چھوٹو استاد
اسماء عامر
۔۔۔۔۔
”امی! عمیر ماموں کب آئیں گے؟“ حیدر نے باورچی خانے میں کام کرتی امی کا ایک بار پھر دوپٹہ ہلا کر پوچھا جو اس کے ماموں کے لیے ان کی پسند کے کھانے بنا رہی تھیں۔
”آتے ہی ہوں گے بیٹا، آپ جا کر اپنے کمرے کا پھیلاوا سمیٹیں؟“ امی نے اسے تسلی دی اور ساتھ ہی اپنا کمرہ درست کرنے کا حکم بھی صادر کر دیا اور حیدر منہ لٹکائے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
آج حیدر کے ماموں اس سے ملنے لاہور سے کراچی آ رہے تھے۔ اس کے ننھیال والے سب کراچی میں ہی رہائش پذیر تھے لیکن اس کے سب سے چھوٹے ماموں عمیرڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے لاہور گئے ہوئے تھے۔ وہ ہر ماہ بعد ان سے ملنے آتے تھے اور حیدر ہر بار بڑی بے صبری سے ان کا انتظار کرتا تھا۔ کیوں کہ وہ صرف اس کے ماموں ہی نہیں بلکہ بہت اچھے دوست بھی ہیں۔ آج بھی وہ نظریں دروازے پر ٹکائے ان کا انتظار کر رہا تھا۔
امی کے حکم کے مطابق اس نے اپنے کمرے کو درست کیا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی لیکن ماموں نہیں آئے۔
”ماموں نہ جانے کب آئیں گے، میں اتنی دیر میں اپنا اسکول کا کام کر لیتا ہوں۔“ اس نے اپنا بستہ میز پر رکھا اور کام کرنے لگا۔
”بھو“ اچانک بھو کی آواز پر اس نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں ماموں کھڑے مسکرا رہے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی حیدر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ یقینا باہر کا دروازہ کھلا تھا اور ماموں دبے پاؤں اندر آئے تھے جب ہی تو حیدر کو ان کی آمد کا پتا نہیں چل سکا۔
”السلام علیکم ماموں جان!“ حیدر نے دیکھتے ہی سلام کیا۔
”سنائیں بھئی چھوٹو! کیا حال ہے؟“ ماموں نے اسے اٹھا کر چٹا چٹ چوم ڈالا غالباًاسے کھا ہی جائیں گے۔
”امی کہاں ہیں؟“ انہوں نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتے ہوئے پوچھا لیکن حیدر خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔ ماموں اس کا جواب سننے سے پہلے ہی کمرے سے باہر چلے گئے۔
”حیدر بیٹا باہر آئیں کھانا کھاتے ہیں۔“ امی نے باورچی خانے سے آواز لگائی تو وہ خاموشی سے میز پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے سے پہلے والی خوشی غائب ہو چکی تھی۔
”اور سنائیں چھوٹو صاحب! پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟“ ماموں نے اس کی غیر معمولی خاموشی کو بھانپ لیا تھا لیکن اس نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا۔ میز پر کھانا رکھتی اس کی امی نے بھی محسوس کیا تھا کہ حیدر ماموں کے آنے کے بعد سے کچھ چپ سا ہو گیا ہے۔
”بیٹا پہلے تو آپ ہر پانچ منٹ بعد آ کر پوچھ رہے تھے، ماموں کب آئیں گے، ماموں کب آئیں گے اور اب جب وہ آ گئے ہیں تو آپ ان سے بات نہیں کر رہے، یہ تو بری بات ہے نا۔“ امی نے اسے سمجھایا لیکن وہ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
”اچھا تو آپ مجھ سے ناراض ہیں چھوٹو میاں؟“ ماموں نے اس کے قریب ہو کر پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”تو کیا آپ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے؟“ انہوں نے پھر پوچھا جس پر وہ انہیں معصومیت سے دیکھنے لگا۔
”تو پھر آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہے؟“ ماموں نے خفا ہوتے ہوئے پوچھا۔
”میری ٹیچر نے ہمیں کل بتایا تھا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:
”جو شخص سلام سے پہلے کلام شروع کر دے، اس کا جواب نہ دو،جب تک کہ وہ سلام کے ساتھ ابتدا نہ کرے۔“
(رواہ الطبرانی و ابونعیم و فی سندہ لین)
میں نے سلام کیا لیکن آپ نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا اس لیے میں آپ سے بات نہیں کر رہا تھا۔“ حیدر نے معصومیت سے کہہ کر سر جھکا لیا۔
ماموں اس کی بات سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے، اپنا بستہ اٹھایا اور باہر چلے گئے۔ حیدر اور اس کی امی نے انہیں جاتے ہوئے دیکھا تو وہ دونوں حیران رہ گئے۔ حیدر کو دکھ ہونے لگا کہ ماموں اس کی وجہ سے ناراض ہو گئے ہیں۔
”السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ“ ماموں زور دار آواز میں سلام کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تو حیدر کے چہرے پر ایک بار پھر سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔
”وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ“ وہ بھاگتا ہوا گیا اور ماموں سے چمٹ گیا اور ماموں کی طرح ہی زور دار آواز میں جواب دیا۔
”چھوٹو استاد! اب تو آپ مجھ سے بات کریں گے نا؟“ ماموں نے اس کا منہ چومتے ہوئے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اور وہ دونوں مسکرانے لگے۔