حضرت داؤد علیہ السلام
خدا وند کریم کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانشین حضرت یوشع علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے فلسطین میں داخل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دے رکھا تھا کہ جب وہ شہر میں فاتحانہ داخل ہوں تو مغرور اور متکبر انسانوں کی طرح داخل نہ ہوں بلکہ خدا کا شکر اور توبہ استغفار کرتے ہوئے داخل ہوں لیکن لوگوں نے اس حکم کی پروا نہ کی اور اکڑ اکڑ کر شہر میں داخل ہوئے۔ اس نافرمانی سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور وہ پھر محکوم و مقہور ہوگئے۔
اس کے بعد بنی اسرائیل میں بہت سے نبی آئے، جن میں حضرت الیاس اور حضرت الیسع کے نام قابل ذکر ہے، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے کوئی ساڑھے تین سو سال تک ان میں کوئی بادشاہ نہ ہوا اور نہ وہ کسی کو حکمران بنانے کو تیار تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ دوسری ہمسایہ قوموں سے ہمیشہ پٹتے رہے، اس زمانے میں ایک بادشاہ جالوت نے بنی اسرائیل کی تمام بستیوں پر قبضہ کرلیا، یہ بڑا ظالم اور جابر بادشاہ تھا، اس نے بنی اسرائیل پر بے پناہ مظالم توڑے۔
اسوقت بنی اسرائیل میں حضرت شموئیل علیہ السلام کے حافظ تھے اور اللہ نے ان کونبی بھی بنایا تھا چنانچہ قوم نے ان سے درخواست کی کہ ان پر کوئی بادشاہ بنایا جائے، جس کی سرداری میں ہم ظالموں کا مقابلہ کرسکیں، اس پر آپ نے فرمایا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر تم پر کوئی بادشاہ مقرر کیا جائے اور وہ تم کو جہاد کا حکم دے تو تم جہاد سے انکار کردو۔ بنی اسرائیلیوں نے کہا کہ ہم اس ذلت سے اب بہت تنگ آگئے ہیں، انہوں نے ہماری اولاد کو قید کردیا۔ ہمیں گھر سے بے گھر کیا۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم جہاد سے انکار کردیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت شموئیل نے طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا۔ کیوں کہ وہ بہادر بھی تھے اور اہل علم بھی، لیکن جن بنی اسرائیل نے سنا تو وہ اس پر ناک بھوں چڑھانے لگے اور کہنے لگے وہ تو بہت ہی غریب ہے، وہ کس طرح ہمارا بادشاہ ہوسکتا ہے۔
حضرت شموئیل علیہ السلام نے فرمایا۔ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تم بزدل اور پست ہمت ہو اور اسی لیے تم یہ حیلے بہانے تراش رہے ہو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر طالوت کا تقرر خدا کی طرف سے ہے تو اس کے لیے خدا کا کوئی نشان دکھائو۔ حضرت شموئیل نے فرمایا کہ تابوت سکینہ جو تم سے چھن گیا ہے، جس میں تورات اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے، وہ طالوت علیہ السلام کی بدولت تمہارے پاس آجائے گا، چنانچہ اللہ کے حکم سے فرشتے تابوت سکینہ طالوت کے پاس لے آئے۔ اب طالوت نے جالوت کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔
جالوت خود بھی ایک قوی ہیکل انسان تھا اور اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی۔ مجاہدین خدا سے فتح و نصر کی دعائیں کررہے تھے، میدان جنگ میں پہنچ کر جالوت نے بنی اسرائیل میں سے کسی کو مقابلے کے لیے طلب کیا۔ بنی اسرائیل میں سے حضرت دائود جو لڑائی کی غرض سے نہیں آئے تھے اور ان کی عمر بھی ابھی چھوٹی تھی، جالوت کے مقابلے کے لیے نکلے اور آتے ہی جالوت کا کام تمام کردیا۔ بادشاہ کی موت نے مخالف فوج کے حوصلے پست کردئیے وہ بھاگ گئے اور بنی اسرائیل میں بہت ہر دلعزیز ہو گئے اور بعد میں خدا کے برگزیدہ پیغمبر اور بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے چوں کہ آپ رسول بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ اس لیے اللہ نے آپ کو قرآن حکیم میں خلیفہ یعنی نائب کے لقب سے یاد کیا ہے اور خداوند کریم نے اپنی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اس کی حکومت کو مضبوط کیا ہے، نبوت عطا کی اور صحیح فیصلہ کی قوت بخشی۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں نرم ہوجاتا تھا، اگرچہ آپ بادشاہ تھے، مگر شاہی خزانے سے ایک پیسہ تک اپنے لیے نہ لیتے تھے، بلکہ زرہیں بنا کر فروخت کیا کرتے تھے اور اس طرح حلال کی کمائی کرکے کھاتے تھے کیوں کہ نبی جو بھی خلق خدا کی خدمت کرتے ہیں وہ کسی معاوضے اور بدلے کے لیے نہیں کرتے۔ ان کا اجر تو ان کے خدا کے پاس ہوتا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام کی زرہیں لڑائی میں بہت مفید ثابت ہوئیں۔ اس لیے جنگجو انہیں شوق سے خریدتے تھے، نیز آپ پرندوں کی بولیوں کو بھی سمجھتے تھے اور یہ علم اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرزندحضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی عطا کیا۔ چوتھا معجزہ آپ کا یہ تھا کہ جب آپ گھوڑے کی زین کسنا شروع کرتے تو اس سے فارغ ہونے تک ساری زبور کی تلاوت کرلیا کرتے تھے۔
کہتے ہیں حضرت دائود علیہ السلام نے سوسال کی عمر میں وفات پائی اور شہر صعیون میں دفن ہوئے۔