دادو اور اس کا گدھا
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔
دادو ایک غریب بوڑھا آدمی تھا۔گاؤں والے اسے چاچا دادو کہتے تھے۔یہ چاچا دادو ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا۔اس کی بیوی کا نام جنت بی بی تھا جو عام طور پر بیمار رہتی تھی۔ان کی اولاد کوئی نہیں تھی،بس یہی دو میاں بیوی تھے۔گھر کا خرچ زیادہ نہیں تھا،اس لئے میاں بیوی خوش خوش زندگی بسر کر رہے تھے۔چاچا دادو کے پاس ایک گدھا تھا جسے وہ روز صبح سویرے گاؤں کی منڈی میں لے جاتا تھا۔وہاں اس کے اوپر چاول یا گندم کی بوریاں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پہنچا دیتا تھا۔اس کام سے اسے ڈیڑھ دو روپے مل جاتے تھے۔روٹی ہانڈی اور کپڑے لتے پر خرچ کرکے بھی ہر ماہ دس بارہ روپے بچ جاتے تھے اور ان پیسوں کو جنت بی بی کسی برتن میں ڈال دیتی تھیں۔اس طرح اچھی خاصی رقم بن گئی تھی۔چاچا دادو یہ چاہتا تھا کہ اس رقم سے ایک اور گدھا خرید لے تاکہ جب کبھی پہلا گدھا بیمار ہوجائے تو وہ دوسرے گدھے سے کام لے سکے۔
اس نے ایک اور گدھا خرید لیا،مگر بدقسمتی یہ رہی کہ یہ نیا گدھا جو اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے خریدا تھا ،اس کے پاس پہنچنے کے بعد صرف چند ماہ ہی زندہ رہ سکا اور مر گیا۔دونوں میاں بیوی کو اس کا بہت افسوس ہوا،لیکن وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔دوسرے گدھے کے مرنے کے بعد پہلا گدھا ہی چاچا دادو کا ساتھ دینے لگا۔یہ گدھا بڑا وفادار تھا۔چھوٹی موٹی چوٹ کی تو اس نے کبھی پروا ہی نہیں کی تھی۔روز صبح سویرے دادو کے ساتھ منڈی میں چلا جاتا تھا اور اپنی ذمہ داری پوری کر کے خوش خوش گھر واپس آ جاتا تھا۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ چاچا دادو کا یہ گدھا بھی بیمار ہوگیا۔معمولی بیمار ہوتا تو کبھی کام سے انکار نہ کرتا،مگر وہ اتنا بیمار ہوگیا تھا کہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا تھا،بوجھ کیسے اٹھا کر چل سکتا تھا؟چاچا دادو کا ساتھی چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا تو چاچا اپنی بیوی سے بولا:” جنتے! ہمارا گدھا تو ہوگیا بیمار۔اب کیا کیا جائے؟“
اس کی بیوی نے کہا: ”کوئی بات نہیں،رحمت کا گدھا منڈی میں لے جا ﺅ۔“
رحمت،دادو ہی کی طرح ایک غریب آدمی تھا اور اس پر ریت یا مٹی لاد کر شہر میں چلا جاتا تھا۔یہ ریت یا مٹی دو تین گھنٹوں کے بعد کہیں نہ کہیں بک جاتی تھی اور رحمت اپنے گاؤں میں واپس آجاتا تھا۔جنت بی بی نے کہہ تو دیا کہ رحمت کا گدھا لے جاؤ،مگر دادو اس کے لیے راضی نہیں تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ رحمت کا گزارا ہی اپنے گدھے پر تھا۔وہ بھلا اس سے کیسے کہہ سکتا تھا کہ آج اپنا گدھا میرے حوالے کر دو اور خود کوئی کام نہ کرو۔دادو کو اپنی بیوی کی یہ تجویز پسند نہ آئی۔وہ سوچنے لگا کہ رحمت کے علاوہ اور کس کے پاس جاکر مدد مانگ سکتا ہے۔فوراً اس کے ذہن میں میاں جی کا خیال آگیا۔میاں جی کا اصل نام کیا تھا ،گاﺅں والوں کو اس کا علم نہیں تھا۔سب انہیں میاں جی ہی کہتے تھے۔میاں جی کئی کھیتوں کے مالک تھے۔ان کے پاس اپنا تانگا تھا۔میاں جی دادو سے کئی بار کہہ چکے تھے کہ تمہیں جب بھی ضرورت ہو میرا تانگا لے جانا۔دادو کو یہ بات یاد تھی۔اس نے اپنے دل میں سوچا کہ میاں جی سے کہوں گا،ذرا اپنا تانگا دے دیں،دو تین دن کے لیے،اور وہ فوراً دے دیں گے۔یہ سوچ کر وہ میاں جی کے پاس گیا اور انہیں بتادیا کہ اسے کیا تکلیف ہے۔
میاں جی اس کی بات سن کر کہنے لگے: ”دادو! یہ تم نے بہت اچھا کام کیا جو میرے پاس آگئے۔میں ضرور تمہاری مدد کروں گا،مگر کیا کروں شہر سے مہمان آئے ہوئے ہیں۔وہ کئی دن میرے ہاں رہیں گے۔ان کے لئے تانگے کی ضرورت ہے۔وہ جب واپس شہر چلے جائیں گے تو لے جانا۔مجھے تانگا دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔سمجھ لیا نا؟“
دادو نے کہا:” میاں جی! تین دن کے بعد تو میرا اپنا گدھا بھی ٹھیک ہو جائے گا۔“
میاں جی خاموش ہو گئے اور دادو ان کی حویلی سے باہر آگیا۔اب اس نے سوچا کہ میاں جی کاتانگا تو مل نہیں سکا ،خیر کوئی حرج نہیں،رسول خاں کے پاس گھوڑا ہے اور وہ بھی کہہ چکا ہے کہ تم کو جب کبھی میرے گھوڑے کی ضرورت ہو لے جانا،مجھے اس سے خوشی ہوگی۔دادو کو بڑی امید تھی کہ رسول خاں اس کی بات سنتے ہی گھوڑا دے دے گا اور یہ گھوڑا دو تین روز اس کے پاس رہے گا ۔چناںچہ وہ رسول خاں کے ہاں جاپہنچا۔رسول خاں اپنے گھر کے با ہر کسی دوست سے گفت گو کر رہا تھا۔اس نے جب دادو کو آتے ہوئے دیکھا تو بڑی خوشی سے بولا:
”آﺅ چاچا! کہو کیا حال ہے۔ بڑی مدت کے بعد آئے ہو،میرے لائق کوئی خدمت ہو تو کہو۔“
دادو نے کہا:” آپ کی بڑی مہربانی ہوگی،میرا گدھا بیمار ہوگیا ہے،دو ایک دن کے لیے اپنا گھوڑا دے دیں۔“
رسول خاں بولا:” ضرور ضرور۔یہ گھوڑا میرا نہیں،تمہارا اپنا ہے۔جتنے دن چاہو اپنے ہاں رکھو ،مجھے اس سے بڑی خوشی ہوگی،مگر چاچا! بات یہ ہے کہ میرے گھوڑے کے ٹخنے میں موچ آگئی ہے جس سے وہ ٹھیک طرح پر چل نہیں سکتا،فکر کی کوئی بات نہیں،دو چار دن تک ٹھیک ہو جائے گا۔لے جانا،تمہارا اپنا مال ہے۔“
دادو کو دو چار دن بعد گھوڑے کی کیا ضرورت تھی اور جب وہ اپنے گھر کی طرف جارہا تھا تو اسے معلوم ہوگیا کہ گھوڑا بالکل ٹھیک ہے اور رسول خاںنے ٹخنے کی موچ کا بہانہ بنایا ہے۔یہ بات اس کے ایک پرانے دوست نے بتائی تھی۔
لالو کمہار کے پاس چار پانچ گدھے تھے۔دادو نے لالو سے بھی ایک گدھا مانگا،مگر لالو نے بھی یہ کہہ کر اسے ٹال دیا کہ اس کے سارے گدھے اس کے بھائی نے اپنے اینٹوں کے بھٹے پر منگوا لیے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ضرور اسے اپنا ایک گدھا دے دیتا۔لالو کمہار نے بھی اسے مایوس کر دیا تھا۔
دادو گھر میں آیا تو بیوی نے پوچھا: ”کیوں کیا بات ہے؟نہ تانگا لے کر آئے ہو اور نہ گھوڑا۔کیا آج منڈی جانے کا خیال نہیں ہے؟آج ہم کھائیں گے کیا؟“
دادو نے اسے ساری بات بتا دی اور اسے یہ بھی بتا دیا کہ وہ میاں جی اور رسول خاں کے علاوہ لالو کمہار کے ہاں بھی گیا تھا، مگر اس نے بھی مدد نہیں کی۔
وہ گھر میں بے کار نہیں بیٹھ سکتا تھا،کیوں کہ جتنا روپیہ جمع کیا تھا وہ تو نیا گدھا خریدنے میں خرچ ہو گیا تھا اور وہ گدھا مر گیا تھا۔اب تو یہ ہوتا تھا کہ روز جو کچھ کما کر لاتا اس سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔
”اب گھر کا خرچ کیسے پورا ہوگا۔“اس کی بیوی نے دوبارہ پوچھا۔
دادو سوچ کر بولا:” اب صرف ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے۔“
”وہ کیا؟“اس کی بیوی نے پوچھا۔
دادو بولا: ”میں منڈی جاؤں گا اور اپنے کندھے پر بوریاں اٹھا کر پیسے کماؤں گا۔“
اس کی بیوی نے اس بات کی مخالفت کی ۔وہ سوچتی تھی،ایک بوڑھا آدمی کیسے بوری اٹھا کر لوگوں کے گھروں تک پہنچا سکتا ہے۔
وہ بولی:” نہیں،میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گی۔بوڑھے آدمی ہو۔بڑے کمزور ہو۔بھلا بوری اٹھا کر چل سکتے ہو ۔ایسا بالکل نہیں ہو سکتا۔“
”تو آج کھائیں گے کیا؟“دادو نے پوچھا۔
بیوی کہنے لگی: ”ہم گاؤں میں رہتے ہیں،کسی جنگل میں تو نہیں رہتے۔کسی سے کچھ روپے ادھار مانگ لیتی ہوں،ادھار مانگنے میں کیا حرج ہے۔“
دادو کو ادھار لینا بالکل پسند نہیں تھا۔اس نے کبھی کسی سے ادھار نہیں مانگا تھا اور نہ بیوی کو کسی سے ادھار مانگنے کی اجازت دی تھی۔
بیوی اسے روکتی رہی،لیکن وہ گھر سے باہر جانے لگا۔ابھی دروازے کے پاس پہنچا تھا اور باہر جانا چاہتا تھا کہ ایک آواز آئی:
” چاچا دادو!“
دادو نے آواز پہچان لی۔یہ رحمت کی آواز تھی۔
”آجاؤ رحمت! “دادو نے کہا۔رحمت اندر آگیا اور روپے روپے کے دو نوٹ دادو کی طرف بڑھا دیے۔
”یہ کیاہے؟“دادو نے پوچھا۔
”چاچا!آج تمہاری جگہ میں منڈی چلا گیا تھا اور میرے گدھے نے وہی کام کیا جو تمہارا گدھا کرتا تھا۔“
رحمت کی یہ بات سن کر دادو اور اس کی بیوی دونوں حیران رہ گئے۔
”رحمت! یہ کمائی تم نے کی ہے۔ یہ روپے تمہارے ہیں۔“ دادو نے کہا۔
”نہیں میرے نہیں ہیں۔“رحمت بولا:” چاچا! تمہارا گدھا بیمار ہے۔کیا میں تمہارا اتنا کام بھی نہیں کرسکتا۔یہ روپے تمہارے لیے ہیں،لے لو۔“
دادو نے بہت انکار کیا،مگر رحمت نہ مانا اور روپے دے کر ہی گیا۔دادو نے روپے اپنی بیوی کو دیتے ہوئے کہا:
”دیکھو! آخر میرا غریب دوست ہی میرے کام آیا ہے۔“