دس ماشے سونف
فوزیہ خلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلدی جلدی بولیں دس ماشے سونف ۔۔۔ دس ماشے سہاگا۔۔۔ دس ماشے ۔۔۔!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالانہ امتحان کی رپورٹ کارڈ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میں اردو کے سوا ہر مضمون میں فیل تھا۔ اردو میں سو میں سے پینتالیس نمبر تھے۔ باقی سب میں دس سے زیادہ نمبر نہیں تھے۔ میں تھرتھر کانپتے ہاتھوں رپورٹ کارڈ دیکھ ہی رہا تھا کہ مسعود اور یاور آپہنچے۔
’’ کیوں بھئی کیا رہا۔۔۔ عادل۔‘‘
میری رنگت اڑی ہوئی تھی۔ میں بولا۔
’’ میرے ابو مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اب کیا ہوگا۔ وہ بہت غصہ والے ہیں۔‘‘
’’ارے غصے کا علاج تم کل پڑھ رہے تھے ناں یاور۔ ذرا عادل کو بتانا۔ یہ بھی غصہ کے علاج کے اہم اہم نکات نوٹ کر لے تاکہ اس کے ابو کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے۔‘‘ مسعود بے فکری سے بولا۔
یاور نے ایک رسالہ کھولا اور نکات بولنا شروع کر دیئے۔
’’ ایسے نہیں یاور۔ اس کو لکھواؤ۔ تاکہ کہیں بھول چوک نہ ہوجائے۔‘‘
میں نے بیگ میں سے اپنا رجسٹر نکالا اور نکات نوٹ کرنے لگا۔
دوپہر میں اسکول سے گھر پہنچا تو کافی مسرور و مطمئن تھا۔ یاور نے مجھے غصہ کے علاج کے پانچ بڑے صفحات لکھوا دیئے تھے۔ رسالے میں شرطیہ لکھا تھا کہ غصہ فوراً غائب۔
’’ ہمیں فون کرکے اپنی اچھی صورت حال سے ضرور مطلع کر دینا۔‘‘ دونوں نے کہا تھا۔ میں آیا تو گھر میں عجیب افراتفری تھی۔ ہر شخص ہولا یا بولا یا پھر رہا تھا۔
’’ارے بھئی مجھے صرف ہاتھ دھو لینے دو۔ باہر سے آیا ہوں۔ بہت گندے ہو رہے ہیں۔‘‘ بھائی جان کہہ رہے تھے۔
’’ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ پانی بالکل نہیں ہے‘‘ آج پانچواں روز ہے جو پانی نہیں آیا تھا۔
’’ اچھا بھئی ۔ صرف سیدھے ہاتھ کی تین انگلیاں دھونے دو۔‘‘ بھائی جان کہہ رہے تھے۔ ہمارے پورے علاے میں کئی کئی روز پانی غائب ہو جاتا تھا۔ پورے گھر میں ایمرجنسی نافذ ہوجاتی تھی۔ بڑی آپا کی اجازت کے بغیر کوئی ایک مگ پانی استعمال نہیں کر سکتا تھا۔
بھائی جان کے پرزور اصرار پر انہیں چوتھائی مگ پانی عنایت کیا گیا۔ جسے کافی دیر انہوں نے حسرت سے دیکھا۔ پھر اپنی انگلیاں دھو کر کونے میں بیٹھ گئے۔ اسی لمحے ٹیپو ناچتا کودتا اندر داخل ہوا۔ وہ شاید کسی کیچڑ میں لوٹیں لگا کر آرہا تھا۔ ٹیپو کا ہاتھ منہ پیر سب کیچڑ میں لتھڑے ہوئے تھے۔ ٹیپو کو دیکھ کر بڑی آپا نے ایک دل خراش چیخ ماری۔ کمروں کے دروازے دھڑا دھڑ کھلنے لگے۔ امی، ابو، دادی، بھائی جان، چھوٹی باجی سب دوڑتے ہوئے جمع ہو گئے۔
’’ کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا۔‘‘
’’ ٹٹ۔۔۔ ٹیپو۔۔۔ پپ۔۔۔ پانی۔۔۔ پانی۔‘‘ وہ رکی رکی سانسوں سے کہہ رہی تھیں۔
ٹیپو کو گردن سے پکڑ کر دبوچ لیا گیا۔
’’جاؤ اب باہر جا کر ہوا میں بیٹھ جاؤ۔ کیچڑ سوکھ جائے گی تو خود ہی جھڑ جائے گی۔ یہاں پینے کو پانی نہیں مل رہا۔ تمہارا منہ کون دھلائے گا۔‘‘ بھائی جان نے جل کر کہا۔
’’ نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔ مجھے نہلاؤ۔ میرے سب جگہ مٹی لگ گئی۔‘‘
’’ آیا۔۔۔ بڑا نہائے گا۔‘‘ بڑی آپا نے غرا کر کہا اور پانی کے اکلوتے جگ کو اپنے اور قریب کر لیا۔
اسی اثناء میں مجھے اپنی رپورٹ کارڈ کا خیال آیا۔ آج تو سبھی غصے میں آپے سے باہر ہیں۔ چھوٹی باجی جو ہمیشہ میری حمایت میں بولتی ہیں۔ آج تو وہ بھی منہ بسور کر بیٹھی تھیں۔ میں نے رپورٹ کارڈ دکھانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ کسی کو خیال بھی نہ آیا کہ آج میرا رزلٹ تھا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ بھوک نے ستایا تو میں نے کچن میں جھانکا۔ میلے برتن ڈھیر کی صورت میں پڑے تھے۔ میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔ کہانی کی ایک موٹی سی کتاب کھول لی۔ دیر تک پڑھتا رہا۔ چپس کے کئی پیکٹ کمرے میں پڑے تھے۔ کھاتا رہا۔ مزے کرتا رہا۔ پھر میری آنکھ لگ گئی۔ میں بہت لمبی دیر تک سوتا رہا۔ میری آنکھ کھلی تو گھر میں زبردست شور تھا۔ سب قہقہے لگا رہے تھے۔ ہنس رہے تھے۔ ایک دوسرے کو لطائف سنائے جا رہے تھے۔ میں نے گھڑی دیکھی تو صبح کے چار بج رہے تھے۔
’’یا الٰہی ۔۔۔ یہ کیا ماجرا ہے۔ عید آنے میں تو ابھی کئی ماہ باقی ہیں۔ کیا میں کئی ماہ سوتا رہا۔‘‘ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ بھائی جان آئینے کے سامنے کھڑے گنگنا رہے ہیں۔ ان کے بالوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میں نے بے یقینی کی سی کیفیت میں بالوں کو چھوا۔
’’ یہ کیا ہے۔۔۔ تری۔‘‘ جواب میں انہوں نے قہقہہ لگایا۔
’’ارے نہا کر آیا ہوں۔‘‘
’’نہا کر۔۔۔ ‘‘ میں نے خوفزدہ ہو کر بڑی آپا کے کمرے کی طرف جھانکا۔
بڑی آپا پلیٹ میں اپنا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔ مسکرا رہی تھیں۔
’’خیریت بڑی آپا۔‘‘ میں ان کی طرف بھاگا۔
’’دیکھو عادل۔ میں نے کتنی صاف پلیٹ دھوئی ہے۔ چہرہ نظر آرہا ہے۔‘‘
’’دھوئی ہے۔ پانی سے ۔۔۔ پانی سے دھوئی ہے۔‘‘ میں ہکلایا۔
’’ارے بھیا۔۔۔ پانی آرہا ہے دو گھنٹے ہو گئے۔‘‘ وہ اٹھلائیں اور پلیٹ کو چوتھی مرتبہ دھو کر اپنا چہرہ دیکھنے لگیں۔
صحن کے ایک طرف ٹیپو بالٹی میں پانی بھر کر بیٹھا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا آج شام تک وہ اس بالٹی سے باہر نہیں آئے گا۔
ڈرائنگ روم سے ابو کے ہنسنے اور قہقہے لگانے کی آواز آرہی تھی۔ مجھے اپنی رپورٹ کارڈ کا خیال آیا۔ میں نے دل میں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے میرے لیے اتنا اچھا ماحول بنا دیا کہ میں بے فکری سے اپنی رپورٹ کارڈ دکھا سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اس سے قبل کہ گھر کے کسی فرد کو میرے رزلٹ کا خیال آئے مجھے وہ ابو کو پہلے ہی دکھا لینی چاہیے۔
کمرے میں جا کر رپورٹ کارڈ اٹھا لایا۔ ساتھ میں اپنا رجسٹر بھی۔ جس میں پانچ صفحات پر غصے کے اہم نکات ترتیب وار لکھے تھے۔
میں کمرے میں داخل ہو گیا۔ ابو گن رہے تھے۔ چوبیس۔ چوبیس ہو گئیں۔ وہ پانی کی بوتلیں بھر بھر کر فرج میں رکھ رہے تھے۔ ہنس رہے تھے۔ مسکرا رہے تھے۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے رپورٹ کارڈ آگے رکھ دی۔
’’ابو۔۔۔ آپ بولیں۔ کچا پپیتا ۔ پکا پپیتا ۔ سچ۔ بڑی ہنسی آئے گی۔‘‘ میں نے رجسٹر پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ۔۔۔ کچا پپیتا۔۔۔ پکا پپیتا۔۔۔ کچا۔۔۔ پکا۔۔۔ پکا۔۔۔ کچا۔۔۔‘‘ رپورٹ کارڈ کھل چکی تھی۔
’’بولیے ناں ابو۔۔۔ اچھا ایسا کریں۔ جلدی جلدی بولیے۔ دس ماشے سونف۔ دس ماشے سہاگا۔۔۔ دس ماشے سونف۔۔۔ دس ماشے سہاگا۔‘‘ میں ہنسا۔
’’اچھا۔۔۔‘‘ وہ مسکرائے۔ میں اور پھیل کر بیٹھ گیا۔ اعتماد سے انہیں دیکھنے لگا۔
’’ یہ کس کی رپورٹ کارڈ ہے؟‘‘ وہ مسکرا کر پوچھ رہے تھے اور بول رہے تھے۔
’’ دس ماشے سونف۔ دس ماشے سہاگا۔۔۔ ‘‘
’’ میری اور کس کی ہوگی؟‘‘ میں قہقہہ لگا کر بولا۔
’’تمہاری۔۔۔ کیوں مذاق کرتے ہو۔‘‘ وہ کچھ بے یقینی کی سی کیفیت میں بولے۔
’’اچھا۔۔۔ ایسا کریں۔ بار بار دھرائیں۔ تو جلدی پتلی بتی بٹ لا۔ تو جلدی پتلی بتی بٹ لا۔۔۔‘‘ میں مسکرا رہا تھا۔
’’ کیا۔۔۔ ‘‘ وہ گرج کر بولے۔ ’’تمہارا رزلٹ تو کل تھا۔ برخوردار۔۔۔ آج رپورٹ کارڈ دکھا رہے ہیں۔ مسکراتے ہوئے۔ مجال ہے کہ شرمندگی کی رمق تک چہرے پر ہو۔ کل اطمینان سے کمرے میں سوتے پڑے رہے۔ چپس چبائے جا رہے تھے۔ کہانیاں چل رہی تھیں۔‘‘
میں دہل رہا تھا۔ مڑکر پھر رجسٹر پر نظر ڈالنا چاہی تو ابو نے آگے بڑھ کر اچک لیا۔
’’ کوئی ایسا مضمون بھی ہے جس میں تم نے ڈھنگ کے نمبر لیے ہوں۔‘‘ وہ چیخ کر بولے۔
’’ جج ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔ اردو۔۔۔ اپنی پیاری زبان۔۔۔ مادری۔۔۔ بالکل مادری۔‘‘ میں نے حواس مجتمع کرکے پھر مسکرانے کی کوشش کی۔
انہوں نے بڑھ کر مجھے گدی سے پکڑ لیا۔ دو زناٹے دار تھپڑ کھا کر مجھے زمین گھومتی محسوس ہوئی۔ رجسٹر، رپورٹ کارڈ اور اپنے گھومتے سر کو سنبھالتے ہوئے میں کمرے سے باہر نکلا۔ چھوٹی باجی سامنے سے آرہی تھیں۔ ہاتھ تھام کر وہ مجھے اپنے کمرے میں لے آئیں۔ پہلے رپورٹ کارڈ دیکھی۔ پھر کھول کر رجسٹر پڑھا۔ پھر رجسٹر بند کرکے کہنے لگیں۔
’’بتاؤ عادل۔ اس رجسٹر پر تم نے کیا نوٹ کیا ہے؟‘‘
’’چھوٹی باجی۔۔۔ یہ غصے میں مبتلا انسان کو مسکراہٹ پر مجبور کر دیتے ہیں۔اعصاب پر سے تناؤ کم ہو جاتا ہے۔‘‘ میں زبانی سناتا چلا گیا۔
’’شاباش۔۔۔ اس قدر جلد تمہیں یہ سب کچھ من و عن یاد ہو گیا۔ صرف اس لیے کہ تم نے اس کو پوری دلچسپی اور شوق سے لکھا۔ لکھائی بھی کس قدر صاف ستھری ہے۔ اِملا کی بھی کوئی غلطی نہیں۔ اگر تم اسی دلچسپی اور شوق سے اپنے امتحانات کی تیاری کرتے تو ضرور اچھے نمبر حاصل کر لیتے۔ ثابت یہ ہوا کہ صرف دلچسپی اور شوق نہ ہونے کے باعث تم کامیاب نہ ہو سکے۔ کیوں، کیا میں صحیح کہہ رہی ہوں؟‘‘
’’ جی۔۔۔‘‘ میں صرف اتنا ہی کہہ سکا۔ دو آنسو ٹوٹ کر میری ہتھیلیوں پر آگرے۔
’’ مجھ سے وعدہ کرو۔ آئندہ تم اچھے نمبر لے کر آؤ گے ۔۔۔ اور مجھے یقین ہے ، یہ تمہارے لیے کچھ بھی مشکل نہ ہو گا۔‘‘
’’ اِن شاء اﷲ ۔۔۔ ‘‘ میں نے کہا۔
دوسرے کمرے سے بھائی جان کی آواز آرہی تھی۔ وہ تیز تیز کہہ رہے تھے۔
’’تو جلدی پتلی بتی بٹ لا۔۔۔ تو جلدی پتلی بتی بٹ لا۔‘‘
میں اور چھوٹی باجی بے ساختہ مسکرانے لگے۔
*۔۔۔*