ڈرپوک کون تھا؟
اعظم طارق کوہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے والد صاحب ایک سرکاری ملازم ہیں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر ان کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے یا صوبے میں تبادلہ ہوجاتا ہے۔ ہم اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ والد صاحب کی نوکری جب سے پکّی ہوئی تھی تب سے اب تک والد صاحب کا کہیں تبادلہ نہیں ہوا تھا مگرکہتے ہیں’’ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ‘‘کے مصداق ہمیں اپنے علاقے سے ہجرت کرکے پنجاب کے ایک دور افتادہ دیہات ’’علی پور‘‘ میں جانا پڑا۔
یہ دیہات تمام سہولیات سے آراستہ تھا یہاں کئی اچھے اسکول اور ایک کالج بھی تھا۔ یہاں کی آبادی ۱۰؍ ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اب مجھے اسی دیہات میں رہنا تھا۔ چوں کہ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹاتھا اس لیے وہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی جان نچھاور کیا کرتے تھے۔ میں نے علی پور آنے کے بعد ساتویں کلاس میں داخلہ لیا۔ ہمارا اسکول دیہات کے بہترین اسکول میں شمار ہوتا تھا۔ ہماری کلاس میں چار لڑکوں کا ایک گروپ تھا۔ انس، عبدالرحمن، راشد منیر اور طاہر۔۔۔ یہ چاروں کلاس کے ذہین لڑکوں میں شمار ہوتے ہیں اور صرف وہی شخص ان سے دوستی کر سکتا تھا جو پڑھائی لکھائی اور شرارتوں میں انتہائی طاق ہو۔۔۔ میں نے چند دنوں میں ساری معلومات اکٹھی کر لی تھی۔ ان میں عبدالرحمن پڑھائی میں تو سب سے ا چھا تھا مگر شرارتوں کے مقابلے میں انتہائی ڈرپوک ۔۔۔ اور یہ بات پوری کلاس مانتی تھی۔ عبدالرحمن صرف اپنی ذہانت کی بناء پر ان کے گروپ میں شامل تھا۔ نالائق میں بھی نہیں تھا اس لیے پڑھائی اور شرارتوں میں آنے والے ’’انعامات‘‘ اور ’’چوٹیں‘‘ دکھا کر ان میں شامل ہو گیا۔ اچھا پڑھنا اور نت نئی شرارتیں کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
وہ غالباً پیر کا دن تھا۔ ہم اسکول میں وقفے کے دوران میدان میں موجود تھے۔ انس باتیں کرتے کرتے اچانک ایک خیال آجانے پر اچھلا اور ہماری عقلوں پر ماتم کرتے ہوئے کہنے لگا۔
’’تم لوگ یہاں کھڑے کھڑے خیالی پلاؤ بناتے رہو، وہاں ’’جمن کاکا‘‘ کے درختوں پر لگے جامن خوب پک چکے ہیں اور آج یا کل وہ انہیں اتار کر بازار میں بیچ آئیں گے اور ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔‘‘
’’ارے ہاتھ ملیں ہمارے دشمن ۔۔۔ میں بھی کل ان جامنوں کو اپنے خواب میں دیکھ چکا ہوں۔۔۔ ایمان سے رس بھرے ہوئے جامن دعوت نظارہ دے کر ہمارے شکم میں اترنے کو ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے۔‘‘ راشد نے خوابانہ انداز میں زبان ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ جس طرح جلیبیوں میں شیرہ بھرا ہوتا ہے۔ بالکل ویسے ہی ان میں رس بھرا ہے۔۔۔ ایسے پھولے ہوئے ہیں۔‘‘ طاہر نے ہاتھ کے اشارے سے جسامت بتائی تو میں نے بڑی مشکل سے منھ میں آنے والے پانی کے بہاؤ کو روکے رکھا۔
’’ظالمو! پھر انتظار کس بات کا ہے؟‘‘ میں نے اپنے جذبات کوحتی الامکان قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’آج دوپہر تین بجے کا وقت صحیح رہے گا۔ جمن کاکا اکیلے ہوتے ہیں۔‘‘ یہ انس کا مشورہ تھا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ عبدالرحمن کے علاوہ باقی سب نے کورس کے انداز میں کہا۔
’’کیا تم نہیں آؤ گے۔‘‘ میں نے عبدالرحمن سے پوچھا۔
’’ نہیں۔۔۔ یار مجھے ان چیزوں سے دور رکھو۔جمن کاکا کو ذرا بھنک پڑی تو تم لوگوں کی کھالوں میں تمہاری ’’امیاں‘‘ ’’رَفو‘‘ کررہی ہوں گی۔‘‘
’’بس بس ۔۔۔ ہمیں ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ڈرپوک ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک تم بھی ہو۔۔۔ اور ڈرنا ایک بیماری ہے۔ اس لیے بیمار سمجھ کر تمہیں نہیں لے جاتے۔‘‘
انس نے کہا تو عبدالرحمن بھنا کر بولا: ’’ تم جو بھی سمجھو۔۔۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ لیکن میں تم لوگوں کے ساتھ ہر گز نہیں جاؤں گا۔‘
ہاف ٹائم ختم ہونے کی گھنٹی بج چکی تھی۔ عبدالرحمن نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کلاس روم کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ ’’ڈرپوک۔۔۔ ڈرپوک۔۔۔‘‘ ہم سب نے پیچھے سے آواز لگائی۔لیکن دوسری جانب سے جواب ندارد۔۔۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’جمن کاکا۔۔۔ یہ دودھ کا گلاس ابو نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔‘‘ طاہر نے زمانے بھر کی معصومیت اپنے چہرے پر سجا کر دودھ کا گلاس جمن کاکا کو پیش کیا۔ جمن کاکا اس وقت اپنے طول وعرض میں پھیلے ہوئے کھیتوں کی رکھوالی کر رہے تھے۔ دن کے اس پہر وہ اکیلے ہوتے تھے۔ جب دودھ کا گلاس جمن کاکا پی چکے تو طاہر گلاس باہر لے آیا۔ ہم جو ذرا فاصلے پر ایک درخت کی آڑ میں تھے، باہر نکل آئے۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’بس پانچ منٹ ۔۔۔ پھر جمن کا کا عصر کی اذان سے پہلے اٹھنے والے نہیں ہیں۔‘‘
یہ پانچ منٹ ہم پر بہت بھاری گزرے لیکن پھر وہ تباہی مچائی کہ اﷲ دے اور بندہ لے والا حساب ہو گیا۔ لیکن اس چیز کا بہت خیال رکھا کہ جمن بابا کو شک نہ ہو کہ کوئی ان کے جامن چرا کر لے گیا ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’یار تم خواہ مخواہ نہیں آئے۔۔۔ جمن کا کا نے کہا میں تو سو رہا ہوں تم لوگوں نے جو کرنا ہے۔۔۔ کر لو۔‘‘ انس نے اپنی مصنوعی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے طنزاً کہا۔
’’ پھر ہم نے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ جمن کاکا کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو سب ہنس پڑے۔
صرف یہی واقعہ نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سینکڑوں بار ہم نے چھوٹی موٹی شرارتیں پوری منصوبہ بندی سے کیں مگر ہمارے کبڈی، کرکٹ اور تالاب پر جا کر نہانے کے علاوہ عبدالرحمن نے کسی کھیل اور شرارت میں ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ وہ سچ میں ایک ڈرپوک لڑکا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ وہ شکل سے ذہین ہونے کے علاوہ بے خوف بھی نظر آتا اور یہی چیز مجھے پریشان رکھتی۔
ایک دن میں نے یونہی اسے آزمانے کے لیے کہہ دیا کہ ’کیا وہ رات بارہ بجے قبرستان جانے کی ہمت رکھتا ہے۔‘ مجھے امید تھی کہ وہ انکار کر دے گا لیکن خلاف توقع اس نے کہا: ’’ کیوں نہیں۔۔۔ میں تو اکثر جاتا ہوں۔‘‘
’’اوہو۔۔۔ ہوہو۔‘‘ راشد منیر جو کہ پاس ہی کھڑا تھا،نے طنزیہ آواز نکالی۔ ’’ جناب ایسی بھی غلط بیانی نہ کریں۔۔۔ آسمان بغیر ستونوں کے کھڑا ہے۔‘‘
’’ نہ کرو یقین ۔۔۔ میری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘‘ شانِ بے نیازی سے جواب دیا گیا۔
’’اچھا چلو۔۔۔ پھر ہوجائے ایک مقابلہ۔‘‘ انس آزمانے پر اُتر آیا۔
’’ منظور ہے۔‘‘ عبدالرحمن نے ایسے جواب دیا جیسے ہم نے کوئی ’’بچکانہ ‘‘بات کہہ دی ہو۔ اُس کی اِس بات نے گویاہماری دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’ایسا کرو۔۔۔ آج رات بارہ بجے مسجد کے باہر سب جمع ہوجائیں گے وہاں تمہیں ایک ہتھوڑی اور پانچ کیل دی جائیں گی۔ جنہیں تم مائی رشیداں کی قبر کے پاس گاڑ کر آؤ گے۔ جسے پھر ہم صبح فجر کی نماز کے بعد دیکھنے چلیں گے۔‘‘ طاہر نے جلدی سے ذہن میں ہنگامی منصوبہ ترتیب دیتے ہوئے کہا۔‘‘
’’منظور ہے۔‘‘
منصوبے پر سب کا اتفاق تھا۔ عبدالرحمن نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اور یہ میرے لیے تعجب کی بات تھی۔
’’ٹھیک ہے پھر میں نکلتا ہوں۔ رات بارہ بجے مسجد کے باہر ملاقات ہوگی۔‘‘ عبدالرحمن نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں ۔۔۔ ٹھیک ہے لیکن اپنی جیب میں آیۃ الکرسی کا نسخہ رکھ لینا۔ ایسا نہ ہو کر تم مسجد تک پہنچنے سے پہلے ہی۔۔۔؟‘‘ انس نے بات ادھوری چھوڑی لیکن فضا ہمارے قہقہوں سے مرتعش ہوچکی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات بارہ بجے جب ہم مسجد کے باہر پہنچے تو ہمیں حیرت کا ایک مزید جھٹکا لگا۔ عبدالرحمن ہم سے پہلے پہنچ گیا تھا۔
’’السلام علیکم دوستو! کافی دیر کر دی آپ لوگوں نے۔۔۔ ‘‘ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’نہیں ہم ٹھیک وقت پر آئے ہیں۔‘‘ طاہر نے ’وقت‘ کو چباتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ لاؤ کیل اور ہتھوڑی ۔۔۔‘‘ اس کے چہرے پر بے تابی اور مسکراہٹ تھی۔ جس کی ہمیں اس سے قطعاً امید نہیں تھی۔
’’دیکھو عبدالرحمن !۔۔۔ تم مجھے بہت عزیز ہو، ایک بار پھر سوچ لو، یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے اگرچہ تم ۱۴ ؍سال کے ہو مگر پھر بھی بچے ہو۔‘‘ راشد منیر نے عبدالرحمن کو ڈرانے کی کوشش کی۔
’’اگر مجھے قبرستان جانے کا کہا ہوتا تو میں تو کبھی بھی نہیں جاتا اور مائی رشیداں کی قبر کے متعلق افواہیں۔۔۔ اُف اﷲ! کیسا بھیانک منظر ہوگا جب ایک سفید ہاتھ تمہاری جانب لپکے گا۔‘‘ انس نے خوف دلانے کا ایک خطرناک ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ خوف اور بزدلی کا لباس تم پر ہی اچھا لگے گا۔ قبرستان والوں کو بخوبی معلوم ہے جو عبدالرحمن سے ٹکرائے گا، پاش پاش ہوجائے گا۔‘‘ عبدالرحمن نے انس کے ہاتھ سے کیلیں اور ہتھوڑی جھپٹتے ہوئے کہا اور دوسرے لمحے وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل تھا۔
قبرستان صرف دو منٹ کی دوری پر تھا تقریباً ۱۲؍ منٹ کے بعد عبدالرحمن کی واپسی ہوئی۔ اس کے چہرے سے کسی قسم کا خوف عیاں نہیں تھا۔
’’چلو! اب فجر کے بعد سب ایک ساتھ قبرستان چلیں گے۔‘‘ عبدالرحمن نے ہتھوڑی طاہر کو پکڑاتے ہوئے کہا تو ہم سب نے ایک دوسرے کو کافی دیر تک ہونقوں کی طرح دیکھا اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی سمت چل پڑے۔
صبح فجر کے بعد ہم قبرستان گئے اور واقعی مائی رشیداں کی قبر کے پاس وہی کیلیں لگی ہوئی تھیں۔ ہم نے احتیاطاً کیلوں پر سفید رنگ کر دیا تھا تاکہ ہمارے ساتھ کسی قسم کا ’’ہاتھ ‘‘ نہ ہوجائے لیکن عبدالرحمن کی بہادری نے ہمارے ساتھ وہ ہاتھ کیا کہ ہم حیرت سے دوہرے ہوئے جا رہے تھے۔
ہم جو عبدالرحمن کو ۲۴ گھنٹے ڈرپوک کے لقب سے یاد کرتے رہتے تھے اس کی بہادری سے سچ مچ ششدر رہ گئے تھے اور حقیقت یہی ہے کہ ہم سب اس واقعے کے بعد اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔
چلو ہم یہ بات مان گئے تھے کہ وہ ڈرپوک نہیں ہے مگر پھر وہ کیوں ہمیشہ کسی بھی شرارت میں ہمارے ساتھ نہیں آتا؟ اسے ’’سرضمیر کا مولا بخش ‘‘اور ’’جمن کاکا کی سخت گیری ‘‘کیوں یاد آجاتی ہے۔ اس وقت اس کی بہادری کہاں کافور ہوجاتی ہے۔
عبدالرحمن نے ہماری اس الجھن کو محسوس کرکے ہمیں ایک اور تجسس میں مبتلا کر دیا۔
’’آج اسکول سے واپسی پر راستے میں تم لوگوں کو بتاؤں گا کہ تم لوگوں کی شرارتوں کے مقابلے پر میں ڈرپوک کیوں ہوجاتا ہوں؟‘‘
بات تو اس نے کر دی لیکن بے چینی سے ہمارا حال وہی جان سکتا ہے جو ہماری طرح کی صورتحال سے دوچار ہو چکا ہو۔ وقت کاٹے نہ کٹتا تھا۔۔۔ ہم نے ہاف ٹائم میں بھی عبدالرحمن کی منتیں کیں۔۔۔ مگر وہ ڈھیٹ بنا رہا اور چھٹی چھٹی کا راگ الاپتا رہا۔ اب ہم اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے کیوں کہ اب وہ ڈرپوک نہیں رہا تھا۔
جیسے ہی چھٹی ہوئی۔ ہم عبدالرحمن کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر لے کر آئے اور گھر کی سمت قدم بڑھاتے ہوئے اس سے پوچھنا شروع کیا کہ’ وہ ہماری شرارتوں کے وقت ڈرپوک کیوں بن جاتا ہے‘۔
عبدالرحمن چند ثانیے خاموش رہا اور ہماری طرف دیکھ کر گویا ہوا۔ ’’صرف دو جملوں کی بات ہے۔‘‘
’’اب تجسس ختم بھی کرو۔‘‘میں نے بے تابی سے کہا۔
’’تم لوگ ایک عرصے سے مجھے ڈرپوک کہتے رہے اور میں نے کبھی انکار کیا اور نہ ہی کبھی انکار کروں گاکہ میں ڈرپوک نہیں ہوں اور اب بھی جب، جہاں کہیں اﷲ کی نافرمانی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں سے روگردانی کرتے ہوئے انسانیت کو تنگ کرنے والی شرارتیں کی جاتی رہیں گی میں ڈرپوک بنتا رہوں گااور بنتا تھا۔ اس وقت میری بہادری ختم ہوجاتی ہے اور میں خود کو بے ضرر محسوس کرتا ہوں۔ اگر تم لوگوں کی نظر میں اﷲ کی نافرمانی سے بچنا ڈرپوک لوگوں کی علامت ہے تو میں ’’ڈرپوک ‘‘ ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے۔‘‘
عبدالرحمن کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ہمیں انتہائی حقیر ثابت کررہے تھے۔ اپنی نافرمانیاں یاد آئیں توجی میں آیا کہ زمین پھٹ جائے اور ہم اس میں سما جائیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*