skip to Main Content

دستک

عبد الرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔

احمد بغدادی کی بوڑھی والدہ نے پلٹ کر اُنہیں دیکھا اور کہنے لگیں:
”بیٹا! ہم تمہارے کہنے پر جاتورہے ہیں، لیکن وہاں تمہاری فکر رہے گی۔ ان دنوں حالات بہت خراب ہیں۔ کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دیکھو! صرف جان پہچان والے لوگوں کے لیے دروازہ کھولنا۔کسی اجنبی کو گھرمیں مت داخل ہونے دینا۔ لکھنے والے تو بہت تیز ہوتے ہیں لیکن میں نہیں جان سکی کہ تم اتنے سیدھے کیوں ہو۔ لوگوں پر جلد بھروسہ کر لیتے ہو۔“
”ہم دو دن بعد واپس آجائیں گے۔ آپ امی کی باتوں کو پلّو سے باندھ لیجئے۔ احتیاط کیجئے گا۔“ احمد بغدادی کی بیگم نے کہا۔ چھ سال کی عائشہ باہر جانے کے لیے مچل رہی تھی۔ یہ دیکھ کر احمد بغدادی مسکرائے:
”میں نے آپ کی باتیں پلّو سے باندھ لی ہیں۔ اب چلیں، عائشہ بے چین لگ رہی ہے۔ شاید اِسے ماموں سے ملنے کی جلدی ہے۔“
”ٹھیک ہے، ہم چلتے ہیں۔“ بیگم بغدادی نے کہا اور وہ تینوں گھر سے نکل گئے۔
اُن کی عمرتیس سال کے لگ بھگ تھی۔وہ ایک معروف کہانی کار تھے۔جتنی اچھی کہانیاں اور ناول لکھتے تھے، اُتنے ہی اچھے خود تھے۔ اُن کا شمار ان لکھاریوں میں ہوتا تھا جن کا کہنا، کرنا اور لکھنا ایک سا تھا۔ خلق خدا کی مدد کرکے انہیں خاص راحت ملتی تھی۔
یہ سردیوں کے دن تھے۔ وہ اس وقت گھر میں اکیلے تھے۔ان کاقلم تیزی سے سفید کاغذ سیاہ کررہاتھا۔قریب ہی میز پر پانی سے بھرا شیشے کا ایک گلاس پڑاتھا۔ان کا قلم چلتے چلتے یکایک رُک گیا۔ انہوں نے سراُٹھا کر دائیں طرف دیوار پرموجود، گھڑی پر نگاہ ڈالی۔رات کے نوبج رہے تھے۔وقت دیکھ کر انہوں نے گلاس اُٹھالیا۔پانی پینے کے بعد وہ دوبارہ لکھنے کے لیے تیار ہوگئے۔انہوں نے قلم ہاتھ میں لیااورلکھنا ہی چاہتے تھے کہ بیرونی دروازے پر کسی نے زور سے دستک دی۔
”کون ہوسکتاہے اس وقت؟“وہ بڑبڑائے۔اسی وقت دوبارہ دستک ہوئی۔یہ پہلی کی نسبت زیادہ زوردار تھی۔ وہ اُٹھے اوربیرونی دروازے پرپہنچ گئے:
”کون ہے باہر؟“
”ایک مصیبت کا مارا…“ آواز کسی لڑکے کی تھی۔اُس کے لہجے میں درد تھا۔
انہیں یک دم اپنی والدہ کی نصیحت یاد آئی:
”بیٹا! کسی اجنبی کو گھر میں نہ گھسنے دینا۔“
اب صورت حال یہ تھی کہ ان کے کانوں میں والدہ کی نصیحت گونج رہی تھی اور دل تھا کہ حسب عادت مچل رہا تھا اور کہہ رہا تھا:
’کسی مصیبت کے مارے کی مدد کرنے سے زیادہ اچھی بات بھلا اور کیا ہوسکتی ہے۔‘
وہ چند لمحے کھڑے سوچتے رہے۔ اسی دوران باہر سے مسلسل کہاجاتا رہا:
”میں مصیبت میں ہوں۔ آپ کی مدد چاہتا ہوں، میری جان کو خطرہ ہے۔“
”تمہاری جان کو خطرہ ہے؟“
”جی! جلدی سے دروازہ کھول دیں۔ کچھ لوگ مجھے مارنا چاہتے ہیں۔“ آواز کانپ رہی تھی۔
”کیوں مارنا چاہتے ہیں؟“انہوں نے حیرت سے پوچھا۔لڑکے کی آواز ان کے لیے ان جانی تھی۔
”انکل!دروازہ توکھولیں،اندر آکربتاتاہوں۔میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ وہ لوگ مجھ تک بس پہنچاہی چاہتے ہیں۔“لڑکے کے لہجے میں جانے کیا تھا۔انہوں نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلتے ہی سردی کا ایک جھونکا،اُن کے پورے بدن کو سردکرگیا۔ان کاگھر سڑک کے کنارے واقع تھا۔گھر کے ایک طرف گھنی جھاڑیاں تھیں۔یہ شہر کا مضافاتی علاقہ تھا۔ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ اندھیرے نے ہر چیز کو اپنی چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ایسے میں گھر کے دروازے سے ذرا اُوپر لگے بلب کی زرد روشنی ماحول کو ہیبت ناک بنا رہی تھی۔ انہوں نے اس روشنی میں دیکھا۔وہ تیرا چودہ برس کا ایک خوش شکل لڑکا تھا۔ اس کے جسم پر عمدہ لباس تھا۔ کسی امیرگھرانے کاچشم وچراغ محسوس ہو رہا تھا۔خوف سے اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔دروازہ کھلتے ہی وہ جلدی سے اندرداخل ہوا اورپھر اُس نے تیزی سے گھوم کرخود ہی دروازہ بندکرکے چٹخنی چڑھادی۔وہ حیرت سے لڑکے کودیکھ رہے تھے۔
”میرے پیچھے غنڈے لگے ہوئے ہیں۔وہ مجھے مارناچاہتے ہیں۔انکل!وہ تین ہیں۔بہت خوف ناک شکلیں ہیں ان کی۔انہوں نے میرے بڑے بھائی کو مار دیا ہے اور اب مجھے بھی ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔“ لڑکے نے ہاپنتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟“انہوں نے اپنا سوال دہرایا۔یکایک لڑکے نے غورسے ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔اُنہیں الجھن ہونے لگی۔وہ چند لمحے خاموش رہا،پھر بولا:
”انکل!آپ مشہور مصنف احمد بغدادی ہیں نا…؟“
وہ مسکرائے اور کہنے لگے:
”ہاں!میں احمد بغدادی ہوں۔“
”اوہ، انکل!اگر کوئی اورموقع ہوتاتومیں آپ سے آٹوگراف ضرور لیتا، لیکن یہ آٹو گراف لینے کا وقت نہیں ہے۔میں آپ کی کہانیاں اور ناول بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔اس وقت میں مصیبت میں ہوں اور پریشان بھی۔“لڑکے کی آواز میں خوف نمایاں تھا۔
”شکریہ!میں سمجھ سکتاہوں۔خیر،تم نے بتایا نہیں، غنڈے تمہیں کیوں مارناچاہتے ہیں؟“انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ اپنے ایک ننھے قاری سے مل رہے تھے۔وہ اپنے ملنے والوں کی بڑی آؤ بھگت کیا کرتے تھے لیکن اس وقت وہ ایسا کچھ کرنے سے قاصر تھے۔ صورت حال ہی ایسی تھی۔
” میرا نام اشرف ہے۔ والد نے مرنے سے پہلے کافی جائیداد ہم دوبھائیوں کے نام چھوڑی۔امی پہلے ہی فوت ہوچکی تھیں۔ یوں جائیدادکے ہم دونوں ہی وارث تھے۔ ہماراچچا سفیر احمد بہت ظالم آدمی ہے۔وہ چاہتاہے، تمام جائیداد اُسے مل جائے۔ چناں چہ اس نے ہمیں ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چند اُجرتی غنڈوں کو ہمارے پیچھے لگادیا۔آج رات ہم اپنے گھر سورہے تھے کہ وہ غنڈے وہاں آگئے۔ انہوں نے میرے بھائی کومار دیا۔مجھے بھی ہلاک کرنا چاہتے تھے لیکن میں بھاگ نکلا۔انہوں نے میرا تعاقب کیامگر میں بچتا بچاتایہاں آنکلا۔ آپ کے گھر کو دیکھتے ہی دستک دے ڈالی کہ شاید جان بچ جائے میری۔“لڑکا اب تھر تھر کانپنے لگا تھا۔
”ہوں…تو یہ چکرہے۔“احمد بغدادی نے پوری بات سن کرکہا۔
”انکل!آپ مجھے ان درندوں سے بچالیں، وہ مجھے مار دیں گے۔“یکایک لڑکا رونے لگا۔
”دوست!بچانے والا تو اللہ ہے۔ میں کوشش کروں گا، وہ لوگ تم تک نہ پہنچ پائیں، ویسے ایک بات میں تم سے کہنا چاہتا ہوں۔“ انہوں نے کہا۔
”کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟“ لڑکے نے چونک کر پوچھا۔
”تم کوئی لٹیرے تو نہیں ہو؟“ وہ مسکرائے۔
”کیا مطلب؟“ وہ بُری طرح اُچھلا:
”سرد راتوں میں بہت سے لٹیرے دندناتے پھرتے ہیں نا، اس لیے پوچھاہے!“ انہوں نے لڑکے کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔
عین اسی وقت بیرونی دروازے پر بڑے زورسے دستک ہوئی۔لڑکا کانپ کررہ گیا:
”لگتا ہے، وہ لوگ یہاں پہنچ گئے!!“
”ہاں…آں! آپ کچھ کریں ورنہ وہ لوگ…“لڑکے کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اور وہ بید کی چھڑی کی طرح کانپنے لگا۔
”تم فکرنہ کرو…اندرجاکر بیٹھ جاؤ۔میں انہیں دیکھتاہوں۔“احمد بغدادی نے کہاتولڑکاتیزی سے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔
انہوں نے بلند آواز سے پوچھا:
”کون ہے؟“
”یہاں ہمارا بھائی اشرف آیاہے۔ ہم اُسے لینے آئے ہیں۔“باہر سے کہا گیا۔آواز بہت سخت تھی۔
”یہاں کوئی نہیں آیا،آپ کویقینا غلط فہمی ہوئی ہے۔“
”جھوٹ تو نہ بولیں صاحب، ہم نے اُسے یہاں داخل ہوتے خود دیکھا ہے۔“دوسری آواز لہرائی۔
”میں کہہ چکا ہوں…یہاں کوئی نہیں آیا۔“
”صاحب!وہ گھر سے بھاگ کرآیا ہے۔ ہماراکزن ہے، اس کی دماغی حالت صحیح نہیں ہے۔ ابونے کہا ہے، اُسے ڈھونڈ کر لاؤ۔ہم نے اِسے بڑی مشکل سے تلاش کیا ہے۔ آپ مہربانی کرکے اِسے ہمارے حوالے کر دیں۔“ باہر سے نرم آواز میں کہاگیا۔یہ سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہے، پھر کچھ سوچتے ہوئے بولے:
”آپ کا اندازہ درست ہے، وہ یہیں ہے لیکن اِس نے مجھے ساری کہانی سنا دی ہے۔ آپ لوگ اِسے مارنا چاہتے ہیں۔ لہٰذامیں اِسے آپ کے حوالے نہیں کروں گا۔“وہ مسکرائے۔
”گویا وہ یہیں چھپا ہوا ہے۔“ ہنس کر کہا گیا۔
”ہاں! وہ یہیں ہے لیکن میرے ہوتے ہوئے آپ اِسے ہلاک نہیں کر سکتے۔“ وہ مضبوط لہجے میں بولے۔
”ہلاک…آپ پاگل ہیں کیا!وہ ہمارا کزن ہے،ہم اُسے کیوں ہلاک کریں گے۔“
”آپ دراصل اُجرتی قاتل ہیں اور اشرف کے چچا سفیر کے حکم پر اسے ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔“
”اس نے آپ سے غلط کہا ہے۔ ہم اُجرتی قاتل نہیں ہیں۔اس کے بھائی ہیں۔ اسے ہمارے حوالے کر دیں۔“یہ ایک دوسری آواز تھی۔ اندازعجیب سا تھا۔
”میں آپ کی باتوں میں نہیں آؤں گا۔ کچھ بھی ہو، میں اسے آپ کے حوالے نہیں کر وں گا۔ اس پر ظلم نہیں ہونے دوں گا۔“ احمد بغدادی دروازے سے ہٹ کر کمرے میں پہنچے تو دیکھا، لڑکا ان کی رائٹنگ ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی پر بڑے مزے سے بیٹھا تھا۔باہر دروازہ بجایا جانے لگا تھا۔ تاہم آواز زیادہ اونچی نہ تھی۔ وہ بے اختیار سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ انہوں نے دیکھا، اس کے چہرے پر اب خوف نہیں تھا۔
”باہر تمہاری جان کے دشمن دروازہ بجا رہے ہیں اور تم بڑے مزے سے میری کرسی پر اطمینان سے بیٹھے ہو، میں دیکھ رہا ہوں، تم خوف زدہ بھی نہیں ہو…یہ چکر کیا ہے؟“ احمد بغدادی کے چہرے پر اب حیرت ہی حیرت تھی۔ وہ اب اندر سے ڈر بھی رہے تھے لیکن دلی کیفیت چھپا رہے تھے۔
”چکر کوئی نہیں ہے انکل، میں آپ کے ہاں بالکل محفوظ ہوں، اس لیے اطمینان سے بیٹھا ہوں۔ باہر والے تنگ آکر واپس چلے جائیں گے…میں انہیں جانتا ہوں، وہ سردی میں زیادہ دیر باہر کھڑے نہیں رہ سکتے۔“
”اوہ…یہ بات ہے۔“ وہ گہرا سانس لے کر اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گئے۔
”ارے نہیں، آپ یہاں بیٹھیں۔“ وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
وہ اُٹھ کر اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ گئے اور لڑکا بڑی گہری نظروں سے جائزہ لینے لگا۔
”لڑکے! کیا تم واقعی اشرف ہو، مطلب تمہارا نام اشرف ہے؟“
”جی ہاں! میرا نام اشرف ہی ہے۔ انکل! آپ بہت اچھے ہیں، میں ہمیشہ آپ کو یاد رکھوں گا۔“ لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بیرونی دروازے پر مسلسل ہونے والی دستک واقعی رُک چکی تھی۔ شاید وہ لوگ جا چکے تھے۔
ایسے میں احمد بغدادی ہولے سے بُڑبُڑائے:
”امی جی تو ایسے ہی ڈراتی رہتی ہیں، دُنیا میں سارے لوگ چور اُچکے یا لٹیرے نہیں ہوتے، مظلوم اور بے بس بھی تو ہوتے ہیں، ہمیں نیکی کرنے سے ڈرنا نہیں چاہیے۔“
”انکل! کیا کہہ رہے ہیں آپ؟“
انہوں نے ہنستے ہوئے ساری بات بتا دی کہ ان کی والدہ نے جانے سے پہلے انہیں کیا نصیحت کی تھی اور بیوی کی پلّو سے باندھنے والی بات بھی کہہ دی۔ اُن کی بات سن کر لڑکے نے زور سے قہقہہ لگایا اور اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”تمہیں کیا ہوا؟“ انہوں نے گھبرا کر پوچھا۔
”آپ کو اپنی بیوی کی بات واقعی پلّو سے باندھنی چاہیے تھی۔“
”کیا مطلب!!“
”مطلب یہ کہ اچھے بچوں کو بڑوں کی باتیں ہمیشہ ماننی چاہئیں…“ لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
انہوں نے دیکھا، اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پستول پکڑا ہوا تھا۔ اسی وقت دروازے پر دستک دوبارہ ہونے لگی، مسلسل دستک…..

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top