دریا کنارے والا بنگلہ
ناول: The Cherrys of River House
مصنف: Will Scott
مترجمہ: زبیدہ سلطانہ
۔۔۔۔۔
پہلا کارنامہ
۔۔۔۔۔
کسی اور کی تو بات ہی الگ ہے ،انہیں خود بھی پتا نہ ہوتا تھا کہ وہ کس وقت اٹھ کر باہر چل دیں گے۔ ایک دم صلاح ہوتی اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ، اپنی مو’’ٹر سفید پری‘‘ میں بیٹھ یہ جا وہ جا۔ ہم سائے ان پر ہنستے اور انھیں ’دریا کنارے والے بنگلے کے سرپھرے‘ کہا کرتے ۔ محلے بھر میں وہ اسی نام سے مشہور تھے ۔
مگر دریا والے بنگلے میں رہنے والے یہ ’آٹھوں‘ ایک دوسرے میں اتنے گم تھے کہ انھیں کسی کی پروا ہی نہ تھی۔ اور یہ دریا والے بنگلے کے رہنے والے تھے، کپتان عامر، بیگم عامر، ان کے چاروں بچے، ٹونی،پپو، ثمری، فرحی، ان کا پالتو بندر نرالا اور پیارا میاں مٹھو ہریا جسے کپتان عامر بنگال سے لائے تھے۔ نرالا کو بیگم عامر نے ایک مداری سے خریدا تھا۔ اور اب یہ دونوں بھی گھر کے لوگوں میں گنے جاتے تھے۔
کپتان عامر اور ان کی بیوی، بچوں میں بچے بن جاتے تھے۔ بیگم عامر کہا کرتیں کہ ہم چاہیں تو عمر بھر بچپن کا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمیشہ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر ہنستے کھیلتے رہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی ایسا ہی کرتے۔ وہ اپنے بچوں کے ہم جولی اور دوست تھے۔
بچوں کو کچھ پتا نہ ہوتا کہ کب ان کے ابواخبار کو دور پھینکتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے اور کہیں گے۔
’’چلو بھئی، کہیں گھومنے چلیں ۔‘‘
یہ سن کر بچے جھٹ اُٹھ کھڑے ہوتے ۔ہریا ان کے کندھے پرآبیٹھتا اور نرالا دانت کچکچاتے ہوئے پیچھے پیچھے چلنے لگتا۔کپتان عامر ان سب کو’’ سفید پری‘‘ میں سوار کر کے چل پڑتے ۔
ایک دن صبح کو نا شتے کے بعد کپتان صاحب بچوں کو لے کر باہر لان میں آ بیٹھے اور ان کو اپنا ایک کارنامہ سنانے لگے کہ کیسے انھوں نے ہندوستان کے گھنے جنگلوں میں ایک پرانے مندر کا کھوج لگایا اور وہاں ایک جنگلی قبیلے میں گھر گئے۔ وہ جنگلیوں کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ نہ جنگلی اُن کی زبان سمجھتے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے ان کے ہاتھوں بچ کر بھاگے۔
’’ ابو، آپ ان سے بچ کر کیسے بھاگے؟‘‘ ٹونی نے حیران ہو کر پوچھا۔
دس سال کا ٹونی تین بچوں کا بھائی جان تھا، اسی لیے وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتاتھا۔ اس نے ایک درخت کے اوپرلکڑی کا چھوٹا سا گھر بنا رکھا تھا اور اپنے خالی وقت میں اسی کے اندر بیٹھ کرپڑھا کرتا تھا۔
’’ بس کسی نہ کسی طرح بھاگ ہی گئے۔‘‘ابو نے کیا۔
’’مگرکیسے؟ نہ تو آپ کو راستہ معلوم تھا نہ آپ ان کی بات سمجھتے تھے۔‘‘ ٹونی آنکھیںپھاڑے باپ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’اگر تمہاری آنکھیں کھلی اور ہوش ٹھکانے ہوںتو سب کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘ ابو نے ہنس کر جواب دیا۔
’’ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا…آنکھیں کھلی اور…؟‘‘ ثمری کہنے لگی جو ٹونی سے چھوٹی اور نو سال کی تھی۔
ابو نے ایک دم اخبار پھینک دیا اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’تو چلو کھیل کر دیکھیں،پھر تم سمجھ جاؤ گے؟‘‘
اور سب کے سب کسی نہ کسی کام سے ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ کپتان عامر کار نکال کر لے آئے۔ امی اور ثمری کھڑکیاں اور دروازے بند کر کے تالے لگانے لگیں۔ پپو تھا تو سات ہی برس کا مگر وہ ضرورت کی چیزیں ساتھ لے جانا نہیں بھولتا تھا۔ وہ تیر کمان اور لکڑی کی تلواریں لے کر کار کے قریب آ کھڑا ہوا۔ ٹونی دوڑا دوڑا گیا اور اپنے درخت پر سے سیڑھی ہٹا آیا کہ کوئی اوپر نہ چڑھ جائے۔ فرحی، جو صرف چھ سال کی تھی۔ ایک بڑے سے لفا فے میں مکھن لگے توس، بند اور سیب ٹھونس کر لے آئی۔ اسی لیے تو امی کہتی تھیں کہ کھانے پینے کی فکر جیسی فری کو ہوتی ہے، دنیا بھر میں اور کسی کو نہیں ہوتی ۔
بچوں کی بھاگ دوڑ سے نرالا بھی سمجھ جاتا تھا کہ کوئی نئی بات ہونے والی ہے۔ وہ کلکاریاں مارتا ہوا ہر ایک کے پیروں میں الجھ رہا تھا۔ ہریا سب پہلے اُڑ کر کار کے اوپر بیٹھ گیا تھا اور آنے جانے والے سے کہہ رہا تھا، ’’پکڑو اسے جانے نہ پائے۔‘‘ کبھی قہقہہ لگا کر کہتا،’’ بڑا سہانا سماں ہے۔‘‘
آخر یہ قافلہ روانہ ہوا۔ دوپہر کا وقت ہو چلا تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے۔ علاقہ سنسان تھا مگر دریا کنارے والے بنگلے کے یہ لوگ سیر کو جا رہے تھے ۔
’’سفید پری‘‘ سٹرک پر اڑی چلی جا رہی تھی اور اس کی گڑگڑاہٹ کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی ۔ جیسے ہی گاڑی ایک گاؤں کے پاس پہنچی، کپتان عامر نے نعرہ لگایا:
’’ ہم جنوبی ہندوستان کے جنگلوں میں آ پہنچے ہیں، سب آنکھیں بند کر لیں۔ کوئی باہرنہ جھانکے۔‘‘
بچے دیرتک آنکھیں میچے بیٹھے رہے۔ تب کہیں ابو کی آواز آئی ۔’’ چلو، نکلوباہر۔‘‘
سب نے آنکھیں کھول کر ادھر اُدھر دیکھا۔ وہ ایک چھوٹے سے گائوں کے قریب تھے۔ سب کار میں سے اچھل کر باہر نکل آئے۔ کیسا ہرا بھرا گاؤں تھا۔ کھیت ہی کھیت لہلہا رہے تھے۔ کہیں دور رہٹ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ کھیتوں کے پار ایک پرانا مندر تھا۔ بچے اس جگہ پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ ان کے لیے یہ بالکل نئی جگہ تھی۔
’’ اب ہر چیز کو غور سے دیکھو اور یوں سمجھو کہ یہ جنوبی ہندوستان کا جنگل ہے۔ وہ سامنے والا مندر وہی مندر ہے جو میں نے تلاش کیا تھا۔ اب اپنی آنکھیں کھلی اور ہوش قائم رکھ کر کھیل شروع کرو۔کوئی ایسی چیز نہ ہو جو تم دیکھنے سے رہ جاؤ۔ اس کے لیے میں تمہیںپانچ منٹ دوں گا۔‘‘
پانچ منٹ میں بچوں نے ارد گرد کی ساری چیزیں دیکھ لیں اور پھر کار میں آکر بیٹھ گئے۔ چلنے سے پہلے کپتان صاحب نے انھیں دوبارہ آنکھیں بند کرنے کو کہا اور جب بچوں نے آنکھیں بند کر لیں تو انھوں نے کار چلا دی۔
اب کے سفید پری رکی تو وہ گاؤں کے آخری کنارے پر ایک اونچے سے ٹیلے کے پیچھے اُترے۔ یہاں ایک چھوٹا سا جنگل تھا۔
’’اب میں اور تمہاری امی دوسرے راستے سے، اس پرانے مندر کے پاس جا کر تمہارا انتظار کرتے ہیں۔ یوں سمجھو کہ تم اس مندر کا کھوج لگانے کے لیے اس جنگل میں آئے ہو۔ تم اس علاقے کے لوگوں کی زبان نہیں جانتے۔ اس لیے جو کوئی بھی راستے میں ملے اس سے بات نہ کرنا۔ بس اپنی آنکھیں کھلی رکھو اور جوچیزیں پہلے دیکھ چکے ہو اُن کی مدد سے مندر تک پہنچو۔ اگر تم آدھ گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے تو ہم تمہیں کل چڑیا گھر لے چلیںگے۔‘‘
بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگے۔
’’ اچھا، خدا حافظ۔‘‘ ماں اور باپ نے ہنستے ہوئے کہا اور بچوں کو جنگل کے کنارے چھوڑ کر چلے گئے۔
بچے آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کون سا راستہ انھیں مندر کی طرف لے جائے گا؟ آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے وہ دیکھ نہ سکے تھے کہ موٹر کس طرف گئی ہے۔چاروں کچھ دیرحیران کھڑے اُجاڑ جنگل میں ادھر ادھر دیکھتے رہے مگر انھیں کوئی نشان ایسا نظرنہ آیا جو ان کی مدد کرتا۔ پپونے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور بولا :’’ٹھیک ہے۔ ہمیں اس طرف جانا چاہیے۔جب ہم مندر کے قریب اترے تھے تو دور سے مجھے یہ ٹیلا نظر آیا تھا۔‘‘
’’ تو چلو اسی راستے سے چلیں…‘‘ ٹونی کہنے لگا اور وہ چل پڑے۔
’’کھجور کے درختوں کا بڑا سا جھنڈ میں نے پرانے مندر کے قریب دیکھا تھا۔ ہم ٹھیک راستے پر جا رہے ہیں۔ ‘‘پپو نے کچھ دور چلنے کے بعد کہا۔
’’اسی لیے تو ابو نے کہا تھا کہ آنکھیں کھلی رکھنا۔ ہم میں سے صرف پپو نے آنکھیں کھلی رکھیں۔‘‘ ثمری ہنس کر کہنے لگی۔
وہ جنگل کے جھاڑ جھنکاڑ میں الجھتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ یکایک ٹونی چلایا :’’پپو، وہ درختوں کا جھنڈ تو اب نظرنہیں آتا۔ کہیں ہم بھٹک تو نہیں گئے؟‘‘
پپو سر کھجا کر کچھ سوچنے لگا۔ پھر بولا:’’تم درخت پر چڑھ سکتے ہو۔ اوپر چڑھ کر ان درختوں کو ڈھونڈو۔ ورنہ ہم بھٹک جائیں گے۔‘‘
ٹونی جھٹ ایک اونچے سے درخت پر چڑھ گیا۔ دائیں ہاتھ کی طرف اسے وہ جھنڈنظر آیا جس کے پیچھے سے مندر کا کلس جھانک رہا تھا۔
’’ مجھے یہاں سے ایک پگڈنڈی نظر آرہی ہے، جس سے ہم مندر تک پہنچ جائیں گے۔‘‘ ٹونی نے درخت پر سے آواز لگائی اور جلدی جلدی نیچے اتر آیا۔
’’اس طرف سے ہم جنگل سے باہر نکلیںتو ہرے بھرے کھیتوں کے بیچوں بیچ راستہ جاتا ہے۔‘‘ ٹونی نے بتایا اور وہ جنگل سے نکلنے کے لیے دائیں ہاتھ کومڑ گئے۔
تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ سامنے ایک بہت بڑا جوہڑ آ گیا۔ اس کے اردگرد گھنی جھاڑیاں تھیں۔
’’ارے، یہ کیا!‘‘ ٹونی ایک دم چلایا اور گیلی مٹی میں ایک بہت بڑے پیر کا نشان دکھانے لگا۔ ’’یہ تازہ نشان ہے۔‘‘
’’ضرور ابھی ابھی کوئی اس طرف گیا ہے۔‘‘پپو کہنے لگا۔
’’کوئی جنگلی یہاں آس پاس موجود ہے۔‘‘ ٹونی نے آواز دبا کر کہا۔
’’پھرکیا کریں؟‘‘ لڑکیاں ڈر کر پوچھنے لگیں۔
’’ یہاں کوئی پک نک منا کر گیا ہے۔تم تو ویسے ہی ڈر رہے ہو۔ یہ دیکھوآدھا کھایا ہوا سموسا زمین پر پڑا ہے۔‘‘ ثمری نے کہا۔
’’اس سموسے کو اٹھا کر پانی میں پھینک دو ثمری۔ اس ندیدی فرحی کا کچھ بھروسا نہیں۔ کیا پتا، اُٹھا کر کھا ہی لے۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ واہ، میں ایسی گندی بچی تو نہیں کہ زمین کی چیز اُٹھا کر کھانے لگوں۔‘‘ فرحی مارے شرم کے رونے کے قریب ہو گئی۔
ثمری نے اسے پیار کیا اور بولی۔’’ ہماری ننھی کبھی ایسی گندی حرکت نہیں کر سکتی۔ ‘‘
جوہڑ سے ہٹ کر وہ آگے بڑھے ۔گھنی جھاڑیوں میں الجھتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ ایک دم ایک بڑی سی جھاڑی کے پیچھے سے ایک آدمی لپک کر ان کے سامنے آ گیا ۔
’’ہائے، جنگلی۔‘‘ ٹونی نے گھبرا کر کہا۔
یہ ایک لمبا تڑنگا آدمی تھا۔ اس کے کندھے پر بندوق لٹک رہی تھی۔
’’ کہاں جا رہے ہو تم لوگ؟‘‘ اس آدمی نے ڈانٹ کر پوچھا۔
پپو نے تیر کمان سنبھالا اور کچھ دور جاکھڑا ہوا۔ کسی نے اس کی بات کا جواب نہ دیا۔ سب کو ابو کی بات یاد تھی کہ بولنا مت۔ وہ یوں ظاہر کر رہے تھے جیسے اس کی زبان نہیں سمجھتے۔
’’ بولتے کیوں نہیں؟‘‘ اس نے زور سے پوچھا۔
بچے پھر بھی نہ بولے۔
’’ کیا گونگے ہو تم سب کے سب؟‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور پھر ایک کنکری اٹھا کر پپو کی طرف پھینکی جو کمان میں تیرجوڑ رہا تھا۔ کنکری کے لگتے ہی پپونے زن سے تیر چھوڑا جو جنگلی کی ٹوپی میں جا اٹکا۔
’’بھاگو!‘‘ ٹونی نے حکم دیا اور چاروں بچے جھاڑیوں میں الجھتے، گرتے پڑتے دوڑتے چلے گئے۔
وہ آدمی ان کے پیچھے دوڑا تو ایک جھاڑی میں الجھ کر گر پڑا۔ بچے یہ دیکھ کر اور تیزی سے دوڑے۔ ٹونی جان بوجھ کر سب سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ آدمی چھلانگیں لگاتا ہوا آ رہا تھا۔ ٹونی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا مگر تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اس کی گردن دبوچ لی۔ عین اسی وقت پولیس کی سیٹی سنائی دی اور آواز آئی ۔’’پکڑو اسے، جانے نہ پائے۔‘‘
یہ سنتے ہی اس آدمی نے ٹونی کو چھوڑ دیا اور دوڑ کر ایک جھاڑی میں گھس گیا۔ اس کے ساتھ ہی درخت کی شاخوں میں پھڑ پھڑانے کی آواز آئی اور ہریا، ٹونی کے کندھے پر آ بیٹھا۔ وہ ابھی تک سیٹی بجا رہا تھا اور اس نے’ پکڑو اسے ،جانے نہ پائے‘ کی رٹ لگا رکھی تھی۔
’’ابو…‘‘
پپو کی خوشی سے بھری آواز پر سب مڑ کر دیکھنے لگے۔
کپتان صاحب نرالا کو کندھے پر بٹھائے جھاڑیوں کو روندتے ہوتے چلے آ رہے تھے۔ سامنے ہی پرانے مندرکا کھنڈر تھا۔ بچے ان جانے ہی میں وہاں تک آ پہنچے تھے۔
’’ لو بھئی، وعدہ ہوا۔ کل چڑیا گھر چلیں گے۔تم پیس منٹ ہی میں مندر تک پہنچ گئے ہو۔اب اپنا کارنامہ سناؤ۔ تمھیں کوئی جنگلی بھی ملا تھا؟‘‘ ابو نے پوچھا اور بچوں نے مزے لے لے کر انھیں ساری کہانی سنائی۔
دشمن کے علاقے میں
۔۔۔۔۔
کپتان صاحب بچوں کو اپنا ایک کارنامہ سنا رہے تھے۔ کہنے لگے۔ ’’جب میں افریقہ میں تھا تو ایک دن دریا پار کر کے دشمن کے علاقے میں چلا گیا اور وہاں جنگلی لوگوں نے مجھے پکڑ لیا مگر میں بڑی صفائی سے بچ کر نکل آیا۔‘‘
’’علاقہ کیا ہوتا ہے ابو۔‘‘ فرحی پوچھنے لگی۔
’’ مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ تم بے وقوفوں جیسا کوئی سوال ضرور پوچھو گی۔‘‘ ٹونی نے گھورکر کیا۔
زمین کے کسی خاص حصے کو علاقہ کہتے ہیں۔‘‘ پپو نے بتایا۔
’’اور ابو…؟‘‘فرحی کچھ اورپوچھنے کو تھی کہ پپو نے اسے کہنی سے ٹہوکا دیا۔
’’چپکی نہ سنے گی کبھی؟‘‘
’’بیٹے پوچھنے دو اسے۔ چھوٹی ہے نا۔ جو بات اس کی سمجھ میں نہ آئے اسے سمجھانی چاہیے۔ ہاں فرحی؟کیا پوچھ رہی تھیں تم؟‘‘
’’ابو، آپ نے ابھی کہا تھا ’دشمن‘۔وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
کپتان صاحب نے ٹونی کی طرف دیکھا کہ وہ فرحی کو اس کا مطلب سمجھائے لیکن ٹونی بغلیں جھانکنے لگا۔
’’دیکھا نا، تمھیں خود نہیں آتا۔ پھر کیوں نہیں پوچھنے دیتے فرحی کو؟‘‘ ثمری نے ہنس کر کہا؟‘‘
’’ بیٹا، دشمن وہ ہوتا ہے جو تمھیں اچھا نہ سمجھے اور تمھیں دکھ دینا چاہے۔ جنگ میں جس ملک کے لوگ ہم سے لڑ رہے ہوں۔وہ ہمارے دشمن ہوتے ہیں۔ آیا سمجھ میں؟‘‘
’’جی،ابو، شکریہ۔‘‘
’’اچھا تو آپ کیسے بچ کر نکل آئے؟‘‘ ٹونی نے پوچھا۔
’’ بس ایسے وقت میں عقل سے کام لینا چاہیے۔‘‘ کپتان صاحب یہیں تک کہہ پائے تھے کہ فرحی نے پھر کچھ کہنے کے لیے منہ کھولامگر پپو نے گھور کر دیکھا تو وہ چپ ہوگئی۔ شاید وہ پوچھنے والی کہ عقل کیا ہوتی ہے؟
’’تم سب کھڑے کیوں ہو۔ بیٹھ جاؤ۔‘‘کپتان صاحب نے بچوں سے کہا، جو ان کے گرد دائرے میں کھڑے تھے۔ اس سے پہلے کہ بچے بیٹھ جاتے ، پپو بولا ’’ابو، سنانے سے اچھا تو یہ ہے کہ ہم دریا پار چلیں اور کھیل کر دیکھیں ، جیسے مندروالا کھیل کھیلا تھا۔‘‘
’’یہ ذرا مشکل ہو گا۔‘‘ کپتان صاحب نے کہا۔
’’ کوئی مشکل نہیں ابو… اگر ہم آنکھیں کھلی رکھیں اور…‘‘
’’ اور عقل سے کام لیں…‘‘ ثمری نے پپوکی بات کاٹ کر کہا۔
’’ ہاں ابو، آپ کی طرح ‘‘ ٹونی نے کہا۔
کپتان صاحب قہقہہ لگاتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور بولے:’’اچھا بھئی، ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ تم ہر کام خود کرو اور عقل کو کام میں لانا سیکھو۔‘‘
’’اور آنکھیںکھلی رکھنا بھی تو۔‘‘ فرحی کہنے لگی۔
’’ ہاں۔‘‘ ابو نے اُسے پیار کرتے ہوئے کہا،’’ اپنے برساتی کوٹ ساتھ لینے نہ بھولنا۔ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ بارش نہ ہونے لگے۔‘‘
باغیچے کے دوسرے سرے کے پاس ہی دریا بہتا تھا۔ وہ باغیچہ پار کر کے کشتی میں جا بیٹھے۔ کپتان صاحب نے چپو سنبھالے اورکشتی کھینے لگے۔ یہ چھوٹی کشتی انھوں نے دریا کی سیر کے لیے بنوائی تھی۔ تھوڑی دیر میں وہ دوسرے کنارے پر ہری بھری چراگاہ میں کھڑے تھے، جہاں دور تک سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا تھا۔
کپتان صاحب کشتی کو کنارے پر باندھ کربولے ۔’’ بھئی، میں نے سوچ لیا ہے کہ یہ کھیل کیسے کھیلا جائے۔ میں دشمن بنوں گا۔ دریا کے اس پار اپنے باغیچے میں میرا علاقہ ہو گا اور یہ تمھارا مگر جنگلیوں کی طرح زہریلے تیر تو ظاہر ہے ہم چلانہیں سکتے۔ ان کے بجائے ٹارچ سے کام لیں گے۔ میں رہ رہ کر ٹارچ کی روشنی ڈالوں گا۔ اگرتم میں سے کوئی ٹارچ کی روشنی کے سامنے آگیا تو سمجھ لو کہ وہ ہارا۔ تمھیں چاہیے کہ روشنی بچنے کی کوشش کرو۔تم میں سے جو بھی میری نظر سے بچ کرگھر پہنچ جائے گا، وہی جیتے گا۔اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم کیسے بچ کر نکلو گے۔‘‘
’’ آپ بھی تو بچ کر نکل آئے تھے،ابو۔‘‘پپو نے کہا۔
کپتان صاحب ہنسنے لگے۔ بولے۔’’ ٹھیک ہے بھئی، مگر پھر بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیسے؟میں کشتی واپس لے جاؤں گا، شرط یہ ہوگی کہ پل پر تم ہر گز نہ جاؤ گے۔ سورج ڈوبنے کو ہے، تھوڑی دیر بعد اندھیرا چھا جائے گا تو تمھیں بچ کر نکلنے کا اچھا موقع مل جائے گا۔ آٹھ بجے تک تم گھر نہ پہنچے تومیں کشتی لے کر آؤں گا اور تمھیں لے جائوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ کشتی میں بیٹھ کر واپس چلے گئے۔بچے حیران کھڑے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
’’ہم اس کھیل میں کبھی نہیں جیت سکیں گے؟ ‘‘ٹونی نے کہا۔
’’ کیوں؟ اگر ایک کام ابو کر سکتے ہیں توہم کیوں نہیں کرسکتے؟‘‘ پپو نے کہا۔
’’ بتاؤ کیسے کر سکتے ہیں؟ کشتی ابو لے گئے ہیں۔ میں اور ثمری تو تیرنا جانتے ہیں۔ لیکن تم اور فرحی نہیں تیر سکتے۔ تم دونوں کیسے جاؤ گے؟‘‘ ٹونی نے اداس ہو کر کہا۔
’’ کوئی نہ کوئی طریقہ سوچنا ہی پڑے گا۔‘‘ پپونے کہا۔
’’تو سوچو بیٹھ کر۔ تم ہی نے ابو سے اس کھیل کے لیے کہاتھا۔‘‘ ٹونی نے غصے سے کہا۔
’’دیکھ لینا بھیا۔ پپو ضرور کوئی ترکیب سوچ لے گا۔‘‘ثمری نے پورے یقین کے ساتھ کہا۔
چاروں بچے ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے۔ سورج ڈوب چکا تھا اور شام کا اندھیرا پھیل رہا ہے۔ ٹونی چپ چپ کی آواز سن کر پیچھے مڑا۔ فرحی مزے سے گھاس پر لیٹی سیب کھا رہی تھی۔
’’ارے واہ، فرحی کو یہاں بھی کچھ نہ کچھ کھانے کو مل گیا۔‘‘ ثمری ہنس کر کہنے لگی۔
’’چپ رہو۔ یاد ہے ابو نے کہا تھا کوئی زور سے نہ بولے۔‘‘ ٹونی نے خفاہو کر کہا۔
پپو دونوں ہاتھوں میں سر کو تھامے کچھ سوچ رہا تھا۔ وہ بولا۔’’ اگر ایسا ہو جائے کہ ابو تھوڑی دیر کے لیے کمرے میں چلے جائیں…‘‘
’’ واہ، اس وقت سے یہی سوچا ہے تم نے؟‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
اتنے میں ٹارچ کی روشنی اندھیرے میں چمکی۔ بچے چپ چاپ جھاڑی کے پیچھے دبکے رہے۔ اچانک زور سے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ پپو جلدی سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
’’امی کا ٹیلی فون ہو گا۔ اب تو ابو ضرور جائیں گے۔ ‘‘
ٹارچ بجھ گئی اور کچھ دیر بعد کمرے کی بتی جلی۔
’’لو، جلدی کرو۔ تم اور ثمری جزیرے کی طرف سے دریا پار کرو۔ وہاں دریا کا پاٹ کم چوڑا ہے۔ پھر تم میں سے ایک کشتی لے آئے اور ہمیں لے جائے۔‘‘پپو نے ٹونی سے کہا ۔
’’ مگر کشتی کیسے لائی جائے گی؟ دشمن کی ٹارچ ضرور کشتی پر پڑے گی۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’یہ تمہارے سوچنے کی بات ہے۔‘‘ پپو نے کہا۔
’’چلو، جلدی آئو۔ کچھ کر ہی لیں گے۔‘‘ثمری نے ٹونی کو کھینچتے ہوئے کہا۔
دونوں کوٹ اتار کر جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہوئے دریا کی طرف چلے۔ ان کے مکان کے سامنے ایک بڑا سا جزیرہ بن گیا تھا۔ وہ تیرتے ہوئے جزیرے پر رکے۔پھر دم لے کر تیرنے لگے اوربنگلے کے سامنے پہنچ گئے۔ بنگلے میں گھپ اندھیرا تھا۔
’’لو، اب بتاؤ کیا کرنا ہے؟ اگر ابو خود پپو اور فرحی کو لینے گئے تو ہم ہار جائیں گے۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ ابھی بتاتی ہوں۔ پہلے یہ بتاؤ کچھ پیسے ہیںتمھارے پاس؟‘‘ ثمری نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں۔ میرے گلے میں ساٹھ پیسے ہیں۔‘‘ ٹونی نے کہا۔
’’ تو یہ پیسے لے کر دواؤں کی دکان پر چلے جاؤ۔ وہاں سے ابو کو فون کرنا۔ گھنٹی بجے گی تو ابو اندر جائیں اور میں کشتی کھول کر لے جاؤں گی۔
انھیں اتنی دیر روکے رکھنا کہ میں کشتی لے کرواپس آ جاؤں۔‘‘
ٹونی خوشی کے مارے ناچ اٹھا اورپھر دونوں اندھیرے میں دھیرے دھیرے قدم رکھتے بنگلے کے اندر گھس گئے۔ ابوباہر با غیچے میں تھے ۔ انھیں کچھ پتا نہ چلا اور ٹونی اپنے گلے میں سے پیسے نکال لایا۔ اب وہ تو دواؤں کی دکان کی طرف چلا گیا اور ثمری اندھیرے میں چھپتی چھپاتی دریا کے کنارے جا بیٹھی اور گھنٹی بجنے کا انتظار کرنے لگی۔ کئی منٹ گزر گئے۔ ثمری کا دل گھبرانے لگا۔ وہ دل ہی دل میں ڈر رہی تھی اور بار بار ٹارچ کی روشنی کو دیکھ رہی تھی کہ ایک دم گھنٹی بجی اور اس کے ساتھ ہی ٹارچ کی روشنی غائب ہوگئی۔ ثمری نے فوراً کشتی کو کھولا اور چپوتھام لیے۔ ننھی سی ناؤ تیزی سے پانی کے بہاؤ پر چلی۔
جزیرے کے قریب پہنچ کر ثمری نے کشتی کنارے کی طرف کھیناشروع کی اور جب کنارے پر پہنچ گئی توکشتی کو باندھ کر جھاڑیوں کے پیچھے چھپتی چھپاتی اس طرف جانے لگی جہاں پپو اور فرحی بیٹھے تھے۔ مگر وہ دونوں پاس ہی کی ایک جھاڑی سے نکل آئے۔
’’مجھے معلوم تھا کہ تم اسی جگہ آؤ گی۔‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’ہمیں کچھ دیر انتظار کرنا ہو گا پیو۔‘‘ثمری کہنے لگی اور اپنی ساری اسکیم پپو کو سنائی۔
’’ جب بھیادوسری بار ٹیلی فون کریں گے تو ہم واپس چلیں گے۔‘‘ ثمری کہنے لگی۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘پپو جوش سے بولا۔
’’ آہستہ بولو بھئی۔‘‘ثمری نے اُسے ٹوکا۔
’’ ادھر میرے سیب ختم ہوئے ،اُدھر باجیی آ گئیں ۔‘‘فرحی نے ہاتھ پونچھتے ہوئے کہا ۔
’’چل، پیٹو کہیں کی۔‘‘ ثمری نے اس کے ہولے سے چپت لگائی۔
اتنے میں پھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ثمری خوشی سے ناچ اٹھی۔’’ چلو، جلدی بیٹھو۔ ابو پھراٹھ کر اندر جائیں گے۔جب تک وہ واپس آئیں ہمیں جزیرے پہنچ جانا چاہیے۔‘‘
سب جلدی جلدی کشتی میں بیٹھے اور ثمری کشتی کھینے لگی۔ کچھ دیر بعد جب ٹارچ کی روشنی انھیں ڈھونڈ رہی تھی، وہ جزیرے پر کھڑے ہنس تھے ۔’’ ابو سوچ رہے ہوں گے کہ ہم گھر نہین پہنچ سکیں گے۔‘‘ پپو ہنس کر کہنے لگا ۔
’’شش۔ ابو آواز سن لیں گے۔‘‘ ثمری نے اسے ڈانٹ بتائی۔
’’ ابو نہیں، دشمن کہو۔‘‘ فرحی کہنے لگی۔ پپو اور ثمری کو ہنسی آ گئی۔ دونوں نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
کچھ دیر تینوں جھاڑی میں چھپے کھڑے رہے۔ ان کے کان گھنٹی کی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ ٹارچ کی روشنی رہ رہ کر کنارے پر دوڑ رہی تھی۔ اتنے میں تیسری بار گھنٹی کی آواز آئی۔
’’چلو تیار ہو جاؤ۔‘‘ ثمری جلدی سے کشتی طرف بڑھی۔ پپو اور فرحی بھی اچک کر کشتی میںبیٹھ گئے۔ ثمری تیزی سے کشتی کھیتی رہی اور جب ابو کمرے کی بتی بجھا کر بڑبڑاتے ہوئے باہرنکلے تو تینوں بچے کشتی سے اتر کربنگلے میں داخل ہوچکے تھے۔
’’عجیب تماشا ہے۔ پتا نہیں کون بار بارٹیلی فون کر رہا ہے۔‘‘ کپتان صاحب بڑبڑا رہے تھے۔ انھوں نے باغیچے میںآتے ہی ٹارچ کی روشنی کو لہرایا اور پھرایک دم ان کی نظر فرحی، پپو اور ثمری پرپڑی۔ اتنے میں ٹونی بھی بھاگتا ہواآپہنچا اور چاروں بچے خوشی سے ناچنے کودنے لگے۔ کپتان صاحب نے گھڑی دیکھی تو سات بج کر پچیس منٹ ہوئے تھے۔
’’دیکھا، ہم کتنے پہلے آ گئے۔‘‘ ثمری نے زور سے تالی بجا کر کہا۔
کپتان صاحب حیران ہو رہے تھے۔ انہیں یہ امید نہ تھی کہ وہ اپنے آپ گھر آ سکیں گے۔ وہ حیران ہو کر سوال پر سوال کیے جا رہے تھے۔ جب بچوں نے انھیں ساری کہانی سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور سب کی پیٹھ ٹھونکی۔
’’ تمھاری خوش قسمتی ہے کہ جنگلیوں نے تمہیں گھیرنے کے بجائے ٹیلی فون کو گھیر رکھا تھا۔‘‘ وہ ہنس کر کہنے لگے۔ بچوں نے بتایا کہ انھیں اٹھانے کے لیے ٹیلی فون بھی وہی کر رہے تھے اور انھوں نے ٹونی کو اس کام پرلگا رکھا تھا۔
’’حد کر دی بھئی تم نے۔ مجھے ماننا پڑتا ہے کہ تم نے مجھے خوب دھوکہ دیا ہے۔‘‘
’’ آپ کہتے تھے نا ابو کہ دشمن کو دھوکے میںڈالنا چاہیے۔ بس ہم نے وہی کیا۔ہم سب نے بیٹھ کر سوچا اور یہ طریقہ نکالا۔ پپو کہنے لگا۔
’’ تم سب نے؟‘‘ وہ پوچھنے لگے۔
’’سچ پو چھئے تو پپو نے۔‘‘ثمری نے بتایا۔
’’اور ٹیلی فون والی ترکیب ثمری نے سوچی تھی۔‘‘ٹونی کہنے لگا۔
’’بہت خوب، تمھاری امی آتی ہوں گی۔ وہ تمہارے کارنامے کا حال سن کر بہت خوش ہوں گی۔‘‘ کپتان صاحب نے گھڑی دیکھ کر کہا۔
’’ کارنامہ کیا ہوتا ہے ابو؟‘‘ فرحی نے کیک کھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ ارے؟ یہ تم کیک الماری میںسے کیسے نکال لائیں؟‘‘ ثمری نے چونک کر پوچھا۔
کپتان صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ۔’’کارنامے کا مطلب ہے کوئی بڑا کام ،جسے دیکھ کر دوسرے حیران ہوں۔ اب تمہارے کیک نکال لانے پر ثمری حیران ہوئی تو یہ تمھارا کارنامہ ہوا۔‘‘
خزانہ مل گیا
۔۔۔۔۔
کپتان صاحب شام کو شہر سے واپس آئے تو کہنے لگے کہ میں نمائش دیکھ کر آیا ہوں۔ بچوں نے شور مچانا شروع کیا کہ ہم بھی نمائش دیکھیں گے۔ کپتان صاحب چپ رہے۔ آخر امی نے وعدہ کیا کہ کل نہیں تو پرسوں تمہیں ضروردکھانے لے چلیں گے۔
بچوں کو یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوئی کیوں کہ ابو انھیں باہر لے جانے کے لیے جھٹ تیار ہو جاتے تھے۔ مگر اب وہ چپ تھے اورکچھ سوچ رہے تھے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولے: ’’ جب میں آیا تھا تو ٹونی درخت کا ذکرکر رہا تھا؟‘‘
’’ابو، آج گرمی بہت ہے، اس لیے میں کہہ رہا تھا کہ میں آج اپنے درخت میں سوؤں گا۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’اچھا خیال ہے۔ کاش، ہم سب درختوںپر سو سکتے۔‘‘ ابو نے ہنس کر کہا۔
اجازت ملتے ہی ٹونی نے اپنا بستر سمیٹا اور سیڑھی لگا کر درخت پر چڑھ گیا۔ امی کے کہنے پر ہریا اور نرالا بھی اس کے ساتھ چلے گئے۔ یہاں خوب ہوا آ رہی تھی۔ ٹوٹی جلد ہی میٹھی نیند کے مزے لینے لگا۔ پاس ہی ایک ٹہنی پر اس کے دونوں دوست آرام کر رہے تھے۔
رات کو، خبر نہیں کون سا وقت ہو گا کہ ٹونی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ کسی آواز سے جاگا تھا۔ ٹھڈ ٹھڈ کی آواز رہ رہ کر آ رہی تھی۔ ٹونی اٹھ کر بیٹھ گیا اور آواز پر کان لگا دیے مگر وہ اب بند ہوگئی تھی۔ ٹونی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کیسی آواز تھی اور کس طرف سے آ رہی تھی۔ آخر اس نے سوچا کہ یہ اس کا وہم ہو گا اور پھر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ابھی جاگ ہی رہا تھاکہ اس کے لکڑی کے گھروندے پر کوئی چیز پھٹ سے آ کر لگی اور پھر پتوں میں کھڑکھڑاتی نیچے جا گری۔ ساتھ ہی ہریا نے سیٹی بجائی اور قہقہہ لگاتے ہوئے بولا:’’ پکڑلو اسے،جانے نہ پائے۔ ‘‘
ٹونی حیران ہوا کہ ہریا کس بات پر خوش ہو رہا ہے؟ وہ کچھ سوچ کر نیچے اترا۔ ہریا بھی پتوں میں پھڑ پھڑاتا زمین پر آ گرا۔ ٹونی نے جزیرے کا چکر لگایا۔ مکان کے سب دروازے، کھڑکیاں بند تھے۔ اندر یا باہر کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔
آواز کا کچھ سراغ نہ ملا تو ٹونی واپس آ کر لیٹ گیا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسی آواز تھی اور کہاں سے آ رہی تھی؟ یہی سوچتے سوچتے وہ خبر نہیں کس وقت سو گیا۔ اور جب نرالا کی کلکاری سے جاگا تو سورج سر پر آچکا تھا۔وہ اندر آیا تو سب ناشتے کی میز پر اس کا انتظار کر رہے تھے۔
’’ بڑی دیر تک سوئے ٹونی؟‘‘ ابو نے مسکرا کر کہا۔
’’ابو، رات عجیب بات ہوئی۔ ‘‘
ٹونی رات کا قصہ سنانے لگا تھا کہ امی نے ٹوکا۔’’ اچھا، منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کے لیے آؤ تو پھر سنیں گے تمھارا قصہ۔ ‘‘
ٹونی غسل خانے میں چلا گیا اور پانچ منٹ اور سب کو انتظار کرنا پڑا۔ٹونی نے دیرسے آنے پر معافی مانگی اور ناشتا شروع کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’ابو،رات ایک عجیب سی آواز نے مجھے جگا دیا۔ میں نیچے اتر کے سارے گھر میں پھرا مگر کچھ پتا نہ چل سکا کہ وہ کیسی آواز تھی؟‘‘
’’ تم نے ٹارچ سے دیکھنے کی کوشش کی ہوتی۔‘‘ ابو کہنے لگے۔
’’ جی، میں روشنی کرتا تو کھٹکا کرنے والا ہوشیار ہو جاتا۔ اس لیے اندھیرے ہی میں ڈھونڈتا رہا۔ آخر کوئی تو ہو گا جو کھٹکا کر رہا تھا۔‘‘
ابو اس کے جواب پر مسکرا دیے۔ بولے ۔’’ہاں ضرور ہو گا اور اپنا کوئی نہ کوئی سراغ بھی چھوڑ گیا ہو گا۔ یاد رکھو، دنیا میں کوئی چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی ایسا نہیں ہوتا جو اپنے پیچھے چند خاص نشان نہ چھوڑ جائے۔ انھیں نشانوں کو ’’سراغ‘‘ کہتے ہیں اور ان کی مدد سے مجرموں کو پکڑا جاتا ہے۔‘‘ ابو نے کہا۔
فرحی نے جلدی سے پوچھا، ’’مجرم کیا ہوتا ہے ابو؟‘‘
’’ بیٹا، جو آدمی کوئی ایسا کام کرے جو براہو اور حکومت نے اسے منع کر رکھا ہو تو ایسے آدمی کو مجرم کہتے ہیں۔‘‘
’’ تو ابو وہ کھٹکا کرنے والا بھی نشان چھوڑ گیا ہو گا؟‘‘ ٹونی پوچھنے لگا۔
’’ ضرور۔ چلو، دیکھیں۔‘‘ وہ بولے۔
’’ مگر ابو، اس آدمی کو کھٹکا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا وہ جان بوجھ کرلوگوں کو جگانا چاہتا تھا؟‘‘ پپو پوچھنے لگا۔
’’ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ ٹونی کو خبردار کرنا چاہتا ہو گا۔‘‘ ابو نے ہنس کر کہا۔
سب اُٹھ کر باغ میں آئے اور گھوم کچھ تلاش کرنے لگے۔ کہیں بھی کوئی ایسی چیز دکھائی نہ دی جس سے انھیں رات والے کھٹکے کا کچھ حال معلوم ہوسکتا۔اتنے میں پپو کی نظر درخت کے اوپر والے گھروندے پر پڑی۔ اس کی چھت پر گیلی مٹی کا بڑا سا ڈھیلا پڑا تھا۔ وہ لپکا ہوا گیا اور سیڑھی پر چڑھ کر اسے اتار لایا۔ اتنے میں باقی لوگ بھی درخت کے نیچے پہنچ چکے تھے۔ ٹونی نے دیکھا کہ درخت کے نیچے سوکھی زمین پر ہریاکے پنجے کے نشان لگے ہوئے ہیں۔اس نے باپ کو دکھاتے ہوئے کہا۔
’’ابو، دیکھئے ۔کئی دن سے باغیچے میں پانی نہیں دیا گیا۔ ہریا کے پنجوں میں مٹی کیسے لگ گئی؟ یہ کیچڑ سے بھرے ہوئے پنجوں کے نشان ہیں۔‘‘ابو مسکرا کر پپوکی طرف دیکھ رہے تھے جو ڈھیلے پرنظریں جمائے کچھ سوچ رہا تھا۔
’’کچھ سمجھ میں آیا؟‘‘ وہ پوچھنے لگے۔
’’ہریا رات کو میرے پاس سے اڑ کرچلا گیاہو گا اور کہیں گیلی زمین پربیٹھا ہو گا۔ اس کے بعد وہ پھر میرے پاس آ کر درخت پر بیٹھ گیا۔جس وقت وہ پھڑ پھڑا کر نیچے گرا تو اس کے پنجوں کے نشان زمین پرلگ گئے۔‘‘ ٹونی نے کہا۔
’’ اس مٹی کو غور سے دیکھو۔‘‘ کپتان صاحب کہنے لگے۔
ٹونی زمین پر جھک گیا اور پھربولا۔’’ ریت ملی مٹی ہے، جیسے دریا کے قریب ہوتی ہے۔‘‘
یہ سن کر پپو جلدی سے بولا: ’’اور اس میں سرکنڈے کاٹکڑا بھی پھنسا ہوا ہے؟ ‘‘
’’ سرکنڈے تو جزیرے میں اُگے ہوئے ہیں۔ٹونی بولا۔
’’تو چلو، وہیں چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ مٹی کا ڈھیلا اس جگہ کیسے پہنچا۔‘‘ ابو کہنے لگے۔
کپتان صاحب سب کو لے کر جزیرے میں پہنچے اور ان کے کہنے پر بچے غور سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ سرکنڈوں کے ایک بڑے سے جھاڑ کے پاس تازہ کھودی ہوئی مٹی نظر آئی تو پپو شور مچانے لگا:
’’ابو، یہاں آیئے۔ یہاں سے کسی نے زمین کھودی ہے۔‘‘
سب اسی طرف دوڑ پڑے۔
’’ ارے ہاں، اب یاد آیا۔ وہ زمین کھودنے کی ہی آواز تھی۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
مارے جوش کے سب بچوں کے چہرے سرخ ہو رہے تھے۔
’’کسی نے زمین کھودی اور پھر مٹی کو دباکر برابر کر دیا۔‘‘ پپو بولا۔
’’ضرور یہاں کسی نے رات کو خزانہ دفن کیا ہے۔‘‘ ثمری کہنے لگی۔
’’ مگر خزانہ دفن کرنے والے کے ساتھ یہ ہریا اس جگہ کیوں چلا آیا؟ دیکھئے نا ابو، گیلی مٹی پر ہریا کے پنجوں کے نشان ہیں؟‘‘پپو کہنے لگا۔
’’کیوں نہ کھود کر دیکھا جائے کہ یہاں کیا چیز دبائی گئی ہے؟‘‘ امی کہنے لگیں۔
’’ ہاں، ٹونی جاؤ اور جلدی سے کھرپالے آؤ۔‘‘ ٹونی ایک دم کشتی میں کود پڑا اور تیز تیز چپو چلاتا ہوا دو ہی منٹ میں جا کر گھر پا لے آیا۔
پپو نے کھودنا شروع کیا۔ سب اس کے گرد کھڑے ہوئے شوق سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک گھر پا کسی سخت چیز پر پڑا اور کھٹ کی آواز آئی۔ سب بچے خوشی سے اچھل پڑے۔
’’ارے، اس کے اندر تو سچ مچ خزانہ ہے۔‘‘ ثمری نے شور مچا دیا۔
اتنے میں پپو نے گڑھے میں ہاتھ ڈال کر ٹین کا ایک چھوٹا سا ڈبا نکال لیا۔
’’ واہ بھئی، ثمری کی بات سچ ہو گئی۔بھلا دیکھیں تو اس کے اندر کیا ہے؟‘‘امی کہنے لگیں۔
ابو بغلوں میں دونوں ہاتھ دیے ہنس رہے تھے۔پپو نے ڈھکنا کھولا اور ڈبے کے اندر سے گلابی رنگ کے چھوٹے چھوٹے چھ کارڈ نکالے۔
’’ ارے، یہ تو نمائش کے ٹکٹ ہیں۔‘‘ ٹونی چیخ اٹھا۔
’’اوہو، اب سمجھا۔ ابو نے یہ ڈبا رات یہاں دبایا تھا۔‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’ میں بھی سوچ رہی تھی بھلا ہر یا کسی اورکے ساتھ جزیرے پر کیسے چلا گیا؟‘‘ثمری کہنے لگی۔
’’اور میں حیران تھا کہ ہر یا مارے خوشی کے قہقہے کیوں لگا رہا ہے۔ مجھے کیا معلوم کہ یہ حضرت سب کچھ جانتے ہیں۔ ‘‘ٹونی نے پیار سے ہریا کو بھینچ کر کہا۔
’’ مگر ابو، باجی ثمری تو کہہ رہی تھیںکہ اس میں خزانہ ہے۔ خزانہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ فرحی پوچھنے لگی۔
’’ بیٹی، خزانہ کہتے ہیں بہت سی دولت کو۔ ڈھیر سارے روپوں کو۔ ابو نے بتایا۔
’’اونھ، تو یہ دولت ہے؟‘‘ فرحی نے ناک چڑھا کر ڈبے کی طرف اشارہ کیا۔
’’ اس سے اچھی دولت کیا ہو گی کہ ہمیں نمائش کے ٹکٹ مل گئے۔ اب ہم امی اور ابوکے ساتھ نمائش دیکھنے جائیں گے۔‘‘پپو تالیاں بجا کر کہنے لگا۔
’’ ہاں۔ اور وہاں بہت سی کھانے کی چیزیں بھی ملیں گی میری بیٹی کو۔‘‘ ابو نے فرحی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
کاش ہم وقت پر پہنچ جائیں
۔۔۔۔۔
جب پڑوس کا ایک کنبہ کراچی چلا گیا تو چاروں بچے اداس ہو گئے۔ انھیں اس بات کا دکھ تھا کہ ان کے پڑوسی تو ڈھیروں سامان لے کر ان سے پہلے سیر کے لیے چلے گئے اور وہ پیچھے رہ گئے۔ حال آں کہ ابو نے وعدہ کیا تھا کہ ان سے پہلے سیر کے لیے چلیں گے۔
اس دن وہ خالی خالی یوں پھر رہے تھے جیسے ان کے پاس کرنے کوئی کام ہی نہ ہو۔ انھوں نے تھوڑا سا چھٹیوںکاکام کیا اور باہر با غیچے میں چلے گئے۔ درختوں پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ دریا چُپ چاپ بہہ رہا تھا۔ اُنھوں نے جزیرے میں جانے کا سوچا مگر وہاں جا کر بھی کیا کرتے۔ ڈانواں ڈول پھرتے پھرتے تھک گئے تو ٹونی ایک طرف بیٹھ گیا۔ ثمری اورفرحی گھاس پر لیٹ گئیں۔پپو اندر جانے لگا مگر یک دم ٹھٹک کر سامنے درخت کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک لفافہ تیر میں پرویاہوا درخت کے تنے میں لگا تھا۔ پپو لپک کر گیا اور لفافہ اتار لایا۔ پھر شور مچا مچا سب کو اکٹھا کر لیا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ شورپر امی گھبرا کر پوچھنے لگیں۔
’’ آپ کے نام خط ہے امی ۔ تیر کے ساتھ درخت میں گڑا تھا۔ لکھائی تو ابو کے ہاتھ کی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ٹونی لفافہ ماں کے ہاتھ میں دے کر بولا۔’’ جلدی سے امی، کیا لکھا ہے اس میں؟‘‘ ثمری کہنے لگی۔
’’ خدا جانے یہ خط یہاں کیسے آگیا؟ ابھی ابھی ہم اس طرف سے گزرے تھے تو کو کوئی خط وط نہیں تھا۔‘‘
پپوحیران ہو کر کہہ رہا تھا۔امی نے لفافہ کھولا۔ اس میں چار خط تھے۔ انھوں نے ایک خط پڑھتے ہوئے کہا۔
’’عجیب بات ہے۔‘‘
’’ کیا لکھا ہے اس میں؟ ہمیں بھی توسنائیے۔‘‘
سب بچوں نے ایک ساتھ کہا تو امی نے اونچی آواز میں پڑھ کر سنایا۔ لکھا تھا:
’’کلوا نے صاحب کو پکڑ لیا ہے اور انھیں خیبری کے لیے جا رہا ہے۔اگر تم انھیں بچا سکو تو سرخ شاہین کے پاس پہنچ جاؤ اور اس کے سامنے اس دوسرے خط کو کھولو۔ مگر جلدی کرو۔ دیر کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ایک دوست۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘ ثمری نے حیران ہو کر کہا۔
’’خیبری کون ہے؟‘‘ پپو پوچھنے لگا۔
’’ ایسا لگتا ہے جیسے کسی سرحدی پٹھان کا نام ہو۔ اور سرخ شاہین کون ہے؟ ہمیں کیامعلوم وہ کہاں ملے گا اور یہ دوست کون ہوسکتا ہے؟‘‘ ٹونی نے ایک دم اتنے سوال پوچھ ڈالے۔
’’ بھئی ابو کی لکھائی ہے تو بس ابو ہی دوست ہوئے۔ ضرور ہمارے لیے کوئی مزے دار کھیل تیار کر رہے ہیں۔‘‘ پپوتالی بجا کر کہنے لگا۔
’’ اگر ابو نے کھیل میں اپنے آپ کو دوست کہا ہے تو ہمیں چاہیے کہ انھیں اسی نام سے پکاریں۔ آؤ، جلدی چلیں۔‘‘ امی نے کہا۔
’’وہ لکھتے ہیں کہ سرخ شاہین کے سامنے دوسرا خط کھولو۔ یہ سُرخ شاہین مہیںکس جگہ ملے گا؟ ایسا لگتا ہے جیسے کسی جاسوسی ناول کے ہیرو کا نام ہو۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ نہیں بھیا، یہ کسی آدمی کا نام نہیں ہے۔ کسی جگہ کا نام ہو گا۔‘‘ پپو سوچتے ہوئے بولا۔
’’ مگر وہ تو لکھتے ہیں کہ اس کے سامنے دوسرا خط کھولو؟‘‘ٹونی نے کہا۔
’’ ہاں تو جگہ کے سامنے بھی تو ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے یہ کسی ہوٹل کا نام ہو گا۔‘‘ثمری کہنے لگی۔
اتنے میں امی مکان بند کر کے آ گئیں۔سب گیراج کی طرف چلے تاکہ سفید پری کو نکالیں۔ سفید پری کو تیز اڑانا ابو ہی نہیں ،امی بھی جانتی تھیں۔ جب لوگ بیٹھ گئے تو امی نے پوچھا:
’’اب بتاؤ، کس طرف کو چلیں ؟‘‘
’’ٹھنڈی سڑک پر چائے کے ایک چھوٹے سے ہوٹل کا نام شاہین ہے مگر سرخ شاہین نہیں۔‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’تمہیں کیسے معلوم؟‘‘ ثمری نے پوچھا۔
’’ پچھلی اتوار کو جب ابو ہمیں تفریح کرانے لے گئے تھے تو میں راستے میں دکانوں کے بورڈ پڑھتا گیا تھا۔‘‘
’’ تو چلو، وہیں چل کر دیکھے لیتے ہیں ۔‘‘امی ہنس کر کہنے لگیں۔
سفید پری تیزی سے دوڑ نے لگی۔ تین چار میل آگے چل کر، پٹرول پمپ کے قریب چائے کا ایک ہوٹل آیا، جس کے بورڈ پر بڑا سا سرخ عقاب پر پھیلائے اڑ رہا تھا اور اس کے اوپر نیلے حرفوں میں لکھا تھا ’’شاہین ‘‘
’’ اچھا، تو یہ ہے سرخ شاہین۔‘‘ امی نے کیا اور ہنستے ہوئے کار روک لی۔
’’ اب دوسرا خط پڑھیے امی۔‘‘ پپو نے کہا۔
امی نے خط نکالا اور پڑھنے لگیں،لکھا تھا:
’’تمہیں جلد پہنچنا چاہیے۔ خیبری تمہارے لیے ٹھہرا نہیں رہے گا۔ خیمہ گاہ کے راستے سے جلدی پہنچ سکتے ہو۔ ایک دوست۔‘‘
’’یہ خیمہ گاہ کون سی جگہ ہے؟‘‘ ثمری گھبرا کر پوچھنے لگی۔
’’ کوئی فوجی کیمپ ہو گا۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ فوجی کیمپ میں ہمیں کون گھسنے دے گا؟‘‘ ثمری نے کہا۔
’’پہلے یہ تو پتا چلے کہ وہ فوجی کیمپ ہے کس طرف؟‘‘ ٹونی نے کہا۔
’’مگر بچو، اس طرف کسی فوجی کیمپ کا ہوناعجیب سی بات ہے۔‘‘ امی نے کہا۔
پپو کچھ سوچ رہا تھا۔ بولا: ’’پچھلی اتوارجب ابو ہمیں لال باغ دکھانے لے گئے تھے تو راستے میں ایک جگہ بہت سے خیمے لگے ہوئے تھے۔ میں نے ابوسے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ سکاؤٹوں کاکیمپ ہے۔‘‘ پپو نے بتایا۔
’’تو بس خیمہ گاہ سے ہمارے دوست کا مطلب وہی کیمپ ہے۔‘‘ امی نے کہا اور کار سٹارٹ کر دی۔
’’ہم شہر سے بیس میل آ گئے ہیں۔‘‘ ثمری نے میل کے پتھر پر ہندسے پڑھ کر کہا۔
’’ لال باغ دو میل رہ گیا ہے۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ لال باغ سے تھوڑا ادھر ہے وہ کیمپ؟‘‘ پپو بولا۔
راستے میں ایک قصبہ آیا۔ امی بولیں۔’’ ہمیں دیرتک باہر رہنا پڑے گا۔ اس لیے کھانے پینے کا کچھ سامان یہاں سے خرید لینا چاہیے۔ ‘‘
یہ کہہ کر اُنھوں نے کار ایک طرف روک لی اور پھل کی ایک دکان سے موسم کے سارے پھل ایک ٹوکری میں ڈلوا کر لے آئیں۔ بچے سیب کھانے لگے اور سفید پری فراٹے بھرتی ہوئی اُڑنے لگی۔
قصبے سے کچھ دور آگے جا کر ایک بورڈ دکھائی دیا جس پر ’سکاؤٹ کیمپ‘ لکھا تھا۔ اور تیر کا نشان ایک طرف اشارہ کر رہا تھا۔ امی نے کار اسی طرف موڑ لی۔ آگے چل کر ایک بہت بڑا میدان آیا جس میں ہر طرف خیمے ہی خیمے لگے ہوئے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی بچوں نے تیسرا خط کھولنے کا تقاضا شروع کیا۔ امی نے خط کھولا،لکھا تھا!
’’اگر کلوا کو شکست دینا چاہو تو جلدی سے پہاڑیوں پر پہنچ جاؤ۔ ایک دوست ‘‘
’’ ارے، یہاں پہاڑیاں کہاں سے آ گئیں؟‘‘ ٹونی نے حیران ہو کرکہا۔
’’ بھیا، تم ہر بار بھول جاتے ہو کہ یہ کھیل ہے۔ اس میں سچ مچ کی پہاڑیاں تھوڑا ہوں گی۔ ٹیلوں کو پہاڑیاں لکھا ہو گا۔‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’ہاں بھئی، پپو ٹھیک ہی کہتا ہے۔ یاد کرو جب تم پچھلی اتوار کو یہاں آئے تھے، یہاں ٹیلے تھے؟‘‘ آئی پوچھنے لگیں۔
’’لال باغ سے ادھر ادھر کچھ ٹیلے تھے تو سہی۔‘‘ثمری کہنے لگی۔ موٹر اسی تیزی سے دوڑتی رہی۔
’’ وہ رہے ٹیلے۔‘‘ ٹونی نے ایک طرف اشارہ کیا اور جب موٹرٹیلوں کے بالکل قریب پہنچ گئی تو بچوں نے آخری خط کھولنے کے لیے شور مچایا۔ امی نے خط کھولا۔ اس میں لکھا تھا!
’’میں ریگستان کے اس پار، ایک درخت تلے بیٹھا تمہاری راہ دیکھ رہا ہوں۔ اب تم کلوا کو بڑی آسانی سے بھگا سکتے ہو۔ مگر جلد کرو۔ایک دوست۔‘‘
’’ریگستان کے اُس پار غار میں؟‘‘امی نے سر تھام کر سوچنا شروع کیا۔
’’ ریگستان کا مطلب ہے میدان جہاں ریت ہو گی۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ اور لال باغ کے پاس جو ریتلا میدان ہے، وہی ریگستان ہے۔‘‘ پتو کہنے لگا۔
امی نے پوری رفتار پر موٹر کو چھوڑ دیا۔ چند منٹ میں سامنے لال باغ نظر آنے لگا۔ میدان کے اس طرف سب موٹر سے اتر پڑے اور اس پار پہنچنے کے لیے دوڑ لگا دی۔ ایک ٹیلے پربڑ کے پرانے درخت کے نیچے ابو بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ انھیں دیکھتے ہی ہنسنے لگے اور اتنا ہنسے جیسے اب کبھی چپ نہ ہوں گے۔ ‘‘
’’ ہمیں شروع سے ہی پتا تھا کہ آپ ہی ہوں گے۔‘‘ فرحی دوڑ کر ابو سے لپٹتے ہوئے چیخی۔
’’ کیسا مزے کا کھیل تھا ابو۔‘‘ پپو نے بھی آنکھیں پھاڑتے ہوئے کیا۔
’’” ہاں بڑا مزے کا۔‘‘ ٹونی اور ثمری بھی ابوکے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولے۔امی پاس کھڑی ہنستی رہیں۔
’’ بٹ صاحب کا کنبہ کراچی چلا گیا تو تم اداس ہو گئے اور تمہاری اداسی دورکرنے کو مجھے یہ سب کچھ کرنا پڑا۔‘‘
اس کے بعد ابو نے بتایا کہ انھیں سرکاری کام سے ایک دو ہفتے باہر رہنا پڑے گا۔ یہ سن کر بچے اداس ہو گئے۔
’’اتنے دن ہم کیا کریں گے؟‘‘ ہماری تو ابھی بہت سی چھٹیاں باقی ہیں۔ ہمارا دل آپ کے بغیرنہیں لگے گا۔‘‘ ٹونی رونے کے قریب ہو گیا۔
’’ ہاں ابو، ہم توبہت اداس ہو جائیںگے ۔‘‘ پپوکہنے لگا۔
ثمری بولی۔’’ہم دن بھرکیا کریں گے؟‘‘
’’ باغ میں بیٹھے کیریاں کھایا کریں گے۔‘‘فرحی نے ٹوکری میں سے لوکاٹ نکال کر جیب میں بھر لیے تھے اور اب مزے مزے سے کھا رہی تھی۔ اس کی بات پر سب کوہنسی آ گئی۔
’’ بس تم فرصت سے بیٹھ کر سارا دن کھایا کرنا۔‘‘ابونے ہنس کر کہا۔
’’ابو، آپ چھٹیوں کے بعد نہیں جا سکتے؟‘‘ٹونی کہنے لگا۔
’’ بیٹے تم اتنے سمجھ دار ہو کر یہ نہیں جانتے کہ سرکاری کام کو ٹالا نہیں جا سکتا۔‘‘
ابو کے ساتھ امی نے بھی بچوں کو سمجھایا مگر ان کی اداسی دور نہ ہوئی۔ انھیں تو بس یہی خیال تھا کہ ابو کے بغیر اتنے دنوں وہ کیا کریں گے۔
’’تم کلوا سے کھیلا کرنا۔‘‘ ابو نے ہنس کر کہا۔
’’ مگر ابو، کلوا تو کوئی ہے ہی نہیں۔‘‘ ثمری نے منہ بسور کر کہا۔
’’نہ ہو۔ تم فرض کر لینا کہ کوئی کلوا ہے۔‘‘
’’ فرض کیا ہوتا ہے ابو؟‘‘ فرحی کھٹے لوکاٹ کا چٹخارا لیتے ہوئے بولی۔
’’ بیٹے فرض کرنا اس بات کو کہتے ہیں جو نہ ہومگر ہم یہی کہیں کہ وہ ہے۔‘‘
’’ تو کلوا کی طرح خیبری بھی فرضی ہے۔ ابو جس کے پاس کلوا ’’صاحب‘‘ کو پکڑ کر لیے جانا تھا؟‘‘پپو پوچھنے لگا۔
’’اہو، تم نے خوب یاد دلایا۔ چلو، آؤ میرے ساتھ۔پپوکے پوچھنے پر ابو کو جیسے ایک دم کچھ یاد آ گیا اور وہ سب کو ساتھ لیے ہوئے کار میں آ بیٹھے۔
سکاوٹ کیمپ کے پاس ہی ایک طرف کھیل تماشے والوں کے خیمے لگے تھے۔ وہیں ایک بازی گر’’ خیبری‘‘ کا بڑا سا بورڈ لگا تھا جس پر کئی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ جن میں لمبی لمبی چھریوں اورخنجروں کے کرتب دکھائے گئے تھے۔ کھیل شروع ہونے میں دو تین منٹ باقی تھے ۔ وہ سب خیمے کے اندر آ کر لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’ ابو، کیا خیبری اسی طرح اپنے سر اور زبان میں چھریاں گاڑے گا جیسے باہر تصویروں میں دکھایا گیاہے؟‘‘ ٹونی پوچھنے لگا ۔
’’خیال تو ایسا ہی ہے۔ دیکھیں کیا کرتا ہے۔‘‘ ابو نے ہنس کر جواب دیا۔
’’شکر ہے ہم وقت پر پہنچ گئے۔‘‘ ثمری کہنے لگی۔
’’ جب ہی تو ابو نے لکھا تھا کہ خیبری ہمارے لیے ٹھہرا نہیں رہے گا۔ ان کا مطلب یہی تھا کہ کھیل شروع کرنے کے لیے وہ ہمارا انتظار نہیں کرے گا۔‘‘پپو نے کہا۔
’’ ابو نہیں دوست نے لکھا تھا۔کھیں میں تو ابو دوست تھے نا؟‘‘ فرحی جھٹ سے بول اٹھی۔ سب ہنس دیے ۔اتنے میں خیبری اسٹیج پر آ گیا اور سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔
فرحی کہاں گئی؟
۔۔۔۔۔
ابو کے جانے کے بعد دریا کنارے والے بنگلے میں سناٹا چھا گیا۔ وہی بچے جن کی بھاگ دوڑ اور شور سے ہمسائے تنگ آ جاتے تھے، چپ اور اداس ہو کر رہ گئے تھے۔وہ پڑھائی سے فارغ ہوتے تو سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ٹونی تو اپنے گھروندے میں جا بیٹھتا اور پڑھتا رہتا۔ پپو ایک دوست کے ہاں لائبریری کی کتابیں پڑھنے چلا جاتا۔ ثمری امی کے ساتھ گھر کا کام کاج کرتی۔ ایسے میں بے چاری فرحی کے لیے بڑی مشکل ہوتی۔ نرالا اور ہریا کے سوا اس کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہ ہوتا۔
ایک دن ناشتے کے بعد فرحی باغیچے میں ٹہل رہی تھی کہ ایک دم اس کا دل گھبرایا۔ اُس نے نرالا کو ساتھ لیا اور گھومنے کے لیے باہر نکل گئی۔ چلتے چلتے دونوں پل پار کر کے ایک گھنے باغ میں پہنچ گئے ۔یہ باغ کسی جنگل کی طرح سنسان تھا۔ فرحی اور نرالا دیر تک گھومتے پھرے۔آخر ایک پرانے سے مکان کے قریب پہنچ گئے، جوگھنے درختوں میں گھرا ہوا تھا۔ نرالا کو خبرنہیں کیا سوجھی کہ چھلانگ مار کر پہلے تو درخت پر جابیٹھا اور جھانک کر مکان کے اندر دیکھنے لگا، پھر ایک دم کھلی کھڑ کی کے راستے اندر کود گیا۔ فرحی وہیں کھڑی اس کے واپس آنے کا انتظار کرتی رہی۔ نرالا گھبراہٹ میں کچر کچر کی آواز نکال رہا تھا جس سے فرحی نے سمجھ لیا کہ وہ اندر کود تو گیا ہے مگر اب نکل نہیں سکتا۔یہ سوچ کر وہ کھڑکی کے پاس والے درخت پر چڑھ گئی۔ جھانک کر دیکھا تو کمرہ خالی تھا۔ وہ کھڑکی کی منڈیر پر چڑھی اورپھر اندر کود گئی۔ کھڑکی فرش بہت اونچی تھی۔ جب ہی تو نرالا اوپر نہیں چڑھ سکتا تھا۔اب فرحی نے دیکھا کہ کود کر اندرآنا کچھ مشکل نہ تھا مگر اتنی اونچی کھڑکی پر چڑھنا مشکل ہے۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ کوئی کرسی، میز یاا سٹول نہ تھا جس پر چڑھ کر کھڑکی تک پہنچا جا سکتا۔
آخر فرحی کو ایک طریقہ سوجھا۔ اس کی جیب میں کاغذ کا ایک ٹکڑا اور پینسل پڑی تھی۔ اس نے ہجے کر کر کے بڑی دیر میں ایک رقعہ لکھا اور نرالا کے ہاتھ میں دے کر کہا:
’’ تو نے اپنے ساتھ مجھے بھی مصیبت میں پھنسا دیا۔ اب یہ خط گھر لے جاکر دے دے کہ وہ لوگ آ کر مجھے یہاںسے نکالیں۔‘‘
نرالا نے سر ہلا کر بتایا کہ وہ ساری بات سمجھ گیا ہے۔ فرحی نے اسے اوپر اٹھایا اور وہ چھلانگ لگا کر کھڑکی کے راستے باہر کود گیا۔
گھر میں امی ہر ایک سے پوچھ رہی تھیں کہ فری کہاں ہے مگر کسی کو معلوم نہ تھا۔ ناشتے کے بعد کسی نے بھی اسے نہیں دیکھا تھا ۔
’’نرالا بھی غائب ہے۔ شاید وہ دونوں سیر کرنے گئے ۔‘‘ثمری نے کہا۔
’’ مگر اتنی لمبی سیر ؟ صبح سے گئی ہے اور اب کھانے کا وقت ہو گیا۔‘‘
امی میز پر کھانا لگا کر فرحی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ بچوں میں سے ایک غیر حاضر ہو اوروہ کھانا کھا لیں۔ اُنھوں نے پپو سے کہا کہ جا کر فرحی کو تلاش کرو۔ پپو گیا اور پانچ ہی منٹ کے بعد ایک عجیب خبر لے کر آیا۔ اس نے بتایا کہ نرالا دریا کے اس پار کھڑا ہے اور ہاتھ میں کاغذ کا پرزہ لیے اسے زور زور سے ہلا رہا ہے۔ سب نکل کر دریا کے کنارے آئے۔ دیکھا تو سچ مچ نرالا ہاتھ لہرا رہا تھا۔ ٹونی نے کشتی کھولی اور نرالا کو منٹوں میں لے آیا۔ سب حیران تھے کہ نرالا فرحی کو کہاں چھوڑ آیا ہے۔ امی نے جلدی سے کاغذ کا پرزہ ٹونی سے لے کر کھولا۔ لکھا تھا:
’’ میں یک پورانے گر کے اند بن ہو۔ نکل نائی سک تی۔ فرحی۔‘‘
امی نے خط کا مطلب سمجھ لیا اور بچوں کو سمجھایا۔ ’’لکھتی ہے، میں ایک پرانے گھر کے اندر بند ہوں۔ نکل نہیں سکتی۔ ‘‘
’’پرانا گھر؟‘‘ ٹونی نے حیران ہوکر کہا۔
’’یہاں تو سب سے پرانا گھر نجو بابا کا ہے مگر اس نے آخر فرحی کو بند کیوں کر رکھا ہے؟‘‘پپو کہنے لگا۔
’’چلو، چل کر دیکھیں ۔‘‘ امی نے کہا اور تینوں بچوں کو کشتی میں بٹھا کر دریا پار لے گئیں۔
دریا کے دوسرے کنارے پر درختوں کے جھنڈ میں ایک بہت پرانا مکان تھا جس میں ایک بوڑھا رہتا تھا۔ ٹونی اور پپو نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بوڑھے نجو بابا نے آدھا دروازہ کھول کر گردن باہر نکالی اور بچوں کی پوری بات بھی نہیں سنی تھی کہ زور سے چلایا۔
’’یہاں کوئی نہیں آیا اور نہ میں چاہتا ہوں کہ کبھی آئے۔‘‘
یہ کہہ کر پٹاخ سے دروازہ بند کر لیا۔ دونوں لڑکے پریشان سے واپس ماں کے پاس آئے۔
’’ نجو بابا تو نہیں مانتا کہ فرحی اس کے مکان میں ہے۔‘‘ ٹونی نے کہا۔
’’ اس سے زیادہ پرانا تو اور کوئی گھر اس جگہ ہے نہیں۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’اب وہ مکان کے پچھواڑے پہنچ گئے تھے۔‘‘ پپو نے زور سے چلا کر کہا:
’’ فرحی ہو…ہو۔‘‘
یہ ان بچوں کی خاص آواز تھی جس سے وہ ایک دوسرے کو پکارتے تھے۔ پپونے دو تین بار پکارا مگر کوئی جواب نہ ملا۔
’’ فرحی اس مکان میں نہیں ہے۔‘‘ پپو نے کہا۔
ٍ ’’پھر کہاں ہے؟‘‘ امی گھبرانے لگیں۔ اب دوپہر ڈھلنے لگی تھی۔
’’ نرالا کہاں ہے؟‘‘وہ ادھر ادھر دیکھ کرپوچھنے لگیں۔
’’ابھی تو یہیں تھا۔‘‘ثمری بولی۔
’’واہ، میں نے تو اسے بہت دیر سے نہیں دیکھا۔‘‘ ٹونی بولا۔
’’ ہم اسے ساتھ لے کر آئے تھے۔جس وقت ہم نجو بابا کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے، میں اسے امی کے پاس کھڑے دیکھا تھا ۔‘‘ پیو کہنے لگا۔
اتنے میں نرالا سامنے کے گھنے درختوں سے نکل کر آتا ہوا دکھائی دیا مگر وہ انھیں دیکھ کچکچاتا ہوا پھر واپس درختوں کے جھنڈ میں گھس گیا۔
’’ایسا لگتا ہے کہ نرالا ہمیں اپنے پیچھے آنے کوکہہ رہا ہے۔‘‘امی کہنے لگیںاور سب اسی جھنڈ کی طرف چلے۔
’’بھیا، کہیں فرحی نے اس مکان کے متعلق تو نہیں لکھا ہے جو اس پچھم والے پرانے باغ کے پاس ہے۔‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’ دیکھتے ہیں ، یہ نرالا ہمیں کہاں لے جاتا ہے۔‘‘ٹونی نے کہا اور سب اس کے پیچھے تیزی سے چلنے لگے۔
آخروہ ایک مکان کے قریب پہنچے تو نرالااچھلنے لگا۔ پپو نے پھر اسی طرح پکارا۔
’’ فرحی ہو…او…‘‘
اس کی آواز ابھی گونج ہی رہی تھی کہ جواب ویسی ہی آواز آئی۔ سب بچے مارے خوشی کے کودنے لگے۔
ٹونی جلدی سے کھڑکی پر چڑھا اور فرحی کا ہاتھ پکڑ کر بڑی مشکل سے اسے اوپر کھینچا۔
امی فرحی کے مل جانے پر خوش تو بہت ہوئیں مگر پھر بھی خفا ہوئیں کہ وہ کیوں اس طرف اکیلی آئی اور بند مکان میں گھس گئی۔
’’میںاکیلی تو نہیں آئی تھی امی۔ نرالا میرے ساتھ تھا اور پھر میں تو مکان کے اندر نہیں گھسی۔یہ سب شرارت اس شریر کی ہے ۔ایک دم چھلانگ لگا کر کمرے میں کود گیا۔میںاسے نکالنے کے لیے کمرے میں گئی ، مگر کھڑکی بہت اونچی تھی۔مجھ سے چڑھا نہ گیا تو خط لکھ کر آپ کوبھیجا۔‘‘ فرحی نے سارا حال سنایا۔
’’ہاں، تمہارے خط کے تو کیا کہنے ۔‘‘ٹونی نے ہنس کر کہا۔
’’ ٹھیک ہے بھئی۔ ہم اس کا مطلب تو سمجھ گئے نا۔‘‘ امی نے فرحی کو لپٹاتے ہوئے ہنس کر کہا۔
’’مگر امی، اسے اپنی لکھائی تو ٹھیک کرنی چاہیے نا؟‘‘ پپو نے کہا۔
’’ ضرور کرے گی۔ فرحی بڑی محنتی بچی ہے۔‘‘ امی نے پیار سے کہا۔
’’ محنتی تو ہے، مگر صرف کھانے میں۔‘‘ ثمری نے ہنس کر کہا ،تو فرحی ایک دم چونک پڑی اور بولی ’’امی میں نے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ اور یہ کہہ کر رونے لگی۔
’’ہم خودتمھارے لیے اس وقت تک بھوکے مر رہے ہیں۔‘‘ ٹونی نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’ چلو کھانا تیار ہے۔ چل کر کھاؤ۔‘‘ امی سب کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چلیں اور اب سب خوش تھے کہ ابو کو سُنانے کے لیے ان کے پاس کوئی تو نئی بات ہو گی۔
سچ مچ کا کلوا
۔۔۔۔۔
کپتان عامر کو باہر گئے ہوئے تین چار دن ہوگئے تھے۔ دریا کنارے والے بنگلے کے سارے بچے اداس تھے۔ ایک دن صبح وہ بیٹھے سوچ رہے تھے کہ دن کیسے گزاریں۔ ٹونی اورپپو بڑے کمرے کی کھڑکی میں آ کھڑے ہوئے اور باغیچے میںجھانکنے لگے۔ اتنے میںسن سے ایک تیر باغیچے کے بیچوں بیچ آ کر گڑ گیا۔ اس کے ساتھ کاغذ کا ایک پرزہ لگا ہوا تھا۔ ٹونی اور پپو شور مچاتے ہوئے دوڑے۔ ثمری اور فرحی نے سمجھا کہ ابو آ گئے۔
بچوں کی خوشی سے بھری آوازیں سن کر امی بھی باورچی خانے سے نکل آئیں۔
’’ مگر یہ ابو کی لکھائی تو نہیں ہے۔‘‘ ٹونی کاغذ ہاتھ میں لیے حیرت سے کہہ رہا تھا۔ امی نے اس کے ہاتھ سے کاغذ لے کر پڑھا۔ لکھا تھا:
’’ڈھونڈ سکو تو ڈھونڈ لو۔کلوا‘‘
’’ہاں، یہ رقعہ تمھارے ابو کا لکھا ہوا نہیں ہے۔اور وہ لکھتے بھی کیسے۔ وہ تو سرکاری کام سے باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘ امی حیران ہو کر کہہ رہی تھیں۔
’’ ابو نے بتایا تھا کہ کلوا نام کا کوئی آدمی نہیں ہے۔‘‘پھر یہ کون ہو سکتا ہے؟‘‘ٹونی پوچھنے لگا۔
’’یہی تو سوچنے کی بات ہے۔ہم اپنے کھیلوں کے بارے میں کسی کو نہیں بتاتے۔یہ کلوا والا کھیل کسی کو کیسے معلوم ہو گیا؟‘‘ امی بچوں سے زیادہ حیران ہورہی تھیں۔
’’اس نے ڈھونڈنے کو جو کہا ہے تو چلو ڈھونڈیں۔ آپ ہی معلوم ہو جائے گا کون ہے وہ؟‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’ انھوں نے پتا پتا چھان مارا مگر کوئی ایسا نشان نہ ملا جس سے پتا چلتا کہ کوئی گھرمیں داخل ہوا ہے۔
’’کس طرف سے آیا تھا یہ تیر ؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’ ہمیں تو یوں لگا جیسے آسمان سے آیاہو۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ خیر، آسمان سے تو کیسے آ سکتاہے، ضرور کسی نہ کسی نے چلایا ہے ۔اب تمہارا کام ہے کہ اس کا کھوج لگاؤ۔‘‘امی اندر جاتے ہوئے کہنے لگیں۔
بچوں نے ایک بار پھر کوشش کی اور کشتی میں بیٹھ کر دریا کے اس کنارے پر بھی دیکھا مگر کوئی نشان نظر نہ آیا۔ آخر وہ تھکے ہوئے گھر واپس آئے اور کھانا کھا کر پڑھنے بیٹھ گئے۔
اگلی صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ہی بچے امی کے ساتھ بازار گئے اور نئے جوتے اور کپڑے خرید کر لائے۔ واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دروازے پر تیر کے ساتھ کاغذ کا پرزہ گڑا ہوا ہے۔ لکھا تھا:
’’ ہمیشہ جنوب مغرب کی سمت۔ بنگلے کے کونے سے 38فٹ پر کھڑے ہو کر دیکھو۔ گھنٹی بجنے تک، میں تمھیں دکھائی دوں گا۔ کلوا۔‘‘
’’ جلدی کرو۔ موقع اچھا ہے ۔تم کلوا کو پکڑ لو گے۔‘‘ امی نے کہا۔
بچے امی کے ساتھ باہر نکل آئے۔ پپو نے اپنی دور بین لے لی اور ثمری امی کی سلائی والی ٹوکری سے فیتہ نکال لائیں۔ ٹونی نے بنگلے کے کونے سے 38 فٹ فاصلہ ناپا اورسب کے سب جنوب مغرب کی سمت دیکھنے لگے۔ دور دور تک کوئی دکھائی نہ دیا۔
’’مشکل یہ ہے کہ ہمیں صرف جنوب مغرب کی طرف دیکھنا ہے۔ اب وہ اپنے وعدے کے مطابق اسی طرف رہے۔ کیسی اور سمت نہ چلا جائے۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
‘‘تم صرف اس کی ہدایت پر عمل کرو۔‘‘امی نے تاکید کی۔
’’ امی گھنٹی کہاں بچے گی، جس کے بعد وہ نظرنہیں آئے گا؟‘‘ ثمری پوچھنے لگی۔
’’غور سے، سامنے دیکھو اور اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔ گھنٹی کے بعد وہ نظر نہیں آئے گا۔ جب گھنٹی بجے گی تو تم خود ہی دیکھ لو گے کہ کہاں بجتی ہے۔‘‘ آئی نے جواب دیا۔
جب کھڑے کھڑے دیر ہو گئی اور کچھ نظر نہ آیا تو بچے ادھر اُدھر بکھر گئے اور ہرطرف دیکھنے لگے مگر کہیں بھی کوئی دکھائی نہ دیا۔ اتنے میں گھنٹی کی آواز آئی۔ وہ چونک پڑے اور حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ٹونی کے درخت والے گھر کے اندر گھنٹی بج رہی ہے۔
’’ٹوٹی دیکھنا۔ یہ گھنٹی تو تمھارے گھر کے اندر بج رہی ہے۔‘‘ امی نے کہا۔
مگر پپو لپک کر ٹونی سے بھی پہلے درخت پر جا چڑھا اور اندر سے الارم ٹائم پیس نکال لایا۔
’’ ارے؟ یہ اس جگہ گھڑی کون رکھ گیا؟‘‘
’’گھڑی بالکل نئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’ شاید کلوا اسی کام کے لیے بازار سے خرید کرلایا ہو گا۔‘‘ ثمری بولی۔
’’امی، غلطی ہماری تھی۔ اگر ہم خط کا مطلب اچھی طرح سمجھ لیتے تو ضرور اسے دیکھ سکتے تھے۔ دور درختوں کے جھنڈمیں، میں نے ابھی ابھی کسی کو چھپتے دیکھا ہے۔ اگر ہم دوربین کی مدد سے دیکھتے تو ضرور اسے ڈھونڈ لیتے۔‘‘پپو کہہ رہا تھا۔
’’وہ کیسے؟ اس نے تو لکھا تھا کہ مکان کے کونے سے 38 فٹ کے فاصلے سے دیکھو؟‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
پو نے جھٹ نیچے اتر کربنگلے کے کونے سے درخت تک زمین کو ناپا۔ یہ 24 فٹ کافاصلہ تھا۔ اس کے بعد درخت کی انچائی کو ناپا تو وہ 14 فٹ نکلی۔ اب24 اور 14، 38 ہوئے۔ پپو نے مارے خوشی کے ایک نعرہ لگایا۔
’’ ہر ّے، اس جگہ تک 38 فٹ ہوتے ہیں۔‘‘
’’اب کیا خوش ہو رہے ہو۔ پہلے سوچا ہوتا۔‘‘ امی کہنے لگیں۔
’’یہم ایک بار پھر ہار گئے۔‘‘ ٹونی بولا۔
’’ کلوا ہم پر ہنس رہا ہو گا۔‘‘ پپو بولا۔
’’ابو سنیں گے تو ہمیں کتنا شرمندہ کریں گے۔‘‘ ٹونی کہنے لگا اور امی انھیں لے کر اندر چلی گئیں۔
’’ امی آپ ہی کوئی طریقہ بتایئے۔‘‘ ثمری کہنے لگی۔
’’اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ دن رات پہرادیا جائے۔ ‘‘امی نے کہا۔
’’تو کل صبح سے شام تک فرحی اور پپو پہرا دیں ۔شام سے رات بھر میںاور ثمری۔ ٹونی نے کہا۔
اگلی صبح فرحی کو بنگلے کے دروازے پر بہت سے میٹھے بند اورڈھیر سارے سیب دے کر کھڑا کر دیا گیا۔وہ سڑک پر آنے جانے والوں کو غور سے دیکھتی اور تھک جاتی تو گھاس پر لیٹ جاتی مگر کھانا اور نگرانی کرنا نہ بھولتی۔
پپو پچھواڑے کی طرف ایسی جگہ بیٹھ کر پڑھنے لگا جہاں سے اُسے باغیچہ اوردریاکا کنارہ دکھا ئی دیتا تھا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی اس طرف سے گزرے اور پپواسے دیکھ نہ سکے۔
شام کا کھانا کھاکر فرحی کی جگہ ثمری اورپپو کی جگہ ٹونی نے لے لی۔ پہلے دن چوکی داری کام یاب رہی اور کلوا کوئی نیا تیر نہ چلا سکا۔ بچے اپنی کامیابی خوش ہو رہے تھے۔ وہ کلوا کو پکڑ تو نہیں سکے مگر اس کی شرارتوں کو روک کر اسے ہرا تو دیاتھا۔
اس سے اگلی صبح ناشتے کے بعد فرحی دن بھر کا راشن لیے ہوئے گیٹ پر پہنچ گئی اور پپو گھنی جھاڑیوں کے پیچھے کتابیں لے کر جا بیٹھا۔ دن بھر کوئی واقعہ نہ ہوا اور کل کی طرح پہرے کی ڈیوٹی بدل گئی۔
اس رات سردی بڑھ گئی تھی۔ پھر بادل گھر آئے اور ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔امی نے گرم چائے اور انڈے دونوں بچوں کو پہنچادیے۔ ثمری نے دروازے کے قریب کھلی جگہ کے بجائے باغیچے کی گھنی باڑ اور گلاب کے بہت بڑے جھاڑ کے درمیان بیٹھنے کی جگہ بنائی جہاں سے وہ تو سب کچھ دیکھ سکتی تھی۔ مگر اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تھوڑی تھوڑی بعد وہ باڑ کا چکر لگاتی اور دور تک نگاہ ڈالتی مگر ساری جگہ سنسان تھی۔ کہیں کوئی پتا تک ہلتا نظر نہ آتا تھا۔
جب گھڑیال نے گیارہ کا گھنٹا بجایا تو وہ اپنی ٹارچ لے کر دریا کے کنارے پہنچی اور ٹارچ کو تین بار جلایا بجھایا مگر اس اشارے کا کوئی جواب نہ ملا۔ وہ حیران تھی کہ ٹونی کہاں گیا۔ اگر وہ اپنی جگہ پر ہوتا تو ضرور اس اشارے کا جواب دیتا۔
وہ دبے پاؤں اس طرف بڑھی جہاں اس کے خیال میں ٹونی کو ہونا چاہیے تھا مگر ٹونی وہاں نہیں تھا۔ اتنے میں اسے یوں معلوم ہوا جیسے پاس والے بنگلے کے باغیچے میں کوئی چل پھر رہا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی تو اس نے دیکھا کہ کوئی جھاڑیوں کے سائے میں چھپا کھڑا ہے۔وہ چپ چاپ اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی اور غور سے دیکھنے لگی۔ کوئی اس کی طرف آ رہا تھا۔ اس نے اندھیرے ہی میں پہچان لیا کہ وہ ٹونی تھا۔
’’ہت تیرے کی۔ میں تمھیں کلوا سمجھی۔ ‘‘
’’اور میں تمھیں کھلوا سمجھا۔ ‘‘
’’تم اپنی جگہ چھوڑ کر اس طرف کیوں آگئے؟ ‘‘
’’ادھر میں نے کسی کو دیکھا ہے۔‘‘
’’کلوا کو…؟‘‘
’’کلوا کو چھوڑو، یہاں اور ہی قصہ ہے۔کوئی آدمی اس طرف پھر رہا ہے۔ میں نے اسے اندھیرے میں چکر لگاتے دیکھا ہے۔ ضرور کوئی چور ہے اور ہمارے بنگلے ہیںگھسنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
’’ہائے اللہ۔ کہاں ہے وہ؟‘‘
’’آؤ پولیس کو ٹیلی فون کریں۔‘‘ ٹونی کہنے لگا اور دونوں دبے پاؤں گھر کے اندر آگئے۔ ٹونی نے نمبر ملایا اور پولیس کو بتایا کہ ان کے مکان کے باہر کوئی چور پھر رہا ہے۔ تھانہ ان کے گھر کے پاس ہی تھا۔ وہ دروازہ بند کر کے باہر آئے ہی تھے کہ انھیں دو سپاہی آتے دکھائی دیے۔ وہ ساتھ والے بنگلے کے باغیچے سے نکلے تھے۔ ایک سپاہی دوسرے سپاہی کی طرف اشارہ کر کے بولا۔’’ یہ پولیس کا سپاہی ہے اور اس علاقے میں گشت کر رہا ہے۔ اسے کچھ شبہ ہوا تو ساتھ والے بنگلے کے باغیچے میں چلا گیا اور آپ نے اسے چور سمجھ کر تھانے ٹیلی فون کر دیا۔‘‘
دونوں سپاہی ہنسنے لگے۔ اس پر دونوںبچوں نے بھی خوب قہقہے لگائے۔ آواز سن کر ان کی امی بھی باہر نکل آئیں اور سارا حال سن کر وہ بھی ہنس پڑیں۔
سپاہی چلے گئے تو امی بچوں سے کہنے لگیں۔’’ آج سردی بہت ہے۔ اندر چل کر سو جاؤ۔ کلوا بھی کہیں مزے سے سورہا ہو گا۔‘‘
انہیں امی کاحکم ماننا ہی پڑا اور وہ سونے کے لیے چلے گئے مگر جیسا کہ امی نے سوچا تھا، کلوا سو نہیں رہا تھا۔ وہ صبح کو سو کر اٹھے تو انھیں باغیچے کے بیچ ایک خط تیر میں گڑا ہوا ملا۔
’’بہت سست ہو۔ کلوا۔‘‘
ابھی بچے خط پڑھ کربھنا ہی رہے تھے کہ دروازے پر کار کا ہارن بجا۔ ابو آ گئے تھے۔ بچے کھل اُٹھے۔
’’اب دیکھیں گے کلوا کیا کرتا ہے۔‘‘ وہ گیٹ کی طرف دوڑتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
بچے ابو کو کھینچ کر بڑے کمرے میںلے آئے اور بہت سی باتیں تو اندر پہنچتے پہنچتے ہی کہہ سنائیں۔
’’ ہاں، تمھاری امی کے خط سے مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو چکا ہے۔ چلو تمہیں وقت گزارنے کو کوئی کام تو مل گیا۔‘‘ ابو نے ہنس کر کہا۔
’’مگر ابو، ہم نے کوئی کام بھی نہیں کیا ۔‘‘ ٹونی کہنے لگا۔
’’خیر کوشش تو کی۔‘‘ ابو کہنے لگے۔
’’ کوشش کا کیا فائدہ، جب ہم کلوا کر پکڑ نہیں سکے۔ پپو نے اداس ہو کر کہا۔
’’ مگر ابو، آپ نے تو بتایا تھا کہ کلوا کوئی ہے ہی نہیں۔ پھر یہ کہاں سے آگیا؟ ‘‘ثمری پوچھنے لگی۔
’’یہی تو راز ہے جسے معلوم کرنا ہمارا کام ہے۔‘‘ ابو کہنے لگے۔
’’ اب، آپ آ گئے ہیں نا… دیکھیں گے وہ کب تک چھپا رہتا ہے۔‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’تم نے بھی تو اسے پکڑنے کے لیے کچھ کم کوشش نہیں کی۔‘‘ ابو نے اس کا دل رکھنے کو کہا۔وہ یہ باتیںکر ہی رہے تھے کہ سن کی آواز آئی اور باغیچے میں ایک تیر آن گڑا۔
’’پھرکلوا کا خط؟‘‘
بچے چلائے اور ٹونی جا کر تیر اور خط اٹھا لیا۔ اس بار خط لفظوں میں نہیں، اشاروں میں لکھا تھا۔ کاغذ پر ایک مربع سا بنا تھا جس کی ایک طرف کھلی تھی۔ اس کے نیچے ٹیلے کا نقشہ تھا۔ ٹیلے کے پاس ہی کلوا کی بھدی سی تصویرتھی۔سب اسے غور سے دیکھنے لگے۔
’’ بھئی، اپنے تو خاک پلے نہیں پڑا ۔تم ہی دماغ لڑاؤ۔‘‘ ابو نے بچوں سے کہا۔
پپو دونوں ہاتھوں میں سردیے سوچ رہا تھا۔
’’اس کا مطلب کہیں مارکیٹ والا چوک تو نہیں؟‘‘ اس نے ابو سے پوچھا۔
’’ہو سکتا ہے…‘‘ ابو خوش ہو کر بولے۔
’’مگر یہ ٹیلا وہاں کہاں ہے جس کے پاس کلوا کھڑا ہے۔‘‘ ٹونی نے کہا۔
’’چلو، دیکھ لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی اونچی جگہ ہو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر نکل آئے۔ ثمری نے جلدی جلدی میز پرسے ناشتے کے برتن باورچی خانے میں پہنچائے۔ فرحی کچھ کھانے کو لینے دوڑی اور امی نے کھڑکیاں وغیرہ بند کر کے تالا لگایا اور پھر سب کلوا کی تلاش میں نکلے۔
انھوں نے مارکیٹ کے دو چکر لگائے مگرکوئی ایسی اونچی جگہ نظر نہ آئی جس کے قریب کوئی آدمی کھڑا ہو۔
وہ واپس آئے تو دروازے پر ایک اور تیر لگا تھا اور اس کی نوک میں ویسا ہی نقشہ تھا جیسا صبح ملا تھا۔ امی نے تیر اورنقشہ نکال کر ابو کو دیا اور حیران سی ان کی طرف دیکھنے لگیں۔
اس بار نقشے میںکچھ فرق تھا۔ اس کے ایک کونے میں پانی کی لہروں کو لکیروں سے ظاہر کیا گیا تھا۔ دوسری طرف ایک ٹنڈ منڈ درخت دکھائی دے رہا تھا۔ سب بچے نقشے پرجھک گئے اور اپنا اپنا خیال ظاہر کرنے لگے۔ مگر پپو کچھ نہ بولا۔
’’ ہمارا اصلی سراغ رساں تو چپ ہے۔‘‘ ابو نے کہا۔
’’ابو، میرا خیال ہے یہ دونقشے نہیں ہیں۔ ‘‘پپو اتنا کہہ کر چپ ہو گیا۔
’’ہاں تم کہتے جاؤ۔‘‘ ابو مسکرائے۔
’’یہ ایک نقشے کے دو حصے ہیں ۔ جسے ہم ٹیلہ سمجھے وہ پل ہے۔‘‘ پپو کہنے لگا۔
’’مگر یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ ایک نقشے کے دو حصے ہیں۔‘‘ ابو نے پوچھا۔
پپو نے دونوں کاغذوں کے الٹے حصے کو آپس میں جوڑ کر روشنی کی طرف کر دیا۔’’ دیکھیے یہ ہے اصلی نقشہ۔ جسے ہم پہلے مارکیٹ کا چوک سمجھے تھے اصل میں ہمارے اس علاقے کا نقشہ ہے۔ یہ پل ہے۔ اس کے ایک طرف دریا ہے اور دوسری طرف ٹنڈ منڈ درخت کھڑا ہے۔‘‘
ابو ماریخوشی کے اچھل پڑے۔ بولے،’’ تو چلو دیکھیں۔ وہاں کلوا ہمیں کیوں بلا رہا ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور بچوں کو لے کر پل کی طرف چلے۔ پل کے پاس ایک سوکھا درخت تھا۔ پل کے پاس پہنچے تو وہاں ایک ٹیلے پر جھاڑیاں تھیں۔لمبی لمبی گھاس بھی تھی مگر روندی ہوئی لگتی تھی۔ سب وہیں کھڑے ہو گئے۔
’’ یوں لگتا ہے جیسے اس جگہ کلوا چلتا پھرتا رہا ہے۔‘‘ ابو نے کہا۔
پپو اور ٹونی آگے بڑھے اور جھاڑیوں کے پیچھے جھانک کر دیکھا۔ پھر پپو نے گھاس اور جھاڑیوں میں کلوا کے چھوڑے ہوئے کسی نشان کو ڈھونڈنا شروع کیا۔
’’ہرا۔پپو کی آواز پر سب چونک پڑے۔ وہ کپڑے کی ایک گندی سی تھیلی ہاتھ میں لٹکائے چلا آ رہا تھا۔ابو نے تھیلی اس سے لے کر کھولی تو اس میں دس دس روپے کے چار نوٹ اور کچھ چھوٹے بڑے سکے پڑے تھے۔
’’ارے، کلوا کو یہ کیا سوجھی۔ ‘‘ابو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوگئے۔
’’یہ تو پکی بات ہے کہ تھیلی کلوا ہی نے اس جگہ رکھی ہے اور اس کا مطلب تھا کہ ہم اسے اٹھا لیں۔ ‘‘پپو کہنے لگا۔
اسی طرح باتیں کرتے ہوئے وہ واپس آگئے ۔پپو اور ٹونی دروازے پر رک گئے اور تھیلی کے بارے میں باتیں کرنے لگے کہ اتنے میں سامنے سے ’مائی دولت‘ آتی دکھائی دی۔ یہ بڑھیا پڑوس کے بنگلے میں صبح دو تین گھنٹے کام کرنے آتی تھی۔بچوں کو تھیلی کا ذکر کرتے سن کر وہ ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی۔
’’تھیلی؟کس تھیلی کی بات کر رہے ہو تم لوگ؟‘‘ یہ کہہ کر وہ بچوں کو گھورنے لگی۔
’’ اماں جی، ہمیں ایک تھیلی پل کے اس پار جھاڑیوں میں سے ملی ہے۔ اسی کی بات کررہے ہیں۔‘‘ ٹونی نے جواب دیا۔
’’ دکھاؤ تو۔۔۔ میری تھیلی بھی گم ہو گئی ہے۔‘‘ بڑھیا کہنے لگی۔
پپو دوڑا ہوا گیا اور ابو سے تھیلی لے آیا۔ جسے دیکھتے ہی بڑھیا جھپٹ پڑی۔
’’یہ تومیری تھیلی ہے۔ مگر میں تو مہینا بھر سے پل کے قریب نہیں گئی۔ یہ تھیلی وہاں کیسے پہنچ گئی؟‘‘بڑھیا نے انھیں تیز تیز نظروں سے گھور کر کہا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی ۔
’’دیکھا بھیا۔ اس کم بخت کلوا نے ہمیں کیسا ذلیل کیا۔ یہ بڑھیا سمجھ رہی ہو گی کہ ہم نے اس کی تھیلی چرائی تھی۔‘‘ پپو کو بہت غصہ آیا۔ جب دونوں بھائی اندر پہنچے توابو کو سارا واقعہ سنایا۔
’’ چلو اچھا ہوا۔ غریب بڑھیا کو اس کی تھیلی مل گئی۔ مگر کلوا نے یہ کیا کیا کہ تھیلی وہاںچھپا کر ہمیں اس کا پتا بتا دیا؟‘‘ ابو کہنے لگے۔
’’بس ہمیں چور بنانے کے لیے۔‘‘ ثمری بولی۔ اسے بھی کلوا پر بہت غصہ آ رہا تھا۔
’’ خیر، جانے دو۔ آؤ تمھیں ایک بات بتائیں؟ ‘‘ ابو نے کہاجو کلوا کے دونوں نقشے سامنے لیے بیٹھے تھے۔
اُنھوں نے آتش دان میں سے راکھ کی چٹکی اُٹھا کر دونوں کاغذوں پر پھیلائی اوراُسے جھاڑ دیا۔
’’ دیکھو، یہ کلوا کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ ایسے نشان دُنیا بھر میں اور کسی کی انگلیوں کے نہیںہوسکتے۔ صرف کلوا ہی کے ہوسکتے ہیں۔‘‘ ابو مسکرا کر کہنے لگے۔
’’ یہ کیوں ابو ؟‘‘ پیو نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ اس لیے کہ ایک آدمی کی انگلیوں کے نشان دوسرے آدمی کی انگلیوں کے نشانوں سے نہیں ملتے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ٹونی بہت حیران ہو رہا تھا۔
کھانے سے فارغ ہو کر چاروں بچے باغیچے میں نکل گئے۔ ان کی یہی کوشش تھی کہ جلدی سے کلوا مل جائے۔ پپو پھرتے پھراتے دریا کی طرف جا نکلا اور ایک طرف بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا۔ اس نے دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ انگلیوں کے نشان ہی سے وہ کلوا کر پکڑے گا۔ اسی غرض سے اُس نے ارد گرد رہنے والے لوگوں کی انگلیوں کے نشان اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوچتے سوچتے اس کی نگاہ اٹھی، پڑوس کے بنگلے میں رہنے والے عزیز صاحب کھڑکی میں کھڑے اس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
’’کہیں عزیز صاحب ہی تو کلوا نہیں؟‘‘ پپو کے دل میں ایک دم خیال آیا اور وہ سوچنے لگا کہ انھیں کے ہاں تو مائی دولت کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا نہ کوئی بچہ ہے نہ نوکر۔ ہو سکتا ہے عزیز صاحب ہی نے بڑھیا کی تھیلی چرا کر وہاں رکھی ہو۔ اور کلوا بن کر بچوں سے ڈھونڈ وائی ہو۔‘‘
اس خیال کے آتے ہی پیو نے سوچا کہ سب سے پہلے اسے عزیز صاحب کی انگلیوں کے نشان لینے چاہئیں۔ اب اس کام کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنا لباس اورشکل صورت بدلے۔ وہ مالی کی کوٹھڑی میںگھس گیا۔ وہاں ایک لمبا سا کوٹ رکھا تھا۔ اس نے وہ پہن لیا۔ سر پر ٹوپی رکھی۔ہاتھوں میں دستانے پہنے۔ سیاہ چشمہ لگایا ۔چہرے پر میلے کچیلے داغ دھبے لگائے اور پھرلنگڑاتا ہوا پڑوس کے بنگلے کے باہر جاکھڑا ہوا۔ دو تین منٹ بعد عزیز صاحب باہر نکلے۔
’’تم کون ہو بیٹے؟ کس سے ملنا ہے؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
پپو جانتا تھا کہ اس نے آواز نکالی تو عزیز صاحب پہچان لیں گے۔ اس لیے وہ کاغذ کے پرزے پر کسی قریب کی کوٹھی کا پتا لکھ کر لے آیا تھا۔ اس نے چپکے سے وہ کاغذ عزیز صاحب کے ہاتھ میں دے دیا۔ انھوں نے اس پر نگاہ دوڑائی اور بولے ۔’’اس طرف تین بنگلے چھوڑ کر چوتھا بنگلا ہے۔
پپونے کاغذ واپس لے لیا اور جلدی جلدی واپس آ کر پھر مالی کی کوٹھڑی میں گھس گیا۔ اس نے لالٹین کی چمنی میں سے کالک کرید کر اس پرزے پر ڈالی اور پھر پھونک مار کر اڑا دی۔ کاغذ کے پرزے پر انگلیوں کے نشان صاف نظر آ رہے تھے۔ اب اس نے نقشے والے کاغذ نکال کر ان نشانوں سے ملائے تو ذرا فرق نہ تھا۔ وہ مارے خوشی کے چیخ اُٹھا۔’’ہرا۔‘‘ اور دوڑتا ہواگھر کی طرف گیا۔
’’ابو، میں نے کلوا کو ڈھونڈ لیا۔عزیز صاحب کلوا ہیں۔‘‘
وہ چلاتا ہوا آ رہا تھا کہ راستے ہیں امی نے روک لیا۔’’ ارے کیا ہو گیا؟ کیا کہہ رہے ہو پپو؟ اور ہائے یہ تم کیا بنے ہوئے ہو؟‘‘
’’ امی میں نے بھیس بدل کر عزیز صاحب کی انگلیوں کے نشان لیے ہیں۔ دیکھ لیجیے، وہی کلوا ہیں۔‘‘ پپو نے چلا کر کہا۔وہ خوشی سے پھولانہیں سما رہا تھا۔
’’ عزیز صاحب تمھارے ابو سے ملنے آئے ہیں۔ ‘‘وہ دبی آواز میں کہنے لگیں مگر پپو دوڑ کر بڑے کمرے میں گھس گیا اور چیخ کر بولا۔
’’ابو، عزیز صاحب ہی کلوا ہیں۔ پوچھ لیجیے ان سے۔‘‘
عزیز صاحب اور ابو مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
’’ بیٹے، تمھیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ میرے پیچھے انھوں نے تمھیں اُداس نہ ہونے دیا۔‘‘
سب بچے کمرے میں جمع ہو کر کچھ نہ کچھ کہہ رہے تھے۔ ٹونی شکایت کرتے ہوئے بولا۔’’ وہ تو ٹھیک، مگر ابو وہ مائی دولت کی تھیلی والی بات کیا ہے؟‘‘
’’بیٹے، عزیز صاحب مائی کی مدد کرنا چاہتے تھے مگر وہ کسی سے کچھ نہیں لیتی۔ اس پر عزیز صاحب نے اُسے روپے دینے کا یہ طریقہ سوچا۔ ابھی ابھی وہ تھیلی واپس کرنے آئی تھی۔ کہتی تھی کہ میری تھیلی میں تو تھوڑے سے پیسے تھے۔یہ تھیلی میری نہیں ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے یقین دلایا کہ یہ تمھاری ہے۔‘‘
اتنے میں ثمری اور امی چائے کا سامان لے آئیں۔
’’جب آپ لال باغ گئے تھے تو میں آپ کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ لوگ کلوا کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ آپ کے پیچھے بچے اُداس ہوئے تو مجھے بہت دُکھ ہوا۔ بس میں نے ان کا دل بہلانے کا یہ طریقہ سوچا۔‘‘
عزیز صاحب چائے پیتے ہوئے بتا رہے تھے اور سب ہنس رہے تھے۔