دادا کی محنت
دانش عارفین حیرت
…..
”ابو جی گھر میں درخت لگوائیے ناں۔“
یہ وہ ضد تھی جو ارسل میاں اپنے دوست نسیم کا گاؤں دیکھ کر آنے کے بعد لگاتار کر رہے تھے۔ یہ بات نہیں تھی کہ ان کی ضد کو پورا نہیں کیا جا سکتا تھا،بلکہ بہت آسانی سے اس خواہش کو پورا کیا جا سکتا تھا، پھر بھی جب ندیم صاحب نے پہلی بارارسل میاں کی یہ فرمائش سنی توانھیں یہ سن کر تعجب ہوا۔ انھوں نے گھر میں موجود کیاری میں پودے لگوا دیے۔ اِن پودوں کو دیکھ کر ارسل میاں نے منہ بنا لیا۔
” ابو جی! میں نے آپ سے درخت لگوانے کا کہا تھا۔ آپ نے تو بس پودے لگوا دیے۔“ ارسل میاں ناراض ہو گئے۔
” اچھا بیٹا! درخت بھی لگا دیں گے۔“
ندیم صاحب نے ارسل میاں کو منانے کی کوشش کی۔ ارسل میاں ابا جان کے وعدے پر مان گئے۔ندیم صاحب نے اب گھر کی کیاری میں ایک چھوٹا سا درخت لگوا دیا۔ اس کی اونچائی یہی کوئی پانچ فٹ تک رہی ہو گی۔ انھیں یہ درخت بہت مشکل سے دستیاب ہو سکا تھا۔ انھوں نے یہ درخت نرسری کے مالک سے خاص طور پر منگایا تھا۔
اس درخت کو دیکھ کر بھی ارسل میاں نے ایک بار پھر منہ پھلا لیا:
” ابو جی ! گھر میں درخت لگوانا ہے۔ درخت کا بچہ نہیں ۔“
” آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ یہ درخت نہیں تو اور کیا ہے؟“ ارسل میاں کی بات سن کر ندیم صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔
” یہ چھوٹے چھوٹے درخت ہیں۔ میں اُن پر لٹک نہیں سکتا۔ اُن پر جھولا نہیں ڈال سکتا۔نسیم کے گاؤں میں بہت اونچے اونچے درخت تھے۔ انھوں نے ان پر رسی سے جھولا ڈال رکھا تھا۔ مجھے وہ جھولا جھول کر بہت مزا آیا تھا۔ یہاں ہمارے شہر میں تو کہیں بھی درخت نہیں ہیں۔ نہ ہی ہمارے گھر کے قریب کوئی باغ ہے، جس میں درخت ہوں اور میں وہاں پر جھولا ڈلوا سکوں۔جو باغ موجود ہے وہاں بھی اونچے درخت نہیں ہے۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے درخت ہیں۔ اس لیے مجھے گھر میں ایک بڑا درخت چاہیے ۔“
ارسل میاں اپنے والد کو غصے میں آتے دیکھ کر رو پڑے اور روتے روتے اپنی ساری بات ابو جی کو سمجھا دی۔
ارسل میاں کی بات سن کر ندیم صاحب کاغصہ اول حیرت میں بدلا اور حیرت مسکراہٹ میں بدل گئی۔ انھیں ارسل میاں کی معصومیت پر بے تحاشا پیار آ یا۔ انھوں نے ارسل میاں کو چمکار کر خاموش کرایا اور بولے:
”درخت خرید کر نہیں لگوایا جاتابیٹا!…. درخت تو بویا جاتا ہے۔ درخت پر لمبے عرصے تک محنت کرنی پڑتی ہے۔ اسے پانی دیا جاتا ہے۔ اس سے ملاقات کی جاتی ہے۔ ہر درخت پہلے ایک پودا ہوتا ہے۔ اس کو محنت کر کے درخت بنایا جاتا ہے اور یہ ایک دم نہیں ہو جاتا بلکہ اس میں برسوں کی محنت اور صبر لگتا ہے، پھر ہی پودا درخت بنتا ہے اوراس پر پھل لگتا ہے، وہ جھولا ڈالنے کے قابل ہوتا ہے۔آپ اِن پودوں پر محنت کریں اور ان کی درخت بننے میں مدد کریں۔“
” اس کا مطلب ہوا کہ میں یہاں اپنے گھر میں جھولا نہیں جھول سکتا۔ جھولا جھولنے کے لیے مجھے ایک بار پھر سے نسیم کے گاؤں جانا پڑے گا۔“ ارسل میاں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے خود کلامی کی۔
” نہیں بیٹا! جھولا تو آپ یہاں بھی جھول سکتے ہیں۔ میں آپ کے لیے جھولا لگوا دوں گا۔“
” سچی!“ ارسل میاں نے بے یقینی سے دہرایا اور اپنے والد کے ساتھ چمٹ گئے۔
اگلے دن ہی ان کے لیے گھر کے رہائشی کمروں اور صحن کے بیچ کی جگہ یعنی برآمدے میں چھت پر ہک لگوا کر جھولا ڈال دیا گیا۔ ارسل میاں اس جھولے کو پاکر خوش تو بہت ہوئے مگر اِس جھولے میں وہ مزا نہیں تھا جو انھیں گاؤں کے جھولے میں آیا تھا۔لیکن چوں کہ ان کے گھر میں موجود درخت چھوٹے تھے، اِس لیے وہ مجبور تھے کہ ان پر جھولا نہیں ڈال سکتے تھے۔
….٭….
”داداجان! آپ مسکرا کیوں رہے ہیں؟“ ننھے علی نے درخت کے نیچے جھولا جھولتے ہوئے پوچھا۔
اپنے پوتے کا سوال سن کر ارسل میاں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔
”یہ درخت ہم نے آپ کے جھولا جھولنے کے لیے اپنے ابو جی سے کہہ کر خاص طور پر لگوائے تھے۔ بس آج آپ کو جھولا جھلاتے وقت اِن درختوں کو لگانے والی کہانی یا د آگئی۔“ارسل میاں نے علی کے جھولے کو دھکیلتے ہوئے جواب دیا۔
”اور کیا ہے وہ کہانی؟“ علی نے اشتیاق سے پوچھا۔
” واہ بھئی واہ! جھولا جھولتے ہوئے سنیں گے کہانی۔ مزے ہیں آپ کے تو بلکہ اِسے کہتے ہیں چپڑی اور دو دو۔“
ارسل میاں نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر علی کو اُن درختوں کی کہانی سنانے لگے،جنھیں خرید ا نہیں جا سکتا بس بویا جا سکتا ہے۔ برسوں جن سے میل ملاقات رکھی جاتی ہے ۔بے حد محنت اور صبر کے بعد تب کہیں جا کر ایک پودا درخت بنتا ہے،پھل دیتا ہے اور بچوں کو جھولا جھلانے کے قابل ہوتا ہے۔کیسی مزے کی بات ہے کہ جو محنت کرتا ہے، اُس سے زیادہ آنے والے اِن درختوں کا پھل کھاتے ہیں۔ لگانے والے کی بجائے آنے والی نسل درختوں کی ب انھوں میں جھولا جھولتی ہے۔
”توعلی ! اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی خوشی اپنی تسکین کے لیے تو جانور بھی محنت کرتے ہیں۔ انسانیت تو یہ ہے بیٹا کہ ایک درخت کی طرح پتھر کھا کر پھل دیے جائیں، ایک درخت لگانے والے کی طرح خود پھل کھانے کی بجائے دوسروں کو پھل کھلانے کی اور جھولا جھلانے کی نیت کی جائے۔“
علی کے دادا ارسل میاں نے کہانی ختم کرتے ہوئے اسے زور سے پینگ دی۔
علی کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
٭٭٭