دس لاکھ کا نوٹ
تحریر: مارک ٹوین
ترجمہ: ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں دنیا میں بالکل اکیلا تھا اور امریکا کے شہر سان فرانسسکو کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ اپنے دماغ اور نیک نامی کے سوا دنیا میں میرا کوئی سہارا نہ تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ میری ذہانت اور ایمان داری ایک نہ ایک دن مجھے اعلا مقام پر ضرور پہنچائے گی۔
چھٹی کے دن میں شام کو گھومنے پھرنے ساحل سمندر کی طرف نکل جاتا اور چپو سے چلنے والی ایک چھوٹی سی کشتی میںمزے مزے سے کھیلتا رہتا۔
ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ میں ساحل سے کچھ دور نکل گیا اور گہرے سمندر میں میری کشتی تیز بہاﺅ کے ساتھ خدا جانے کہاں پہنچ گئی۔ ساحل نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا اور اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر جلد ہی کوئی تدبیر نہ کی تو ان موجوں پر مجھے کئی دن تک تنکوں کی طرح بھٹکنا پڑے گا۔ بلکہ بھوک پیاس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ایک بحری جہاز کے کپتان نے مجھے دیکھ لیا۔ یہ جہاز لندن جارہا تھا۔ کپتان نے مجھے بتایا: ”اب تمھیں بھی ہمارے ساتھ لندن جانا پڑے گا۔ ہم کہیں اور نہیں جاسکتے۔ البتہ کرائے کے عوض تمھیں جہاز پر کام کرنا پڑے گا۔“ مرتا کیا نہ کرتا۔ میں نے ہامی بھرلی۔ وہ ایک طویل سفر تھا۔ مجھے عام مَلّاحوں کی طرح جان توڑ محنت کرنی پڑی۔
جہاز جب لندن پہنچا اور میں نے لندن کی زمین پر قدم رکھا تو میرے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے اور جیب میں صرف ایک ڈالر تھا۔ اس ڈالر سے میں صرف دو دن کی خوراک خرید سکتا تھا۔ اس سے اگلے ۴۲ گھنٹے میں نے خالی پیٹ گزارے۔ سر چھپانے کے لیے کسی ٹھکانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
مجھے بغیر کچھ کھائے پیے دوسرا دن تھا، میں نے ایک گلی میں ایک بچے کو دیکھا جو شاید اپنی آیا کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ اس نے ایک بڑی سی ناشپاتی کو دانتوں سے کاٹا اور پھر اسے فٹ پاتھ پر پھینک دیا۔ میرے منھ میں پانی بھر آیا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ مجھے اس طرح سڑک سے اُٹھا کر کچھ کھانا پڑے گا لیکن پیٹ فریاد کررہا تھا۔ میں ناشپاتی کے قریب بیٹھ گیا لیکن جب ناشپاتی کی طرف ہاتھ بڑھاتا، کوئی نہ کوئی راہ گیر وہاں سے گزرتا اور میں مارے شرم کے ہاتھ پیچھے کھینچ لیتا۔
اتنے میں اچانک میرے پیچھے ایک مکان کا دروازہ کھلا اور ایک ملازم نے مجھ سے کہا: ”مہربانی کرکے اندر آجاﺅ۔“
میں کچھ حیران سا مکان میں داخل ہوگیا۔ یہ ایک شان دار مکان تھا بلکہ شاہانہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں دو ادھیڑ عمر آدمی صوفوں پر بیٹھے تھے۔ ایک نے ملازم کو جانے کا اشارہ کیا۔ میں حیران پریشان کہ ان امیر لوگوں نے مجھ جیسے بدحال کو کیوں بلایا ہے؟
مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ دونوں بھائی تھے اور ان میں ایک بحث بہت دنوں سے چل رہی تھی اور اُنھوں نے اس بحث کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک شرط رکھی تھی۔ بحث یہ تھی کہ اگر کسی ایمان دار اور ذہین نوجوان کو، جو بہت ہی غریب ہو اور لندن میں اجنبی ہو، دس لاکھ پاﺅنڈ کا نوٹ دے دیا جائے تو کیا ہوگا؟ ایک بھائی کا خیال تھا کہ وہ بھوکا مرجائے گا یا لُٹ جائے گا۔ کیوں کہ یا تو کوئی اسے دھوکا دے کر وہ نوٹ ہتھیالے گا یا اس کی غریبی کو دیکھ کر یقین نہیں کرے گا یہ نوٹ اس کا ہے اور پھر چور سمجھ کر اسے پولیس کے حوالے کردے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دس لاکھ کا نوٹ لے کر پھرتا رہے اور اسے کھانے کو کچھ نہ ملے، کیوں کہ کسی دکان دار کے پاس اس نوٹ کی ریزگاری نہیں ہوگی۔ وہ نوٹ کہاں بھنائے گا؟ لیکن دوسرے بھائی کا خیال تھا کہ اگر آدمی ذہین ہو تو اپنے دماغ سے ایسی تدبیر سوچے گا کہ ایک مہینے میں اسی دس لاکھ سے نہ صرف اچھی زندگی گزارے گا بلکہ کچھ منافع بھی کمالے گا۔ اس بات پر بحث اتنی بڑھی کہ دونوں نے بیس ہزار پاﺅنڈ کی شرط رکھ لی اور ایک ایسے ذہین اور ایمان دار لیکن غریب نوجوان کی تلاش شروع کردی جو لندن میں اجنبی بھی ہو۔
اُس زمانے میں بینک آف انگلینڈ نے دس دس لاکھ پاﺅنڈ کے دو نوٹ جاری کیے تھے، جن میں سے ایک تو منسوخ کردیا گیا تھا اور دوسرا ابھی بینک کے پاس تھا۔ اس نوٹ کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چل نہیں پائے گا، کیوں کہ اسے بازار میں استعمال کرنا ممکن ہی نہیں، اکثر لوگ اس نوٹ کے بارے میں بحث کرتے رہتے تھے۔ ان امیر بھائیوں میں بھی یہ بحث شروع ہوگئی تھی۔ آخر اُنھوں نے شرط رکھی اور بینک سے وہ نوٹ دس لاکھ پاﺅنڈ دے کر حاصل کرلیا۔ اب انھیں ایسے نوجوان کی تلاش ہوئی جو ذہین، غریب اور ایمان دار ہو اور لندن میں اجنبی بھی ہو۔ آخر ایک دن انھیں میں فٹ پاتھ پر بیٹھا نظر آگیا اور اُنھوں نے مجھے ملازم کے ذریعے اندر بلوالیا۔
ہاں، تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ خوب یاد آیا۔ میں حیران تھا کہ ان لوگوں نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے۔ ملازم کے جانے کے بعد اُنھوں نے مجھ سے بہت دیر تک طرح طرح کے سوال کیے۔ وہ یہ اطمینان کررہے تھے کہ میں غریب، ذہین، ایمان دار اور لندن میں نیا ہوں کہ نہیں۔ آخر اُنھوں نے مجھے ایک لفافہ دیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس لفافے میں کیا ہے اور وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں، تو اُنھوں نے کہا کہ ان باتوں کا جواب تمھیں لفافے کے اندر ملے گا۔ میں نے لفافہ کھولنا چاہا تو اُنھوں نے مجھے روک دیا اور کہا کہ اسے یہاں سے کچھ دور جاکے کھولنا اور جلد بازی مت کرنا۔ اس کے بعد اُنھوں نے ملازم کو بلا کر کہا کہ اسے باہر تک چھوڑ آﺅ۔ میرا خیال تھا کہ یہ کوئی مذاق ہے، کیوں کہ میں اس وقت تک دس لاکھ کے نوٹ اور شرط کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔
بہرحال، میں نے باہر آکر لفافہ جیب میں ٹھونسا اور ناشپاتی ڈھونڈنے لگا، کیوں کہ بھوک کے مارے میرا بُرا حال تھا لیکن ناشپاتی وہاں سے غائب ہوچکی تھی۔ میں ایک ٹھنڈی سی سانس لے کر آگے بڑھا اور کچھ دور جا کر لفافہ کھولا تو اس میں ایک نوٹ نظر آیا۔ یہ دیکھے بغیر کہ نوٹ کتنے کا ہے، میں ایک ریستوران میں گھس گیا۔ جب میں نے اتنا کھالیا کہ مزید کھانے کی گنجائش نہیں رہی تو جیب میں سے نوٹ نکالا اور اسے پہلی بار غور سے دیکھا۔ دیکھتے ہی میرے ہاتھوں کے توتے اُڑگئے۔ پہلے میں سمجھا کہ شاید زیادہ کھالینے سے میری طبیعت خراب ہوگئی ہے لیکن ایسی کوئی بات نہ تھی، وہ نوٹ، جی ہاں، آپ صحیح سمجھے، وہ نوٹ دس لاکھ پاﺅنڈ کا تھا!
کچھ دیر بعد جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے، ظاہر ہے کہ اس معمولی سے ریستوران والے کے پاس دس لاکھ کی ریزگاری تو ہونے سے رہی۔ میں اٹھا اور کاﺅنٹر پر جا کر لاپروائی سے بولا: ”مہربانی کرکے اس کی ریزگاری دے دیجیے اور ہاں، کھانے کے پیسے بھی کاٹ لیجیے۔“
ریستوران کا مالک ایک بوڑھا شخص تھا۔ اس کا نام ہیرس تھا۔ دس لاکھ کا نوٹ اس نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر ہلکی سی آواز میں بولا: ”جناب عالی! میرے پاس اس کی ریزگاری نہیں ہے۔“
”میرے پاس ٹوٹے ہوئے پیسے نہیں اور آپ اُدھار کریں گے نہیں۔ کسی اجنبی کا کون اعتبار کرے گا؟“
”ارے نہیں جناب۔“ ہیرس جلدی سے بولا۔ ”آپ جو چیز چاہیں لے لیں بلکہ جب بھی دل چاہے یہاں آکر کھانا کھالیجیے۔ پیسوں کی کوئی بات نہیں۔ آپ جیسے امیر آدمی ہمارے گاہک ہوں، ہمارے لیے یہی بڑی بات ہے۔“
جب میں نے بہت ضد کی تو وہ کہنے لگا: ”جناب، کیوں مذاق کرتے ہیں اور ہاں یہ پرانے کپڑے پہن کر اس طرح گھومنا پھرنا آپ کی شان کے خلاف ہے۔“
اتنے میں ایک گاہک ریستوران میں داخل ہوا۔ ہیرس نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا کہ نوٹ جیب میں رکھ لو۔ میں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ جلدی سے وہاں سے نکل لوں۔ باہر آکر میں سیدھا اسی مکان کی طرف چلا جہاں سے یہ نوٹ مجھے ملا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اُنھوں نے دس پاﺅنڈ کے بجائے غلطی سے مجھے دس لاکھ پاﺅنڈ کا نوٹ دے دیا۔ اس وقت تک مجھے ان بھائیوں کی شرط کا علم نہ تھا۔ میں خاصا گھبرایا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ جب انھیں پتا چلا ہوگا کہ ان سے کیا حماقت ہوگئی ہے تو اُنھوں نے پولیس کو اطلاع دے دی ہوگی اور اس سے پہلے کہ پولیس مجھے پکڑلے، خود ہی یہ نوٹ ان کے حوالے کردینا چاہیے۔
لیکن جب میں اس مکان پر پہنچا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کیوں کہ وہاں بالکل سناٹا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید انھیں ابھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھٹ کھٹایا تو وہی نوکر باہر نکلا جو مجھے پہلے اندر لے گیا تھا۔ میں نے ان بھائیوں کے بارے میں پوچھا تو وہ بولا: ”وہ تو چلے گئے۔“
”چلے گئے؟ کہاں چلے گئے؟“ میں نے پوچھا۔
”ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور ایک مہینے بعد آئیں گے۔“ نوکر نے اطمینان سے جواب دیا۔
”کیا؟ ایک مہینہ؟ کسی طرح ان سے رابطہ کرو۔ مجھے ان سے ضروری بات کرنی ہے۔“ میں نے کہا۔
”مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں گئے ہیں لہٰذا رابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔“ نوکر نے جواب دیا۔
”بات یہ ہے کہ ایک غلطی ہوگئی ہے، جس سے بڑی گڑبڑ ہوسکتی ہے۔ اگر وہ آجائیں یا ان کا فون یا خط آئے تو انھیں بتادینا کہ میں آیا تھا۔ وہ پولیس کو خبر نہ کریں۔ ان کی چیز محفوظ ہے۔ میں دوبارہ بھی آﺅں گا۔“
میں نوکر کو بتانا نہیں چاہتا تھا کہ اس کے مالکوں نے کیا غلطی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ دس لاکھ کا معاملہ ہر ایک کے سامنے تو نہیں رکھا جاسکتا لیکن اس کے جواب نے مجھے حیران کردیا۔ اس نے کہا :”اگر وہ آگئے یا ان کا فون آیا تو میں انھیں بتادوں گا لیکن جاتے ہوئے وہ کہہ گئے تھے کہ اگر وہ لڑکا یعنی تم دوبارہ آﺅ تو میں تم سے کہہ دوں کہ کوئی غلطی یا گڑبڑ نہیں ہوئی اور وہ ٹھیک ایک مہینے بعد تم سے اسی جگہ ملیں گے۔“
یہ سن کر ظاہر ہے میرا وہاں ٹھہرنا بے کار تھا لیکن میرا ذہن کام نہیں کررہا تھا۔ وہ ٹھیک ایک مہینے کے بعد مجھ سے ملیں گے، اسی جگہ، نوکر کے یہ الفاظ مجھے چکرائے دے رہے تھے۔ میں نے لفافہ دوبارہ کھولا۔ اس میں ایک کاغذ نظر آیا۔ یہ ایک خط تھا۔ اس میں لکھا تھا۔
” تم ایک ایمان دار اور ذہین آدمی ہو اور ہمارے خیال میں اجنبی اور غریب بھی ہو۔ دس لاکھ کا نوٹ جو اس لفافے میں ہے، تمھیں قرض کے طور پر دیا جارہا ہے، ٹھیک ایک مہینے بعد ہمارے مکان پر آجانا۔ میں نے اپنے بھائی سے شرط لگائی ہے۔ اگر تم ایک ماہ بعد دس لاکھ پاﺅنڈ لے کر آگئے تو میں شرط جیت جاﺅں گا اور انعام کے طور پر تمھیں ایک بہت اچھی ملازمت دوں گا۔“
میں ایک باغ میں جا کر بیٹھ گیا اور اس معاملے پر سوچ بچار کرنے لگا۔ مجھے ایک اچھی ملازمت کی شدید ضرورت تھی کیوں کہ میرے پاس اپنے وطن واپس جانے کے لیے پیسے نہ تھے۔ اگر میں اس شخص کی شرط جیتنے میں مدد کروں تو میرا یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میں نے طے کرلیا کہ میں ایک مہینے بعد دس لاکھ پاﺅنڈ لے کر اس شخص کے پاس جاﺅں گا لیکن یہ ایک مہینہ کیسے اور کہاں گزاروں گا؟ نہ رہنے کو ٹھکانا، نہ پیٹ میں روٹی اور بدن پر پھٹے پرانے کپڑے! مزے کی بات یہ کہ جیب میں دس لاکھ پاﺅنڈ کا نوٹ پڑا تھا لیکن وہ میرے کسی کام کا نہ تھا۔ اگر میں اسے خرچ کرنے کی کوشش کرتا تو مجھے پولیس کے حوالے کردیا جاتا۔ لہٰذا میرے لیے بہتر یہی تھا کہ میں نوٹ کو محفوظ رکھوں اور کسی طرح ایک مہینہ گزارنے کی کوشش کروں۔
یہ سوچ کر میں اُٹھا اور اس فکر میں سڑکیں ناپنے لگا کہ یہ ایک مہینہ کیسے گزارا جائے۔ اچانک میری نظر کپڑوں کی ایک دکان پر پڑی۔ میں نے سوچا کہ کچھ موٹے جھوٹے کپڑے خریدنے چاہییں مگر میں یہ کپڑے کیسے خریدوں گا؟ میرے پاس ہے ہی کیا، سوائے دس لاکھ پاﺅنڈ کے نوٹ کے؟ اپنے اس خیال میں مجھے خود ہی ہنسی آگئی۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنا حلیہ ٹھیک کرنا چاہیے، چاہے اس کے لیے مجھے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ ایک ماہ بعد مجھے ملازمت ملنے والی تھی جس سے میں اپنا قرضہ اُتارسکتا تھا۔
میں ہمت کرکے کپڑوں کی اس دکان میں داخل ہوگیا۔ مجھے معلوم تھا کہ ہر دکان پر کچھ نہ کچھ ایسا مال ہوتا ہے جس میں معمولی نقص ہوتا ہے اور ایسے نقص والے مال کو دکان دار سستا بیچ دیتے ہیں۔ میں نے دکان دار سے کسی ایسے ہی جوڑے کا پوچھا۔ اس نے مجھے ایک جوڑا دیا جسے میں نے دکان کے کونے میں بنے ہوئے چھوٹے سے کمرے میں جا کر پہن لیا۔ کپڑے کچھ ڈھیلے ڈھالے سے تھے لیکن میرے پھٹے پرانے کپڑوں سے بہت بہتر تھے۔ میں نے اُنھیں لے لیا اور دکان دار سے کہا: ”میرے پاس ٹوٹے پیسے نہیں ہیں۔ بس ایک بڑا نوٹ ہے۔ اگر آپ پسند کریں تو کچھ ٹھہر جائیں۔ میں آپ کو بعد میں پیسے دے دوں گا۔“
دکان دار نے مجھے گھور کر دیکھا۔ وہ مجھے کوئی اُچکا خیال کررہا تھا۔ بولا:”تمہارے پاس جتنا بڑا بھی نوٹ ہوگا، اس کی ریزگاری مل جائے گی۔“
میں نے دس لاکھ کا نوٹ نکال کر آرام سے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اسے دیکھتے ہی وہ اچھل پڑا۔ میں نے مسکرا کر کہا: ”انسان کو چاہیے کہ وہ کسی کی ظاہری حالت پر نہ جائے۔“
”میں معافی چاہتا ہوں، جناب۔ لیکن آپ کا حلیہ ہی کچھ ایسا تھا اور پھر آپ نے سستے کپڑے خرید کر اور بھی غضب کیا۔ آئیے میں آپ کو بڑھیا کپڑے دکھاتا ہوں۔ پیسوں کی فکر نہ کریں۔ جب جی چاہے، دے دینا۔“
قصہ مختصر جب میں اس دکان سے نکلا تو ایک انتہائی نفیس اور مہنگا سوٹ پہنے ہوئے تھا اور اس کے بعد سارے کام آسان ہوتے گئے، میں جہاں بھی جاتا، دس لاکھ کا نوٹ دکھا کر جو چاہتا لے لیتا۔ اب میرا حلیہ ہی ایسا تھا جیسے میں کسی رئیس کی اولاد ہوں۔ میں اب ایک مہنگے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ لوگ مجھے آسانی سے چیزیں اُدھار دے دیتے۔
کبھی کبھار میں ہیرس کے پاس بھی چلا جاتا جس نے سب سے پہلے مجھے ادھار کھانا کھلایا تھا۔ اب میں اس کی مدد کررہا تھا۔ کیوں کہ میرے وہاں جانے سے اس کا ریستوران خوب چلنے لگا تھا۔ لوگ کہتے کہ یہاں بڑے بڑے امیر لوگ کھانا کھانے آتے ہیں۔ اس کا کھانا ضرور اچھا ہوگا۔ چند روز بعد جب ہیرس کو ریستوران سے بہت زیادہ آمدنی ہونے لگی تو اس نے مجھے کچھ رقم زبردستی ادھار دے دی۔ اب میں آہستہ آہستہ مشہور ہونے لگا تھا۔ اخباروں میں میرا ذکر آنے لگا تھا کہ امیر لوگ مجھ سے ملنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
لیکن مجھے اندازہ تھا کہ میں تباہی کے راستے پر چل نکلا ہوں اور اگر ایک مہینہ پورا ہونے سے پہلے میں نے تھوڑی بہت دولت اکٹھی نہ کی تو اتنے سارے لوگوں کا قرضہ چکانا میرے لیے ممکن نہ ہوگا۔ پہلے مجھے دس لاکھ واپس کرنے تھے۔ پھر کہیں جا کر مجھے ملازمت ملتی لیکن کیا میری تنخواہ اتنی ہوگی کہ ان ہوٹلوں اور دکانوں کی رقم میں آسانی سے ادا کردوں؟ یہ سوچ سوچ کر میں کڑھتا رہتا۔ آخر میں نے ارادہ کرلیا کہ اپنی اس عزت اور شہرت سے فائدہ اٹھا کر کوئی ایسا کاروبار شروع کیا جائے جس سے سارے مسئلے حل ہوجائیں۔ یہ سوچ کر میری کچھ ڈھارس بندھی۔
کرنا خدا کا کیا ہوا کہ میں اپنے ملک امریکا میں جس کمپنی میں ملازمت کرتا تھا اس کا مالک مسٹر لائیڈ کسی کاروبار کے سلسلے میں لندن آیا اور ایک ریستوران میں میری اس سے ملاقات ہوگئی۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ ان دنوں لندن میں جس دس لاکھ کے نوٹ کا چرچا ہے، اس کا مالک میں ہی ہوں تو وہ اچھل پڑا۔ بولا: ”یہ تو میں بعد میں پوچھوں گا کہ تمھارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ پہلے تم وعدہ کرو کہ تم میری مدد کروگے۔“
”آپ کمال کرتے ہیں۔“ میں بولا۔ ”آپ اتنے امیر آدمی ہیں، چاندی کی کئی کانوں کے مالک ہیں اور مجھ سے مدد مانگ رہے ہیں؟“
”میں کانوں کا مالک ضرور ہوں مگر اب میں امیر نہیں۔“ اس نے اُداسی سے کہا: ”دراصل میرا کاروبار بہت عرصے سے نقصان میں جارہا تھا جسے میں چھپاتا رہا۔ میرے پاس جو جمع جتھا تھا وہ قرضے ادا کرنے میں ختم ہوگیا۔ اب میرے پاس صرف چاندی کی کانیں ہیں۔ میں ان کا کچھ حصہ فروخت کرنا چاہتا تھا لیکن امریکا میں میری ساکھ خراب ہوچکی ہے۔ وہاں کوئی بھی میری کانوں میں حصے دار بننے کو تیار نہیں۔ میں لندن اسی غرض سے آیا تھا کہ یہاں کوئی نہ کوئی سرمایہ دار میری کانوں میں رقم لگانے کے لیے تیار ہوجائے گا لیکن یہاں بھی کوئی مجھ سے کانوں کے حصے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہورہا۔“
”معاف کیجیے گا۔ ایک اجنبی کے کاروبار میں بھلا کوئی کیسے رقم لگاسکتا ہے؟“ میں نے کہا۔ ”اور وہ بھی اس صورت میں کہ آپ کی کانیں امریکا میں ہیں۔ بھلا کون اعتبار کرے گا کہ وہاں آپ کی کانیں ہیں اور ان سے نکلنے والی چاندی میں سے آپ اسے منافع بھی دیں گے۔ اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ آپ ایک شریف اور ایمان دار آدمی ہیں اور آپ کی کانیں عمدہ قسم کی چاندی کے لیے مشہور ہیں لیکن….“
”یہی تو میں کہنا چاہ رہا ہوں۔“ وہ میری بات کاٹ کر بولا: ”تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو۔ میرے کانوں میں تم کیوں نہیں حصے دار بن جاتے؟“
”جی، میں؟“ میں نے سٹپٹا کر کہا۔
”ہاں، ہاں، تم دس لاکھ تو تم ہر وقت جیب میں لیے پھرتے ہو۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔
اب میں اس سے کیا کہتا کہ میری دولت کی اصلیت کیا ہے۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس نے کہا: ”کس سوچ میں پڑگئے؟ میں تمھیں کانوں کے حصے بہت سستے دے دوں گا کیوں کہ مجھے رقم کی شدید ضرورت ہے۔ میں امریکا سے جو رقم لایا تھا، وہ ختم ہونے والی ہے اور یہاں میرا کوئی واقف نہیں ہے۔ صرف تم میری مدد کرسکتے ہو۔ اگر تم کانوں میں حصے داری نہیں چاہتے تو میری اتنی مدد تو کردو کہ لندن میں اپنے جاننے والوں سے میرا تعارف کرادو۔“
اس کی بات سن کر میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ میں نے کہا: ”مسٹر لائیڈ اگر میں لندن میں آپ کی کانوں کے حصے اچھی قیمت پر فروخت کرادوں تو آپ مجھے کیا دیں گے؟“
”میں تمھیں کانوں کا ایک چھوٹا سا حصہ دے سکتا ہوں، کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ تم لندن کے امیر لوگوں میں اُٹھتے بیٹھتے ہو۔ تمھاری ضمانت پر وہ میری کانوں کے حصے خریدلیں گے۔“
”آپ فکر نہ کریں۔ میں آپ کو بھی جانتا ہوں اور آپ کی کانوں سے بھی واقف ہوں۔ میں آپ کی ضمانت دے دوں گا لیکن مجھے کانوں میں حصہ نہیں چاہیے۔ بس آپ کانوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک فیصد مجھے دے دیجیے گا۔ آپ کی کانوں کی مالیت کیا ہے، اور آپ کتنا حصہ بیچنا چاہتے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”میری کانیں کم از کم پچاس لاکھ پاﺅنڈ کی تو ہوں گی اور میں ان کا آدھا حصہ بیچنا چاہوں گا۔“ مسٹر لائیڈ نے جواب دیا۔
”یعنی ۵۲ لاکھ پاﺅنڈ۔“ میں نے کہا۔ ”اس کا ایک فیصد ۵۲ ہزار پاﺅنڈ بنتا ہے۔ یہ رقم میں آپ کی ضمانت دینے کے عوض لوں گا۔ کہیے منظور ہے؟“
”منظور ہے۔“ وہ اُچھل کر بولا۔
مسٹر لائیڈ کی کانیں میری ضمانت پر آسانی سے بک گئیں۔ میں نے لوگوں کو یقین دلایا کہ اس کی کانیں پچاس لاکھ سے کہیں زیادہ کی ہیں اور یہ حقیقت بھی تھی۔ مسٹر لائیڈ نے مجھے ۵۲ ہزار پاﺅنڈ دے دیے اور خوشی خوشی امریکا روانہ ہوگیا۔ ادھر میں نے ۵۲ ہزار پاﺅنڈ سے اپنے سارے قرضے چکادیے اور پھر بھی میرے پاس خاصی رقم بچ گئی۔ اب لوگوں کا مجھ پر اعتبار اور بڑھ گیا۔ میں اسی ہوٹل میں رہتا رہا اور بے چینی سے ایک ماہ پورا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اگر شرط جیتنے پر وہ شخص مجھے کوئی اچھی سی ملازمت نہ بھی دیتا تو میرے پاس اتنے پیسے تھے کہ میں آسانی سے امریکا واپس جاسکتا تھا۔
آخر وہ تاریخ بھی آگئی جب مجھے دس لاکھ کا نوٹ واپس کرنا تھا۔ میں نے ایک شاندار سوٹ پہنا اور ٹیکسی میں سوار ہو کر بڑے ٹھاٹ سے ان بھائیوں کے گھر پہنچا۔ مکان کا دروازہ اسی ملازم نے کھولا۔ کمرے میں وہ دونوں بھائی موجود تھے۔ میرا شان دار سوٹ دیکھ کر وہ مسکرائے اور ایک بھائی نے کہا: ”لگتا ہے، میں شرط جیت گیا ہوں۔ کیا تمھارے پاس دس لاکھ کا نوٹ ہے؟“
”جی، جناب۔“ یہ کہہ کر میں نے نوٹ نکال کر اسے دے دیا۔
”میں جیت گیا!“ اس نے خوشی سے کہا اور اپنے بھائی کی طرف دیکھا :”نکالو ۰۲ ہزار پاﺅنڈ۔“
”کمال ہے!“ کہیں ایسی بات تو نہیں کہ تم نے کوئی گڑبڑ کی ہو؟“ اس کے بھائی نے کہا۔
”ہرگز نہیں، جناب۔“ میں نے کہا اور جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر انھیں دکھائی۔ ”یہ ہے وہ رقم جو ایک مہینہ آرام سے بسر کرنے کے بعد بھی بچ گئی ہے۔“
”بہت خوب! اگر تم چاہو تو میرے پاس ایک بہت اچھی ملازمت ہے اور اگر تمھیں ملازمت پسند نہیں تو اس کے عوض میں تمھیں شرط کی آدھی رقم یعنی ۰۱ ہزار پاﺅنڈ دینے کو تیار ہوں۔“ شرط جیتنے والے بھائی نے کہا۔
میں نے چند لمحے غور کیا اور شرط کی آدھی رقم یعنی دس ہزار پاﺅنڈ لے لیے۔ اب میں آرام سے اپنے وطن امریکا واپس جاسکتا تھا اور کوئی چھوٹا موٹا کام بھی شروع کرسکتا تھا، اور میں نے ایسا ہی کیا۔ میں اپنے دوست اور محسن ہیرس کو آج بھی نہیں بھولا۔ اسے خط لکھتا رہتا ہوں۔
٭….٭