپنے چند کپڑے خالد کو دے دیے اور چوں کہ رات کافی جا چکی تھی، اس لیے دونوں کپڑے بدل کر اطمینان سے سو گئے۔ اب ارشد کو کچھ فکر نہ تھی اس لیے کہ خالد کو گھر ٹھہرانے کا مسئلہ اُس کی توقع سے کہیں زیادہ آسانی سے طے ہو گیا تھا۔
دوسرے روز صبح اُٹھنے کے بعد دونوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بھاگے بھاگے ایک ڈاکٹر کے پاس گئے۔ اس سے خالد کی عینک کا نمبر لیا اور بازار جا کر عینک بنوا لی۔ چوں کہ سکول میں اس روز چھٹی تھی اس لیے دونوں بڑے اطمینان سے یہ کام کرتے رہے۔ عینک بن گئی اور خالد نے لگا لی تو ایک بڑا مزے دار واقعہ پیش آیا۔
”ارے! اب تو مجھے ہر شے بڑی صاف نظر آ رہی ہے۔“ خالد نے بچوں کی طرح خوش ہو کر کہا۔ ”دیکھو ارشد! اب میں وہ سامنے کا بورڈ بھی بڑی آسانی سے پڑھ سکتا ہوں۔ لکھا ہے: ”کوڈک فلمیں اور کیمرے۔“
”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ اب تم واقعی پڑھ سکتے ہو۔“ ارشد نے ہنستے ہوئے کہا۔
”یار! یوں لگتا ہے جیسے کسی اور ہی دنیا میں آ گیا ہوں۔“ خالد نے کہا۔ وہ بے حد خوش نظر آ رہا تھا۔
”اس میں کیا شک ہے۔“ ارشد نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ پھر وہ جلدی سے دُکان دار کی جانب متوجہ ہوا۔
”جناب! کتنے پیسے ہوئے؟“
”پندرہ روپے۔“ دکان دار نے ایک عینک کے شیشے کو صاف کرتے ہوئے کہا۔
”پندرہ روپے۔ کس چیز کے؟“ خالد نے حیران ہو کر پوچھا۔
”عینک کے…… اور کس چیز کے؟“ دکان دار نے جواب دیا۔
”کمال ہے! یعنی پیسے بھی دینے پڑیں گے۔ یہ تو بڑی زیادتی ہے۔ یعنی ایک تومیری نظر کم زور ہے اور پھر میں پیسے بھی دُوں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ آپ میری کمزوری اور میری مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں؟“ خالد بڑی سنجیدگی سے عینک ہاتھ میں لیے کہہ رہا تھا۔
”میاں صاحب زادے! کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟“ دکان دار طنز سے بولا۔ ”چیز دی ہے اور اب اس کے دام مانگ رہا ہوں، خیرات نہیں۔“
ارشد نے اب تک روپے اپنی جیب سے نکال لیے تھے۔ جلدی سے روپے دکان دار کے ہاتھ میں تھما کر وہ خالد کو کھینچتا ہوا باہر لے آیا۔
”لیکن یہ تو خود غرضی ہے ارشد!“ خالد کہہ رہا تھا۔ ”میری نظر کی کمزوری سے اس شخص نے فائدہ اُٹھایا ہے۔ یہ زیادتی ہے!“
”نہیں خالد! یہ بات نہیں۔ تمہاری دُنیا اور ہماری دُنیا کے رسم و رواج میں بڑا فرق ہے۔ اس لیے تمہیں یہ عجیب سا لگ رہا ہے۔ اب اس بات کو بھول جاؤ۔“
مگر خالد کو اب بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ اگر اُس کی نظر کمزور ہے تو کسی دوسرے کا اس سے فائدہ اُٹھانا اگر خودغرضی نہیں تو پھر اور کیا ہے؟
سکول میں داخلے ابھی جاری تھے، اس لیے خالد کو ارشدکے کہنے پر بڑی آسانی سے داخلہ بھی مل گیا کیوں کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نہ صرف ارشد کو بڑی اچھی طرح جانتے تھے بلکہ ارشد کے والد سرور صدیقی صاحب کے پرانے اور گہرے دوست تھے۔ ارشد بے حد خوش تھا کہ بغیر کسی قسم کی دِقت کے سارے معاملات اتنی آسانی سے طے پا گئے مگر یہ اُس کی غلط فہمی تھی۔ مشکلات کا دور تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا۔
جس روز وہ دونوں پہلے دِن اکٹھے اسکول جا رہے تھے تودونوں بے حد خوش تھے۔ خالد نے سیاہ فریم والا چشمہ پہنا ہوا تھا جو اُس کے گورے چٹے رنگ پر خوب سج رہاتھا۔ دونوں نے دھاری دار بش شرٹیں اور ٹیٹرون کی پتلونیں پہن رکھی تھیں۔ ایک سے قد اور ایک سے جسم والے دونوں دوست اکٹھے چلتے ہوئے بڑے بھلے معلوم ہو رہے تھے۔
سکول کی دُعا کی گھنٹی ابھی نہیں بجی تھی اس لیے لڑکے صحن میں اور لان میں اِدھر اُدھر گھوم رہے اور گپیں مار رہے تھے۔ ان میں اسلم بھی تھا۔ سکول کا سب سے شرارتی لڑکا! اُس نے جو ایک عینک والے لڑکے کو ارشدکے ہمراہ کتابیں بغل میں دبائے آتے دیکھا تو اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ماجد کو کہنی ماری:
”ابے! یہ ارشد کے ساتھ نیا شکار کون ہے؟“ اسلم نے پوچھا۔
”معلوم نہیں!“ماجد نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔”مگر دیکھو یار، ارشد کابھائی معلوم ہوتا ہے۔ ناک نقشہ تو بالکل ویسا ہی ہے۔“
”مگر ارشد کا تو اور کوئی بھائی ہی نہیں۔ تم جانتے ہو۔“ اسلم نے کہا۔
”تو اُس کا کوئی رشتے دار ہو گا۔“ ماجد نے جواب دیا۔
”پھر ہو جائے آج بسم اللہ۔“
”ضرور، ضرور!“ ماجد بھی اسلم سے کسی طرح کم نہیں تھا۔
”تو آؤپھر!“ اسلم نے کہا۔
اور دونوں ارشد اور خالد کی طرف چل پڑے۔ وہ دونوں اپنی دُھن میں مست باتیں کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ یکایک ماجد، خالد کے قریب پہنچ کر یوں لڑکھڑایا جیسے پھسل گیا ہو اور خالد پر جا پڑا۔ خالد کا توازن بگڑا تو وہ ارشد پر جا گرا اور اس طرح تینوں زمین پرجا گرے۔
”معاف کرنابھائی!“ ماجد نے جلدی سے اُٹھ کر اُن کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کے کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ مجھے بے حد افسوس ہے۔“
”تم بالکل جھوٹ بول رہے ہو۔“ خالد نے غصہ دباتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں نہ تو اس حرکت پر افسوس ہے اورنہ تم دل سے معافی مانگ رہے ہو۔“
اسلم حیرت زدہ اُسے دیکھ رہا تھا۔ یہی حال اُس کے ساتھی ماجد کاتھا۔
”تم نے جان بوجھ کر ہمیں گرانے کی کوشش کی ہے اور اب تم بن رہے ہو۔“
”چلو چھوڑو خالد!“ ارشد نے آگے بڑھ کر کہا۔
”نہیں! میں ناراض تو نہیں ہوں۔“خالد نے کہا۔”شرارتیں ضرور کرنی چاہئیں لیکن ایسی کہ جن سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ بہرحال مسٹر! میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔ آؤ! ہم تم دوست بن جائیں۔“ خالد نے کہا۔
”ہرگز نہیں۔ تم نے مجھے جھوٹا کہا ہے۔“اب اسلم کو بھی تاؤ آگیا تھا۔”اب دوستی کیسی؟ میں تمہیں دیکھ لوں گا۔“ وہ غراتا ہوا ماجد کو ساتھ لے کر چلا گیا۔
”یہ توبہت برا ہوا خالد!“ ارشد نے کہا۔”اس لڑکے نے سارے سکول کا ناک میں دَ م کر رکھا ہے۔ اب یقینا ہم دونوں کے لیے کوئی مصیبت پیدا کرے گا۔“
”گھبراؤ نہیں ارشد! یہ ایسا ٹھیک ہو گا کہ پھر کبھی شرارت نہیں کرے گا۔“ خالد نے بڑے اعتماد سے کہا اور دونوں آگے بڑھ گئے۔
……٭……
جماعت کے کمرے میں
جماعت کے کمرے میں پہنچے تو ارشد نے اپنے دوستوں سے خالد کا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ وہ رشتے میں اس کا بھائی لگتا ہے۔ ویسے بھی وہ اب ایک دوسرے کے بھائی بن چکے تھے، اس لیے کچھ ایسی غلط بات بھی نہ تھی۔ارشد کے سارے دوستوں نے اُس کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا سوائے دو لڑکوں کے۔
صاف ظاہرہے کہ وہ دو لڑکے کون سے تھے؟ وہ اسلم اور ماجد تھے۔ جن کی تھوڑی دیر پہلے خالد اور ارشد کے ساتھ جھڑپ ہو چکی تھی۔
پہلا پیریڈ ہی تاریخ کا تھا۔ تاریخ کے اُستاد مولوی صابر صاحب تھے۔ بڑے سخت اُستاد تھے اور بڑے بڑے شیطان لڑکے بھی اُن سے پناہ مانگتے تھے۔ آج جماعت کا پہلا دن تھا اس لیے وہ بڑے موڈ میں تھے۔ حاضری لگنی شروع ہوئی۔ اُنہیں مصروف دیکھ کر ماجد نے اسلم کو کہنی ماری۔
اسلم کے ہاتھ کو حرکت ہوئی اور ایک کنکری اُڑتی ہوئی ٹھیک خالد کے ماتھے پر لگی۔ بے اختیار اُس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
ارشد جو اُس کے قریب ہی بیٹھا تھا، جلدی سے اُس کی طرف بڑھا۔ خالد نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھا ہوا تھا۔ ارشد نے جھٹ سے اُس کا ہاتھ ہٹا کر دیکھا۔
”خدا کا شکر ہے، خون نہیں نکلا۔“ وہ بڑبڑایا۔
”اسلم! تم باہر آ جاؤ۔“ مولوی صاحب کی آواز کمرے میں گونجی۔
”جی…جی… میں…؟؟“اسلم نے ہکلاتے ہوئے اور کسی قدر بنتے ہوئے کہا۔”میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔“
”ہاں! میرا خیال ہے، تم سمجھتے ہو گے کہ کسی نے تمہیں کنکری پھینکتے ہوئے دیکھا نہیں، لیکن برخوردار! یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ میں نے تمہاری شرارت دیکھ لی تھی۔“
مولوی صابر صاحب کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں اُن کا مشہور بید تھا جس سے لڑکے پناہ مانگتے تھے۔
”چلو، باہر آؤ۔“ اُنہوں نے بید سے اشارہ کیا۔
اسلم کے لیے اب کوئی چارہ نہ تھا۔
خالد بھی یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ کنکری کی چوٹ اچانک ضرور تھی لیکن بہت شدید نہ تھی۔ مولوی صابر صاحب کے تیور صاف بتا رہے تھے کہ آج اسلم کی خیر نہیں، خالد جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
”سر! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ اس نے کہا۔
”مجھے معلوم ہے، تم یہی کہو گے کہ یہ بے حد شریر لڑکا ہے اور اس سے پہلے بھی تمہیں تنگ کر چکا ہے، میاں! اس سے پورا اسکول عاجز آیا ہوا ہے لیکن آج دیکھنا، میں اس کی کھال کس طرح کھینچتا ہوں۔“ انہوں نے بید ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”جی نہیں سر!“ خالد نے پر سکون انداز میں کہنا شروع کیا۔”میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بالکل درست ہے کہ اس نے صبح بھی میرے ساتھ زیادتی کی تھی اور اب بھی۔ دونوں دفعہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی، یہ واقعی اس کی بڑی غلطی ہے، لیکن سر، اسے مارنا پیٹنا میرے خیال میں بالکل ویسی ہی ایک غلطی ہو گی۔ غلطی کو غلطی سے ختم نہیں جا سکتا۔ جرم ختم کرنے کے لیے جرم کرنا میرے خیال میں درست نہیں۔ اسلم کو معاف کر دیجیے۔“
”بکو مت اور آرام سے اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ تم تو مجھے سبق دینے چلے ہو۔ میاں! تم پڑھنے آئے ہو، پڑھانے نہیں۔ کان کھول کر سن لو، آئندہ کسی اُستاد کے کام میں دخل نہ دینا۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں، ٹھیک کرتے ہیں۔ خاموشی سے بیٹھ جاؤ ورنہ تم بھی سزا پاؤ گے۔“ مولوی صاحب نے خالد کو بری طرح سے ڈانٹ دیا اور وہ بے چارہ دُکھی دِل کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
اسلم کو مولوی صاحب نے ایک نہ دو، پورے آٹھ بیدوں کی سزا دی۔ بید کھانے کے بعد وہ بغلوں میں ہاتھ دیے اپنی سیٹ پرآ کر بیٹھ گیا۔ خالد کے لیے اس کے دِل میں نفرت اور بھی بڑھ گئی تھی۔
اس روز پڑھنا کیا تھا، مولوی صاحب نے باقی وقت لڑکوں کو نصیحتیں کرنے اور ہدایتیں دینے میں گزار دیا۔ اُن کامخاطب خاص طور پرا سلم تھا جسے وہ گزشتہ دس سال سے ہی سمجھاتے آ رہے تھے مگر اسلم نہ اب تک سنورا تھا اور نہ ہی مولوی صاحب اسے سنوار سکتے تھے۔
اگلا پیریڈ سائنس کاتھا، سائنس کے اُستاد غوری صاحب تھے۔ حاضری لگانے کے بعد اُنہوں نے مسکراتے ہوئے جماعت پر ایک نظر ڈالی۔موٹے موٹے شیشوں والی عینک سے اِس کونے سے اُس کونے تک دیکھ کر وہ کھنکارے، حلق صاف کیا اور پھر بولے:
”بچو! آج ہم کچھ باتیں کریں گے۔“لڑکے جو سائنس کے مضمون کی وجہ سے منہ لٹکائے بیٹھے تھے، ایک دم خوش ہو گئے۔
”آپ میں سے اکثر بچوں نے تو آج اخباروں میں یہ پڑھ لیا ہو گا کہ روس نے ایک سیارہ مریخ پر بھیج کر واپس اُتارلیا ہے۔ سچ پوچھو تو انسان کی یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ مریخ ان سیاروں میں سے ہے، جن میں سائنس دان ہمیشہ سے گہری دل چسپی لیتے چلے آ رہے ہیں۔ برسوں سے اس سیارے کے بارے میں تحقیق ہو رہی ہے۔ کچھ سائنس دان کہتے ہیں کہ مریخ پر ہمارے ہی جیسی کوئی ذہین مخلوق آباد ہے جو سائنس میں بے پناہ ترقی کر چکی ہے۔ مریخ پر نظر آنے والے سبز دھبوں کو یہ لوگ جنگلات اور سفید سفید چمک دار لکیروں کو نہریں کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نہریں اُنہی ذہین لوگوں نے کھیتوں اور جنگلوں کو سیراب کرنے کے لیے بنا رکھی ہیں جو مریخ میں آباد ہیں لیکن سائنس دانوں کا دوسرا گروہ کہتا ہے، نہیں یہ غلط ہے۔ مریخ ایک بالکل ویران اور مردہ سرزمین ہے جہاں پر نہ کوئی زندگی کا نشان ہے اور نہ کسی قسم کی نباتات کا وجود ہے لیکن روس کے حالیہ مصنوعی سیارے نے مریخ کی جو تصاویر لی ہیں، اُن کی روشنی میں اب اس موضوع کا بھی شاید کوئی آخری جواب تلا ش کر لیا جائے گا۔ ویسے بچو! سائنس دانوں کا ایک بہت بڑا گروہ ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ نہ صرف مریخ میں بلکہ کائنات کے سینکڑوں ہزاروں سیاروں میں ہمارے ہی جیسی مخلوق موجود ہے لیکن ظاہر ہے کہ ابھی ہمیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں شایدسینکڑوں سال لگ جائیں گے۔“
غوری صاحب بولتے بولتے رُکے تو خالد جھٹ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
”لیکن ماسٹر صاحب! اس بات میں تو شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ کائنات کے اندر ایسے لاتعداد سیارے موجود ہیں جہاں زمین کے باشندوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ذہین مخلوق آباد ہے۔یہ بات تو پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔“
غوری صاحب ایم ایس سی تھے، سائنس پر اُن کا مطالعہ بڑا وسیع تھا اور وہ ملک کے چند بہت بڑے سائنس دانوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ دُنیا کے کئی بڑے بڑے سائنسی رسالوں میں سائنس پر اُن کے مضامین چھپتے تھے۔ خالد کی بات اُنہیں اچھی نہ لگی۔ یہ ایک طرح سے اُن کے علم کے لیے چیلنج تھا۔ اُنہوں نے غور سے خالد کو دیکھا اور بولے:
”نہیں میاں! جو میں کہہ رہا ہوں، وہی صحیح ہے۔تم آرام سے بیٹھ جاؤ اور غور سے سنو، میں سائنس کی جدید ترین معلومات کی روشنی میں سب کچھ کہہ رہا ہوں۔“
”میں معافی چاہتا ہوں ماسٹر صاحب!“ خالد نے کہا۔”اگر سائنس دانوں کا علم ابھی یہیں تک پہنچا ہے تو بڑے دُکھ کی بات ہے، وہ قطعی اندھیرے میں ہیں۔ایک بہت بڑی حقیقت سے وہ ابھی تک ناواقف ہیں۔“
”ابے، جمعہ جمعہ آٹھ دن کی تم پیدائش ہو اور سائنس دانوں کو بے وقوف ثابت کر رہے ہو، اُن کی شان میں گستاخی کررہے ہو۔ تمہیں اس جرأت کی سزا بھگتنی پڑے گی۔“
غوری صاحب نے بید پکڑ لیا، اسلم کا دِل خوشی سے ناچ اُٹھا اور دوسری طرف ارشد کانپ گیا۔
”باہر آؤ، تمہیں سزا ملے گی۔ یوں بھی تم اُستاد کی بات سننے کی بجائے اُس پر تنقید کر کے نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا بھی وقت ضائع کرتے ہو۔“
”لیکن سر!میں نے تو ایک حقیقت بیان کی ہے۔“ خالد نے کہنا چاہا۔
”بکو مت! جاہل کہیں کا، کتنے اعتماد سے کہہ رہا ہے جیسے یہ خود دوسرے سیاروں میں اُنہیں دیکھ کر آیا ہے۔ چلو باہرآؤ۔“
اُنہوں نے بید ہلاتے ہوئے کہا اور خالد آہستہ آہستہ باہر کی طرف چلا۔
”یہ تو بہت برا ہوا۔“ ارشد نے دل میں سوچا۔”اگر خالد کے کہیں زیادہ چوٹ آ گئی اور خون بہ نکلا تو بڑی مشکل ہو گی، اُس کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ مجھے کچھ کرنا چاہیے۔“
اُس کا دماغ بڑی تیزی سے کام کر رہا تھا۔ ادھر خالد اب غوری صاحب کے قریب پہنچ چکا تھا اور غوری صاحب اسے قہر آلود نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
ارشد کو ایک ترکیب سوجھی اور ادھر جونہی غوری صاحب نے بید اُٹھایا، ایک کنکری لہراتی ہوئی آئی اور کھٹاک سے غوری صاحب کی ناک پر پڑی۔ وہ بلبلا اُٹھے۔
”کون تھا یہ بدتمیز؟“ وہ دھاڑے۔
”جی ارشد!“ اسلم نے جلدی سے اُٹھ کرکہا، اُس نے ارشد کو کنکری مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
”ارشد! بدتمیز لڑکے باہر آ جاؤ۔ اپنے اُستادوں کی اس طرح عزت کرتے ہیں۔ میں تمہاری چمڑی اُدھیڑ دوں گا۔“
غوری صاحب اب خالد کو تو بھول چکے تھے اور ارشد کو قہر آلود نظروں سے تک رہے تھے جو اُٹھ کر اُن کی طرف آ رہا تھا۔ خالد بھی سب کچھ سمجھ گیاکہ ارشد نے محض اُس کو بچانے کے لیے یہ حرکت کی ہے۔ ارشد کی اس قربانی سے وہ بڑا خوش ہوا لیکن وہ اپنی سزا ارشد کو ملتے ہوئے بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔اُس وقت اُس نے اپنی اُن طاقتوں سے کام لینے کا ارادہ کیا، جو اسے پیدائشی طورپر حاصل تھیں اور جو اسے بڑے خاص خاص اور مشکل موقعوں پر کام میں لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ارشد اب غوری صاحب کے قریب پہنچ چکا تھا۔
ادھر غوری صاحب نے بید اُٹھایا اور ادھر خالد نے اپنی عینک اُتارکر ہاتھ میں لے لی۔ اُس کی نظریں غوری صاحب کے سرپر جمی ہوئی تھیں اور پھر جماعت کے سب لڑکوں نے دیکھا کہ اُٹھا ہوا بید غوری صاحب کے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے جا گرا۔ اُن کے منہ سے زور سے ”ہائے!“ کی آواز نکلی اور اُنہوں نے اپنا سر تھام لیا۔
خالد کی نظریں اب بھی اُن کے سر پر جمی ہوئی تھیں، یوں لگتا تھا جیسے غوری صاحب کو شدید سرد رد کا دورہ پڑا ہو۔ بڑی مشکل سے وہ سنبھل کر بولے:
”معاف کرنا بچو! مجھے اچانک سرمیں بڑی شدید تکلیف ہو گئی ہے۔ میں باقی وقت پڑھا نہیں سکوں گا۔“
اتنا کہا اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ سب لڑکے بت بنے ہوئے خالد کو دیکھ رہے تھے جو غوری صاحب کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے کی رنگت عجیب سی ہو رہی تھی اور آنکھوں کی چمک تو شاید کئی گنا بڑھ گئی تھی۔
غوری صاحب باہر نکل گئے تو اس نے پھر چشمہ آنکھوں پر لگا لیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اپنی جگہ پر آ گیا۔
ارشد ہی نہیں، ساری جماعت کے لڑکے بڑے حیران تھے کہ غوری صاحب کو اچانک ہوا کیا اور خالد کا اس واقعے کے ساتھ تعلق کیاہے۔ ویسے انہیں اس بات کا احساس ضرور تھا کہ اس کا کوئی نہ کوئی تعلق ہے ضرور۔
اُس رات ارشد کے پوچھے پر خالد نے اُسے بتایا کہ قدرتی طور پر اُس میں چند ایسی قوتیں ہیں جو یہاں کے عام انسانوں میں نہیں ہیں۔ اُن کئی قوتوں میں سے ایک قوت یہ بھی تھی جس کے ذریعے اُس نے وقتی طور پر غوری صاحب کا نہ صرف ہاتھ مفلوج کر دیا تھا بلکہ اُن کے سر میں شدید قسم کا درد پیدا کر دیا تھا۔
دوسری طرف جماعت میں بھی خالد کے کئی اورلڑکے بڑے گہرے دوست بن گئے۔ خاص طور پر وہ لڑکے جو کسی نہ کسی طرح اسلم اور ماجد سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے دیکھ لیا تھا کہ بس ایک ہی لڑکا ہے جو اسلم سے ٹکر لے سکتاہے اور وہ خالد ہے۔
……٭……
کھیل کا میدان
خالد کو اب سکول جاتے ہوئے آٹھ، دس گزر چکے تھے۔ ایک دِن اُس نے سکول کے گراؤنڈ میں لڑکوں کو ہاکی کھیلتے ہوئے دیکھا، ارشد بھی اُس کے ہمراہ تھا۔ خالد نے بڑی حیرت سے یہ کھیل دیکھا اور پوچھا:
”ارشد! یہ لڑکے کیا کر رہے ہیں؟“
”ہاکی کھیل رہے ہیں۔“ ارشد نے جواب دیا۔
”اچھا دل چسپ کھیل ہے۔“ اُس نے کہا۔
”تمہارے ہاں بھی کوئی کھیل کھیلا جاتا ہے؟“ ارشد نے پوچھا۔
”نہیں بھائی! وہاں کسی کو کھیلنے کی فرصت ہی نہیں۔ ممکن ہے آج سے لاکھوں سال پہلے لوگ کھیلتے رہے ہوں، اب تو خیر کوئی نہیں کھیلتا۔“
ہاکی کھیلنے والے لڑکوں نے خالد اور ارشد کو آتے ہوئے دیکھ لیاتھا، ان میں خالد کے کچھ دوست بھی تھے اور خاص طور پرا ن میں اسلم بھی تھا۔
سب لوگ کھیل چھوڑ کر اُن کی طرف لپکے۔ خالد کے دوست اسے کھیل کے میدان میں دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور اسے بھی کھیلنے کی دعوت دی۔ اُن کا خیال تھاکہ خالد کو ہاکی کھیلنی یقینا آتی ہو گی۔
اسلم جو یہ باتیں سن رہاتھا، فوراً آگے بڑھا اور بولا:
”آؤ نا خالد! کھیلو تم بھی۔“
اسلم دراصل شریر اور نکما ہونے کے باوجود کھیل کے میدان میں بڑا تیز تھا۔ شاید ہی کوئی کھیل ایسا ہو جس میں اکثر اوّل یا دوم نہ آتا ہو، اُس نے خالد کو دیکھا تو سوچاکہ چلو جماعت کے کمرے میں نہ سہی، کھیل کے میدان ہی میں اُسے شکست دے کر اپنی توہین کا بدلہ لیا جائے۔
لیکن سب سے بڑی حیرانی کی بات یہ تھی کہ خالد مان گیا۔ ارشد نے یہ دیکھا تو بڑا گھبرایا۔ اُس نے سوچاکہ اسے کھیلنا تو آتا ہی نہیں، اگر خدانخواستہ کوئی چوٹ آ گئی اور خون بہنے لگا تو بڑی مشکل ہو گی۔
اُس نے دبے دبے لفظوں میں خالد کو روکنے کی بھی کوشش کی مگر اس کے کہتے کہتے ہی اسلم نے ایک ہاکی لا کر خالد کے ہاتھ میں تھما دی اور خالد میدان میں پہنچ گیا۔
اور پھر جو کچھ ارشد نے دیکھا، اس سے اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
خالدتو کسی ہاکی کے ماہر کھلاڑی کی طرح کھیل رہاتھا، وہ گیند لے کر بجلی کی سی رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا، راستے میں لڑکے اُس سے گیند چھیننے کی پوری پوری کوشش کرتے لیکن یوں لگتا جیسے گیند اُس کی ہاکی کے بلیڈ کے ساتھ چپک ہی گئی ہے اور پھرپتا اُس وقت چلتا جب وہ گول کے قریب پہنچ کر زورکی ہٹ لگاتا اور گیند گول کیپر کی بہترین کوششوں کے باوجود گزر جاتی اور گول ہو جاتا۔
پندرہ بیس منٹ کے اند ر اندر خالد نے کوئی دس گول کیے، ارشد دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔
جس طرف سے خالد کھیل رہا تھا، اُس ٹیم کے لڑکے تالیاں بجا بجا کر خالد کو داد دے رہے تھے اور دوسری جانب اسلم کا منہ تھاکہ لٹکا جا رہا تھا۔ اُس نے سوچا تھاکہ ہاکی میں اِس دُبلے پتلے سے کمزور لڑکے کو شکست دے کر بدلہ لے گا لیکن وہ تو ہاکی میں بھی اُس کی ٹکر کا تو کجا، اُس کے سامنے چوتھے، پانچویں درجے کا بھی کھلاڑی نہ تھا۔
گراؤنڈ کے اردگرد کھڑے لڑکے تالیاں بجا بجا کر خالد کو داد دے رہے تھے۔ وہ گیند لیے اس وقت برق رفتاری سے گول کی طرف بڑھ رہاتھاکہ یکایک بجلی ہی کی تیزی کے ساتھ ایک طرف سے اسلم آگے بڑھا اور خالد سے گیند چھین کر لے گیا۔
اسلم آخر ایک اچھا کھلاڑی تھا، جس خوب صورتی اور مہارت سے اُس سے گیند چھینی تھی، ارشد اس کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا لیکن دوسرے یا تیسرے لمحے ہی اُس کے منہ سے چیخ نکل گئی اور اُس نے سہم کر آنکھیں بند کرلیں، اسلم نے جو حرکت کی تھی وہ ایسی ہی خوف ناک تھی۔
خالد سے گیند چھیننے کے بعد اسلم تیزی کے ساتھ مخالف سمت بڑھا، خالد بھی کچھ فاصلے سے اس کے پیچھے تھا۔ یکایک اسلم نے دائیں طرف ہو کے اپنے ایک ساتھی کوپاس دینے کے بہانے گیند کو ایک زور دار ہٹ لگائی اور گیند بڑی تیزی کے ساتھ لہراتی ہوئی خالد کی طرف بڑھی۔ ایک لمحے کے بعد وہ پوری قوت سے خالد کے سر سے ٹکرائی۔
”یا اللہ خیر…“
ارشد ہمت کر کے دوڑتا ہوا خالد کی طرف بڑھا جو زمین پر سر پکڑے بیٹھا تھا، سب لڑکوں نے اُسے گھیراہوا تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی، کوئی کچھ کہہ رہا تھا، کوئی کچھ۔
اور یہ دیکھ کر تو ارشد کے غصے اور رنج کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اسلم جس کی یہ کارستانی تھی، وہی خالد کا سر دبارہا تھا اور بار بار معذرت کررہا تھا۔
ارشد نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور جلدی سے وہ جگہ دیکھی جہاں خالد کو چوٹ لگی تھی، اُس نے خدا کا شکرا دا کیا کہ خون نہیں نکلا تھا لیکن سرپر ایک اچھا خاص گومڑ سا بن گیا تھا۔
ارشد اسکے سر کو دباتا اور سہلاتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد خالد اُٹھ کھڑا ہوا۔ سب کو دیکھ کر مسکرایا اور ہاکی لے کر پھر میدان میں جا کھڑا ہوا۔ ارشد بھاگ کر آگے بڑھا اور بولا:
”خالد! اب مت کھیلو۔“
”کیوں؟“ اُس نے حیران ہو کر پوچھا۔
”پاگل آدمی! تمہیں چوٹ آئی ہے، میں پہلے ہی منع کرتاتھاکہ ہاکی مت کھیلو، یہ کھیل تمہارے لیے مہلک ثابت ہو گالیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ اب ہاکی چھوڑو اور چلو میرے ساتھ، مجھے خدشہ ہے کہیں تمہارے سر کی چوٹ کا خون اندر کی طرف نہ بہہ رہا ہو۔“
خالد چند لمحے غور سے ارشد کی طرف دیکھتا رہا اورپھر بولا:
”ارشد! یہ ٹھیک ہے کہ تم میرے بھائی ہو لیکن اپنے برے بھلے کی مجھے بھی تمیز ہے، زیادہ نصیحتیں مت کرو مجھے۔“
اس نے یہ کہااور پھر آگے بڑھ گیا۔
دوسرے لڑکے بھی آ پہنچے تھے، اس لیے کھیل دوبارہ شروع ہو گیا۔
ارشد، خالد کے رویے پر حیرت زدہ سا میدان کے باہر کھڑا جانے کیا کچھ سوچ رہا تھا۔ اسے غصہ بھی آ رہا تھا اور صدمہ بھی ہوا تھا لیکن اس کے باوجود وہ خالد کا ساتھ نہ چھوڑ سکتا تھا۔
ادھر کھیل کے میدان میں اسے ایک عجیب منظر دکھائی دیا، خالد گیند لیے تیزی سے گول کی طرف بڑھا۔ راستے میں ایک دو لڑکوں نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ کترا کر نکل گیا، پھر بالکل پہلے کی طرح اسلم بڑی تیز رفتاری سے خالد کے قریب پہنچا، ہاکی آگے بڑھائی اور چاہا کہ گیند چھین لے لیکن اس سے اگلے لمحے جو واقعہ ہوا وہ اپنی نوعیت کا شاید دُنیا میں پہلا اور آخری واقعہ تھا۔
خالد نے عین اُسی لمحے گیند کو ہوا میں اُچھالا اور اس کے ساتھ خود بھی چھلانگ لگائی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ خالد، اسلم کے اوپر سے گزر کر کوئی دس فٹ پرے پھر گیند لیے ہوئے گول کی طرف بڑھ رہاتھا۔
میدان تالیوں سے گونجنے لگا۔گول ہو چکا تھا۔
سکول میں شاید چھٹی ہوچکی تھی، اس لیے بیش تر لڑکے میچ دیکھنے کے لیے جمع ہو چکے تھے، ا ن میں کئی استاد بھی تھے۔
ارشد نے دیکھا ہیڈماسٹر صاحب بھی اس کے قریب ہی کھڑے تھے۔ انہوں نے بھی یہ حیران کن گول ہوتے ہوئے دیکھا تھا، شاید کسی لڑکے نے اسکول میں جا کر خالد کے زبردست کھیل کی خبر پھیلا دی تھی۔ اسی لیے سبھی اُستاد اُس کا کمال دیکھنے کے لیے جمع ہو گئے تھے۔
گول ہوتے ہی تالیوں سے میدان گونج اُٹھا، ارشد نے دیکھا ہیڈ ماسٹر صاحب بھی تالیاں بجاتے ہوئے خالد کو داد دے رہے تھے۔ پھر اُنہوں نے ارشد کی طرف دیکھا اور بولے:
”ارشد! تمہارا دوست ہاکی میں شاید دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی بن سکتا ہے۔ اسی عمر میں اس کا یہ عالم ہے تو بڑا ہوکر یہ کیاکرے گا۔“
کھیل پھر شروع ہوا۔
حسد اور شرمندگی کی وجہ سے اسلم کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ وہ پوری مہارت کے ساتھ کھیل رہا تھا، ارشد شدید غصے کے باوجود اسے داد دینے پر مجبور تھا لیکن خالد کے سامنے اس کی ایک نہ چلتی تھی۔ یوں لگتا تھاجیسے کھیل کے میدان میں دو بجلیاں کوندتی پھر رہی ہیں۔
گیند حسب معمول اب بھی خالد کے پاس تھی اور وہ برق رفتاری سے گول کرنے جا رہا تھا۔ ادھر سے ایک لڑکا لپکا اور اسے روکنے کی کوشش کی مگر اس قدر تیز رفتاری سے بھاگنے کے باوجود خالد گیند سمیت اپنی جگہ پر یوں رُک گیا جیسے دونوں کو بریکیں لگ گئی ہوں اور پیشتر اس کے کہ کوئی اور لڑکا اس کے قریب آتا، خالد نے پوری قوت سے ہٹ لگائی۔ اس کے بعد جو واقعہ ہوا، وہ پھر دُنیا میں شاید کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔
جس جگہ سے خالد نے گیند کو ہٹ لگائی تھی، وہ گول سے اتنی دور تھی کہ کبھی کوئی کھلاڑی اتنی دور سے گول کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا لیکن خالد نے پورے اعتماد سے ہٹ لگائی اور گیند بجلی کے کوندے کی طرف لپکی۔ گول کے دونوں پولز کے پیچھے ایک مضبوط جالی لگی ہوئی تھی تا کہ پریکٹس کرتے وقت لڑکوں کو گیند زیادہ دور سے اُٹھا کرنہ لانی پڑے۔
خالد کی ہٹ اس قدر زوردار تھی کہ گیند لوہے کی اس جالی کو توڑتی ہوئی کوئی نصف فرلانگ دور ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر کے قریب جا پہنچی۔ قریب تھاکہ وہ اُن کے دفترکے باہر دیواروں میں لگے ہوئے قیمتی شیشوں کو چکنا چور کر دے کہ عین وقت پر خالد کو اس زبردست نقصان کا احساس ہوا۔
”واپس آؤ۔“ اس نے گیند کی طرف دیکھ کر اسے حکم دیا۔
اور گیند شاید ایک انچ بھی آگے نہ بڑھی، جس رفتار سے وہ گئی تھی، اُسی رفتار سے وہ واپس آئی اور میدان میں گر گئی۔
خالد کے اس کمال پر وہ تالیاں گونجیں، وہ نعرے لگے کہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ لڑکوں نے خالد کو کندھوں پر اُٹھا لیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب جلدی سے آگے بڑھے اور خالد کو دس روپے انعام دیا۔ کئی دوسرے اُستادوں نے بھی اسے انعامات دیے او راس کی وہ تعریف ہوئی، وہ تعریف ہوئی کہ بے حد و حساب۔
’خالد! میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ تم اس صدی کے سب سے بڑے ہاکی کے کھلاڑی بن چکے ہو۔ شاید تمہیں اپنے اس کمال کی خبر نہ ہولیکن میرے بچے! یہ جو ہٹ تم نے لگائی ہے، ایسی ہٹ تو آج تک دُنیا کاکوئی کھلاڑی کبھی لگا ہی نہیں سکا۔ گیند لوہے کی جالی توڑتی ہوئی پہلے آگے گئی اور پھر چکر کھا کر واپس میدان میں لوٹ آئی۔ واہ وا، ہمارے سکول کو تم پر فخر ہے، خالد! تم ہمارے اسکول کا ساری دُنیا میں نام روشن کرو گے۔“
ہیڈ ماسٹر صاحب جی کھول کر خالد کی تعریفیں کررہے تھے۔ دوسرے اُستادوں نے بھی خالد کو خوب جی کھول کر داد دی تھی۔ لڑکے بھی خوش تھے اور خالد بھی بے حد مسرور تھا، لیکن ایک تو اسلم کا منہ لٹکا ہوا تھا، دوسرے ارشد خاموش تھا جو یہ سوچ رہا تھا کہ خالد کو ہو کیا گیا ہے، اُس نے اپنی خفیہ طاقتوں کو اس طرح بے مہار کیوں کر دیاہے۔
کھیل ختم ہو چکا تھا اور اب لڑکے خالد کو اپنے گھیرے میں لیے ہاسٹل کی طرف جا رہے تھے۔
لڑکوں کا معمول تھا کہ ہاسٹل کے غسل خانوں میں نہاتے اور پھر ہاسٹل میں رہنے والے تو وہیں رہ جاتے اور باقی لڑکے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے۔
”خالد! تم بھی نہاؤ گے نا؟“ کسی لڑکے کی آواز ارشد کو سنائی دی۔
”ہاں، ہاں! کیوں نہیں؟“ جواب میں اسے خالد کی آواز آئی۔
ارشد کو یاد آیاکہ خالد کے لیے پانی تو از حد نقصان دہ چیز ہے، اگر اس کی جلد پانی میں بھیگ جائے تو اسے آبلے نکل آتے ہیں مگر خالد یہ جانتے ہوئے بھی کیوں نہانے پرتیار ہو گیا ہے۔ ارشد سنجیدگی سے سوچ رہا تھا، اچانک اُس کے ذہن میں ایک خدشے نے سر اُبھارا۔
کہتے ہیں کہ اگر سر پر چوٹ آ جائے تو بعض اوقات آدمی کی یادداشت جاتی رہتی ہے۔ کہیں گیند کی چوٹ سے خالد کو اپنا ماضی تونہیں بھول گیا۔ خدا نہ کرے ایساہو اور اگر ایسا ہو گیا تو اس بے چارے کا کیا بنے گا جو ہزاروں نوری سال دور کسی دوسری دُنیا سے یہاں آیا ہوا ہے۔ارشد کے دل میں یہ شبہ پختہ ہوتا گیا، اس لیے کہ چوٹ لگنے کے فوراً ہی بعد خالدنے جس انداز سے اُس کے ساتھ باتیں کی تھیں، وہ بھی کچھ ایسی نہ تو خوش گوار تھیں اورنہ خالد کے مزاج کے مطابق تھیں۔پھر اس حادثے کے بعدہی خالد سے وہ حیران کن واقعے یا دوسرے لفظوں میں حماقتیں سرزد ہوئی تھیں جو عام حالات میں ہر گز نہیں ہونی چاہئیں تھیں اور اب وہ نہانے پربھی رضا مند ہو گیا تھا۔ ارشد کو یقین ہو گیا کہ خالد کی ذہنی حالت درست نہیں رہی، وہ جزوی یا کلی طور پر اپنی یادداشت کھو بیٹھاہے۔
”سب سے پہلے تو مجھے اسے نہانے سے روکنا چاہیے۔“
یہ سوچ کر وہ جلدی سے آگے بڑھا اور چاہا کہ خالد کے قریب پہنچے لیکن لڑکوں کا خالد کے گرد جمگھٹا ہو رہا تھا، کسی نے ارشد کو اُس تک پہنچنے ہی نہ دیا، اُس نے دو تین بار کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اِتنے میں لڑکے غسل خانوں کے قریب بھی پہنچ چکے تھے۔
خالد نے آگے بڑھ کے ایک غسل خانے کا دروازہ کھولا ہی تھاکہ ارشد دور سے ہی چیخا:
”خالد! خالد!! تم مت نہاؤ، تمہاری طبیعت بگڑ جائے گی۔“
خالد نے اور دوسرے لڑکوں نے مڑ کر ارشد کی طرف دیکھا۔
”ارشد، تمہارا بے حد شکریہ! میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے اور ٹھیک ہی رہے گی۔“ خالد نے جواب دیا اور غسل خانے کے اندر داخل ہو گیا۔
دوسرے لڑکے ارشد کو دیکھ دیکھ کر ہنسنے اور اس کا مذاق اُڑانے لگے۔
”تو سمجھتاہے کہ خالد پر صرف تیراہی حق ہے اور کسی کو اس سے بات بھی نہیں کرنی چاہیے۔“ ایک لڑکے نے ناراض ہو کر کہا۔
ارشد خاموشی سے سنتا رہا۔
آہستہ آہستہ سب لڑکے چلے گئے۔
صرف چند ایک لڑکے ایسے رہ گئے جنہوں نے نہانا تھا، سب لڑکے ایک ایک کرکے نہا کے نکل آئے اور اب دوسرے لڑکے غسل خانوں میں چلے گئے اور نہانے لگے۔ارشد، خالد کے غسل خانے کے باہر کھڑا پانی گرنے کی آواز سن رہا تھا۔ اسے بڑی حیرت ہورہی تھی کہ خالد کا غسل اتنا لمبا کیوں ہو گیا۔ جن لڑکوں کے ساتھ اُس نے نہانا شروع کیا تھا، وہ تو کب کے نکل بھی آئے تھے۔
ارشد پریشان ہو گیا۔
یقینا اندر خالد کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔
ارشد نے اِدھر اُدھر دیکھا، اتفاق کی بات ہے کہ اُس وقت کوئی اور لڑکا وہاں موجود نہ تھا، کچھ نہا رہے تھے اور باقی چلے گئے تھے۔
ارشد جلدی سے آگے بڑھا اور غسل خانے کے دروازے کی درز سے جھانک کر دیکھا اور جو منظر اُسے نظر آیا، اس سے وہ کانپ کر رہ گیا۔
خالد نے کمر کے گرد تولیہ لپیٹا ہواتھا مگر فرش پر بے ہوش پڑا ہواتھا، اوپر شاور کھلا ہواتھا جس سے پانی نکل نکل کر اس کے جسم پر پڑ رہا تھا۔
”اب کیا کروں؟“
خالد کا راز، راز ہی رہنا چاہیے تھا مگر اس وقت معاملہ ایسا تھا کہ دوسرے لڑکوں سے مدد لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ارشد زور زور سے چلانے لگا:
”اصغر، زاہد، سلیم، طاہر! بھاگو، بھاگو، دیکھو! خالد کو کیا ہو گیا ہے۔“
آس پاس جہاں جہاں تک آواز گئی، لڑکے بھاگے۔ دوسرے غسل خانوں میں سے بھی لڑکے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہن کرنکلنے لگے۔
”کیا ہوا؟“ سب لڑکوں نے ارشد سے پوچھا۔
”یار، آدھ گھنٹہ ہو گیا ہے ارشد کواندر گئے ہوئے، میں نے ابھی درز سے جھانک کر دیکھا ہے، وہ غسل خانے میں بے ہوش پڑا ہے اور شاور کا پانی اُس پر پڑ رہا ہے۔ طاہر! تم بھاگ کر جاؤ اور ہسپتال کو فون کرو کہ ایمبولینس لے کر آ جائیں، خالد اس وقت سخت خطرے میں ہے۔“
سارے لڑکے ایسے پریشان ہوئے کہ اُنہوں نے آگے بڑھ کے غسل خانے کا دروازہ ہی توڑ ڈالا۔ پھر چند ایک نے مل کر خالد کو اُٹھایا اور باہر ایک چارپائی پر لا ڈالا۔ارشد نے ایک تولیہ لے کر اُس کا جسم پونچھا لیکن یہ دیکھ کر اُس کا دِل کانپ اُٹھا کہ جہاں جہاں سے خالد کا جسم خشک ہو رہا تھا، وہاں وہاں پر موٹے موٹے مگر بالکل چوکور آبلے اُبھرتے آ رہے تھے۔ آبلوں کا رنگ گلابی تھا اور ان میں ایک عجیب سی چمک تھی۔
آس پاس کھڑے لڑکوں کا رنگ فق ہو گیا۔
خالد بے ہوش تھا، صرف سانس چل رہی تھی اور جسم کا درجہ حرارت بھی لحظہ بہ لحظہ بڑھتا چلا جا رہاتھا۔
اتنے میں ہاسٹل کے انچارج غفور صاحب بھی آ گئے، اُنہوں نے جو خالد کو اِس حال میں دیکھا تو اُن کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
”ک ک…. کیا ہوا ہے اسے؟“ اُنہوں نے ہکلا کر پوچھا۔
”جی معلوم نہیں۔ غسل خانے میں نہانے گیاتھاکہ بے ہوش ہو گیا اور اب اس کے جسم پر بھی یہ آبلے نکل آئے ہیں۔“ ارشد نے جلدی سے وضاحت کی۔
”ضرور، اس کے جسم پر کسی چھپکلی نے تھوکا ہے۔“ غفور صاحب نے کہا۔
بے چارے پرانے خیالات کے وہمی قسم کے آدمی تھے اور چھپکلیاں اُن کی بہت بڑی کم زوری تھیں، چھپکلی دیکھ کر اُن کی اِس عمر میں بھی گھگی بندھ جاتی تھی۔
”ا…ا…اسے ہسپتال پہنچاؤ۔“ اُنہوں نے کہا۔
”جی میں نے فون کر دیا ہے۔“ طاہر نے جلدی سے بتایا۔
”اچھا… اچھا…“ اُنہوں نے اطمینان کا سانس لے کر کہا۔
اسی وقت ہاسٹل کے دروازے میں ایمبولینس داخل ہو رہی تھی، ایمبولینس والوں نے جلدی جلدی ایک دو باتیں پوچھیں اور شدید خطرہ محسوس کرتے ہوئے خالد کو اُٹھا کر ایمبولینس میں ڈال دیا۔
”ساتھ کون جائے گا؟“ ایک آدمی نے پوچھا تو سب بغلیں جھانکنے لگے۔
”میں جاؤں گا۔“ ارشد نے آگے بڑھ کر کہا۔”یہ میرا بھائی ہے۔“
”چلو بیٹھو تم بھی۔“
ارشد آگے بڑھا۔
”ارشد! کل ہمیں خالد کا حال ضرور بتانا آ کر۔“ لڑکوں نے کہا۔
”اچھا! اگر ممکن ہوا تو ضرور آ ؤں گا۔“
ایمبولینس ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئی، جاتے جاتے ارشد نے دیکھا، ایک درخت کے نیچے اسلم اور ماجد کھڑے تھے مگر اُن کے چہروں پر شرارت یا خوشی تھی، رنج اور ملال نہیں تھا۔ وہ خالد کواس حال میں دیکھ کر بڑے خوش تھے۔
……٭……
ہسپتال میں
ہسپتال پہنچ کر خالد کو ایمرجنسی وارڈ میں پہنچا دیا گیا، ارشد بھی اس کے ہمراہ تھا۔ اس وقت تک خالد کا سارا جسم آبلوں سے بھرچکاتھا، صرف اُس کا چہرہ بچا ہواتھا۔
ڈاکٹر ناصر جو جلدی امراض کے ماہر تھے، فوراً وارڈ میں پہنچ گئے۔ اُنہوں نے ارشد سے پوراواقعہ سنا اور پھر خدا جانے کیسے کیسے آلات کے ساتھ خالد کا معائنہ کرنے لگے۔
”معلوم نہیں، کون سا مرض ہے، اس قسم کا میری زندگی میں یہ پہلاکیس ہے۔“ ڈاکٹر ناصر آپ ہی آپ بڑبڑا رہے تھے۔”میرا خیال ہے، مجھے سول ہسپتال کے کیپٹن ڈاکٹر حامد کو بلا لینا چاہیے۔ وہ بھی حال ہی میں جلدی امراض کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں۔“
ارشد ایک طرف مغموم کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
ڈاکٹر ناصر نے ایک طرف میز پررکھے ہوئے فون پر ڈاکٹر حامد کے نمبر ڈائل کیے اور بولے:
”ڈاکٹر! جلدی امراض میں ایک ایسا کیس اِس وقت آیا ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ طب کی تاریخ میں یہ کیس ایک یادگار ہو گا، مجھے آپ کی مدد اور مشورے کی ضرورت ہے۔ آپ فوراً چلے آئیے۔“
اُنہوں نے فون رکھ دیا اور پھر خالد کا بغور معائنہ کرنے لگے۔ مشکل سے دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک نرس نے ڈاکٹر حامدکے آنے کی اطلاع دی، ڈاکٹر حامد مسکراتے ہوئے اپنا بیگ لیے کمرے میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر ناصر سے علیک سلیک کی اور پھر وہ بھی خالد کا معائنہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔
”ڈاکٹر ناصر! آپ کا خیال درست ہے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ خدا جانے یہ کس قسم کے زہر سے ایسے خوف ناک آبلے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ ہوا کس طرح؟“ ڈاکٹر حامد نے پوچھا۔
اور ارشد کو پھر ایک بار ساری داستان سنانی پڑی۔
اب ڈاکٹر ناصر سٹیتھو اسکوپ کے ساتھ اُس کا معائنہ کر رہے تھے، یکایک وہ چلائے:
”ڈاکٹر حامد! دیکھنا، اس لڑکے کادِل بائیں طرف نہیں بلکہ دائیں طرف ہے۔ طبی سائنس کے اُصولوں کے مطابق اِسے زندہ نہیں ہونا چاہیے۔“
”ہائیں… دائیں طرف دِل ہے۔“ ڈکٹر حامد بھی اپنا سٹیتھو اسکوپ لے کر جلدی سے اُدھر کولپکے۔
”واقعی، حیرت ہے بھئی، یہ مریض طبی سائنس کے لیے بڑا قیمتی ہے۔ اب رات ہو گئی ہے، میرا خیال ہے کہ اسے آپ سونے ہی دیں، کوئی دوا ہرگز نہ دیں۔ کل اس کا اطمینان کے ساتھ دوبارہ معائنہ کریں گے۔ اس وقت میں اجازت چاہتاہوں، یوں بھی ذرا میں اس پر غور کرنا چاہتاہوں، اچھا خدا حافظ۔“
”بہت بہتر ڈاکٹر! خدا حافظ۔“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
پھر وہ کچھ دیر سوچتے اور بار بار خالد کی جلد کے مختلف حصے دیکھتے رہے۔
”ہوں!“ انہوں نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔”میراخیال ہے اس کا فوری طور پر خون ٹیسٹ کروانا چاہیے۔“ وہ بڑبڑائے۔
پھر اُنہوں نے ایک سرنج اُٹھائی اور چاہا کہ خالد کا تھوڑا سا خون نکال لیں کہ اچانک ارشد کی نظر اُن پر جا پڑی، وہ وہیں سے چیخا:
”ڈاکٹر! رُک جائیے۔“
ڈاکٹر ناصر اُ س کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
”کیا بات ہے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”ڈاکٹر صاحب! اگر آپ نے یہ سرنج اس کے جسم کے کسی بھی حصے میں داخل کر دی تویہ ہرگز زندہ نہیں بچے گا۔“ ارشد نے جلدی سے کہا۔
’کیوں، وہ کس طرح؟“ ڈاکٹر ناصر نے حیران ہو کر پوچھا۔
”وہ ا س لیے کہ اس کی جلد اتنی حساس اور خاص قسم کی ہے کہ اگر ایک بار اس میں کوئی زخم آ گیا یا کوئی سوراخ ہو گیا تو خون کبھی نہیں رُکے گا بلکہ اس کے خون کا آخری قطرہ تک جسم سے نکل جائے گا۔“
”اوہ!“ ڈاکٹر ناصر نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے کہا۔”اس لڑکے کی ہر بات ہی نرالی ہے۔“
یہ کہہ کر اُنہوں نے سرنج رکھ دی اور فرش پر اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے۔
”اچھا، اب میرا خیال ہے کہ تم بھی جاؤ اور آرام کرو۔“
کچھ دیر کے بعداُنہوں نے ارشد سے کہا:
”رات ہو چکی ہے، اب ہم کل ہی اس کے لیے کچھ کر سکیں گے۔ یوں بھی اب میں اکیلا اس کیس کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہتا۔ جاؤ، شاباش! اگر تم پسند کرو تو کل پھر آ جانا۔“
”جی! بہت بہتر۔“
ارشد کا دِل بالکل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ خالد کو چھوڑ کر جائے مگر مجبوری تھی۔ اسے جانا ہی پڑا، کل پھر آنے کے لیے۔
گھر جا کر ارشد نے جب امی کو بتایا کہ خالد کی جلد پر آبلے نکل آئے ہیں اور کس طرح اُسے ہسپتال داخل کرنا پڑا ہے تو اُنہیں بے حد صدمہ ہو۔ اُنہوں نے اُسی وقت ارشد سے کہا:
”چلو! اُسے دیکھ آئیں۔“
مگر جب ارشد نے بتایاکہ:
”وہ مکمل طور پر بے ہوش ہے اوریہ کہ اب شاید ڈاکٹر اُس سے ملنے کی اجازت بھی نہ دیں۔“تو وہ رک گئیں۔
کھانا وغیرہ کھا کر جب ارشد لیٹا تو رات گئے تک اُسے طرح طرح کے خیالات ستاتے رہے۔
”کیا خالد ٹھیک ہو جائے گا؟کیا اُس کی جلد کے آبلے جاتے رہیں گے؟کیا اُس کی یاددشت کبھی لوٹ آئے گی؟اللہ نہ کرے اگر اُس کی یادداشت واپس نہ آئی تو کیا ہو گا؟کیا پھر اُس بے چارے غیر زمینی لڑکے کویہ ساری زندگی اِسی زمین پر گزارنی پڑے گی؟“
ایسے ہی سوالوں میں گھرا ہو اوہ لیٹا رہا۔ جانے کس وقت اُسے نیند آئی اور وہ سویا۔
اگلے روز جب ارشد ہسپتال پہنچا تو اُس کی امی بھی ہمراہ تھیں۔ اُس وقت خالد ہوش میں تھا اور یہ دیکھ کر ارشد کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ خالد کے جسم کے سارے چھالے غائب ہو چکے ہیں۔
”خالد! امی بھی تمہیں دیکھنے کے لیے آئی ہیں۔“ ارشد نے امی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
”امی جان، سلام!“ خالد نے ماتھے تک ہاتھ اُٹھا کر سلام کیامگر ارشد نے دیکھا کہ اُس کا چہرہ تقریباً سپاٹ ہی رہا۔
ارشد کی امی خالد کے قریب ہی بیٹھ گئیں۔ اُس کے سرپر ہاتھ پھیرا، کچھ دیر اُس کی خیر خیریت پوچھتی رہیں۔ پھر اُنہوں نے ارشد کو ہر وقت اُس کے پاس رہنے کی تاکید کی اور دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے گھر چلی گئیں۔ارشد خوش تھا کہ امی نے اُسے خالد کے ساتھ ہر وقت رہنے کی اجازت دے دی تھی۔
……٭……
خالد گم ہو گیا
امی کے جانے کے بعد ارشد کو تنہائی میسر آئی تو اُس نے خالد پر سوالوں کی بوچھاڑکر دی۔ کل سے اب تک اُسے خالد سے کچھ پوچھنے کا موقع ہی نہ ملا تھا اور نہ اس بات کی وہ اب تک تصدیق کر سکا تھا کہ واقعی اُس کی یادداشت جاتی رہی ہے یا نہیں؟
”خالد! میں کون ہوں؟“ اُس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
”تم میرے بھائی ہو شاید!“خالد نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”شاید نہیں، صحیح صحیح بتاؤ۔“ اس نے کہا۔
”مجھے یادنہیں مگر میرا تو یہی خیال ہے کہ تم میرے بھائی ہو اور ابھی ابھی امی جان مجھے دیکھنے آئیں تھیں، کیا وہ میری اور تمہاری دونوں کی امی نہیں؟“ اُس نے پوچھا۔
”خالد! تمہیں کچھ یاد ہے کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟“ ارشد نے پوچھا۔
”بڑا عجیب سوال ہے۔“ خالد نے منہ بنا کر کہا۔”مجھے اس کا جواب معلوم نہیں۔“
”سنو خالد!“ارشد نے دل پر جبر کر کے کہا۔ ”تم میرے بھائی نہیں، دوست ہو۔یہ الگ بات ہے کہ ہم بھائیوں سے بڑھ کر ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں، مجھے یہ بتاتے ہوئے دُکھ ہو رہا ہے خالد! کہ تمہاری یادداشت جاتی رہی ہے۔ تم اپناماضی ایک حد تک بھول چکے ہو۔“
”کون سا ماضی؟ کس طرح بھول چکا ہوں؟“ خالد خالی خالی نظروں سے اُسے دیکھتا ہوا بولا۔
”خالد! تم اس سرزمین کے باشندے نہیں ہو، تم یہ بھول چکے ہو کہ تم ہزاروں سال کے فاصلے سے یہاں آئے ہوئے ہو اورایک بہت بڑے مقصد کی خاطر۔کیا تمہیں کچھ یاد آیا؟ خالد! میں تمہیں اُس روز منع بھی کرتا رہا کہ خدا کے لیے ہاکی مت کھیلو، مگر تم نے میری ایک نہ مانی اور نتیجہ یہ ہوا کہ تمہارے سر میں گیند لگی اور گیند کی چوٹ کی وجہ سے تم اپنا ماضی بھول چکے ہو۔“
”اوہ!“ خالد اپنی پیشانی مسلتے ہوئے بولا۔”اگر یہ سب سچ ہے تو بہت برا ہوا ارشد۔ مجھے تو ہرگز کچھ یاد نہیں۔میرا ذہن بالکل کورے کاغذ کی طرح ہے، مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا… کچھ بھی یاد نہیں آ رہا۔“ خالد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
”خیر،خیر!“ ارشد نے آگے بڑھ کے اُس کے آنسو پونچھے اور اُسے تسلی دے کر بولا۔”اب گھبرانے سے کچھ نہیں ہو گا، تم حوصلہ رکھو۔ مجھے اُمید ہے کوئی نہ کوئی بہتر صورت نکل ہی آئے گی۔“
ارشد اور خالد یہی باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ڈاکٹر ناصر اور ڈاکٹر حامد کمرے میں د اخل ہوئے:
”کہو بچو! کیا حال ہے؟“ دونوں نے مسکرا کر پوچھا۔
”جی! اب تو اس کے سارے چھالے غائب ہو چکے ہیں۔“ ارشد نے جواب دیا۔
”ہیں… سارے چھالے غائب ہو گئے ہیں؟“ دونوں ڈاکٹروں کے منہ سے بہ یک وقت نکلا۔
دونوں جھپٹ کر آگے بڑھے اور واقعی جب اُنہوں نے خالد کا کمبل ہٹاکر دیکھا تو اُس کے سارے جسم پر کہیں بھی کسی آبلے کا نشان نہیں تھا۔
”بھئی حد ہو گئی ہے، اِس لڑکے کی بیماری کی بھی۔“ ڈاکٹر ناصر بولے۔
”میں نے زندگی میں کبھی چوکورآبلے نہیں دیکھے اور نہ مجھے کسی طبّی کتاب میں اِس رنگ کے چوکور آبلوں کا کوئی ذکر ملا ہے۔ گھر جا کر میں تو رات کے ایک ڈیڑھ بجے تک اسی کا کیس پڑھتا رہا ہوں۔“ ڈاکٹر حامد نے کہا۔
”خیر، یہ تو اچھا ہوا کہ اِس کے آبلے دور ہو گئے، مگر سوال یہ ہے کہ وہ پیدا کیوں ہوئے؟ پھر اِس لڑکے کا دِل بھی دائیں طرف ہے۔“
”اورسنیے، کل میں جب اس کا خون ٹیسٹ کروانے کے لیے سرنج سے چند قطرے خون نکالنے لگا تو ارشد نے مجھے بتایا کہ اگر اس کے سرنج چبھو دی گئی تو اس کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نکل جائے گا۔“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”حیرت ہے، یہ مریض تو طبّی سائنس کے لیے ایک عجوبہ ہے۔“ ڈاکٹر حامد نے کہا۔”میرا خیال ہے ہمیں اپنی تحقیقات کا آغاز دو طرفہ کرنا چاہیے۔ ایک تو اِس کا پیشاب، پاخانہ ٹیسٹ کروائیں اور ایکسرے رپورٹ تیار کروائیں۔ دوسرے کسی بڑے اچھے ہپناٹسٹ کے ذریعے اِس کے ماضی کو کریدنے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے چھالے نکلنے سے بچپن کے کسی واقعے کا، خوف یا حادثے کا گہرا تعلق ہو۔ چھالے بلاوجہ تو نکل سکتے ہی نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر وہ چھالے خالص جسمانی یا دوسرے لفظوں میں جلدی بیماری کی نوعیت کے ہوتے تو اِتنی جلدی خود بخود غائب نہ ہو جاتے۔ میرا خیال ہے کہ مریض کے بچپن کی کوئی نہ کوئی پیچیدگی اِس کا باعث ہو گی۔“
”بہت بہتر ڈاکٹر! آپ جس طرح مناسب سمجھیں، کریں۔ آئیے! اس کو ہدایات دے دیں کہ وہ اس کے ایکسرے اور دوسرے ٹیسٹوں کا انتظام کرے اور ہم پروفیسر مبشر کے پاس ہو آئیں۔ وہ میرے گہرے دوست ہیں اور بڑے چوٹی کے ہپناٹسٹ ہیں۔“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”ہاں! میں بھی اُنہیں جانتا ہوں، ویسے تومیں بھی اِسے ہپناٹائز کر لیتا لیکن اگر پروفیسر مبشر مان جائیں تو اچھا ہے۔ وہ بہرحال اس کام کے بہت بڑے ماہر ہیں۔“
ارشد دونوں کی باتیں پوری توجہ سے سن رہا تھا۔ جب وہ دونوں باہر نکل گئے تو ارشد جلدی سے خالد کی طرف بڑھا۔
”خالد! غضب ہو گیا، ان لوگوں کو تمہارے سارے ماضی کا پتا چل گیا تو یہ راز بھی رازنہیں رہ سکے گا کہ تم اِس سیّارے کے اِنسان نہیں ہو۔ ہمیں کچھ کرنا چاہیے، یوں بھی اب تمہاری تکلیف تو دُور ہو ہی چکی ہے، اس لیے آؤ! یہاں سے بھاگ چلیں۔“
خالد اُس کی طرف غور سے دیکھتا رہا، پھر بولا:
”مجھے اُٹھاؤ ارشد! میرے چہرے پر چکنائی سی ملی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔مجھے ذرا اس آئینے تک لے چلو، میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔“
ارشد نے آگے بڑھ کر اُسے بستر پر سے اُٹھا یا اور سہارا دے کر آئینے تک لایا۔ خالد نے عینک اُتارکر جونہی شیشے کی طرف دیکھا، ایک چھناکے کے ساتھ وہ قد ِآدم شیشہ ریزہ ریزہ ہو کر زمین پر گر پڑا۔
”ارے! یہ کیا ہوا؟“ بے اختیار خالد کے منہ سے نکل گیا۔
شیشے کے قریب ہی ایک بہت بڑا چارٹ لٹک رہا تھا جس پر اِنسانی جسم کے مختلف حصوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ خالد کی نظر اُدھر اُٹھی تو چارٹ میں آگ لگ گئی۔
”خالد۔ خالد!! خدا کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لو، تمہاری پوشیدہ طاقتیں اب تمہارے اپنے بھی قابو میں نہیں ہیں۔ آنکھیں بند کر لو ورنہ تم تو شایدسارے ہسپتال کو تبا ہ کر کے رکھ دو گے۔“
خالد نے گھبراکر اپنی آنکھیں بند کر لیں اور عینک لگا لی۔ ارشد اُسے سہارا دے کر بستر تک لایا اور اُسے لٹا دیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ خالد کو یہاں سے کس طرح نکالا جائے؟ اُس کا بستر بھی ہسپتال کی تیسری منزل پر تھا اور سوائے لفٹ کے اور بڑی سیڑھیوں کے، اور کوئی راستہ نہ تھا اور ان دونوں راستوں سے کسی مریض کا فرار ہوجا ناناممکن تھا۔
ارشد ابھی اسی فکر میں تھا کہ نرس کمرے میں داخل ہوئی۔
”چلیے خالدمیاں! آپ کا ایکسرے ہو گا اور ہاں، پاخانے میں دو برتن رکھوا دیے گئے ہیں۔ اب اگر آپ جائیں تو اِنہیں میں رفع حاجت کیجیے گا، آپ کے پیشاب اور پاخانے کا بھی ٹیسٹ ہو گا۔“
خالدکی شاید اب قوتِ ارادی بالکل ختم ہو چکی تھی یا بے حد کمزور ہو چکی تھی۔ ارشد کے سمجھانے اور یاد دِلانے پر بھی اُسے خیال نہ آیا کہ اُسے ایکسرے ٹیسٹ نہیں کروانا چاہیے۔ مگر وہ نرس کے کہنے پر بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس کے ساتھ چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
جب خالد دوبارہ نرس کے ساتھ کمرے میں آیا تو چند لمحے بعد ہی ڈاکٹر ناصر، ڈاکٹر حامد اور ایک اور آدمی کمرے میں داخل ہوئے۔ ارشد نے اندازہ لگا لیا کہ وہ آدمی پروفیسر مبشر ہی ہوں گے، وہ ہپناٹسٹ جسے لینے کے لیے یہ دونوں ڈاکٹر خود گئے تھے۔
”یہ ہے وہ مریض پروفیسر!“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
ارشد کا اندازہ درست نکلا، وہ پروفیسر مبشر ہی تھے۔
پروفیسر مبشر بڑے اعتماد کے ساتھ مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔
”خالد میاں! اُٹھ کر بیٹھ جائیے۔“ ڈاکٹر حامد نے کہا۔”تو..ہاں..شاباش! بے شک ٹیک لگا لوتکیے کے ساتھ،…بس ٹھیک ہے۔ پروفیسر! اپنا کام شروع کریں۔“
”عینک اُتار لو لڑکے!“ پروفیسر مبشر نے کہا۔
خالدنے کسی مشینی آدمی کی طرح حکم کی تعمیل کی اور عینک اُتارلی۔
”اب غور سے میری آنکھوں میں دیکھو، کسی اور طرف نہیں دیکھنا۔ تم اب کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں سکتے۔“ پروفیسر مبشر بڑے نرم مگر کسی قدر تحکمانہ لہجے میں کہتے چلے جا رہے تھے۔
”خالد! ہاں تمہارا نام خالد ہے۔ تم میری آنکھوں میں دیکھ رہے ہو۔ اب تم میری ہر بات مانو گے، جو میں کہوں گا جس طرح کہوں گا، تم اسے بغیر کسی وجہ کے مان لو گے۔ تم اب پوری طرح میرے بس ہو، میرے اختیار میں ہو۔“
ارشد، ڈاکٹر ناصر اور ڈاکٹر حامد بڑے غور سے یہ عمل دیکھ رہے تھے۔ خالد پلکیں جھپکائے بغیر پروفیسر مبشر کی آنکھوں میں دیکھے جا رہا تھا۔
ارشد کا دِل دھک دھک کر رہا تھا۔
پروفیسر مبشر نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور پھر اُسی لہجے میں بولے:
”خالد میاں! اب تم پوری طرح میرے اختیار میں ہو، میرا حکم تم ہر صورت میں مانو گے۔ میں حکم دیتا ہوں کہ تم واپس اپنے ماضی میں، اپنے گزرے ہوئے ایام میں سفر کرو۔ اب تمہاری عمر صرف دس سال ہے، تم اب اپنی دس سال کی عمر میں لوٹ گئے ہو۔ اب تم نو سال کے ہو۔ آہستہ آہستہ عمر کی سڑھیاں طے کرتے ہوئے نیچے اُترتے چلے جاؤ۔ اب تم آٹھ سال کے ہو، اب تم سات سال کی عمر میں ہو۔ میرے ساتھ ساتھ تم بھی چلے آؤ، میری اُنگلی تھام کر چلتے آؤ۔ اب تم صرف چھ سال کے ہو، چھ سال کی عمر کی سیڑھی بھی اُتر جاؤ۔ اب تم پانچ سال کے ہو… میری آنکھوں میں دیکھتے رہو۔“ پروفیسر مبشر رک گئے۔
چند لمحے خاموشی طاری رہی۔
پھرجانے کیا ہوا۔
پروفیسر مبشر کی گردن جھک گئی، اُن کی آنکھیں بند ہو گئیں اور اُن کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ گئے۔
”ارے! یہ کیا ہوا ہے؟“ ڈاکٹر ناصر کی آواز سنائی دی۔
”میرا خیال ہے کہ پروفیسر مبشر اسے ہپناٹائز کرتے کرتے خود ہپناٹائز ہو گئے ہیں۔“ ڈاکٹر حامد نے وضاحت کی۔
کوشش کے باوجود ارشد مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
”پروفیسر! پروفیسر جاگیے، ہوش میں آئیے۔“ ڈاکٹر ناصر نے اُنہیں کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے کہا۔
”اوں، اوں، ہوں۔“ پروفیسر مبشر نے منہ بسورتے ہوئے آنکھیں کھول دیں اور چاروں طرف غور سے دیکھااورچیخ کر توتلی زبان میں کہا:
”تم نے میلی موتر کا پہیہ کُوں تولا ہے، میں تمہیں مالوں گا۔“
پروفیسر مبشر نے گھونسا کَس کر ڈاکٹر ناصرکے منہ پر رسید کیا مگر وہ جلدی سے ایک طر ف ہو گئے۔
”لیجیے! یک نہ شد، دو شد۔“ ڈاکٹر حامد نے ہنستے ہوئے کہا۔”یہ خالد کو تو اس کے بچپن میں نہ لے جا سکے مگر خود اپنی پانچ سال کی عمر میں پہنچ گئے ہیں اور موٹر کار کا پہیہ ٹوٹ جانے پر لڑ رہے ہیں۔“ ڈاکٹر حامد خاصے خوش مزاج معلوم ہوتے تھے، اُنہوں نے قہقہہ لگا یا اور ارشد بھی بے اختیار مسکرا پڑا۔
پھر ڈاکٹر حامد اور ڈاکٹر ناصر نے مل کر پروفیسر مبشر کوپکڑا اور کرسی پر بٹھایا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ڈاکٹر حامد کو بھی ہپنا ٹزم میں اچھی خاصی مہارت تھی ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔ اُنہوں نے کسی نہ کسی طرح پروفیسر مبشر کو بچپن کے اس دور سے نکالا اور اُنہیں واپس اُن کی اصل عمر میں لے آئے، پھر دونوں ڈاکٹروں نے اُنہیں کندھوں سے پکڑا اور کمرے سے باہر لے چلے۔ پروفیسر مبشر کہہ رہے تھے:
”جانے مجھے کیا ہواتھا؟ میرے سر میں اس وقت شدید درد ہے، مجھے گھر جا کر آرام کرنا چاہیے۔“
”ہاں ہاں… پروفیسر!“ ڈاکٹر حامد نے مسکراتے ہوئے کہا۔”میرا خیال ہے آپ کئی روز تک لگاتار آرام کیجیے۔“
پروفیسر مبشرکو نیچے تک پہنچا کر دونوں ڈاکٹر پھر لوٹ آئے، غالباً اُنہوں نے ڈرائیور سے کہا ہو گاکہ پروفیسر کو اُن کے گھر چھوڑ آئے۔
”اب کیا کرنا ہے؟“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔“ ڈاکٹر حامد نے جواب دیا۔
”آپ کوشش کرنا چاہتے ہیں اس ہپنا ٹائز کرنے کی؟“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”توبہ توبہ کرو بابا! پروفیسر مبشر کا حال نہیں دیکھا؟ یہ لڑکا کوئی خاص قسم کی قوت اپنے اندر رکھتا ہے، میں اِسے ہپناٹائز نہ کر سکوں گا۔خواہ مخواہ اِس پھٹے میں ٹانگ اَڑانے سے کیافائدہ؟“
”پھر ایک ہی صورت ہے!“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”وہ کیا؟“
”وہ یہ کہ امریکہ سے حال ہی میں ایک دوا آئی ہے جووہاں کے ڈاکٹر ایسے کیسوں میں استعمال کر رہے ہیں جو کوشش کے باوجود ہپناٹائز نہیں ہو سکتے۔ ایسے مریضوں کو ہپناٹائز کرنا بہرحال ہوتا ضروری ہے۔ یہ دوا کھلا کر جب مریض کوہدایات دی جاتی ہیں تو بہت جلد وہ ہپناٹائز ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے، ہمیں اس دوا کو آزما نا چاہیے۔“ ڈاکٹر ناصر نے بتایا۔
”وہ دوا یہاں موجود ہے؟“ ڈاکٹر حامد نے پوچھا۔
”ہاں! وہ دوا کوئی دو ہفتے پہلے امریکہ کے ڈاکٹروں نے خیرسگالی کے طور پر ہمارے اسپتال کو مع تمام ہدایات کے بھیجی ہے، میں لاتا ہوں وہ دوا۔“
ارشد نے یہ سنا تو اور بھی گھبرایا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ پروفیسر مبشر کے پنجے سے تو خالد بچ نکلا تھا، اب اس دوا سے بچنا مشکل ہو گا، خالد کا راز فاش ہو جائے گا۔ مگر کرے تو کیا کرے؟ خود خالد نے ہر طرح سے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر ناصر کسی دوا کی چند ٹکیاں لے کر آئے۔
”لومیاں خالد! یہ دوا کھالو۔“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
خالد نے بغیر کسی حیل و حجت کے گولیاں لیں،منہ میں ڈالیں اور کھا گیا۔ مشکل سے دس منٹ گزرے ہوں گے کہ خالد کی آنکھیں آپ ہی آپ بند ہونے لگیں، دوا کا اثر ہو رہا تھا۔
”آگے بڑھیے ڈاکٹر حامد! اب اسے آپ خود ہی سنبھالیں۔“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”خالد میاں! دیکھو، تمہیں غنودگی سی آ رہی ہے۔ تمہاری آنکھیں بھاری ہو رہی ہیں، تم کوشش کے باوجود بھی آنکھیں کھلی نہیں رکھ سکتے۔ تمہیں گہری نیند آ رہی ہے، بے حد گہری نیند۔ تم اس نیند کو ہر گز روک نہیں سکتے، تم اب مکمل طور پر ہپناٹزم کی نیند میں ہو۔ اب تم واپس اپنے بچپن میں سفر کرو گے، دیکھو! اب تم صرف آٹھ سال کے ہو، آٹھ سے سات سال کی عمر میں چلے جاؤ، سات سال سے چھ سال کی عمر میں پہنچ جاؤ۔ اب تم صرف پانچ سال کی عمر میں ہو، بتاؤ تو بھلا اس وقت کیا کر رہے ہو؟ تفصیل سے بیان کرو۔“
”میں آج بے حد خوش ہوں، آج میرے سب دوست اور رشتے دار خوش ہیں کیوں کہ آج مجھے اپنی تعلیم مکمل کر لینے پر ڈگری ملے گی، اس سلسلے میں ایک تقریب منائی جا رہی ہے۔“
”میرا خیال ہے ابھی تم صحیح عمر تک نہیں پہنچے، پانچ سے تم چھ سال کی عمر میں آ جاؤ اور خوب سوچ سمجھ کر بتاؤ کہ آج تم کیا کر رہے ہو؟“ ڈاکٹر حامد پوچھ رہے تھے۔
”آج میں اپنی پہلی خلائی پرواز پر روانہ ہونے والا ہوں، ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ایک سیّارہ ہے جونی، آج مجھے وہاں جانا ہے اور وہاں کی آب و ہوا کے بارے میں معلومات جمع کر کے لانی ہیں۔ میں آج بھی بے حد خوش ہوں۔“
”معلوم نہیں، کیا بک رہا ہے؟“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”اب تم اپنے ساتویں سال میں آ جاؤ۔“ ڈاکٹر حامد نے حکم دیا۔
”میں آج ہی ایک طویل خلائی سفر سے واپس آیا ہوں۔ مجھے ایک مہینے کی چھٹی ہے، اب میں آرام کروں گا۔بہت تھک گیا ہوں۔“
”اسے بھی چھوڑو اور اب تم اپنے پندرھویں سال میں آ جاؤ۔“ ڈاکٹر حامد نے حکم دیا۔
اُسی لمحے ارشد کو یاد آیا کہ ایک دِن خالد نے اسے بتایا تھا کہ ٹھیک جس روز اُس کی پندرھویں سالگرہ تھی، اُسی روز اُسے زمین کے سفر پر تمام ہدایات کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب خالد یہ ساری داستان اُگلنے والا تھا۔
ارشد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، تیزی کے ساتھ خالد کے بستر کی طرف بڑھا اور اُس کو جھنجوڑ ڈالا جس پر خالد نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔
”بے وقوف لڑکے! یہ تم نے کیا کِیا؟“ ڈاکٹر حامد نے گرج کر ارشد سے کہا۔”تم نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔“
”ڈاکٹر صاحب! آپ فضول اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس کی بیماری کا کسی دماغی مرض سے تعلق نہیں ہے۔ یوں بھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ پہلے دو تین بیان جو اس نے دیے ہیں وہ بھی مہمل اور بے معنی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی سائنسی ناول کا باب پڑھ رہا ہے۔ اِس پر اگر آپ کسی تشخیص کی بنیاد رکھیں گے تو بس علاج ہو چکا۔“ ارشد نے دونوں ڈاکٹروں کو اچھا خاصا لیکچر دے ڈالا۔
ڈاکٹر حامد اور ڈاکٹر ناصر اب آرام سے کرسیوں پر بیٹھ گئے اور سوچ میں ڈوب گئے۔ ارشد کی باتیں اُن کے دلوں کو لگی تھیں، خالد کے بیان سے خاک بھی اُن کے پلّے نہ پڑا تھا پھر بھلا اُس کے ذہنی بیان پر اعتماد کر کے کس طرح کوئی علاج کیا جا سکتا تھا؟
کچھ دیر مکمل خاموشی طاری رہی۔ دونوں ڈاکٹر مل کر سوچتے رہے کہ اب اگلا قدم کیا ہو؟
آخر کچھ سوچ کر ڈاکٹر ناصر اُٹھے اور نرس کو بلانے کے لیے گھنٹی بجائی، تھوڑی ہی دیر کے بعد نرس آ گئی۔
”شکیلہ! مریض کی ایکسرے رپورٹ؟“ اُنہوں نے پوچھا۔
”جی! میں ابھی پتا کرتی ہوں۔“ نرس شکیلہ نے کہا اور باہر نکل گئی۔
ادھر ارشد خالد کے کان میں آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا:
”خالد! تمہارے جسمانی نظام کا اِنہیں پتا نہیں چلنا چاہیے، سوچو کیاکِیا جائے؟ نرس تھوڑی ہی دیر میں تمہاری ایکسرے فلمیں لے کر آنے والی ہے۔“
خالد کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا:
”تم فکر نہ کرو، وہ کچھ بھی معلوم نہیں کر سکیں گے۔“
ارشد نے دیکھا،دونوں ڈاکٹروں نے سگریٹ سلگا رکھے تھے اور وہ سوچ میں ڈوبے ہوئے گہرے گہرے کَش لے رہے تھے۔ چند منٹ کے بعد نرس ایکسرے فلمیں جوکلپ میں لٹکی ہوئی تھیں، لیے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔
”نرس آ گئی ہے!“ ارشد نے خالد سے کہا۔
خالد نے اپنی آنکھوں سے چشمہ ہٹا لیا اور نرس کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی فلموں پر نگاہیں جما دیں۔ دو سیکنڈ کے بعد فلموں میں سے پہلے تو ہلکا سا دھواں اُٹھا اور پھر وہ شعلوں کی لپیٹ میں آ گئیں۔ نرس کے منہ سے ایک چیخ نکلی، فلمیں اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑیں اور چند سیکنڈ کے بعد فرش پر اُن کی راکھ رہ گئی تھی۔
ڈاکٹر حامد اور ڈاکٹر ناصر بھی یہ تحیر خیز منظر دیکھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے تھے، سب کے ہونٹوں پر گہری خاموشی تھی۔ جب سے یہ مریض آیا تھا ایک کے بعد دوسرا حیران کن واقعہ پیش آ رہا تھا۔
دونوں ڈاکٹر ابھی تک مکمل تاریکی میں تھے، اُنہیں خالد کے مرض کے بارے میں کچھ بھی تو پتانہ چلا تھا بلکہ وہ اور کئی اُلجھنوں میں پڑ گئے تھے۔
”کمال ہے۔ ایسا بھی کبھی ہوا ہے؟ فلموں کو آگ کس طرح لگی؟“ ڈاکٹر ناصر سوچ میں ڈوبے کہہ رہے تھے۔
”یوں لگتا ہے جیسے یہ ہسپتال کسی آسیب کا ٹھکانہ بن گیا ہے، حیران کن واقعات پیش آ رہے ہیں۔ ایسا مریض زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھا نہ سنا۔“ یہ ڈاکٹر حامد کی آواز تھی۔
ارشد دونوں کی باتیں بہ غور سن رہا تھا، اُن کی حیرت اور پریشانی دیکھ کر اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اُس کا جی چاہا کہ ایک زور کا قہقہہ لگا کر ہنسے مگر وہ ہنسی کو ضبط کر گیا۔ نرس بے چاری ابھی تک بت بنی کھڑی تھی، وہ خوف زدہ بھی تھی۔
”تم جاؤ شکیلہ!“ ڈاکٹر ناصر نے کہا۔
”اب کیا کِیا جائے؟“ ڈاکٹر حامد نے کہا۔
دوسری طرف ارشد خالد کے کانوں میں کہہ رہاتھا:
”خالد! اب تم بالکل ٹھیک ہو، تمہاری جلد بالکل نارمل ہو چکی ہے۔ تمہاری ذہنی تکلیف کا علاج اِن ڈاکٹروں سے نہیں ہو سکے گا، میرا خیال ہے اب ہم کسی طرح یہاں سے نکل بھاگیں۔“
”بہت اچھا!“ خالد نے کہا۔
وہ کسی مشین کی طرح اُٹھا اور پیشتر اس کے کہ ارشد اُس سے کچھ کہتا یا اُسے پکڑتا، اُس نے آگے بڑھ کے سامنے کی بڑی کھڑکی کھولی اور اُس میں سے یوں نکل گیا جیسے دروازے سے گزرتے ہیں۔ ارشد کے منہ سے خوف کے مارے ایک چیخ نکل گئی۔
”روکو… اسے روکو!“ ڈاکٹر ناصر چیخا۔
ارشد بھاگ کر کھڑکی کے قریب پہنچ چکاتھا، اُس کا خیال تھاکہ تیسری منزل سے گر کر خالد کی ہڈیاں بھی چکنا چور ہو چکی ہوں گی اور وہ نیچے ہسپتال کے صحن میں بے جان پڑاہو گا۔
مگر جو منظر اُس نے دیکھا وہ حیران کن ہی کہاجا سکتا تھا۔اُس نے دیکھا خالد شام کے جھٹپٹے میں ہوا میں تیرتا اور کلکاریاں مارتا ہوا اُڑا چلا جا رہا تھا۔ ارشد کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ سامنے ایک گھنے درخت کی شاخوں میں جا بیٹھا۔ ارشد نے اطمینان کا سانس لیا اور کھڑکی سے ہٹ آیا۔
کمرے میں وہ اَکیلا تھا۔
شاید ڈاکٹر حامد اور ڈاکٹرناصرنیچے یہ دیکھنے کے لیے جا چکے تھے کہ تین منزل اُونچی کھڑکی سے گرنے کے بعد اُن کے حیرت انگیز مریض کا کیا حلیہ ہوا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ جب اُنہوں نے نیچے جا کر دیکھا ہو گا تو اُن کا مریض اُن کی توقع کے برخلاف غائب ہو چکا ہو گا اور اُن کی بے شمار حیرتوں میں ایک اور حیرت کا اضافہ ہو گیا ہو گا۔ اُنہیں کیا پتا کہ خالد ہسپتال کے اس کونے میں پیپل کے گھنے درخت کی شاخوں میں بڑے اطمینان کے ساتھ بیٹھا ہے۔
ارشد جب نیچے پہنچا تو اُس نے دیکھا ڈاکٹرناصر چلّا چلّا کر ہسپتال کے ملازموں سے جو اِس دوران میں نیچے جمع ہو چکے تھے، کہہ رہے تھے:
”سب لوگ چاروں طرف پھیل جاؤ، یہ مریض لڑکا کسی قیمت پر یہاں سے بچ کرنہیں جانا چاہیے۔ میڈیکل سائنس کے لیے یہ مریض بڑا قیمتی ہے، اُسے ہر قیمت پر تلاش کرو۔“
ارشد کے دیکھتے ہی دیکھتے سب لوگ چاروں طرف پھیل گئے، اندھیر ا ہو چکا تھا اس لیے بعض لوگ ٹارچوں سے بھی مدد لے رہے تھے۔
ارشد دِل ہی دِل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں کسی کی نظر پیپل کے درخت پر بیٹھے ہوئے خالد پر نہ پڑ جائے یا کہیں خود خالد ہی کوئی ایسی حرکت نہ کربیٹھے جس سے اُس کی موجودگی کادوسروں کو پتا چل جائے، مگر اِسے اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ نہ تو خالد نے ایسی کوئی حرکت کی اورنہ اُسے تلاش کرنے والوں میں سے کوئی پیپل کے اُس درخت کی طرف گیا۔
آدھ پون گھنٹے کی تلاش کے بعد آخروہ سب مایوس ہو کرواپس آ گئے۔
ڈاکٹر ناصر بے چارے ہاتھ مَل رہے تھے اور کہہ رہے تھے:
”افسوس! اتنا قیمتی کیس ہاتھ سے نکل گیا… اوہ…! بہت برا ہوا… بہت براہوا…“
ارشد قریب ہی کھڑا ڈاکٹر ناصر کی بدحواسی سے لطف اندوزہو رہا تھا، پھر وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا خود بھی وہاں سے کھسک آیا۔ ہسپتال کے گیٹ سے گزرتے ہوئے اُس نے مڑکر ایک بار پیپل کے درخت پر مسکرا کر نظر ڈالی اور پھر باہر نکل آیا۔ وہ کچھ دیر تک یونہی اِدھر اُدھر بازاروں میں گھومتا رہا۔ اُس کا مقصد یہ تھا کہ اِتنی دیر میں ہسپتال کے سب لوگ اپنے اپنے کام میں لگ جائیں تا کہ وہ خالد کو اطمینان سے درخت سے اُتار کر نکال لائے۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد وہ پھر ہسپتال کی طرف چلا، اب ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ ہسپتال کی کھڑکیوں سے ہلکی ہلکی زرد سی روشنیاں نظر آ رہی تھیں، ورنہ ہر طرف گہرا اندھیرا اور مکمل سناٹا تھا۔
ارشد ہسپتال کی بیرونی چار دیواری کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا پیپل کے اس درخت کے قریب پہنچا اور پھر سر اُٹھا کر اُوپر دیکھنے لگا۔اندھیرا ہونے کے باعث گھنے پتوں کے درمیان کچھ بھی تو نظر نہ آر ہا تھا۔ ارشد کا دِل دھک سے رہ گیا، اُسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا۔ وہ کیوں خالد کو چھوڑ کر باہر چلا گیا۔
وہ یہی سوچ رہا تھا کہ یکایک اُوپر درخت میں کچھ سرسراہٹ سی ہوئی۔ ارشد نے غور سے دیکھا، بہت اُوپر چوٹی کے قریب ایک سفید سا دھبا نظر آ رہا تھا۔
”خالد!“ اُس نے آہستہ سے پکارا۔”خالد! یہ تم ہو؟“
”ہاں!“ اُسے خالد کی آواز سنائی دی، اُس کا دِل خوش ہو گیا:
”تو نیچے آؤ نا! اب ساری رات اُوپر ہی بیٹھے رہو گے کیا؟“
”اچھا، آتا ہوں۔“ خالد نے جواب دیا۔
ارشد نے سوچا، اب وہ تنے کے ساتھ آہستہ آہستہ نیچے اُترے گا لیکن ایک لمحے ہی کے بعد اُوپر شاخوں کے درمیان بڑے زور کی ہلچل ہوئی اور ارشد نے دیکھا، خالد پھر اُڑتا ہوا نیچے آ رہا تھا۔
”اب اس مداری پن سے باز آؤ خالد! آؤ میرے ساتھ، گھر چلیں۔“ ار شد نے قدرے غصّے سے کہا۔
خالد اُس کے قریب ہی آ اُترا تھا۔
ارشد نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کھینچتا ہوا ہسپتال کے گیٹ کی طرف بڑھا۔ تاریک گلیوں اور بازاروں میں سے چلتے ہوئے وہ کوئی ایک گھنٹے کے بعد آخر اپنے گھر پہنچ گئے۔
……٭……
حادثہ
ارشد نے اپنی امی کو یہی بتایا کہ خالد اب بالکل ٹھیک ہے، اس لیے اسے ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ امی یہ سن کر بہت خوش ہوئیں، چند منٹ کے لیے وہ خالد کو دیکھنے کے لیے اُس کے کمرے میں بھی گئیں لیکن چونکہ رات کافی ہو گئی تھی، اس لیے وہ اُنہیں اب سو جانے کی ہدایت کر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
دوسرے روز اتوار تھا، ارشد نے یہ سوچ کر کہ خالد کا دِل بہل جائے گا، پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا۔ امی نے بھی اُس کے پروگرام سے اتفاق کیا۔ اُنہوں نے بسکٹ، کیک، پھل، مٹھائیاں اور تھرموس میں بہت سی چائے تیار کرکے اُن کے حوالے کی اور ارشد، خالد کو اپنے ساتھ لے کر باغ کی طرف روانہ ہو گیا۔وہ دونوں سائیکل پر تھے۔
ا رشد نے سامان تو سائیکل کے کیریر پر باندھ لیا تھا اور خالد کو آگے بٹھا لیا تھا۔ چلا وہ خود رہاتھا،اس لیے کہ خالد کو تو سائیکل چلانا آتا ہی نہ تھا۔
ارشد اُس روز بے حد خوش تھا۔ سب سے زیادہ خوشی اُسے اس بات کی تھی کہ گزشتہ رات وہ خالد کو ہسپتال سے صاف بچاکر نکال لایا تھا، ورنہ حقیقت یہ تھی کہ وہ بہت بڑے خطرے میں گھر گیا تھا۔ اگر خدانخواستہ خالد کا راز فاش ہو جاتا تو معلوم نہیں کیا آفت آتی۔ ارشد نے خالد کی حفاظت کا جو ذمہ لیا تھا، وہ اب تک اُسے نباہتا چلا آ رہا تھا۔
یہ سب کچھ تھا لیکن اب ارشد کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ خالد کی یادداشت کس طرح واپس آئے گی۔ اگر اُس کی یادداشت واپس نہ آئی تو کیا ہو گا؟
تو کیا پھر اُسے ہمیشہ ہمیشہ یہیں رہنا پڑے گا یا وہ واپس چلا جائے گا؟
مگر واپس کس طرح جائے گا؟
وہ اپنے سیارے والوں سے کس طرح رابطہ قائم کرے گا؟
یہ وہ سوالات تھے جن کا اُس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ وہ انہی سوالات میں غرق چلا جا رہا تھا۔ خالد بھی بالکل خاموش تھا۔
باغ میں پہنچ کر اُنہوں نے ایک سرسبز تختہ دیکھ کر دری بچھائی اور سامان رکھ کر بیٹھ گئے۔ ان سے کچھ ہی فاصلے پر کچھ نوجوان ورزش کر رہے تھے۔ خالد اُن کی طرف بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ تو تیل مَل کر ڈنٹر پیل رہے اور بیٹھکیں لگا رہے تھے، ایک ٹولی ویٹ لفٹنگ میں مصروف تھی اور کچھ سپرنگ کھینچنے کی مشق کر رہے تھے۔
”آؤ! وہاں چلیں۔ دیکھیں، وہ کیا کر رہے ہیں؟“ خالد نے پہلی مرتبہ کوئی بات کی۔
ارشد مسکرایا اور اُس کے ساتھ ہو لیا۔
کچھ اور بے فکرے بھی قریب کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، اُنہی میں ارشد اور خالد بھی جا کر کھڑے ہو گئے۔ ایک نوجوان ویٹ لفٹنگ کر رہاتھا۔اچھا خاصا لمبا تڑنگا اور بڑا خوب صورت نوجوان۔بھرے بھرے بازوؤں اور طاقت ور جسم والا۔اُس نے ایک بار ویٹ اُٹھایا اور پھر ایک دوبالے نکال کر نیچے رکھ کر اپنے ایک ساتھی کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور پوچھا:
”کتنا وزن ہے؟“
”ایک من بیس سیر۔“ اُ س کے ساتھی نے جواب دیا۔
وزن اُٹھانے والے نوجوان نے فخر کے ساتھ گردن اَکڑا کر آس پاس کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو:
”ہے کوئی جو اتنا وزن اُٹھائے؟“
پھر وہ اپنے ساتھی کی طرف مخاطب ہوا:
”یار! اس میں کچھ اور اضافہ کرو۔“
دوسرے لڑکے نے چند لوہے کے کڑے مزید ڈال کر اعلان کیا:
”اب اس کا وزن پورے دومن ہو گیا ہے۔“
ویٹ لفٹنگ کرنے والا نوجوان مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا بڑے فخر کے ساتھ آگے بڑھا اور ایک جھٹکے کے ساتھ ویٹ اُٹھا لیا، دو بالے نکالے اور پھر زمین پر پھینک کر مسکرانے لگا۔
”اب میں ہی اُٹھاتا رہوں، کوئی اور بھی تو اُٹھائے۔“ اُس نے کہا۔
لہجہ اُس کا ایسا تھا جیسے چیلنج کر رہا ہو کہ کوئی دوسرا اتنا وزن اُٹھا کر تو دکھائے، یہ تو میں ہی ہوں جو اتنی ہمت رکھتا ہوں۔
”ارے نہیں بھائی! اتنا وزن کون اُٹھا سکتا ہے؟“ اُس کے ساتھی نے کہا۔
”بس بٹ جی! اب آپ ہٹ جائیے، ہمیں بھی اُٹھانے دیجیے۔“ ایک اورنوجوان نے کہا۔
”اچھا۔“ بٹ نے کہا۔ ”تم اب کتنا وزن اُٹھانے لگے ہو؟“
”بس تیس پینتیس سیر اُٹھا ہی لیتاہوں۔“ اُس نے جواب دیا۔
آس پاس کھڑے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص کو جانے کیا خیال آیا کہ وہ آگے بڑھا اور آستینیں چڑھانے لگا۔ سب لوگ اُس کی طرف متوجہ ہو گئے اور اُس کے ساتھی بھی مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ شخص ویٹ اُٹھانا چاہتا تھا۔
وہ آستینیں چڑھاکر آگے بڑھا اور اپنی طرف سے بڑے اعتماد کے ساتھ جھک کر دونوں ہاتھ درمیانی سلاخ پر جما کر ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ ویٹ اُٹھاناچاہا۔
دوسرے ہی لمحے قہقہوں اور تالیوں کے ساتھ میدان گونج اُٹھا کیونکہ وہ شخص اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کے باوجود بمشکل کوئی ایک فٹ کے قریب ویٹ اُٹھا سکا تھا، کھسیانا ہو کر وہ شخص ایک طرف ہٹ گیا۔
بٹ اور اُس کے ساتھی ابھی تک قہقہے لگا رہے تھے، ارشد بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ یکایک مجمع پھر چپ ہو گیا۔ ارشد نے دیکھا، خالد میدان میں پہنچ چکا تھا۔ وہ بالکل خاموش بت بنا ویٹ کی طرف دیکھ رہاتھا۔
ارشد بھی خاموش ہو گیا، اُس کے دِل کی حرکت جانے کیوں خود بخود تیز ہو گئی تھی۔ چند لمحوں کے لیے ہر طرف گہری خاموشی طاری رہی، پھر بٹ کو جانے کیا سوجھی، وہ آگے بڑھا اور خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا:
”کیا ارادہ ہے اُستاد! اُٹھاؤ گے؟“
خالد نے خالی خالی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور سرہلا دیا۔ مطلب یہ تھا کہ ہاں، اُٹھاؤں گا۔
”کتنا وزن اُٹھاؤ گے، پانچ سیر کہ دس سیر؟“ بٹ نے پوچھا۔
اس پر ایک فرمائشی قہقہہ لگا، اس لیے کہ بٹ کے ساتھ کھڑا ہواخالد یوں لگ رہا تھا جیسے ریچھ کے ساتھ خرگوش کھڑا ہو۔
”نہیں! اتنا ہی وزن رہنے دو۔“ خالد نے سنجیدگی سے کہا مگر اُس کی بات شاید بہت کم لوگوں نے سنی ہو گی۔دوسرے ہی لمحے یوں ہوا جیسے سب لوگوں کی ہنسی کو بریک لگ گئے ہوں۔
خالد نے ایک جھٹکے کے ساتھ دو من وزنی ویٹ کو یوں اُٹھا لیا جیسے کوئی تنکا اُٹھا لیا ہو۔ سب لوگ اب بت بنے اُس دبلے پتلے لڑکے کو دیکھ رہے تھے جس نے ایک عجوبہ کام کر دِکھا یا تھا۔
خالد نے تین چار بالے نکالے اور پھر ویٹ زمین پر آہستگی کے ساتھ رکھ دیا۔ خالد کا مذاق اُڑانے والے اب خاموش تھے…… بالکل خاموش!
خالد نے ایک منٹ انتظار کیا، پھر میدان میں ویٹ کے جتنے کڑے رکھے ہوئے تھے، سب کے سب سلاخ میں ڈال دیے۔
”اب اس کا وزن کتنا ہو گیا ہے؟“
”پانچ من تیس سیر۔“ ایک لڑکے نے جلے بھنے لہجے میں بڑے طنز کے ساتھ جواب دیا۔
خالد نے اُس کی طرف دیکھے بغیر صرف ایک ہاتھ کے ساتھ ویٹ کو اُٹھایا اور چار بالے نکال کر اُسے پھر زمین پر رکھ دیا۔
”آئیے بٹ صاحب!“ خالد نے بالکل سپاٹ لہجے میں کہا۔
سب لوگوں نے بٹ کی طرف دیکھا، اُس کا رنگ زرد ہو گیا تھا۔ شرمندگی کی وجہ سے اُس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے جھلملانے لگے تھے۔
مگر خالدنے اُس کے جواب کا انتظار نہ کیا اور ارشد کا ہاتھ پکڑ کر مجمع سے باہر نکل گیا۔
کچھ ہی دُور کچھ اور نوجوان گولاپھینکنے کی مشق کر رہے تھے۔ خالد، ارشد کو کھینچتا ہوا اب اُس طرف چل دیا۔
ایک نوجوان نے گولا پھینکا۔
”ناپو، کتنا ہے؟“ اُس نے خوش ہو کر نعرہ لگایا۔
فیتے سے ناپا گیا، بیس فٹ تھا۔
ایک اورنوجوان کو جوش آیا۔ اُس نے گولا پھینکا تو وہ سوا بیس فٹ دُور گیا۔ پہلے نے پھر گولا پھینکا مگر اب کے وہ صرف پونے بیس فٹ دُور ہی پھینک سکا۔
یہاں بھی خالد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، خود ہی آگے بڑھ کے گولا اُٹھا لیا۔ سب نوجوان اُسے مسکراتی ہوئی، مذاق اُڑانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
خالد گولا ہاتھ میں لیے اُسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی بچہ پہلی بار کسی خوب صورت کھلونے کو دیکھتا ہے۔ جن لوگوں نے خالد کو وزن اُٹھاتے دیکھا تھا، وہ اب یہاں بھی جمع ہو چکے تھے۔ خالد اُن کے لیے ایک عجوبے سے کم نہ تھا۔
جس طرف گولا پھینکنا تھا، اُدھر بھی کچھ لوگ آن کھڑے ہوئے تھے۔ خالد نے ہاتھ کے اشارے سے اُنہیں ایک طرف ہو جانے کا اشارہ کیا۔ جب وہ ہٹ گئے تو خالد نے پیتل کا وہ گولا ایک بار ہاتھ میں تولا اور پھر ایک ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ گولا پھینک دیا۔ پیتل کا چمک دار گولا بجلی کی طرح خالد کے ہاتھ سے نکلا۔
لوگوں کی نظروں نے گولے کا تعاقب کرنا چاہا، مگر وہ ایک ہی لحظے میں نظروں سے غائب ہو گیا۔ بعد میں جب گولا بڑی مشکل سے تلاش کر کے ناپا گیا تو وہ کوئی ایک ہزار تین سو ساٹھ فٹ کے قریب تھا۔
لوگ پھٹی پھٹی نظروں سے خالد کو دیکھ رہے تھے جو ایک بت کی طرح خاموش کھڑاتھا، پھر ارشد نے زبردستی اُس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچتا ہوا اُسے واپس لے آیا۔
”کیا پاگل پن کامظاہرہ کر رہے ہو خالد؟ تم اپنے حواس میں ہو یا نہیں؟“ ارشد نے آہستہ سے اُس کے کان میں کہا۔
”خدا کے لیے یہ کرتب مت دِکھاؤ ورنہ ہم پھر کسی مشکل میں پھنس جائیں گے۔ تمہاری خفیہ قوتیں بے لگام ہو رہی ہیں، انہیں قابو میں لانے کی کوشش کرو۔“
خالد نے خالی خالی نظروں سے ارشد کی طرف دیکھا جیسے اُس کی بات سمجھ میں نہ آئی ہو، وہ خاموشی سے اُس کے ساتھ چل رہاتھا۔ ارشد نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بے شمار لوگ اُن کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے۔
ارشد نے اب وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ اُس نے جلدی جلدی سامان اُٹھایا، درّی لپیٹی اور سائیکل کے پیچھے باندھ کر خالد کو آگے بٹھا کر ہوا ہو گیا۔ لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔
ارشد بڑی تیزی سے سائیکل چلا رہاتھا، وہ جلد ازجلد گھر پہنچنا چاہتا تھا لیکن یہ تیزی اور جلدی اُنہیں بڑی مہنگی پڑی۔
ارشدکا ذہن بری طرح اُلجھا ہوا تو تھا ہی، ایک موڑ پر جونہی اُس نے سائیکل موڑی، سامنے سے ایک تیزی سے آتی ہوئی کار نے ہارن دیا۔ کار زیادہ دُور نہیں تھی۔
ارشد گھبرا گیا۔ اُس کا ہاتھ ہینڈل پر ڈولا اور سائیکل بے قابو ہو کر لڑھک گئی۔
خالد بالکل بے پروائی سے بیٹھا ہواتھا، سائیکل گری تو وہ بھی لڑھکا اور قریب ہی ایک شیشم کے درخت سے جا ٹکرایا۔ ارشد خود بھی بہت بری طرح گرا تھا۔سائیکل اُس کے اُوپر تھی اور وہ اُس کے نیچے۔ کولھے کی بڑی ہڈی پر سخت چوٹ آئی تھی۔ گھٹنے الگ چھل گئے تھے۔ دائیں ہاتھ کی اُنگلی تو شاید ٹوٹتے ٹوٹتے بچی تھی۔ مگر وہ سب کچھ بھول کر جلدی سے خالدکی طرف بڑھا۔
”اوہ خدایا!“ اُس کے منہ سے نکلا اور اُس کا دِل گویا اُچھل کر حلق میں آ گیا۔
آخر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ خالد کی پیشانی پر زخم آ گیا تھا اور اُس میں سے خون رِ س رہا تھا۔
”یا اللہ، اب کیا ہو گا!“
خالد نے اُسے بتایا ہوا تھا کہ اگر کبھی اُس کے جسم پر کہیں زخم آ گیا اور خون بہنے لگا تو دُنیا کی کوئی طاقت اُسے بہنے سے نہ روک سکے گی، اور یوں اُس کی رگوں سے خون کی آخری بوند بھی نکل جائے گی۔
”اب کیا ہو گا… اب کیا ہو گا؟“
”کیا خالد سچ مچ اب نہیں بچے گا؟“
”کیا اس کا خون بہنا نہیں رُکے گا؟“
”کیا وہ اب خالد کے لیے کچھ نہیں کر سکے گا؟“
”یہ حادثہ میری لاپروائی کی وجہ سے ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خالد کی موت، اس کی جان جانے کی ساری ذمہ داری میرے سر ہو گی۔ اس کا خون میری گردن پر ہو گا۔“
”اوہ خدایا… اب کیا ہو گا؟“
وہ دِل میں سوچتا اور بڑبڑاتارہا، پھر اُس نے زمین پر بیٹھ کر خالد کو جھنجھوڑا:
”خالد… خالد!!“
”ہوں۔“ خالد نے ہولے سے آواز دی۔
”خالد! آنکھیں کھولو، میری طرف دیکھو۔“ بے اختیار اُس کے آنسو نکل آئے، آواز گلوگیرہو گئی۔”خالد! میری طرف دیکھو۔“
خالد نے آنکھیں کھول کر ارشد کی طرف دیکھا، پھر وہ ایک دَم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
”کیا ہواہے ارشد! کیا بات ہے، یہ ہم کہاں پڑے ہیں؟“ خالد نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہمارا حادثہ ہو گیا تھا خالد!“ ارشد نے بتایا۔ ”مگر تم چھوڑو اِن باتوں کو……“
”کیسا حادثہ؟ کس کے ساتھ حادثہ؟ ہم تو… میرا خیال ہے… مجھے یوں یاد آ رہا ہے جیسے ہم… جیسے ہم شاید ہاکی کے میدان میں تھے۔ میں وہاں… وہاں کھیل رہا تھا شاید… پھر کیا ہوا تھا… اوہ مجھے… یہ میرے سر میں درد کیوں ہے؟“ خالد نے رُک رُک کر کہا۔
”اوہ… خالد… تمہاری یادداشت شاید واپس آ گئی ہے۔!… اچھا… پہلے بتاؤ، تم کون ہو؟“ ارشد نے پوچھا۔
”یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے؟ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو؟ تمہیں پتا ہے کہ میں ایک دوسرے سیارے سے آیا ہوں، پھر کیوں پوچھ رہے ہو؟“ خالد نے حیران ہو کر کہا۔
”یہ ایک لمبی کہانی ہے خالد! ابھی اسے رہنے دو۔ میری غلطی سے تم ایک حادثے میں زخمی ہو گئے ہو او راب تمہاری پیشانی سے خون رِس رہاہے۔ خدا کے لیے مجھے اب بتاؤ کیا کریں؟ کیا میں تمہیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلوں؟“
”خون بہ رہا ہے، اوہ! اب کیا ہو گا؟“ خالد نے بھی خوف زدہ ہو کر کہا۔”اب کیا ہو گا؟ مجھے تو یہی بتایا گیا تھاکہ زخموں سے بچنا کیونکہ تمہارے زخم سے خون بند نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر کے پاس جانا فضول ہے ارشد! وہ میرے خون کو نہیں روک سکے گا۔ اب کیا ہو گا……مگر تم یہاں سے اُٹھو، کیا سڑک کے کنارے ہی بیٹھے رہو گے؟“
دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ارشد نے سائیکل سنبھالی اور اُسے اسٹینڈ پر کھڑا کر کے وہ خالد کی طرف بڑھا۔
”خالد! خون تیزی سے بہ رہا ہے، دیکھو تو تمہاری قمیص اب کیسی سرخ ہو رہی ہے، کچھ کرنا چاہیے خالد! ورنہ اس طرح تو تمہارا سارا خون نچڑ جائے گا……“ ارشد کہہ رہ تھا۔اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔
وہ اس حادثے کا ذمہ دارخود کو سمجھ رہا تھا اور اپنے آپ کو مجرم محسوس کر رہا تھا۔ پھر اُسے یکایک کچھ خیال آیا۔ اُس نے اپنی جیبی کاپی سے ایک صاف سا کاغذ پھاڑا اور خالد کے زخم پر رکھ کر اُوپر کس کر رومال باندھ دیا۔
”وقتی طورپر تو اس طرح خون رُک جائے گا ارشد ! مگر جوں ہی کاغذ اُترے گا، پھر خون بہنا شروع ہو جائے گا۔“ خالد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”چلو وقتی طور پر ہی سہی خالد! اس عرصے میں کچھ سوچتے ہیں۔ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہوگا۔ خالد! مجھے معاف کر دو، یہ حادثہ میری لاپروائی سے ہوا ہے۔“
خالد نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھا:
”اس طرح پریشان نہ ہو ارشد! تم نے جتنی میری مدد کی ہے، وہ ثابت کرتی ہے کہ تم پرخلوص دوست ہو۔ یہ حادثہ تم نے جان بوجھ کر تو کیا نہیں… اوہ ہاں…“ یکایک وہ خاموش ہو گیا اور کچھ سوچنے لگا۔
”خاموش کیوں ہو گئے ہو خالد؟“ ارشد نے دُکھی لہجے میں کہا۔
”مجھے ایک تجویز سوجھی ہے ارشد!“ خالد کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی۔”فکر نہ کرو، جس طرح میں کہتا ہوں اُسی طرح کرو۔ کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔“
”کیا تجویز ہے وہ؟“ ارشد نے پوچھا۔
”تمہیں یاد ہو گا کہ پہلی بار ہم کس مقام پر ایک دوسرے سے ملے تھے؟“
”ہاں!مگر اُس رات… وہ بڑی طوفانی رات تھی، پھر بھی میرا خیال ہے میں وہ جگہ تلاش کر لوں گا۔“ ارشد نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”آج رات ہم وہاں جائیں گے۔“ خالد نے کہا۔
”اور اتنی دیر کیا کرو گے……؟“
”میرا خیال ہے تمہارایہ کاغذ اتنی دیر تک خون کو روکے رکھے گا۔ خطرہ یہ ہے ارشد! کہ جونہی یہ کاغذ اُترا، خون پھربہنے لگے گا۔ میرا خیال ہے رات تک میں ہر ممکن احتیاط کروں گا۔“
”مگر اُس جگہ جا کر تم کیا کرو گے؟“ ارشد نے اُلجھ کر پوچھا۔
”یہ تمہیں وہیں چل کر پتا چلے گا۔ ابھی میں خود بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔“خالد نے جواب دیا۔”وہیں چل کے سب کچھ دیکھ لینا۔“
اب ارشد کو قدرے اطمینان ہوا تو اُسے کیریر پر رکھے پکنک کے سامان کا خیال آیا۔
”یار! تمہیں تو شاید یاد نہ ہو، صبح ہم دونوں پکنک منانے کے لیے نکلے تھے۔“ ارشد نے مسکرا کر کہا۔
”پھر کیا ہوا؟ تو کیا ہم نے پکنک نہیں منائی نہیں؟“ خالد نے پوچھا۔
”خاک منائی ہے پکنک۔ تم نے سارا مزا کرکرا کر دیا۔“
پھرجو ارشد نے خالد کو اُس کی وہ حرکتیں سنائیں جو اُس نے باغ میں کی تھیں، تو وہ بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔
”پھر میں تمہیں اپنے ساتھ اُن لوگوں کے درمیان سے لے بھاگا، اور اِسی بھاگم بھاگ میں یہ حادثہ کر بیٹھا۔“ ارشد نے کہا۔
”خیر چھوڑو اب اس بات کو، خدا نے چاہا تو کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکل آئے گی۔ اب آؤ چلو، کسی اور جگہ چل کر یہ کیک اور بسکٹ تو ختم کریں۔ اب یہ سارا سامان گھر تو نہیں لے جانا اُٹھا کر۔“
……٭……
ٹرانسسٹر نما آلہ
رات کا اندھیرا پھیلتے ہی خالد اور ارشد گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ وہ باقی دن خالد نے کمرے میں بند رہ کر گزارا تھا تاکہ اس کا زخم کسی طرح ڈھکا رہے اور خون نہ بہے۔ ارشد نے بھی تقریباً سارا وقت خالد کے ساتھ ہی گزارا تھا۔ وہ اسے اپنے ابا جان کی دلچسپ باتیں سناتا رہا تھا۔ خالد کو ان کی باتیں سن سن کر بڑا لطف آ یا اور اس کا دل بہلارہا۔
ارشد نے خالد کو اپنے ابا جان کی ایک بڑی سی فوٹو بھی لاکر دکھائی جس میں وہ فوجی وردی پہنے کھڑے تھے۔
رات اندھیری ہونے کے باوجود ارشد نے گھاس کا وہ کھلا سا میدان پہچان لیا جس میں پہلی مرتبہ اس کی خالد کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی اور یہاں اس نے ارشد جیسی شکل و صورت اختیار کی تھی۔
”لو خالد! ہم اس جگہ آگئے ہیں جہاں میں تم سے ملا تھا۔“ارشد نے کہا۔
”ہاں میرا خیال ہے یہی وہ جگہ ہے۔“خالد نے جواب دیا۔
”اب کیا ارادہ ہے؟“ ارشد نے پوچھا۔
”بس دیکھتے رہو۔“ اس نے جواب دیا۔
پھر وہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر غور سے کچھ دیکھنے لگا۔ چند منٹ تک دیکھنے کے بعد اس نے پوچھا۔
”مغرب اسی طرف ہے نا؟“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
”ہاں اسی طرف مغرب ہے۔“ ارشد نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے میرے ساتھ آؤ۔“ خالد نے کہا۔
اور پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ آگے چل پڑا۔
کچھ فاصلے پر سرکنڈے کی بڑی بڑی جھاڑیاں کھڑی تھیں۔خالد ان میں گھس گیا مگر ارشد وہیں باہر کھڑا رہا۔چند منٹ بعد خالد جھاڑیوں میں سے برآمد ہوا تو اس کے ہاتھ میں ٹرانسسٹر نما ایک چھوٹا سا آلہ تھا جس کے ایک طرف ٹیلی وژن جیسی سکرین بھی تھی۔
”آؤ ارشد! خدا کا شکر ہے کہ میری چیز مجھے مل گئی۔“خالد نے کہا۔اور دونوں پھر گھاس کے میدان میں آگئے۔
”بیٹھ جاؤ ارشد! یہ جگہ بڑی اچھی ہے۔“خالد نے کہا۔
جب دونوں بیٹھ گئیتو خالد نے وہ ٹرانسسٹر نما چیز زمین پر رکھ دی۔ارشد یہ سب کچھ بڑی خاموشی اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔خالد نے اس میں سے ایریل جیسی ایک لمبی سلاخ نکالی اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر غور سے کچھ دیکھنے لگا۔چند سیکنڈ کے بعد اس نے ایریل کا رخ آسمان کے ایک خاص حصے کی طرف کیا اور پھر ایک بٹن دبا دیا۔بٹن دبانے کے چند لمحے بعد ہی ایک عجیب قسم کی ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور پھر ایریل میں سے ہلکے گلابی رنگ کے بالکل شفاف چھوٹے چھوٹے سے شعلے نکل نکل کر آسمان کی طرف بلند ہونے لگے۔
ارشد حیرت سے ان شعلوں کو دیکھ رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ وہ شعلے بڑی تیزی کے ساتھ آسمان کی طرف بلند ہوتے ہوتے نظروں سے غائب ہو رہے تھے۔ خالد بھی انہی شعلوں کو دیکھ رہا تھا۔
چند منٹ اسی طرح گزر گئے۔اب ٹرانسسٹر نما چیز سے گڑگڑاہٹ کی بجائے ایک خاص قسم کی ’ٹیں ٹیں‘کی آوازیں آنے لگی تھیں۔مگر ارشد نے غور سے سنا تو اسے یوں لگا جیسے آوازیں ایک طریقے سے خاص وقفوں کے ساتھ آرہی ہیں۔
یکایک خالد نے ایک اور بٹن دبایا تو ساتھ ہی اس ٹرانسسٹر نما آلے کے ایک طرف لگی ہوئی وہ ٹیلی ویژن جیسی اسکرین روشن ہو گئی۔
ارشد نے دیکھا۔پہلے تو اس پر ایک عجیب سی دھند سی چھائی رہی۔پھر اس پر آڑی ترچھی لکیریں جو بڑی روشن تھیں، نظر آئیں اور پھر ان لکیروں کے درمیان ایک ہلکا سا نیلے رنگ کا دھبہ نمودار ہوا۔تھوڑی دیر بعد وہ لکیریں بالکل صاف ہو گئیں اور وہ دھبہ بڑھتے بڑھتے ایک اڑن طشتری کی شکل اختیار کر گیا۔
چھ منٹ اور گزرگئے۔ اب پوری اسکرین پر صرف اڑن طشتری ہی نظر آرہی تھی۔اس لمحے یکایک بالکل ان کے سروں کے اوپر دور کہیں سے ایک سیٹی کی آواز سنائی دینے لگی۔ اور چند ہی لمحوں کے بعد وہ دونوں ٹھیک اسی طرح نیلگوں روشنی میں نہا گئے۔ جیسی اس روز ارشد نے دیکھی تھی۔
اس بار بھی یہ روشنی ایک دائرے کی شکل میں تھی۔ اور وہ دونوں اس دائرے کے تقریباً درمیان میں بیٹھے تھے۔سیٹی کی آواز اب رک گئی تھی۔
یکایک ارشد نے ایک آواز سنی۔اسے یوں لگا، جیسے ٹھیک اس کے سر کے اوپر کسی نے کچھ کہا ہو۔اس نے گھبرا کر سر اٹھا کر اوپر دیکھا مگر سوائے نیلگوں روشنی کے اسے کچھ بھی نظر نہ آیا۔
ارشد نے غور سے سنا تو اسے یوں لگا جیسے کوئی کچھ کہہ رہا ہے۔مگر کیاکہہ رہا ہے؟یہ اسے معلوم نہ ہوا کیونکہ وہ زبان ایسی تھی جو اس کی سمجھ میں نہ آرہی تھی۔
بولنے والے کے جواب میں خالد بھی بولا۔
مگر ارشد خالد کی بات بھی سمجھ نہ سکا۔وہ بھی شاید اسی زبان میں بول رہا تھا جس میں کوئی دوسرا بول رہا تھا۔اب ارشد کچھ کچھ سمجھ گیا تھا کہ یہ سب کیا قصہ ہے۔
خالد نے شاید اس عجیب و غریب ٹرانسسٹر نما آلے کے ذریعے اپنے سیارے میں پیغام بھیجا تھا کہ وہ سخت خطرے میں ہے اور وہاں سے کوئی اس کی مدد کے لیے فوراً ہی آگیاتھا۔ اب یقینا وہ خالد سے باتیں کر رہاتھااور اس کی مشکل دریافت کر رہا تھا۔
تھوڑی دیر تک خالد اورکسی ان دیکھی ہستی کے درمیان گفتگو ہوتی رہی۔پھر خالد اٹھ کھڑا ہوا اور ارشد کی طرف دیکھ کر بولا:
”ارشد تم بھی اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ۔ مجھے ایک بار پھر تمہاری ضرورت ہے۔“
”کیامطلب؟“ ارشد نے ایک دم کھڑے ہوکر پوچھا۔
”مجھے پھرایک بار پہلے اپنی شکل میں منتقل ہوکر پھر تمہاری صورت اختیار کرنی ہوگی۔ اس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔موجودہ جسم جس میں زخم آگیا تھا، اب میرے لیے بے کار ہو چکا ہے۔مجھے پھر سے نئے جسم میں منتقل ہونا ہوگا۔“
”اوہ!“ ارشد کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔
اب اس نے جو غور سے خالد کے چہرے کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بڑا بجھا بجھا سا نظر آرہا ہے۔یکا یک ایک شبہے نے اس کے دل میں سر اٹھایا۔
”خالد!“اس نے پوچھا۔”پہلے مجھے ایک بات کا جواب دو۔“
”پوچھو!“ خالد نے کہا۔
”کہیں اب تم واپس جانے کے لیے تیار تو نہیں ہو رہے؟ایسا نہ ہو کہ اپنے جسم میں منتقل ہونے کے بعد تم چلے ہی جاؤ۔“
ارشد کی یہ بات سن کر خالد مسکرایا۔پھر اس نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا:
”نہیں ارشد!ایسی کوئی بات نہیں۔میرا کام ابھی ختم بھی نہیں ہوا۔فی الحال میں واپس نہیں جاؤں گا۔اطمینان رکھو۔“
یہ کہہ کر خالد چند قدم پیچھے ہٹ گیا اور دونوں بازو سر سے اوپر اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔اسی وقت ہلکی نیلگوں روشنی کے اندر تیرتی ہوئی ایک شوخ سبز رنگ کی روشنی کی شعاع بڑی تیزی کے ساتھ نیچے اترتی نظر آئی۔یہ شعاع سیدھی خالد کے اوپر پڑی۔شعاع کیا تھی کوئی جادو تھا۔
ارشد کے دیکھتے ہی دیکھتے خالد کا جسم سکڑا، سمٹا،پگھلا اور غائب ہوگیا۔چند لمحوں کے اندر اندر وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ارشد کانپ گیا۔
سبز رنگ کی شعاع جس طرح نیچے اتری تھی اسی طرح واپس چلی گئی۔
اب ارشد نے دیکھا شعاع والی جگہ پر دھویں کی ویسی ہی لکیریں لہرا رہی تھیں جیسی اس نے پہلے روز اسی جگہ دیکھی تھیں۔
”خالد! یہ تم ہو نا؟“ ارشد نے یوں ہی ایک بے معنی سا سوال پوچھ لیا۔
”ہاں ارشد! یہ میں ہی ہوں۔“یہ خالد کی آواز تھی۔
مگر جانے یہ آواز کہاں سے آرہی تھی اور اسے کس طرح سنائی دے رہی تھی ورنہ دھویں کی چند لکیروں کے بولنے کاتو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
”ارشد! اب تیار ہو جاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ، ہلنا نہیں۔میں اب پھر تمہاری شکل اختیار کرنے لگاہوں۔“خالد کی آواز آئی۔
”بہت بہتر!“ ارشد نے کہا،اور تن کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔
”یہ ذرا سر سے ٹوپی اتار دو مہربانی کرکے۔“خالد کی ہنستی ہوئی آواز آئی۔”ورنہ میرے سر پر ایک بال بھی نہیں ہوگا۔“
”اوہ بھول گیا۔“
ارشد نے جلدی سے وہ اونی ٹوپی جو اس نے سردی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض شوق کی وجہ سے پہن رکھی تھی، اتار کر دور رکھ دی اور پھر سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا۔
”ارشد حرکت مت کرنا۔ کام شروع ہونے والا ہے۔“
”بے فکر رہو میں حرکت نہیں کروں گا۔“ارشد نے جواب دیا۔
دھویں کا وہ مرغولہ جو اس وقت ارشد کے سامنے تھا، اس میں حرکت پیدا ہوئی۔ دھویں کی نیلی لکیریں بڑی تیزی کے ساتھ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر حرکت کرنے لگیں۔حرکت کرتے کرتے یہ دھویں کی لکیریں گہری ہونے لگیں پھر انہوں نے ایک انسانی شکل وصورت اختیار کرنی شروع کردی۔ پھر یہ شکل و صورت ٹھوس ہونے لگی۔ہوتے ہوتے وہ پہلے کی طرح بالکل ارشد کی شکل میں آگیا۔
خالد نے آنکھیں جھپکائیں اور ارشد کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔ارشد بھی مسکرایا۔
خالد نے بانہیں پھیلا دیں اور ارشد دوڑ کر اس سے لپٹ گیا۔
”خالد! خالد! اب تم بالکل ٹھیک ہونا؟“ارشد نے کہا۔”ٹھہرو مجھے ذرا پیشانی دیکھنے دو۔“
ارشد نے غور سے خالد کی پیشانی دیکھی مگر اس پر زخم کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔جلد بالکل صاف تھی۔
”ہاں ٹھیک ہے۔“
خالد اس کی بات سن کر ہنسا اور بولا۔”ارشد اب زخم کا نشان کہاں ہوگا۔میرا جسم وہ پہلے والا جسم نہیں۔ یہ بالکل نیا اور تازہ جسم ہے۔“
”ہاں ٹھیک ہے مگر یار خالد! مجھے تو یہ واقعہ کوئی جادو معلوم ہو رہا ہے۔ حد ہو گئی بھئی یعنی دوسرے لفظوں میں تم ایک بار ختم ہو کر پھر نئے سرے سے بن گئے ہو۔کمال ہے۔“
”جادو،وادو کچھ نہیں ارشد! یہ سارا سائنس کا کھیل ہے۔ اور بالکل معمولی بات ہے۔“ خالد نے ہنس کر کہا۔”اب تم بے شک اپنی وہ ٹوپی دوبارہ پہن لو۔“
”اوہ شکریہ یاد دلانے کا۔اور تم اپنی عینک لگاؤ جو تم نے اتار کر رکھ دی تھی۔“ارشد نے کہا۔
خالد نے عینک پہن لی اور پھر اسی عجیب سی زبان میں کچھ کہا۔
نیلی روشنی آناً فاناً غائب ہوگئی۔ ایک لمحے کے بعد وہی سیٹی کی آواز سنائی دی جو دور ہوتے ہوتے بالکل غائب ہوگئی۔
”یہ سب کیا قصہ تھا خالد؟“ارشد نے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں۔“خالد نے وہ ٹرانسسٹر نما آلہ زمین سے اٹھا کر چلتے ہوئے کہا:
”اس مشکل وقت میں میں نے اپنے آقا سے مدد طلب کی تھی۔وہاں سے فوراً ایک سائنس دان کو،جو ایک اڑن طشتری پر گشت کرتا پھرتا تھا،میری طرف بھیج دیا گیا۔اور وہ مجھے ٹھیک کرکے واپس چلا گیا۔خطرہ یہ تھا کہ میری بے احتیاطی پر کہیں آقا ناراض ہو کر مجھے واپس نہ بلا لیں مگر خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے جب اصل بات سنی تو ناراض نہیں ہوئے بلکہ بڑی شاباش دی کہ تم نے میری کتنی مدد کی۔اسی خوشی میں انہوں نے مجھے مزید کچھ عرصہ ٹھہرنے کی اجازت دے دی ہے۔“
”بہت خوب!“ ارشد نے کہا۔”اور یہ کیا چیز ہے؟“اس نے ٹرانسسٹر نما آلے کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
”اسے ہماری زبان میں ”کنسولو“ کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ریڈیائی طریقے سے اپنے سیارے پر پیغام بھیجا تھا۔“
”مگر ایسی قیمتی چیز کو یہاں سرکنڈوں میں کیوں رکھا ہوا تھا؟“ ارشد نے پوچھا۔
خالد مسکرایا:”اصل میں بات یہ ہے ارشد کہ یہ آلہ بے حد قیمتی ہے۔ خاص طور پر مشکل وقت میں یہی میرا سب سے بڑا سہارا تھا۔ گو یہ درست ہے کہ تم نے پہلے روز ہر طرح سے ہمارے ساتھ تعاون کیا تھا مگر مجھے اور میرے آقا کو پہلے دن تم پر ابھی اتنا بھروسہ نہیں تھا کہ ایسی قیمتی چیز کی تمہیں ہوا بھی لگنے دی جاتی یا میں تمہارے ساتھ گھر لے جاتا۔مگر بعد میں تم نے جو سلوک کیا اور جس محبت سے میرے ساتھ پیش آئے۔اس نے یہ آلہ بھی مجھے بھلا دیا۔مجھے تو یہ یاد ہی نہ رہاتھا۔وہ تو جب میں زخمی ہوا تو مجھے یاد آیا کہ اس کے ذریعے مدد لی جا سکتی ہے۔“
اب اسے گھر ہی لے چلو۔ یہاں یہ ہر گز محفوظ نہیں ہے۔چرواہے اکثر یہاں جانور چرانے کے لیے آتے ہیں۔کہیں کسی کی نظر پڑ گئی تو اٹھا کر لے جائے گا۔“ارشد نے مطمئن ہوکر کہا۔
”بالکل ٹھیک ہے۔ اب ہم یہ گھر ہی لے جائیں گے۔وہاں یہ زیادہ محفوظ رہے گا۔“خالد نے جواب دیا۔
”چلو اب چلیں۔ساڑھے نو بج رہے ہیں۔کہیں امی پریشان نہ ہو رہی ہوں۔“ارشد نے کہا۔
اور دونو ں گھر کی طرف چل پڑے۔
……٭……
خوف ناک آتش زدگی
دوسرے روز جب ارشد اور خالد سکول گئے تو جاتے ہی سکول کے سب لڑکوں نے انہیں گھیر لیا اور خوب خوب مبارک بادیں دیں۔دونوں بڑے حیران ہوئے کہ مبارک بادیں کس چیز کی!
آخرپوچھنے پر پتا چلا کہ گزشتہ روز خالد نے باغ میں گولہ پھینکنے اور وزن اٹھانے کا جو معرکہ سر انجام دیا تھا، وہ آج ملک کے تمام اخباروں میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا تھا۔
ہوا یہ تھا کہ کسی اخباری نمائندے نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسے کہیں سے یہ بھی پتا چل گیا کہ خالد کس سکول کا طالب علم ہے اور اس کا نام کیا ہے۔بس پھر کیا تھا اس نے فوراً بڑی زور دار خبر بنا کر اپنی اخباری ایجنسی کو بھیج دی جس نے یہ خبر سب اخباروں میں شائع کرادی۔ بعض اخباروں نے تو باقاعدہ اس خبر پر اداریے بھی لکھے تھے اور حکومت کو یہ مشورے دیے تھے کہ اس ہونہار بچے کو فوراً اپنی نگرانی میں لے کر اس کی مزید تربیت کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ آئندہ وہ عالمی اولمپک کھیلوں میں شریک ہو کر ملک کا نام روشن کر سکے۔
خالد اور ارشد کو جب تفصیل سے اس خبر کا پتا چلا تو وہ خوش بھی ہوئے اور انہیں ہنسی بھی بہت آئی۔کیونکہ اصل میں تو یہ محض خالد کی حماقت تھی اور وہ حماقت اب اتنا اہم واقعہ اور اتنی بڑی خبر بن گئی تھی۔بہرحال معاملہ خاصا پر لطف تھا۔
بات یہیں پر ختم نہ ہوئی۔
گھنٹی بجی اور سب لڑکے دعا کے لیے سکول کے صحن میں جمع ہو گئے۔ سب استاد اور ہیڈ ماسٹر بھی وہاں موجود تھے۔
دعا ختم ہوئی تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب لڑکوں کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔جب سب لڑکے بیٹھ گئے تو انہوں نے خالد کو کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔ہیڈ ماسٹر صاحب اس کے قریب آئے، اسے شاباش دی۔پیار کیا اور پھر سب لڑکوں کو پہلے اخبار میں سے وہ خبر پڑھ کر سنائی جس میں خالد کے کارنامے کا ذکر تھااور پھر خالد کی تعریف میں ایک لمبی چوڑی تقریر بھی کر ڈالی۔جس میں انہوں نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ خالد نے ان کے سکول کا نام روشن کردیا اور اب وہ ان شاء اللہ ملک کا نام بھی روشن کرے گا۔
خالد بے چارہ یہ سب کچھ گردن جھکائے سن رہا تھا۔اتنے سارے لڑکوں کے سامنے اپنی تعریفیں سن سن کروہ کچھ عجیب سا محسوس کر رہا تھا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب کے تعریفی جملوں پر لڑکے بار بار تالیاں بجا رہے تھے۔ مگر دو لڑکے ایسے بھی تھے جو جل بھن کر کباب ہوئے جا رہے تھے۔صاف ظاہر ہے کہ وہ دو لڑکے اسلم اور ماجد ہی ہو سکتے تھے۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ ابھی وہ خالد کو سب لڑکوں کے سامنے مرغا بنادیتے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب اپنی تقریر کر چکے تو انہوں نے سب لڑکوں کو اپنے اپنے کمروں میں جانے کے لیے کہا۔خالد کو انہوں نے جاتے جاتے بھی پیار سے تھپکی دی،اور مسکراتے ہوئے اپنے دفتر کی طرف چلے گئے۔
غالباً تیسرا یا چوتھا پیریڈ تھا کہ اچانک سکول میں ہر طرف شور مچ گیا۔ہر طرف ایک افرا تفری مچ گئی۔ سب لڑکے گھبرا کر اپنی اپنی جماعتوں میں سے باہر نکلنے لگے۔ہر طرف بھگدڑ سی مچ گئی۔
خالد اور ارشد بھی اپنی جماعت کے کمرے سے نکل تو آئے مگر ابھی انہیں یہ پتا نہیں چلاتھا کہ یہ سب ہنگامہ کیسا اور کیوں ہے۔چند ایک لڑکوں سے انہوں نے پوچھنے کی کوشش کی بھی، مگر وہ بھی کوئی جواب نہ دے سکے۔اچانک خالد نے مڑ کر دیکھا تو معاملہ فوراً اس کی سمجھ میں آگیا۔
سکول کی سائنس لیبارٹری سے دھواں اٹھ رہا اور شعلے لپک رہے تھے۔لیبارٹری تیسری منزل پر تھی اور خدا جانے اس میں کس طرح ایسی خوف ناک آگ لگ گئی تھی۔خالد ارشد کا بازو پکڑ کر اسے کھینچتا ہوا اس طرف بھاگا۔قریب پہنچ کر پتا چلا کہ پوری عمارت ہی بری طرح سے آگ کی لپیٹ میں آچکی تھی۔شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔سکول کا تو ہر کمرہ ہی لکڑی کے فرنیچر سے بھراہوتا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ اس سامان نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔کچھ لڑکے بے چارے پانی کی بالٹیاں بھر بھر کر لا رہے اور شعلوں پر پھینکنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیکن ایسی سخت آتش زدگی کے سامنے ان کا کیا بس چلتا تھا۔دور کہیں فائر بریگیڈ والوں کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔غالباً انہیں اس آتش زدگی کی اطلاع مل چکی تھی۔
ارشد اور خالد جس جگہ کھڑے تھے وہاں قریب ہی ہیڈ ماسٹر صاحب اور چند دوسرے استاد بھی کھڑے بے بسی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ہیڈ ماسٹر صاحب بے چارے بے حد پریشان نظر آرہے تھے۔بار بار ان کی زبان سے یہ نکل جاتا تھا:
”ارے کوئی لڑکا تو اوپر نہیں ہے؟“
اور ان کے قریب کھڑے ہوئے سائنس کے استاد جواب دے رہے تھے۔”نہیں جناب! سائنس کا کوئی پیریڈ ہی نہیں تھا۔کسی لڑکے کے اوپر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
خالد بڑے دکھی دل کے ساتھ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔شعلے تیز سے تیز تر ہوتے جا رہے تھے۔اس کی نظریں جلتی ہوئی کھڑکیوں اور دروازوں پرجمی ہوئی تھیں۔یکایک اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔تیسری منزل کے آخری دائیں کمرے کی ایک کھڑکی کھلی اور اس میں سے دو لڑکوں نے بے اختیار ”مدد مدد“ کا شور مچانا شروع کردیا۔سب کی نظریں اٹھیں اور انہوں نے دیکھا۔ وہ دو لڑکے اسلم اور ماجد تھے۔ جو آگ کے خوف ناک طوفان میں مدد کے لیے پکار رہے تھے۔
سب کے چہروں پر گھبراہٹ پھیل گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سکول کے دو طالب علموں کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔مگر ان کی مدد کرنا تو اب ناممکن تھا۔ تیسری منزل میں جانے کا سوال ہی نہ پیداہوتا تھا۔آگ کی تپش تو اتنی بڑھ گئی تھی کہ دودوسوفٹ کے فاصلے پر بھی کھڑا نہ ہوا جاتا تھا۔خالد نے دیکھا ہیڈ ماسٹر صاحب ہاتھ مل رہے تھے اور ان کی نظریں مدد کے لیے چلاتے،شور مچاتے اور روتے ہوئے اسلم اور ماجد پر جمی ہوئی تھیں۔خالد نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا۔ اسلم اور ماجد کو دیکھا اور پھر ارشد کی طرف جھک کر بولا:
”ارشد! میں ان کو بچانے کے لیے جا رہا ہوں۔“
”نہیں ……خالد! آگ کے دریا کو عبور کرنا اب ممکن نہیں رہا۔“ارشد نے اسے بازو سے تھام کر کہا۔”وہ دیکھو فائر بریگیڈ والے آگئے ہیں، وہ خود ہی انہیں بچانے کی کوشش کریں گے۔“
”نہیں ارشد!مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ذرا ان کی بے بسی تو دیکھو!“
یہ کہہ کر اس نے اپنا بازو چھڑایا اور جلتی ہوئی عمارت کی طرف بھاگا۔ہیڈ ماسٹر صاحب،ارشد اور دوسرے لڑکے شر مچاتے اور اسے آوازیں دیتے ہی رہ گئے مگر خالد سب کے دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے اس خوف ناک دریا میں اتر گیا۔سب نے اسے شعلوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ سب کے چہرے تاریک ہوگئے۔
اسلم اور ماجد کے ساتھ اب وہ خالد کی زندگی سے بھی مایوس ہو گئے تھے۔ارشد کی آنکھوں میں اب بے اختیار آنسو آگئے اور وہ سسکیاں لینے لگا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب گلو گیر آواز میں کہہ رہے تھے:
”میرے بچے۔میرے بہادر بیٹے خالد! یہ تونے کیا کیا۔ یہ تونے کیا کیا؟“
خالد کو گئے ہوئے اب کئی منٹ گزر گئے تھے۔ادھر کھڑکی میں بھی اب صرف ماجد ہی رو رہا تھااور شور مچا رہا تھا۔ شاید اسلم دھویں کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر پڑا تھا۔اتنی دیر میں فائر بریگیڈ والوں کی لاریاں آکر رک گئی تھیں اور وہ جلدی جلدی پانی کے پائپ نکال نکال کر زمین پر ڈال رہے تھے۔
دوسری طرف سب نے دیکھا کہ خالد بھی کھڑکی میں پہنچ چکا تھا۔
خالد کے آگ میں گھسنے کی خبر بھی سب لڑکوں میں پھیل چکی تھی،اس لیے اب پورا مجمع وہیں پر جمع ہو گیا تھا۔ جہاں سے وہ کھڑکی شعلوں میں گھری ہوئی نظر آتی تھی۔فائر بریگیڈ والوں نے بھی آگ میں گھرے ہوئے لڑکوں کودیکھ لیا تھا۔چند آدمی سیڑھیاں لانے کے لیے بھاگے مگر خالدنے کھڑکی میں سے چلا کر کہا:
”نیچے جال پھیلاؤ…جال پھیلاؤ۔“
چند ہی لمحوں کے بعد فائر بریگیڈ والے چھ آدمی اس کھڑکی کے نیچے جال پھیلا کرکھڑے ہوگئے۔یہ جال خاص طور پراس مقصد کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے کہ اوپر سے اگر کوئی کودے تو اسے زمین پر گرنے سے بچایا جا سکے۔اب کیفیت یہ تھی کہ سب کی نظریں اوپر کھڑی پر جمی ہوئی تھی۔خالد شاید شور مچاتے اور روتے ہوئے ماجد سے کہہ رہا تھا کہ وہ جال پر کود جائے۔
ماجد نے ایک بار جھک کر نیچے دیکھا بھی تھا مگر اتنی بلندی پر سے کودنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔وہ پھر خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔خالد شاید پھر اسے سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ نیچے سب لوگ سخت بے چین ہو رہے تھے۔گرمی اور تپش اتنی شدید تھی کہ فائر بریگیڈ والے بھی جال پکڑ کر زیادہ دیر تک وہاں کھڑے نہ رہ سکتے تھے۔ پھر لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔
خالد نے آگے بڑھ کر ماجد کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا، جیسے چھ ماہ کے بچے کو۔ماجد نے اس کے ہاتھوں میں ہلنے جلنے اور ہاتھ پیر مارنے کی بڑی کوشش کی مگر خالد کے آہنی شکنجے سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہ تھا حالانکہ قد و قامت اور جسم کے لحاظ سے ماجد اس سے دگنا تھا۔ مگر خالد اسے بچے کی طرح اٹھائے ہوئے کھڑکی کی چوکھٹ پر چڑھ آیا اور پھر اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر نیچے لٹکا دیا۔
فائر بریگیڈ والے بالکل اس کی سیدھ میں کھڑے ہوگئے اور خالد نے اوپر سے ماجد کو چھوڑدیا۔
ماجد ٹھیک جال کے درمیان میں آکر گرا اور شاید دہشت سے بے ہوش ہو گیا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے غالباً فون کرکے ایمبولینس بھی منگوائی ہوئی تھی۔ماجد کو جلدی سے ایمبولینس والے اٹھا کر لے گئے۔
اب مسئلہ تھا اسلم اور خود خالد کا۔
اسلم بے ہوش ہو چکا تھا۔ اسے جال میں بھی نہیں گرایا جا سکتا تھا کیونکہ اس طرح اس کے سیدھے الٹے گر کر زخمی ہو جانے کا خطرہ تھا۔
سوال یہ تھا کہ:
اب وہ دونوں لڑکے کس طرح باہر نکلیں گے۔آگ نے اب پوری عمارت کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا اور کوئی راستہ نہ اندر جانے کا تھا اور نہ باہر آنے کا۔فائر بریگیڈ والے دھڑا دھڑ پانی ڈال رہے تھے لیکن ابھی تک آگ پر کوئی اثر نہ ہوا تھابلکہ الٹا یوں لگتا تھا کہ جیسے آگ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
کھڑکی میں اب کوئی نظر نہ آرہا تھا، نہ اسلم نہ خالد۔ سبھی کے رنگ فق تھے اور سبھی دِل ہی دِل میں دونوں کی سلامتی کی دُعائیں مانگ رہے تھے، مگر اتنی خوف ناک آگ میں سے اُن کا بچ نکلنا کسی طرح ممکن نظر نہ آ رہا تھا۔ خود فائر بریگیڈ والے بے بس ہوئے جا رہے تھے اور اُن میں سے بھی کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ آگ میں گھس کر دونوں لڑکوں کو نکال لائے۔
موت کے منہ میں کون جاتا ہے؟ موت کا خطرہ دیکھ کر تو بڑے بڑے دِل گردے والے دہل جاتے ہیں۔
سب لوگ ایک عجب بے بسی کے عالم میں کھڑے تھے۔ دفعتاً ایک گڑگڑاہٹ کی آواز سی سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی سائنس لیبارٹری کی جلتی ہوئی چھت ایک خوف ناک دھماکے کے ساتھ گر گئی۔ چھت گرنے سے دیواریں گریں اور چھت اور دیواروں کے بوجھ نے پہلی منزل کی چھت کو بھی گرادیا۔
سب خوف زدہ ہو کر سیکڑوں فٹ دُور بھاگ گئے۔ مٹی، گرد، دُھواں، آگ، چیخ و پکار اور شور و غل کا وہ عجیب منظر تھا۔ تھوڑی دیر پہلے جہاں ایک خوب صورت عمارت کھڑی تھی، اب وہاں کھنڈر تھا۔آگ میں جلتا ہوا۔ مگر خالد اور اسلم؟ اُن کا کیا ہوا؟
پہلے تو پھر بھی کچھ اُمید تھی لیکن عمارت گرنے کے ساتھ اب کسی کو بھی اُن کی زندگی کی اُمید نہ رہ گئی تھی۔ ارشد کا تو اس خیال سے ہی سے دِل بیٹھا جا رہاتھا، وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگا۔
خالد… اُس کا دوست، اُس کابھائی… اس زمین سے اربوں میل دُور کسی دُنیاسے آ کر یہاں کے ایک انسان کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، اور کس کو بچانے کی کوشش میں؟ جس نے اب تک اُسے سب سے زیادہ دُکھ دیے تھے، سب سے بڑھ کے تکلیف دی تھی۔
عمارت گرنے سے آگ کا زور ٹوٹ گیا تھا، یوں بھی اب فائر بریگیڈ والوں نے آگ پر قابو پا لیاتھا۔ کہیں کہیں معمولی سی آگ تھی جو بڑی تیزی کے ساتھ بجھائی جا رہی تھی۔ اب فائربریگیڈ والے دونوں لڑکوں کی تلاش میں ملبہ ہٹانے کی فکر میں تھے اورتیشوں اور گینتیوں کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ ملبہ ہٹا رہے تھے کہ یکایک ایک لڑکازور سے چلّایا:
”خالد… خالد! وہ رہا خالد۔“
سب یہ آواز سن کر اُس طرف متوجہ ہوئے اور پھر اُدھرکو بھاگ پڑے۔ جب لوگ وہاں پہنچے تو اُنہوں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔وہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہی تھا جس میں سے سیڑھیاں اُوپر کو جاتی تھیں۔ وہاں خالد کھڑاتھا، مگر کس حال میں؟
اُس نے دونوں ہاتھوں سے چھت کے شہتیر کو روکا ہوا تھا اور شہتیر پر سینکڑوں من بوجھ پڑا ہوا تھا۔ سب اُس طرف جھپٹے، آس پاس اور ارد گرد کے ملبے کو جلدی جلدی ہٹا کر راستہ بنایا گیا۔
”خالد، خالد!!“ ارشد چلّایا۔
”پہلے اسلم کو سنبھالو۔“ خالد نے چلا کر کہا۔”اُدھر وہ ٹاٹ میں لپٹا ہوا ہے۔ اُسے لے کر جلدی سے نکلو۔ میری ہمت جواب دیے جا رہی ہے۔“
چند آدمیوں نے جلدی سے آگے بڑھ کے ٹاٹ اُٹھایا اور باہر نکل آئے۔
”خالد! اب خود بھی تو نکلو، خدا کے لیے۔“ ارشد نے تقریباً رو کر کہا۔
”گھبراؤ نہیں! میں نکل آؤں گا۔“ خالد نے اطمینان سے کہا۔
”سب لوگ دُور دُور ہٹ جائیں، میں شہتیر چھوڑنے والا ہوں۔“
سب لوگ دُور ہٹ گئے۔
خالد نے اطمینان کرنے کے لیے ایک بار چاروں طرف بغور دیکھا، اور پھرتی کی انتہا کردی۔ اُس نے شہتیر کو ایک دم چھوڑدیا اور پھر شاید ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں وہ کود کر نیچے گرنے والے ملبے سے باہر بھی نکل آیا۔
”خالد زندہ باد… خالد زندہ باد۔“ کے نعروں سے سارا سکول گونج اُٹھا۔ لڑکوں نے اُسے کندھوں پر اُٹھا لیا تھا۔اور مٹی اور گرد میں اَٹا ہوا خالد مسکرا رہا تھا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب جلدی سے آگے بڑھے، لڑکوں نے اُنہیں راستہ دے دیا۔ وہ ایسے جذباتی ہو رہے تھے کہ بے اختیار خالد کو گلے سے لگا لیا۔
”شاباش میرے بچے! میرے بہادر بیٹے، شاباش!“ وہ کہے جا رہے تھے۔
پھر وہ جھکے اور خالد کی پیشانی کو چوم لیا، اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا:
”تم عظیم ہو…عظیم تر ہو میرے بچے!“
”خالد زندہ باد۔“ ایک اور نعرہ بلند ہوا۔
اسی اثنا میں اسلم کو ٹاٹ میں سے نکا ل کر ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال کی طرف روانہ کر دیا گیا۔
ارشد لڑکوں کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا آگے بڑھا۔ خالد کے قریب جا کر اُس نے دیکھا، اس کے بال جگہ جگہ سے جھلسے ہوئے تھے۔ اُس کے کپڑے کئی جگہوں سے جلے ہوئے تھے مگر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ ایک فاتح اور عظیم مسکراہٹ!
ارشد جلدی سے آگے بڑھ کے خالد سے لپٹ گیا، اُس کی آنکھوں میں پھر آنسو بھر آئے مگر اب یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔
……٭……
سب سے بڑی جیت
اسلم اور ماجد کو دُوسرے روز ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ دراصل وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے، صرف خوف اور دہشت کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے۔ ہاں، دُھوئیں نے ضرور اُن کے پھیپھڑوں کو متاثر کیاتھا مگر خطرے والی قطعاً کوئی بات نہ تھی۔
اس دوران میں خالد کے اس زبردست کارنامے پر نہ صرف ملک بھر کے اخباروں میں اُس کی تصویروں سمیت بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ یہ خبر چھپی بلکہ اخباروں نے خاص مضامین بھی شائع کیے جن میں خالد کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا کہ کس طرح اُس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے دو ہم جماعتوں کو موت کے منہ سے بچایا تھا۔
یہی نہیں، ان دو دِنوں میں ملک کے کونے کونے سے لوگوں نے تاروں،ٹیلی فونوں اور خطوں کے ذریعے خالد کو اُس کے عظیم کارنامے پر مبارک بادیں دیں۔ ان میں سارے صوبوں کے گورنروں اور صدر ِمملکت کے پیغامات خاص طور پر قابل ذکرتھے۔
آگ لگنے کے اس واقعے کے تیسرے دِن کا ذکر ہے، ارشد اور خالد گراؤنڈ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ پیریڈ خالی تھا کیوں کہ اُس روز تاریخ پڑھانے والے اُستاد آئے ہوئے نہیں تھے۔
”خالد! وہ دیکھو، اسلم اور ماجد آ رہے ہیں۔“ ارشد نے کہا۔
”کوئی بات نہیں، آنے دو۔“ خالد نے مسکرا کر کہا۔
”اب تو ٹھیک ٹھاک نظر آ رہے ہیں۔“ ارشد بولا۔
”ہاں، کل ہی غالباً انہیں ہسپتال سے فارغ کیا گیا ہے۔“ خالد نے کہا۔
اتنی دیر میں اسلم اور ماجد اُن کے قریب آ کر کھڑے ہو گئے۔ جانے کیوں، اُن کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ چند منٹ اسی طرح گزر گئے۔ یوں لگتاتھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر زبان ساتھ نہیں دے رہی۔
خالد اُن کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔
”بیٹھ جاؤ اسلم! اور ماجد، تم بھی آؤنا۔ خاموش کیوں کھڑے ہو؟“ اُس نے آخر خاموشی توڑی۔
دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا، بس خاموشی کے ساتھ اُن کے قریب بیٹھ گئے۔
”اب طبیعت کیسی ہے تم لوگوں کی؟“ جب چند منٹ تک پھر خاموشی رہی تو خالد نے پھر بات شروع کرنے کی کوشش کی۔
”ٹھیک ہے اب تو۔“ اب کے ماجد نے جواب دیا، اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی۔
ارشد نے دیکھا، اسلم کچھ کہنے کے لیے بار بار ارادے باندھتا تھا مگر جانے کیوں، پھر اُس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔
”خالد!“ بڑی مشکل کے ساتھ اسلم نے ہمت کرکے بات شروع کی مگر وہ پھر رُک کیا۔ خالد فوراً متوجہ ہوا۔
”کہو کہو دوست! کیا بات ہے؟ تم جھجک کیوں رہے ہو؟ بے خوف ہو کر کہو، جو کہنا چاہتے ہو۔“ خالد نے اس کی ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔
”بات…“ خالد نے تھوک نگل کر کہا۔”بات یہ ہے خالد……! کہ…… ہم دونوں ……بے حد شرمندہ ہیں۔“
وہ پھر رُک گیا، مگر فوراً ہی بولا:
”خالد! ہم دونوں تم سے معافی مانگنے آئے ہیں۔ تم ہمیں معاف کر دو خالد!“
”معافی…؟“ خالد جلدی سے بولا۔”مگر کس بات کی؟ تم نے میرا کیا بگاڑا ہے جوتم ایسی بے چارگی سے مجھ سے معافی مانگ رہے ہو؟“
”ہم تمہارے مجرم ہیں خالد۔“ ماجد نے کہا۔
”ارے نہیں بھئی!“ خالد نے ہنس کرکہا۔
”مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میرا دِل بالکل صاف ہے۔“
”نہیں خالد! ہم نے بڑی زیادتیاں کی ہیں، ممکن ہے ان زیادتیوں کی تمہیں خبر ہی نہ ہو۔“ اسلم نظریں جھکائے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”آج میں تمہارے سامنے ان کا اعتراف کر کے اپنے ضمیر کا بوجھ دُور کرنا چاہتا ہوں۔“
چند لمحے خاموشی طاری رہی، اس کے بعد پھر اسلم بولا:
”تم پہلے ہی روز جب سکول آئے، اُس روز بھی میں نے جان بوجھ کر تمہیں گرانے کی کوشش کی تھی۔ اس کے بعد کلاس روم میں بھی میں نے ہی کنکری مار کر تمہیں زخمی کرنے کی کوشش کی تھی، پھر ہاکی کے میدان میں بھی میں نے جان بوجھ کر تمہیں زخمی کیاتھا جس کے نتیجے میں تمہیں ہسپتال جانا پڑا۔“
خالد مسکرایا اور اسلم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا:
”اسلم! ان باتوں کو بھول جاؤ۔ بخدا! یقین کرو کہ میں بھی ان باتوں کو بھول چکا ہوں۔ تم اگر آج یاد نہ دلاتے تو مجھے کبھی یہ باتیں یاد نہ آتیں۔“
”مگر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی خالد۔“ اسلم بولا۔”میرے جرموں کی فہرست ابھی باقی ہے۔ اپنا سب سے بڑا جرم تو میں نے ابھی تک تمہارے سامنے بیان ہی نہیں کیا، جو میرے ضمیرپر ایک پہاڑ جیسا بوجھ بنا ہوا ہے…… تین دِن پہلے جو آگ لگی تھی، وہ تمہیں یاد ہے نا؟“
”ہاں!“ خالد نے کہا۔
”وہ حرکت بھی میری ہی تھی۔“ اسلم نے انکشاف کیا۔
”ہیں… تمہاری…؟“ خالد نے حیران ہو کر پوچھا۔
”ہاں خالد!…“ اسلم نے کہا۔”بات یہ ہے خالدکہ میری ہر زیادتی کے جواب میں تمہاری شرافت اور خاموشی نے بجائے مجھے شرمسار کرنے یا آئندہ کے لیے باز آ جانے کے، میرے غصّے کو اور بھی بھڑکایا۔ میرے پاگل پن میں اور بھی اضافہ ہوا۔ کسی نہ کسی طرح تمہیں زک پہنچانے، تمہیں سب کی نظروں میں گرانے کے جذبے نے مجھے دیوانہ بنا دیا۔ میری عقل، سوچ سمجھ اور ہوش و حواس پر پردے پڑ گئے۔ یہ اسی دیوانگی اوراسی پاگل پن کا نتیجہ تھا کہ پرسوں میں امجد کو ساتھ لے کر اُوپر سائنس لیبارٹری میں جا پہنچا اور وہاں آگ لگا دی۔ میرا مقصد یہ تھاکہ نام تمہارا لگا دوں کہ تم نے آگ لگائی ہے۔ اُس وقت میں اتنا احمق ہو رہا تھا کہ یہ بھی نہ سوچاکہ میری بات پر بغیر کسی ثبوت کے یقین کون کرے گا، اور پھر آگ لگا دینے کے بعد وہ اتنی تیزی کے ساتھ بھڑکی کہ خود ہمیں بھی باہر نکل سکنے کا موقع نہ مل سکا۔ کچھ دیر تک تو ہم خوف زدہ سے اور دم بخود سے کمرے ہی میں کھڑے رہے، مگر دُھواں او ر شعلے اتنے بڑھے کہ اُنہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارنے پرمجبور کر دیا اور حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت تک ہر راستہ بند ہو چکا تھا اور کوئی ہماری مدد کے لیے نہیں پہنچ سکتا تھا۔ میں تو اپنی زندگی سے مایوس ہو چکاتھا۔ اُس وقت تم… خالد! تم… رحمت کا فرشتہ بن کر آئے۔ اگر… تم… نہ آتے تو خالدہماری موت یقینی تھی، خصوصاً میری کیوں کہ میں تو دُھوئیں اور دہشت کی وجہ سے بے ہو ش ہو چکا تھا۔آگ مجھے توجلا کرخاکسترہی کر دیتی مگر تم نے اپنی جان کوخطرے میں ڈال کر ہم دونوں کو بچا لیا۔ ہماری زیادتیوں کے مقابلے میں تمہاری یہ فراخ دِلی، خالد!… میں تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن اب ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ میری نظروں کے سامنے حماقت کے جو پردے پڑے ہوئے تھے، وہ دُور ہو گئے ہیں اور قصور اصل میں سارا میرا ہے، ماجد توبالکل بے گناہ ہے۔ یہ میں ہی تھا جو اِسے اپنے ساتھ لیے لیے پھرتاتھا…“
وہ رک گیااورپھر بولا:
”…اور خالد! اب میں یہ سب کچھ تمہارے سامنے اقرار کرنے کے بعد سچے دِل سے تم سے معافی مانگتا ہوں، کیا تم مجھے، میرے اتنے سارے گناہ معاف کر دو گے؟“
خالد یہ ساری گفتگو بڑے غور سے سر جھکائے سن رہا تھا۔ جب اسلم اپنی بات ختم کرچکا تو اُس نے پھر مسکراتے ہوئے اُس کے کندھے پر پیارسے ہاتھ رکھا اور بولا:
”اسلم! تم بہت اچھے لڑکے ہو۔بڑے عظیم ہو۔ اپنی غلطی کو غلطی سمجھ لینا اور پھراس کا اعتراف کر لینابہت ہی بڑی خوبی ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ تم میں بھی یہ خوبی موجود ہے۔ اب اگر تم نے اپنی غلطی کو غلطی جان لیا ہے اور آئندہ کے لیے تم اپنی روش کوبدلنے کا عہد کر رہے ہو تو اس سے اچھی بات اور کون سی ہو سکتی ہے… باقی رہا میرا سوال، تو یقین کرو اسلم! میرا دِل پہلے دِن بھی صاف تھا اور اب یہ سب کچھ جان کر بھی صاف ہے۔ بالکل سچ پوچھو، تو میرے دِل میں اب تمہاری قدر پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے… اور ماجد کا خود تمہارے بقول، کوئی قصور نہیں۔“ خالد نے مسکراکر ماجد کو دیکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔”اس لیے اس کے ساتھ کوئی ناراضی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“
”نہیں خالد! میراجبھی دِل مطمئن ہو گا ِجب تم میرے سامنے یہ کہہ دو گے کہ اسلم! میں سچے دِل سے تمہاری ہر غلطی معاف کرتا ہوں۔“
”اگر تمہارا دِل اسی طرح مطمئن ہوتا ہے تو یوں ہی سہی، میں سچے دِل سے تمہیں بلکہ تم دونوں کو معاف کرتا ہوں … اب تو خوش ہو!“ خالد نے کہا۔
”ہاں!…“ اسلم اور ماجد کے چہرے کھل اُٹھے۔
”خالد! تم بہت اچھے ہو،بہت عظیم ہو۔ سچ! مجھے تو یقین نہیں تھا کہ میرے اتنا کچھ بتانے کے بعد تم معاف کر دو گے، مگر تم تو بڑے فراخ دِل اور عالی ظرف نکلے ہو۔“
”بس اب ختم کرواسلم! خواہ مخواہ تعریفوں کے پل نہ باندھے جاؤ۔“
”نہیں خالد! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، اُس میں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں۔“ اسلم نے بڑے جذباتی انداز میں کہا۔
”ہاں خالد بھائی! واقعی آپ بڑے اچھے ہیں۔“ ماجد نے بھی تائید کی۔
”یوں نہیں خالد! اب صلح ہو گئی ہے تو دوستی پکی ہو گی۔ اُٹھ کے گلے ملو۔“ اسلم کی فرمائش پر خالد نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ اسلم اور ماجد باری باری اُس سے گلے ملے، ارشد مسکرا کریہ سارامنظر دیکھ رہا تھا۔
”تم بھی آج سے ہمارے دوست اور بھائی ہو ارشد! تم بھی گلے ملو۔“
ارشد بھی ہنستے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا اور باری باری اسلم اور ماجد سے گلے ملا۔
”آج سے ہم چاروں، بھائیوں اور دوستوں کی طرح رہیں گے۔“ اسلم نے اعلان کیا۔
”اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟“ خالد نے کہا۔
”مگر اس خوشی کے موقع پر اسلم، اگر تم میری ایک بات مانو تو مجھے بے حد خوشی ہو گی۔“
”کہو خالد! میں تمہاری ہر بات کے آگے سر جھکاتا ہوں۔“ اسلم نے سچ مچ سر جھکا کے کہا۔”بلکہ تم حکم کرو خالد!“
”نہیں اسلم! حکم نہیں، ایک دوستانہ یا برادرانہ مشورہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ صرف مجھے یا ارشد کو ہی نہیں… اب سکول کے ہر لڑکے کو تمہاری شرارتوں سے نجات مل جانی چاہیے۔ آئندہ سے تم اپنی پوری توجہ پڑھائی کی طرف کر دوگے اور شرارتوں کی بجائے تم اپنے فالتو وقت میں کھیل کے میدان میں ہاکی کی مشق کرو۔ تم ایک دِن ملک کے اوّل درجے کے کھلاڑی بن سکتے ہو۔“
”بہت بہتر خالد بھائی!“ اسلم نے کہا۔”میں تمہاری اس بات پر عمل کروں گا،آئندہ تم مجھے ایک نیا اسلم پاؤگے۔“
”اور میں بھی ان شا ء اللہ اپنے آپ کو بالکل بدل ڈالوں گا۔“ ماجد نے بھی وعدہ کیا۔
”اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔“خالد نے اسلم اور ماجد دونوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”یہ سب کچھ تو درست ہے خالد! مگر اب ایک راز کی بات بھی تو بتاؤ۔“اسلم نے کہا۔
”پوچھو!“
”خالد! کل مجھے بتایا گیا کہ تم نے مجھے بچانے کے لیے کتنی ہی دیر تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں من وزنی چھت کو اپنے بازوؤں پر اُٹھائے رکھا۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ انسان کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، چاہے اُس میں ہاتھی جتنی طاقت بھی آ جائے، مگر وہ ایسا کام تو ہرگز نہیں کر سکتا۔ اس عجوبے کا راز آخر کیا ہے؟“
خالد اُس کی بات سن کر مسکرایا اور پھر بولا:
”بات دراصل یہ ہے اسلم، کہ ہر بات انسان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ یوں بھی ہر بات کو سمجھنے یا اُس کے سمجھ میں آنے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو اس راز پر سے بھی پردہ اُٹھ جائے گا، بس کچھ عرصہ اور ٹھہر جاؤ۔“
”بہت بہتر!“ اسلم نے خوش دِلی سے کہا۔
اگلے دِن اسلم کے والدنے اپنے بیٹے کے زندہ سلامت بچ جانے کی خوشی میں ایک شان دار پارٹی دی۔ خالد اور ارشد تو خیر اُس پارٹی کے خصوصی مہمان تھے مگر اُن کے علاوہ خالد کے کئی دوست اور ہیڈماسٹر صاحب بھی اُس پارٹی میں شریک ہوئے۔
اسلم کے والد بہت بڑے تاجر تھے،روپے پیسے کی ریل پیل تھی اس لیے اُنہوں نے بڑی زوردار پارٹی کاا نتظام کیا تھا۔ پارٹی جب ختم ہوئی تو اچانک خالد نے جو ہیڈ ماسٹر صاحب کے بالکل دائیں طرف بیٹھا تھا، پوچھا:
”سر! اگر کوئی شخص غلطی تو کر بیٹھے مگر اپنی غلطی کو تسلیم کر لے اور پھرا س پر بے حد شرمسار بھی ہو تو کیا اُسے سزا دینی چاہیے؟“
”میرے خیال میں تو ہرگز سزا نہیں دینی چاہیے۔ غلطی کو تسلیم کر لینا اور پھر اُس پر شرمسار ہونا کوئی معمولی بات نہیں، بہت بڑی خوبی ہے… بڑی بہادری اورد لیری کی بات ہے، ایسے شخص کی بڑی سے بڑی غلطی بھی معاف کر دینی چاہیے مگر شرط یہ ہے کہ وہ شخص سچے دِل سے توبہ کرے اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا عہد کرے۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے جواب دیا۔
”میرا خیال ہے اگر میں آپ کے سامنے اپنی کسی غلطی کا اعتراف کروں تو آپ یقینا مجھے معاف کر دیں گے۔“خالد نے پھر کہا۔
”تم ہی نہیں خالد بیٹے! کوئی بھی شخص ہو میں اُسے یقینا معاف کر دوں گا، اس میں کسی کی تخصیص نہیں۔“
”بہت بہتر جناب! میں معافی چاہتے ہوئے گزارش کرتا ہوں کہ معاملہ میرا نہیں، اسلم کا ہے۔اسلم آپ کے سامنے اپنی ایک بڑی غلطی بلکہ بہت بڑے گناہ کا اعتراف کرنے والا ہے، مگر آپ وعدہ کر چکے ہیں کہ آپ اسے معاف کر دیں گے۔“
”اسلم؟“ اسلم کے والد صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے منہ سے بیک وقت نکلا۔
”جی ہاں!“ اسلم نے کہا۔
”میں آپ کے اور ابا جان کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ جب تک میں اس کا اظہار نہیں کرلوں گا میرے ضمیر کا بوجھ ہلکا نہیں ہو گا۔“
اسلم کے والد صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب سنبھل کر بیٹھ گئے۔
”مختصر لفظوں میں مَیں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سائنس لیبارٹری کو جو آگ لگی تھی، وہ کوئی اتفاقیہ حادثے کا نتیجہ نہ تھی۔“
”پھر؟“ہیڈ ماسٹر صاحب نے جلدی سے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔
”وہ آگ میں نے لگائی تھی!“ اسلم نے انکشاف کیا۔
”تم نے لگائی تھی؟“اسلم کے والد صاحب اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے منہ سے نکلا، اسلم کے والد صاحب تو اُچھل کر کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”جی ہاں!“اسلم نے ہموار اور پُرسکون لہجے میں کہا۔”وہ آگ میں نے ہی لگائی تھی!“
اُس نے جان بوجھ کر ماجد کا نام غائب کر دیا تھا، یوں بھی اُس بے چارے کا ا س سے زیادہ قصور نہ تھا کہ وہ اس کے کہنے پر اُس کے ساتھ ہو لیا تھا۔
چند لمحے گہری خاموشی طاری رہی، اسلم کے والد صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔
”مگر اسلم! تم نے یہ حرکت کیوں کی؟“ اسلم کے ابا جان نے پوچھا۔
”اس کا جواب میں دیتا ہوں۔“ خالد نے کہا۔
”بات دراصل یہ ہے کہ جب میں اسکول میں داخل ہوا تو بس بلاوجہ ہی میری اوراسلم کی تھوڑی سی آپس میں مخالفت ہو گئی تھی۔ اسلم اس فکر میں تھا کہ کسی طرح مجھے پھنسا کر بدلہ لے۔ اسے اور تو کچھ سوجھا نہیں، ایک روز اس نے سائنس لیبارٹری کو جاکر آگ لگا دی۔ اس کا خیال تھا کہ آگ لگانے کا الزام میرے سر تھوپ کر یہ صاف بچ جائے گا، مگر بدقسمتی سے آگ اس تیزی کے ساتھ پھیلی کہ اسلم نکل نہ سکا اور آگ میں گھر گیا۔“
سب خاموش تھے مگر سب کی نظریں خالد کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ وہ خاموش ہوا تو یہ نظریں اسلم کے چہرے پر جم گئیں۔
”اسلم! کیا یہ درست ہے؟“ آخر کار ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس خاموشی کو توڑا۔
”جی ہاں… حرف بہ حرف درست ہے۔“
پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ کچھ دیر یہی حالت رہی۔
”اسلم! یہ سب کچھ سن کر مجھے ازحد دُکھ ہوا ہے۔“ اسلم کے والد صاحب بولے۔”تم میرے جذبات کا اندازہ نہیں کر سکتے، تم نے مجھے بہت بڑا صدمہ پہنچایا ہے۔“
”اباجان! میں خود اتنا شرمسار ہوں کہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا، سوائے میرے خدا کے!“
”اسلم بیٹا! سچ تو یہ ہے کہ صدمہ مجھے بہت پہنچا ہے۔“ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا۔”مگر میرے خیال میں مجھ سے زیادہ تو تمہیں خالد سے معافی مانگنی چاہیے کیوں کہ تم اس کے زیادہ مجرم ہو۔“
”میں اسلم کو تہ دِل سے معاف کر چکا ہوں، اس نے کل مجھے سچ سچ خود ہی سب کچھ بتا دیا تھا۔ پھر میں نے یہ اسے اس بات پر راضی کیا تھا کہ وہ بجائے اتنے بہت بڑے جرم کو اپنے دِل میں چھپائے رکھنے اور احساسِ جرم کے بوجھ تلے دبے رہنے کے، اس کا آپ کے اور اپنے والد صاحب کے سامنے اقرار کرے۔ اب میری گزارش ہے کہ آپ بھی اسے معاف کر دیں، اس لیے کہ ایک تو اسلم اپنے کیے پر بے حد نادم ہے، دُوسرے آئندہ کے لیے نیک بن جانے اور کبھی کسی کو تنگ نہ کرنے کا عہد کر لیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ آئندہ میں ایک بالکل نیا اسلم بن جاؤں گا۔“
”صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔ اسلم نے یہ سب کچھ تسلیم کر لیا ہے اور اب آئندہ کے لیے ایک اچھا لڑکا بننے کا عہدبھی کرتا ہے تومیں بھی اسے معاف کرتا ہوں، اس کی غلطی کو اب ہم غلطی نہیں کہیں گے بلکہ اس کی ا صلاح کا ایک بہانہ کہیں گے۔“ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”خوشی کے اس موقعے پر خالد… میں سب سے پہلے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم نے اسلم سے اختلاف ہونے کے باجود کتنی بہادری اور فراخ دِلی کے ساتھ اس کی جان بچائی اور اس کے بعد ہیڈماسٹر صاحب… میں آپ کا بھی از حد ممنون ہوں کہ آپ نے بھی میرے بیٹے کو اتنی فراخ دِلی کے ساتھ معاف کر دیا حالاں کہ اس نے اتنا بڑا جرم کیا تھا، لیکن میں بھی اب اس مسرت میں کسی طرح پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ میں آپ لوگوں کے سامنے اپنی خوشی سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہاسکول کی سائنس لیبارٹری کواپنے خرچ پر دوبارہ تعمیر کرا دوں گا اور اس کے تمام ساز وسامان کی خرید کا خرچ بھی ادا کروں گا۔“ اسلم کے والد صاحب نے کہا۔
”آپ کا بے حد شکریہ!“ ہیڈماسٹر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا۔
”اسلم! تم بھی ہیڈ ماسٹر صاحب کا شکریہ اداکرو،آگے بڑھ کے۔“ اسلم کے والد صاحب نے حکم دیا۔
”جی میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ آپ کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں۔ آپ نے… آپ نے…“ اسلم شدتِ جذبات سے بول ہی نہ پا رہا تھا۔
”میرے بیٹے! شکریے کی کوئی بات نہیں، ہمیں تو یہ خوشی ہے کہ تم نے اپنے آپ کو پا لیا ہے اور ہمیں بھی اُس شریر اور بدتمیز اسلم کے بجائے اب ایک نیک اور اچھا اسلم مل گیاہے۔“
ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسلم کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، پھر اُٹھ کھڑے ہوئے اور بولے:
”اب میرا خیال ہے، ہمیں چلنا چاہیے۔“
”جی نہیں! چائے پی کر جائیے گا، تھوڑی دیر اور بیٹھیے۔“ اسلم کے والد صاحب نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
چائے کے بعد یہ دعوت بہ خیر و خوبی ختم ہوئی۔
……٭……
شرارتی مخلوق کا حملہ
تین چار ہفتے بڑے آرام سے گزر گئے۔
سب اپنی اپنی جگہ بڑے مطمئن اور خوش تھے۔ خالد، ارشد، ماجد اور اسلم اب گہرے دوست بن گئے تھے۔ اسلم نے واقعی حیران کن حد تک اپنے آپ کو بدل لیا تھا۔ اُس کی تمام شرارتیں اب ختم ہو گئی تھیں۔ چوں کہ ذہین تھا، اس لیے پڑھائی کی طرف ذرا سی توجہ دینے سے وہ جماعت کے ذہین اور لائق لڑکوں میں شمار ہونے لگا۔ اب وہ سب کی عزت کرتا تھا اس لیے دُوسرے بھی اُس کی قدر کرتے تھے۔ خالد، اسلم کے اس بدلے ہوئے کردار سے خاص طور پر بے حد مسرور تھا اور اسے اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھتا تھا۔
اُس رات ارشد اور خالد اپنے کمرے میں بیٹھے تھے۔ رات کافی جا چکی تھی اس لیے وہ اب سو جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ یکایک خالد کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ ارشد نے یوں محسوس کیا جیسے وہ کسی طرف بے حد متوجہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہے کہ کچھ سننے کی کوشش کر رہا ہے۔
اچانک خالد اُچھل کرکھڑا ہو گیا، دوڑ کر الماری کا دروازہ کھول کر اُس میں سے اپنا ٹرانسسٹر نما آلہ نکالا اور ایک بٹن دبا کر اُسے ”آن“ کر دیا۔
ارشد یہ سب کچھ بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
بٹن کے ”آن“ کرتے ہی اُس میں سے ایک تیز سیٹی کی آواز آنی شروع ہو گئی مگر سیٹی کی یہ آوازمسلسل نہیں تھی بلکہ وقفوں کے ساتھ کبھی بلند ہو جاتی تھی اور کبھی مدھم۔ کئی منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد سیٹی کی آواز جس طرح یکایک آنی شروع ہوئی تھی، اُسی طرح بند ہو گئی۔ خالد نے بٹن ”آف“ کر دیا۔
اُس وقت ارشد نے دیکھا، خالد کاچہرہ پسینے میں تر تھا اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔ ارشد نے یہ دیکھا تو اُچھل کر چارپائی سے اُترا اور خالد کے کندھے پر آہستگی کے ساتھ ہاتھ رکھ کربولا:
”کیابات ہے خالد؟ تم اس طرح سوچ میں ڈوبے ہوئے ہو۔“
”ہوں… اوں… ہوں… آں… اوہ ارشد!“ اُس نے جیسے کسی بڑے گہرے خواب سے چونک کر کہا۔”ہاں ارشد! بات ہی کچھ ایسی ہے، بیٹھو! تمہیں بتاتا ہوں۔“
دونوں آ کر پھر بیٹھ گئے۔ ارشد بڑامتفکر اُسے دیکھ رہا تھا اور خالد اپنے ہاتھ پر ٹھوڑی ٹکائے پھر کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔
”خالد! تم پھر سوچنے لگے، کیا بات ہے؟ کچھ مجھے بھی تو پتا چلے۔“
”ہاں ارشد! تمہیں بتانے میں کیا حرج ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مجھے واپسی کا بلاوا آ گیا ہے اور مجھے فوری طور پر واپس پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے میں ابھی جانا چاہتا ہوں۔“
”کیا کہہ رہے ہو خالد؟“ ارشد اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔”یہ نہیں ہوسکتا۔“
”یہی میرا خیال تھا کہ تمہیں اس بات سے سخت صدمہ ہو گا۔ خود مجھے بھی اس طرح اچانک جانے اور تم سے بچھڑنے کا صدمہ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ میں رُک نہیں سکتا۔ کام ہی ایسا آن پڑا ہے۔“
”اوہ خالد! یہ تم کیاکہہ رہے ہو؟ میں تمہیں نہیں جانے دُوں گا۔“ ارشد کی آواز بھرّا گئی اور اُس کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔
خالد اُٹھ کھڑا ہوا اور ارشد کے قریب آیا، پھر اُس کے آنسو پونچھ کر بولا:
”سمجھنے کی کوشش کرو ارشد! یقین کرو مجھے بھی اس بات کاسخت صدمہ ہے مگر مجبوری ہے میرے بھائی۔“
”نہیں خالد! ایسی کون سی مجبوری آن پڑی ہے؟ میں تمہاری جدائی کس طرح برداشت کروں گا۔“
”ارشد… بیٹھو! میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں پھر تم خود ہی فیصلہ کر لینا کہ مجھے جانا چاہیے کہ نہیں؟ بات درا صل یہ ہے ارشد… کہ جس سیارے پر میں رہتا ہوں، اُس پر قریب کے ایک اور سیارے کی شرارتی مخلوق نے حملہ کر دیا ہے۔“
”حملہ…؟“ ارشد نے حیرت سے کہا۔
”ہاں ارشد!“ خالد نے جواب دیا۔”یقین کرو ارشد! ہمارے ہاں کے لوگ اتنے اچھے، اتنے امن پسند اور اتنے نیک دِل ہیں کہ اُن سے کسی زیادتی کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی، مگر گزشتہ کچھ سو سال سے ہمارے اس ہمسائے سیارے کے لوگوں کی نظریں ہمارے سیارے پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ اس پر حملہ کر کے قبضہ کر لینے کی فکر میں ہیں، صرف اپنے تحفظ کی خاطر ہمیں بھی اب نہ صرف جنگی تیاری کرنی پڑ رہی ہے بلکہ اسلحہ سازی بھی کرنی پڑ رہی ہے… مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم فوجی اعتبار سے ابھی اُن سے بڑی حد تک کمزور ہیں۔ ہاں، ہمارے عوام حوصلے بڑے بلند ہیں اور انہوں نے ہمیشہ حملہ آوروں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔“
”بڑے کمینے لوگ ہیں وہ، ایک پُرامن قوم پر بلاوجہ حملہ کر دیتے ہیں۔“
”ہاں خالد! بُرے بھلے ہر جگہ ہی ہوتے ہیں، کیا کِیا جائے؟“
”مگر تمہیں کس لیے واپس بلایا ہے؟ ایک تمہارے موجود نہ ہو نے سے کیا کمی واقع ہو جاتی ہے؟“ ارشد کی اس بات پر خالد مسکرایا، پھر بولا:
”بڑا دِلچسپ سوال کیا ہے تم نے ارشد! سنو… آج تمہیں اپنا سب سے بڑار از بھی بتا ہی دُوں، میں اپنے دیس کا شہزادہ ہوں۔“
”ارے… واقعی…!“ ارشد کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔”مگر یہ تم آج مجھے بتا رہے ہو؟“ اُس نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
”اسی وجہ سے کہ اگر تمہیں اس بات کا پتا چل گیا تو تم میرا اتنا احترام کرنے لگو گے کہ پھر ہم اتنے پیارے اور گہرے دوست نہ بن سکتے اور ہم میں شاید احترام کا پردہ پڑا رہتا۔“
”ٹھیک کہتے ہو خالد! شاید تم نے اچھا ہی کیا۔“ ارشد نے جواب دیا۔”میرے والد کو جو خود ہی فوج کی کمان کرتے ہیں اور بڑے عظیم سائنس دان بھی ہیں، میری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ میں اُن کا اکلوتا بیٹا ہوں، اس وقت میری وہاں… اُن کے پاس موجودگی بے حد ضروری ہے۔“
کچھ دیر خاموشی رہی۔
”ٹھیک ہے خالد! تمہارے وطن پر مشکل وقت آیا ہے توضرور جاؤ۔ میں اب تمہیں ہرگز رُکنے کے لیے نہیں کہوں گا، مگر دوست! کیا اب ہماری زندگی کی یہی پہلی اور آخری ملاقات ہو گی؟ کیا اس کے بعد میں تمہیں کبھی نہیں دیکھ سکوں گا؟“ ارشد کی بات پر خالد کچھ دیر خاموش رہا، پھر مسکرایا اوربولا:
”ارشد! کیاتم مجھے پتھر سمجھتے ہو؟ کیاتمہارا خیال ہے کہ میرا دِل تم سے ملنے کونہیں تڑپے گا؟ کیاتمہیں دیکھنے کو میرا جی نہیں چاہے گا؟ سنو! اس کا حل ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ ٹرانسمیٹراب تمہارے پاس رہے گا اور اس کے ذریعے ہم آپس میں باتیں کر لیا کریں گے۔“
”اوہ خالد کیا واقعی… میرے پیارے دوست!“ ارشد نے کہا۔
”یہ بالکل سچ ہے ارشد!“ خالد نے کہا۔”میں یہ ٹرانسمیٹر تمہیں تحفے کے طور پر دیے جا رہا ہوں، اس کی حفاظت کرنا اور اسے ہمیشہ کلیجے سے لگا کر رکھنا۔ اس پوری کائنات میں اس قسم کے صرف دو ہی ٹرانسمیٹرہیں، ایک میرے پاس تھا اور دُوسرا میرے والد صاحب کے پاس رہتا ہے۔“
”اوہ! ا س کا مطلب ہے کہ وہی تم سے باتیں کِیا کرتے تھے؟“ ارشد نے کہا۔
”ہاں ارشد! وہ میرے والد ہی ہوتے تھے جو اپنی اُڑن طشتری سے مجھ سے باتیں کرتے تھے۔“ خالدنے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، مگر خالد! مجھے اب کیسے پتہ چلے گا کہ تم لوگوں کے ساتھ وہاں کیا بیتی؟“ ارشد نے پوچھا۔
”دیکھو! ٹرانسمیٹر چلانے اوربند کرنے کا طریقہ میں تمہیں سمجھائے دیتا ہوں، وہاں پہنچ کر میں ابا حضور والا ٹرانسمیٹر لے لوں گا اور اُس کے ذریعے تمہیں حالات سے باخبر رکھوں گا۔“
”بہت بہتر!“ ارشد نے کہا۔”مگر ایک بات اور بتاؤ خالد! جو مجھے بڑی دیر سے پریشان کر رہی ہے۔ اس وقت تو تم میری شکل میں ہو، تمہاری اصل شکل اُس دُھویں میں تھی نا جس میں اُس روز تم مجھے نظر آئے تھے۔ اُس شکل میں کوئی دُشمن بھی تم لوگوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا…“
ارشد کی اس بات پر خالد نے ایک پُر زور قہقہہ لگایا اور بولا:
”تم نے یہ کیسے اندازہ لگا لیا ارشد! کہ یہی ہماری اصل شکل و صورت ہے اوریہ کہ ہمارے سیارے پر بھی لوگوں کی یہی صورت ہے؟“
”تو اور کیا؟ اسی شکل میں تو تم مجھے نظر آئے تھے۔“ ارشد نے کہا۔
”بھولے دوست! یہ بات نہیں، سنو میرے سیارے اور تمہارے سیارے کے لوگوں کی شکل و صورت، جسم اور قد و قامت میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ تقریباً ہم لوگ بھی تمہیں جیسے ہیں، بے حد معمولی سا فرق ہے۔ ہاں، ایک بات ہے کہ وہاں کی آب و ہوا اور سائنسی ترقی کی وجہ سے ہم لوگوں نے بڑھاپے اور موت پر بڑی حد تک فتح پالی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں لوگ مرتے نہیں۔ مرتے ہیں، مگر وہاں اب موت کی شرح بے حد کم ہے۔ لوگ سینکڑوں سال تک مزے سے جیتے ہیں اورہمیشہ جوان رہتے ہیں۔“
”خوب!“ ارشد نے مسکرا کر کہا۔”مگر وہ دُھواں؟“
”ہاں وہ بھی بتاتا ہوں۔ ارشد! ہمارا سیارہ یہاں سے سینکڑوں نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ جسم کے ساتھ تو کیا، اگر کوئی آدمی نور کی شکل میں بھی سفر کرے، تو تمہاری زمین پر سینکڑوں سال میں پہنچے گا۔ اس کا حل ہمارے سائنس دانوں نے یہ تلاش کیا کہ ایک مشین کے ذریعے انسان کو ایسی لہروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے کہ وہ روشنی کی رفتار سے بھی ہزاروں گنا زیادہ تیزی کے ساتھ سفر کر سکتی ہیں۔ یہ لہریں منٹوں میں ہزاروں نوری سال کا فاصلہ طے کر لیتی ہیں۔ یہ لہریں جب تمہاری زمین میں داخل ہوتی ہیں تو چوں کہ یہاں آکسیجن گیس ہمارے سیارے سے زیادہ مقدار میں ہے، اس لیے اس گیس اور بعض دُوسری ایسی گیسوں کے ملنے سے جو ہمارے ہاں سرے سے پائی ہی نہیں جاتیں، یہ لہریں نظر آنے لگتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُس روز تم نے مجھے دیکھ لیا تھا مگر ان لہروں کو دوبارہ انسانی شکل اختیار کرنے کے لیے اسی عمل کی ضرورت ہوتی ہے جو اُس روز تمہارے ذریعے سر انجام پایا تھا۔“
”بہت خوب!“ ارشد نے کہا۔”مگر ایک بات اور، تم نے اُس روز کہا تھا کہ تمہارے والد صاحب اُڑن طشتری میں آئے تھے اور وہی تمہیں یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔“
”یہ بڑی باریک بات ہے،ارشد!“ خالدنے مسکراکر کہا۔”اصل میں وہ اُڑن طشتری بھی اُن ریڈیائی لہروں ہی کی بنی ہوتی ہے ورنہ اگر کسی دھات وغیرہ کی ہو تو اسے سفرکرنے میں تو ہزاروں سال لگ جائیں گے یہاں پہنچنے میں۔“
”اس کا مطلب ہے کہ ریڈیائی لہروں کی اُڑن طشتری میں سوار ہو کر تمہاری ریڈیائی لہریں سفر کرتے ہوئے یہاں تک آئیں، پھر ایک فاصلے پر تمہاری ریڈیائی لہریں طشتری سے نکل کر یہاں زمین پر آ گئیں اور پھر انسانی شکل اختیار کر لی۔“
”بالکل درست سمجھے ہو تم!“ خالد نے مسکرا کرکہا۔
”حد ہو گئی بھئی، تم لوگ تو سائنسی ترقی میں ہم لوگوں سے ہزاروں سال آگے ہو!“
”بالکل درست ہے ارشد! یہ میزائل اور راکٹ وغیرہ تو اب ہمارے ہاں ہزاروں سال پرانے آثارِ قدیمہ میں شمار ہوتے ہیں۔“
”حد ہو گئی بھئی!“
”ارشد! بہت باتیں ہوچکیں، اب اُٹھو! چلنے کی تیاری کرو۔“
”کہاں جانا ہے؟ کیا اُسی جگہ جہاں تم مجھے ملے تھے؟“
”ہاں …… مگر نہیں ……! اب وہاں جانے کی ضرورت نہیں …… اندھیری رات ہے۔ آؤ! اپنے مکان کی چھت پر ہی چلے چلتے ہیں۔ ٹرانسمیٹر تو ہمارے پاس ہے، وہاں توہم محض ٹرانسمیٹر کی خاطر جایا کرتے تھے۔“
”دِل تونہیں چاہتا خالد، مگر مجبوری ہے۔ چلو! چلتے ہیں۔“
خالد نے ٹرانسمیٹر اُٹھا لیا اور ارشد کو اُس کے چلانے اور بند کرنے کے علاوہ ضروری ضروری باتیں سمجھانے لگا، چند منٹ میں ارشد نے ساری ترکیب سمجھ لی۔ اس کے بعد اُنہوں نے کمرے کی بتی بجھا دی اور دبے پاؤں چلتے ہوئے چھت پر آ گئے۔
”خالد! ایک بات اور بتا دو۔ یہ ٹرانسمیٹر تم کس طرح اپنے ساتھ لے آئے جب کہ تم لہروں کی صورت میں سفر کرتے ہوئے یہاں پر پہنچے ہو۔“ ارشد نے پھر ایک سوال کر دیا۔
”ارشد بھائی! دُنیا کیا کائنات کی کوئی ایسی شے نہیں جو ریڈیائی لہروں میں تبدیل کر کے پھر اُسی شکل میں نہ لائی جا سکتی ہو۔ بس یوں سمجھ لو کہ یہ ٹرانسمیٹر مجھ سے بھی پہلے یہاں پہنچا کر ٹھوس شکل میں تبدیل کر دیا گیاتھا۔ اب اگر ہم چاہیں تو اسے پھر سے اُنہی لہروں میں تبدیل کر کے واپس لے جا سکتے ہیں، یہ بے حد آسان ہے۔“ خالد نے سمجھایا۔
”بہت خوب! یار، میرا تو دماغ چکرا گیا ہے۔ تم لوگ تو بہت آگے جا چکے ہو۔“
”اس میں کوئی شک نہیں ارشد! تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔“
خالد نے ٹرانسمیٹر چھت پر رکھ دیا اور ایک بٹن دبا دیا، اُس میں سے ”شوں، شوں…“ کی سی آواز آنے لگی۔ چند منٹ اسی طرح گزر گئے۔
”ارشد! مجھے افسوس ہے کہ تمہارا ٹھیک طرح سے شکریہ بھی ادا نہیں کر سکتا لیکن تم تو میرے بھائی ہو۔تم سے میں کچھ اتنا شرمندہ نہیں ہوں مگر والدہ صاحبہ نے جس محبت، خلوص اور شفقت کا سلوک میرے ساتھ کیا ہے، اُس کا بدلہ شاید میں کبھی نہ دے سکوں گا۔ دُکھ یہ ہے کہ اس وقت میں اُنہیں اپنی روانگی کی اطلاع دے کر پریشان نہیں کر نا چاہتا، نہ میں اُن سے رُخصت کی اجازت طلب کر سکا ہوں۔ تم کل صبح میری طرف سے اُن کا بے حد شکریہ ادا کرنا، اور میری اس کوتاہی کی معافی مانگنا، اور دُوسری بات یہ ہے کہ اسلم اور ماجد سے بھی رُخصت نہیں لے سکا۔ اُنہیں میں خود اپنا راز بتانا چاہتا تھا مگر اب اگر تم مناسب سمجھو تو میرایہ راز اُنہیں بتا دینا مگر ساتھ ہی یہ ہدایت کر دینا کہ اسے اپنے تک ہی محدود رکھیں، مگر اُنہیں میرے اچانک واپس چلے جانے کی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ بس کہہ دینا کہ وہ اچانک بلاوا آ جانے کی وجہ سے چلا گیا۔“
”تم مطمئن رہو خالد! میں سب ٹھیک کر لوں گا۔“
”شکریہ ارشد! تمہارا بے حد شکریہ، میں تمہیں واقعی اپنا بھائی سمجھوں گا اور ہمیشہ یاد رکھوں گا۔“
ٹرانسمیٹر پر اب اُسی تیز سیٹی کی آواز آنے لگی تھی۔ اچانک اُسی نیلی روشنی کا ایک دائرہ مکان کی چھت پر پڑنے لگا۔ خالد نے اُس کی مدھم سی روشنی میں ارشد کی طرف دیکھا، وہ رو رہا تھا۔
”ارشد! ہمت کرو، میں تم سے قریب ہی ہوں۔ اس ٹرانسمیٹر کے ذریعے تم جب جی چاہے، مجھ سے بات کر سکتے ہو۔“ مگر یہ کہتے کہتے خود اُس کی آواز بھی بھرّا گئی اورارشد نے دیکھا، خالد کی آنکھوں پر بھی آنسوؤں کے قطرے جھلملانے لگے تھے۔
”اچھا ارشد! اب مجھے خوشی خوشی رُخصت کرو۔“ خالد نے کہا اور پھر خود ہی آگے بڑھ کر ارشد کو گلے سے لگا لیا۔ دونوں دوست چند منٹ تک گلے سے لگے سسکیاں بھرتے رہے۔
”اچھا ارشد…! خدا حافظ… خدا نے چاہا تو پھر ملیں گے۔“
یہ کہہ کر وہ جلدی سے آگے بڑھا اور روشنی کے اُس دائرے کے اندر جا کھڑا ہوا۔
”خدا حافظ ارشد!“
خالد نے آنکھیں جھپکاتے ہوئے دونوں ہاتھ اُٹھا کر ارشد کو سلام کرتے ہوئے کہا۔
”خدا حافظ پیارے خالد! خدا حافظ میرے عزیز بھائی!“
دیکھتے ہی دیکھتے خالد اُسی دُھویں کی لہروں میں تبدیل ہو گیا اور پھر نہ صرف تھوڑی دیرمیں وہ دُھواں غائب ہو گیا بلکہ نیلی روشنی کا دائرہ بھی سمٹنے لگا۔
اچانک ہی پاس رکھے ہوئے ٹرانسمیٹر میں سے ایک آواز اُبھری:
”ارشد بیٹے! میں خالد کا باپ بول رہا ہوں۔ میری طرف سے تمہارا بے حد شکریہ! خالد کا جس محبت اور ہوشیاری سے تم نے خیال رکھا، اُس کے لیے میں ذاتی طور پر از حد ممنون ہوں۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں، پھر کبھی بات ہو گی۔ اچھا خدا حافظ!“
”خدا حافظ!“ ارشد آہستہ سے بڑبڑایا۔
اور پھر… وہیں چھت پر بیٹھ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔
”خالد……! میرے دوست…… میرے بھائی……“ وہ بار بار یہی کہہ رہا تھا۔