ڈرنا چھوڑ کیری توڑ
حماد ظہیر
…………………………….
گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر تھی، گلی سنسان پڑی تھی، نہ آدم تھا نہ۔۔۔ آں۔۔۔ آدم زاد ضرور موجود تھے۔
پانچ عدد، جو ایک مشن پر نکلے ہوئے تھے اور مشن کی کامیابی کی صورت میں جو حاصل ہونا تھا اس کے آگے یہ گرمی اور تپش سب ہیچ تھی۔
ہم ٹیپو، سنی، کامران اور علی، مشن کا نام ’’ڈرنا چھوڑ۔۔۔ کیری توڑ‘‘۔
ہم نے ایک ایسے گھر کا انتخاب کیا تھا جہاں کیریاں بڑی تعداد میں لگی تھیں علاقہ نسبتاً غیر آباد تھا اور وہاں سے فرار ہونا بہت آسان تھا۔
لیکن کیری توڑنا کچھ آسان نہ تھا، ہمیں اس کام کا کوئی خاص تجربہ بھی نہ تھا، اسی لیے ہم نے اپنی کرکٹ ٹیم سے دو تجربہ کار کیری توڑ شامل کیے تھے، کامران اور علی۔
چلو بھئی شروع کرو کیری توڑنا۔ ہم نے گویا حکم سنایا۔ اس پر دونوں نے زمین سے بڑے بڑے پتھر چننے شروع کردیے۔
ارے ارے، یہ کیا کررہے ہو، اتنا خطرناک کام، ٹیپو چیخا۔
تو اور کیا، کیری توڑنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے، دشمن ملک پر حملہ کے مترادف ہے، علی بولا۔
بلکہ اس سے اپنے قیدی چھڑانے کے مترادف، کامران نے بھی زبان کھولی۔
لیکن ان پتھروں سے تو ان کے گھر کے سارے شیشے چکنا چور ہوجائیں گے۔
جس کو ہوں گھر کے شیشے عزیز،
وہ کیری کو توڑنے جائے کیوں؟
ہم نے کسی شعر کی ٹانگ کھینچی۔
’’نہیں نہیں بھئی، ہمارامقصد کیری توڑنا ہے، شیشے توڑنا نہیں، اور اگر خدانخواستہ وہاں کوئی آدمی یا بچہ آگیا، تو وہ بھی زخمی ہوسکتا ہے۔ ٹیپو نے قیاس کیا۔
’’بھئی صدیوں سے زمانے بھر کے بچے اسی طرح سے دوسروں کے گھروں سے کیریاں توڑتے آئے ہیں اور کیری مالکان اپنے گھروں کے شیشے تڑواتے چلے آئے ہیں، یہ اب ایک رواج بن چکا ہے، علی نے صفائی پیش کی۔
’’ہم بہرحال ایسا نہیں کرسکتے۔‘‘ سنی نے فیصلہ سنایا۔
’’تو کسی ایسے زاویہ سے پتھر کیوں نہ مارے جائیں کہ اگر کیری کو نہ لگے تو گھر کو بھی نہ لگے۔ ہم نے مشورہ دیا۔
’’ایسی صورت میں کئی کئی بار میں جا کر ایک کیری ٹوٹ پائے گی‘‘۔ کامران نے مشکل بتائی۔
’’ہمارے پاس نہ وقت کی کمی ہے اور نہ پتھروں کی‘‘۔ ہم نے یاد دلایا۔
یہی طے پایا اور پھر پتھر آزمائی شروع ہوئی۔ اس وقت ہمیں اندازہ ہوا کہ کیری توڑنا کچھ اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے، بڑی کوششوں کے بعد بھی ہمارے ہاتھ چند ایک کیریاں ہی لگیں۔کیونکہ کئی کیریاں جو ہم نے توڑیں وہ بے چاری تو باہر گرنے کے بجائے گھر کے اندر ہی گر گئی تھیں۔
اپنی دھوپ پسینہ کی کمائی لے کر ہم گھر پہنچے ہی تھے اور مال غنیمت کی تقسیم کا سوچ ہی رہے تھے کہ گھنٹی بجی۔
’’ارے اس وقت کون آگیا یہاں؟‘‘ سنی چونکا۔
کیریوں کو ’’انڈر گراؤنڈ‘‘ کردیا گیا اور دروازہ کھولا تو صدر صاحب کھڑے تھے۔
گو کہ وہ صدر مملکت نہیں بلکہ محلہ کمیٹی کے صدر تھے، پھر بھی انہیں دیکھ کر ہمارا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا، ہم انہیں دیکھ کر ایسے ہکا بکا تھے کہ ہمارا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ گیا، جس سے اگر چاہتا تو اوپر کا سانس اور نیچے کا سانس دونوں باآسانی باہر نکل سکتا تھا۔
شرافت سے نکال دو ساری کیریاں‘ وہ بولے تو ہم سے ساری کیریاں واپس ہی کرتے بنی۔
’’تم لوگوں کو سمجھایا بھی تھا، مگر سمجھ نہ آئی نا‘‘۔ وہ طنز مار کر چل دیے۔
*۔۔۔*
ہوتا تو عموماً یہ ہے کہ محلہ کی ایک کمیٹی ہوتی ہے جو صدر بناتی ہے۔ ہمارے یہاں یہ تھا ایک صدر صاحب تھے جنہوں نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی میں لوگ نہیں تھے، صرف ان کے نام تھے، اور وہ بھی ان لوگوں کی اجازت کے بغیر شامل کرلیے گئے تھے۔
صدر صاحب کا نام تھا معراج، سفید داڑھی،سفید ٹوپی، سفید بھنویں، سفید کرتا، غرض کوئی رات کے وقت انہیں قبرستان میں دیکھ لے تو باآسانی چلتا پھرتا مردہ خیال کرسکتا تھا۔
ریٹائرڈ آدمی تھے، اس کے علاوہ انہیں کوئی کام نہ تھا کہ محلہ میں روک ٹوک کرتے رہیں۔
کل ہمیں بھی مل گئے اور بولے۔
’’بچو! محلہ میں کئی آم کے درخت ہیں اور ان سب پر کیریاں لگ چکی ہیں، میں تم لوگوں کو خبردار کرتاہوں کہ ایک کیری بھی توڑنے کی جرأت مت کرنا، اب یہ محلہ لاوارث نہیں ہے، تم میری پکڑ سے بچ نہیں سکو گے‘‘۔
’’انکل! ویسے تو ہمیں کیری توڑنے کا کوئی شوق نہیں ہے، لیکن اب تو ہم ایسا ضرور کریں گے اور دیکھیں گے کہ آپ ہمیں کیسے پکڑتے ہیں‘‘۔ سنی نے مودبانہ انداز میں بدتمیزی کی۔
’’ہا ہا!انکل نے ہمیں چڑایا اور چلے گئے۔
’’کل ہم سروے کریں گے اور اس کے مطابق کیری توڑنے کا منصوبہ بنائیں گے‘‘۔ سنی نے اعلان کیا۔
اگلے دن ہم نے صرف قابل بھروسہ ساتھی لیے اور سروے کرکے انسانوں سے کم آباد اور کیریوں سے زیادہ آباد جگہ چنی اور اس کے اگلے دن مناسب ترین وقت پر کیریاں بھی توڑیں‘‘۔
مگر۔۔۔۔۔۔ پکڑے گئے۔
*۔۔۔*
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ معراج انکل کو پتا چل گیا‘‘۔ سنی کو یقین نہیں آرہا تھا۔
’’ہم دونوں تو کیریاں توڑ رہے تھے، تم تینوں گلی کے ہر کونے میں کھڑے تھے، کیا تم لوگوں نے انکل کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔ علی نے تفتیش شروع کی۔
’’انکل کیا، ہم نے تو کوئی بھی آدمی وہاں سے گزرتے نہیں دیکھا، وہاں تو ہوکا عالم تھا‘‘۔
’’صرف ہوکا نہیں بلکہ لوکا عالم تھا‘‘۔ ٹیپو بولا۔
مجھے لگتا ہے ضرور کسی نے گھر کی کسی کھڑکی سے ہمیں دیکھ لیا تھا، کامران نے اندازہ لگایا۔
’’عقلمند آدمی، اگر کسی نے دیکھ ہی لیا تھا تو اس نے ہمیں رنگے ہاتھوں کیوں نہ پکڑا۔ یہ بعد میں معراج صاحب کو کیوں بھیجا‘‘۔ سنی نے دلیل دی۔
’’چیلنج تو ہمیں انکل نے کیا تھا، تو کیا انکل اس وقت سے ہماری نگرانی کررہے تھے؟‘‘ ہم نے تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
’’اگر انکل ہمارے تعاقب میں تھے تو ہمیں نظر کیوں نہیں، ہم نے تو بہت دیکھ بھال کر کام شروع کیا تھا!‘‘
’’مجھے لگتا ہے کہ انکل ہمارے پیچھے تھے، ویسے بھی انہیں کوئی کام تو ہے نہیں، جب انہوں نے ہمیں اس علاقے میں جاتے دور سے دیکھا لیا تو اندازہ کرلیا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں اور وہ ہمارے پیچھے نہیں آئے، بعد میں جب انہوں نے ہمیں واپس آتا دیکھا تو فوراً دھمک پڑے‘‘۔ ٹیپو نے جاسوسی ناول کا خلاصہ سنایا۔
’’شاید ایسی ہی بات ہو، بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ کیریاں انہوں نے واپس کرنے کے بجائے خود ہی ہڑپ بھی کرلی ہوں گی، کیوں کہ اصل گھر تو انہیں پتا بھی نہ ہوگا کہ کونسا ہے‘‘۔ ہم نے بھی انکل کی شان میں قصیدہ گوئی کی۔
سب ہی نے اس بات سے اتفاق کیا۔
’’مگر ہم پکڑے گئے اور چیلنج دھرا کا دھرا رہ گیا‘‘۔ سنی کو صرف اس بات کا افسوس تھا۔
’’تو کل پھر پروگرام بناتے ہیں‘‘۔ کامران نے کہا۔
’’بالکل اور اس مرتبہ تھوڑی عقل بھی لڑاتے ہیں کہ کس طرح کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کیریاں توڑی جائیں۔
*۔۔۔*
اگلے دن ہم دوپہر بارہ بجے مشن پر نکلے۔ پچھلی مرتبہ ہم ساڑھے تین بجے نکلے تھے، سوچا یہ تھا کہ اس وقت کئی لوگ آجارہے ہوتے ہیں لہٰذا ہم نظروں میں نہ آسکیں گے۔
اس مرتبہ ہم ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے اور ہوا ہی میں اپنے شکار پر جھپٹنے والے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھے۔
یہ دو لمبے لمبے ڈنڈے تھے جن میں سے ایک کے آگے مڑی ہوئی چھری لگی تھی جبکہ دوسرے کے آگے ایک عدد چھوٹا سا جال، ایک کیری توڑنے کے لیے اور دوسرا کیری کیچ کرنے کے لیے۔
ہم جائے واردات پر پہنچے اور پہلی کیری کی طرف ہتھیار بڑھائے ہی تھے کہ سنی چیخا۔
’’ارے ارے رکو!‘‘
’’کک کیا ہوگیا‘‘۔ ہم سب ہی ڈر گئے اور بوکھلا کر بولے۔
’’اتنے لمبے لمبے ڈنڈے لے کر نکلے ہیں ہم لوگ، میرا خیال ہے کوئی بھی ہماری جاسوسی کرچکا ہوگا، چلو خالی ہاتھ لوٹتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انکل ہم پر کیا الزام لگاتے ہیں۔
ہمیں سنی کی منطق کچھ ٹھیک سے سمجھ نہ آئی پھر بھی ہم واپس لوٹ گئے، خالی ہاتھ ہی، ڈنڈے بھی وہیں چھپادیے کہ بعد میں کام آئیں گے۔
گھر پہنچ کر بے چینی سے انتظار کرنے لگے کہ اب انکل آئے کہ تب، مگر انہوں نے آکر نہ دیا۔
’’میرا خیال ہے ہم کیریاں توڑ ہی لیتے تو اچھا تھا‘‘۔ ہم نے افسوس کیا۔
’’چلو اب بھی وقت ہے کارروائی کرآتے ہیں‘‘۔ کامران بولا۔
کوئی چار بجے کا وقت ہوگا، ہم بڑی ہوشیاری سے تانکتے جھانکتے باہر نکلے اور بے حد احتیاط سے میدان کارزار تک پہنچے۔
ہم نے اچھی طرح تسلی کرلی تھی کہ اس مرتبہ ہمیں کسی نے نہیں دیکھا۔بہت کم وقت میں ہم نے کافی کیریوں کا صفایا کیا اور کوئی بھی کیری ثبوت کے طور پر گری ہوئی نہیں چھوڑی۔
واپسی پر ہم بولے۔’’جو کیریاں پچھلی مرتبہ ہم گھر کے اندر گرا آئے تھے، شاید انہوں نے ہماری نشاندہی کی ہو، مگر اس مرتبہ ہم مکمل کامیاب لوٹے ہیں‘‘۔
گھر پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے گھنٹی بجی، سب نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
دروازہ کھولا تو معراج صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے، انہوں نے بغیر کچھ کہے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھادیے، گویا کیریوں کا تقاضہ کررہے ہوں۔
’’ہاتھ نہیں دامن پھیلانا پڑے گا‘‘۔ سنی جل کر بولا
*۔۔۔*
’’ہم نے پھر وہی غلطی کی، یہ دوپہر کا وہی وقت ہے جس میں ہم پہلے بھی پکڑے گئے تھے، شاید اس وقت انکل گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور ہماری سن گن لے لیتے ہیں‘‘۔ ہم سب سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ کافی تبادلہ خیال ہوا مگر بے نتیجہ۔ آخر کو سنی نے کیریاں توڑنے سے توبہ کرلی کہ اس میں ہماری چھٹیوں کا قیمتی وقت ضائع ہورہا تھا۔
*۔۔۔*
سنی اور یوں آسانی سے ہار مان جائے، ہم نہیں مان سکتے تھے۔
ابھی ہمارا ذہن کھٹک کھٹک کر شور مچا ہی رہا تھا کہ سنی رازدارانہ انداز میں بولا۔ ’’چلو‘‘
ہمارے فرشتوں کو بھی اندازہ نہ تھا، پھر بھی ہم چل دیے، مغرب کے بعد کا وقت تھا، اندھیرا چھا چکا تھا۔
ہم ایک بالکل الگ ہی سمت چلے جارہے تھے، آخر ایک جگہ سے سنی نے ہمیں کیری توڑنے کا ہتھیار پکڑایا۔
’’ارے! یہ یہاں کب آگیا؟‘‘۔ ہم حیرت سے بولے۔
’’مجھے علی اور کامران پہ شک تھا، کہیں وہ ہماری جاسوسی نہ کردیتے ہوں‘‘۔ سنی نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’لیکن وہ تو مکمل طور پر ہمارے ساتھ ہوتے تھے‘‘۔
’’بہرحال‘ میں نے ٹیپو کو بھی نہیں لیا، کیوں کہ اتنا مجمع ساتھ چلے گا تو بہرطور نظروں میں آجائے گا‘‘۔
’’ٹھیک ہے، لیکن اس وقت کیریاں ہمیں ٹھیک سے دکھیں گی بھی یا نہیں؟‘‘ ہمیں تشویش ہوئی۔
’’اندازے سے دو چار کیریاں بھی توڑلیں تو سمجھو کامیابی ہے، مقصد کیری توڑنا نہیں بلکہ اس کمیٹی کے دادا کو نیچا دکھانا ہے‘‘۔ سنی نے دانت پیسے۔
اس رات تو ہم نے اس طرح کیریاں توڑیں کہ خود ہمیں بھی ٹھیک سے پتا نہ چل سکا۔
کافی لمبا چکر کاٹ کر ایک نئے راستے سے گھر پہنچے۔
’’اب دو دن بعد صدر صاحب کو بتائیں گے کہ ہم نے کیری توڑی ہے، ذرا وہ گھر ہی بتادیں، جہاں کارروائی ہوئی ہے‘‘۔ سنی فخر سے بولا۔
’’ہم تو ٹھیک ٹھاک جاسوس بن سکتے ہیں یا گوریلا کمانڈر کہ کس صفائی اور ہوشیاری سے آج کارروائی کی ہے‘‘۔ ہم بھی گردن اکڑا کر بولے۔
گھنٹی بجی، ہم تھوڑا سا چونکے مگر پھر نارمل ہوگئے کہ وہ ٹیپو تھا۔
’’باہر معراج انکل بھی کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ واپس کرو چوری کی کیریاں‘‘۔ ہم دو فٹ اچھل پڑے۔
’’میں نے کہا بھی کہ ہم نے کیریاں نہیں توڑیں، مگر وہ ہیں کہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہے‘‘۔ ٹیپو حیرت سے بولا۔
آخر ہم نے کیریاں واپس کرکے ہی انکل کو ٹالا۔
’’یہ انکل کیا کوئی جن ہیں؟‘‘ سنی نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
’’مجھے تو سانتا کلاز لگتے ہیں، بس ایک سرخ ٹوپا لگانے کی دیر ہے‘‘۔ ہم نے تشبیہ دی۔
’’سانتا کلاز تو بچوں کے لیے تحائف لاتا ہے، یہ تو ہم سے کیریاں واپس چھین لیتے ہیں‘‘۔ سنی نے جرح کی۔
’’ہم کیوں سانتا کلاز کا ذکر کررہے ہیں، ہمارا اس پر کوئی ایمان نہیں یہ تو عیسائیوں کا من گھڑت کردار ہے‘‘۔ ٹیپو نے ہمیں روکا۔
’’لگتا ہے کہ انکل نے ہر گلی میں خفیہ کیمرے لگائے ہوئے ہیں‘‘۔ ہم نے ایک اور اندازہ لگایا۔
’’بہت مشکل!‘‘ سنی ماننے کو تیار نہ تھا۔
’’آج ہم نے جس کامیابی سے کارروائی کی تھی، اس کے بعد تو مجھے یقین نہیں آتا کہ ہم پکڑے جاچکے ہیں‘‘۔ ہم حسرت سے بولے۔
’’مجھے اب صرف ایک بات کی فکر ہے کہ انکل کو پتا کیسے چلتا ہے!‘‘ سنی کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔
اب وہ کیری وغیرہ توڑنے کو قطعاً بھول چکا تھا اور صرف یہی جاننے کی فکر میں تھا۔
اگلے دو تین روز ہم اسی کوشش میں سر کھپاتے رہے مگر بے سود، نہ کوئی کیمرہ ملا نہ ہی کچھ اور۔ ہم بھی اپنی چھٹیوں کے بے شمار مشاغل میں کھوگئے۔
*۔۔۔*
گرمیاں ختم ہوئیں اور سردیاں آگئیں، مغرب کے بعد سے ہی ہر طرف سناٹا ہوجاتا، عشاء کے بعد شاذ و نادر ہی کوئی دکھائی دیتا۔
ہم سنی اور ٹیپو خوب اوڑھ لپیٹ کر چہل قدمی کے لیے نکلے تھے۔ مونگ پھلی پھانک اور گپیں ہانک رہے تھے کہ ہم نے ایک دروزاے سے کسی کو پھلانگ کر باہر آتے دیکھا۔
دروازے پر چوں کہ لگا تھا، لہٰذا یہ سمجھنے میں بالکل دقت نہ ہوئی کہ وہ کوئی چور ہے جو مع ساز و سامان کے واپس جارہا ہے، ایک پوٹلی نما بھی اس کے ہمراہ موجود تھی۔
ہم نے تو نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جھٹ اسے جھپٹ لیا، ٹیپو نے بھی ہمارا ساتھ دیا، مگر چور بہت پر زور ثابت ہوا وہ کسی طرح ہمارے قابو میں نہ آرہا تھا۔
’’سنی تم کسی طرح لوگوں کو اکٹھا کرو، ورنہ یہ ہاتھ سے نکل جائے گا‘‘۔
سنی نے بے ہنگم انداز میں ’’چور چور‘‘ کا شور شور مچایا مگر ہر گھر کی کھڑکیاں دروازے بند تھے اور لوگ شاید لحافوں میں دبے تھے، کوئی نہ نکلا۔
’’سنی تم اس ستون کے پیچھے لگے بٹن کو دبادو’’۔ ہم نے اسے حکم دیا۔
اس بے چارے نے تعمیل کی، گو کہ سمجھ اسے نہ آیا کہ یہ بٹن کیا بلا ہے۔
چور چکنی مچھلی کی طرح ہاتھوں سے پھسلا جارہا تھا، سنی نے بھی اسے جکڑ لیا تھا، ایسے میں کیا دیکھتے ہیں کہ معراج صاحب بھاگے بھاگے چلے آرہے ہیں۔
’’ہائیں۔۔۔ یہ یہاں کیسے آگئے؟‘‘ ٹیپو حیرت سے بولا۔
’’خیریت تو ہے‘ کیوں بیل بجائی تھی؟‘‘ انہوں نے ہم سے پوچھا۔
’’دیکھ نہیں رہے، ہم نے چور کو رنگے ہاتھوں اور بھری جیبوں پکڑا ہے‘‘۔ ٹیپو نے کارنامہ بتایا۔
معراج صاحب نے گھروں کی بیل بجا بجا کر لوگوں کو جمع کیا اور چور کو لے کر تھانے چلے گئے جبکہ ہم نے سنی کو خطرناک انداز میں ہمیں گھورتے ہوئے پایا۔
’’یہ۔۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ ہم جھینپ کر بولے۔
’’یہ تم نکلے۔۔۔ بروٹس، میر جعفر، غدار‘‘۔ وہ غصہ سے بولا۔
’’کیا مطلب، ہم سمجھے نہیں؟‘‘ ہم انجان بنتے ہوئے بولے۔
’’میں نے اپنے بعد سب سے زیادہ تم پر بھروسہ کیا اور کیریوں کے معاملے میں تم ہی نے ہمیشہ ہمیں پھنسوایا، کیا تم کیریاں توڑنے کے ایڈونچر اور بعد میں اسے کھانے کے مزے میں ہمارے ساتھ شریک نہ تھے‘‘۔ سنی تاسف سے بولا۔
’’یار وہ انکل نے مجھ سے وعدہ لے لیا تھا، کیا کرتا مجبور تھا‘‘۔ ہم نے مجبوری بتاتے ہوئے جرم قبول کیا۔
’’افسوس ہے تم پر اور مجھ پر‘‘۔ سنی جذباتی ہو کر بولا۔
’’یہی کہے گا انسان۔۔۔ بالکل یہی کہے گا‘‘۔ ٹیپو نے نعرہ مارا۔
’’کب؟‘‘ ہم نے استفسار کیا۔
’’جب اس کے اپنے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، کان اور دوسرے اعضا خود اسی کے خلاف گواہی دیں گے اور وہ کہے گا کہ یہ سب گناہ میں نے تمہارے مزے ہی کے لیے تو کیے تھے‘‘۔
’’اوہ۔۔۔ ہاں‘‘۔ ہمیں یاد آیا۔
’’تو سوچو ذرا۔۔۔ کہ سنی اس وقت اتنا افسوس کررہا ہے تو اس وقت انسان کتنا شدید افسوس کرے گا!‘‘ ٹیپو نے ہمیں واقعی سوچ میں ڈال دیا۔
’’لہٰذا ان سب اعضا کو اپنا نوکر اور غلام سمجھو، ان سے اپنی آخرت کے لیے خوب کام کراؤ‘ اگر ان کے مزے اور آرام کے پیچھے پڑ گئے تو یہ تمہیں کہیں کا نہ چھوڑیں گے۔‘‘
’’جیسے اس نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، اتنے بڈھے سے انکل ہیں، ان سے بھی چیلنج ہروادیا‘‘۔ سنی مصنوعی غصہ سے بولا اور پاؤں پٹختا ہوا وہاں سے چل دیا۔
*۔۔۔*