چھوٹے ماسٹر جی
نذیرانبالوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال کا اچھا انسان بننا اور اس کا کہنا کہ ’’میں انگوٹھا نہیں لگاؤں گا‘‘۔کیا کم کمائی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تین ماہ کی گرمیو ں کی چھٹیاں اپنے آبائی گاؤں میں گزار کر واپس آنے لگا تو گاؤں کے بہت سے لوگ مجھے الوداع کہنے کے لیے پکی سڑک تک آئے۔ مجھے رخصت کرتے ہوئے سب کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔
’’باؤ اسلم آپ سے تو اب دوبارہ ملاقات اگلی گرمیوں کی چھٹیوں ہی میں ہو گی۔‘‘سجاول بولا۔
’’سجاول میں گرمیوں سے پہلے بھی آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
’’اقبال آپ کو بہت یاد کرے گا۔‘‘
’’میں بھی اقبال کو بہت یاد کرو ں گا۔بہت ذہین لڑکا ہے‘یہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گا۔‘‘میں نے کہا۔
’’ان شا اللہ ! اقبال ضرور بڑا آدمی بنے گا۔‘‘
’’ماسٹر جی میں نے آپ سے جو کچھ سیکھا ہے اس کو یاد رکھوں گا۔‘‘اقبال نے کہا۔
’’کیا مجھے بھی یاد رکھو گے۔‘‘
’’جی………..جی………..ماسٹر جی………آپ کو بہت یاد رکھوں گا۔‘‘اقبال فوراًبولا۔
بس کے آنے پر میں سب سے گلے ملا۔سب کے چہرے افسردہ تھے۔میں نے بس میں سوار ہو کر اپنا بیگ دائیں طرف رکھا اور تیسری سیٹ پر بیٹھ گیا۔تین ماہ کا عرصہ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے پل میں گزر گیا ہو۔مجھے یوں محسوس ہو رہا تھاکہ جیسے میں کچھ ہی دن پہلے گاؤں میںآیا تھا۔گاؤں میں میرے اب چند رشتہ دار ہی رہتے تھے کیونکہ میرے والد نے ملازمت کے سلسلے میں گاؤں سے شہر میں رہائش اختیار کر لی تھی۔میں نے ابتدائی تعلیم اسی گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی تھی۔ایم اے کرنے کے بعد مجھے کالج میں لیکچرار کی ملازمت مل گئی ۔چند سال قبل میں گاؤں گیا تھاتو وہاں جا کر مجھے بہت سے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
’’باؤ اسلم تم اس پرائمری سکول میں کیوں نہیں پڑھاتے ۔‘‘اس سے قبل کہ میں تاج دین کی بات کا جواب دیتا جمیل فوراًبولا:
’’باؤ اسلم تو بڑا ماسٹر ہے۔‘‘
’’کیا ماسٹر چھوٹا بڑا بھی ہوتا ہے؟‘‘تاج دین نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں ہوتا ہے ماسٹر بڑا چھوٹا‘چھوٹے ماسٹر سکولوں میں اور بڑے ماسٹر کالجوں میں پڑھاتے ہیں۔‘‘جمیل نے کہا۔
’’تو میں اب سمجھا ‘باؤ اسلم گاؤں کے سکول میں کیوں نہیں پڑھاتا۔‘‘
’’چا چاجی میں گاؤں کے بچوں کو ضرورپڑھاؤں گا۔‘‘
’’تو پھر تمہیں سب چھوٹا ‘ماسٹر کہیں گے۔‘‘تاج دین بولا۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘میں گرمیوں کی چھٹیوں میں آ کر چھوٹا ماسٹر بن جاؤں گا‘یہاں کے چھوٹوں کو بھی پڑھاؤں گا اور بڑوں کو بھی ۔‘‘میں نے اپنے عزم کا اظہار کیا تو منظور بولا:
’’کیا اتنا وقت گاؤں کے بچوں کے لیے نکال پاؤ گے؟
’’ ہاں میں ضرور گاؤں کے بچوں کے لیے وقت نکالوں گا‘میں گرمیوں کی چھٹیوں میں آؤں گا۔‘‘
’’یہ تو وقت ہی بتائے گاکہ تم آتے ہو بھی یا نہیں ۔‘‘تاج دین نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
بڑے ماسٹر سے چھوٹے ماسٹر تک کا سفر میں نے دو سال پہلے شروع کیا تھا۔اس سال جب گرمیوں کی چھٹیوں سے قبل آخری دن کالج گیا تو اسٹاف روم میں ا س طرح کی گفتگو ہو رہی تھی:
’’یار ا س بار تو گرمیوں کی چھٹیوں میں مال کمانے کا مزہ آجائے گا۔‘‘شہزاد بولا۔
’’کیوں اس بار کیا ہے؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’اس بار طلبہ کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ ہے۔‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘
’’تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘شہزاد نے پوچھا۔
’’میں بھی خوب ٹیوشن پڑھاؤں گااور مال کماؤں گا۔‘‘بلال نے کہا۔
’’اور وہ کیا کرے گا؟‘‘
’’وہ کون؟‘‘
’’اسلم آفتاب کیا کرے گا۔‘‘
’’وہی کچھ کرے گاجو اس نے پچھلے سال کیا تھا‘یعنی چھوٹا ماسٹر بنے گا۔‘‘
’’لوگ آگے جا رہے ہیں اور موصوف پیچھے کی طرف سفر کر رہے ہیں‘پروفیسر سے ماسٹر جی تک کا سفر۔‘‘شہزاد نے طنزیہ نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔میں دونوں کی باتیں سنتے ہوئے خاموشی سے اخبار پڑھتا رہا۔
تین ماہ پہلے میں جب گاؤں پہنچا تو سبھی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔چاچا تاج دین نے میرے رہنے کا بندوبست کیا تھا اور ان کی حویلی ہی میں میں نے تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ایک دن میں بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ اقبال آگیا۔بچے اس کو دیکھ سہم گئے۔ گاؤں والے اس سے بہت ڈرتے تھے۔کسی کو مارنا پیٹنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔گاؤں میں ایسا کون سا آدمی تھا جس سے اس نے لڑائی نہ کی ہو۔میں بھی ایک لمحے کے لیے اقبال کو دیکھ کر گھبرا سا گیا ۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ اس عارضی سکول کو بند کروانے کے لیے آیا ہے۔
’’تم خاموش کیوں ہو گئے ؟پڑھو اونچی آواز سے پڑھو۔‘‘اقبال کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ بچے بلند آواز سے اپنا اپنا سبق یاد کرنے لگے۔
’’ماسٹر جی کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں …………ہاں کیوں نہیں۔‘‘
اقبال بچوں کے ساتھ بیٹھ گیا ۔مجھے اس وقت وہ بھی ایک معصوم سا بچہ لگ رہا تھا۔میں اس کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اس نے مجھے مخاطب کیا:
’’ماسٹر جی کیا مجھے اپنا شاگرد بناؤ گے؟‘‘مجھے اپنے کا نوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
’’ماسٹر جی جواب دیں ‘آپ چپ کیوں ہیں ‘‘اقبال دوبارہ بولا۔
’’تمہیں اپنا شاگرد بنا کر مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘
اگلے دن اقبال بچوں میں بیٹھا لہک لہک کر رٹا لگا رہا تھا۔
’’الف سے انار۔‘‘
’’ب سے بکری۔‘‘
’’ٹ سے ٹوپی۔‘‘
اقبال جب اپنا سبق یاد کر رہاتھاتو گاؤں کے کچھ لڑکوں نے حویلی کی دیوار کے ساتھ ہو کر آواز لگائی:
’’بوڑھا طوطا اب کرے گا پڑھائی‘اقبال بوڑھاطوطا‘اقبال بوڑھا طوطا۔‘‘
’’یہ آواز سن کر اقبال آگ بگولا ہو گیا۔کتاب ایک طرف رکھ کر وہ باہر کی طرف دوڑا۔لڑکے اس کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔اس نے تھوری دور جا کر ایک لڑکے کو قابو کر لیا۔میرے وہاں پہنچنے تک اقبال لڑکے کی اچھی خاصی مرمت کر چکا تھا۔
’’اقبال اسے چھوڑ دو۔‘‘
’’نہیں چھوڑوں گا ماسٹر جی۔‘‘
’’چھوڑ دوپاگل مت بنو‘اسے چھوڑ دو۔‘‘
’’ماسٹر جی یہ مجھے جانتا نہیں ہے کہ میں کون ہوں ؟اقبال چلّایا ۔
’’مت مارو اسے‘‘میں نے اقبال کو بازو سے پکڑ کر کھینچا۔لڑکا جو زمین پر گرا ہوا تھا موقع پاتے ہی بھاگ کھڑا ہوا۔
’’کیا تم ان کے کہنے سے بوڑھے طوطے بن گئے ہو‘انسان علم تو کسی عمر میں بھی حاصل کر سکتا ہے‘پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مہدسے لحد تک علم حاصل کرو۔‘‘تم کسی کی باتوں پر دھیان مت دو‘غصہ کرنا چھوڑ دو۔‘‘
’’ جی ماسٹر جی میں آئندہ غصہ نہیں کروں گا۔‘‘اقبال بولا۔
گاؤں کے لڑکے اقبال کو کافی تنگ کرتے تھے۔وہ جب بھی ان لڑکوں کا تعاقب کرنے کے لیے اٹھنے لگتااس کی مجھ پر نگاہ پڑ جاتی تو وہ اپنا ارادہ تر ک کر دیتا ۔پندرہ بیس دنوں ہی میں اسے بہت سے لفظوں کی پہچان ہو گئی۔اس نے اب حروف تہجی سے نئے الفاظ بنانے بھی شروع کر دئیے تھے ۔بس اس کو لکھنے میں ذرا دقت آرہی تھی۔میں نے سلیٹ پر حروف تہجی لکھ کر دئیے تو اس نے کچھ لفظ صحیح نقل کیے اور کچھ غلط ۔میں نے خود اس کو لکھ کر بتایا کہ مختلف الفاظ کو کس طرح لکھتے ہیں ۔
’’ماسٹر جی اقبال کس طرح لکھتے ہیں مجھے لکھ کر دکھائیں ‘‘
’’میں نے سلیٹ پر اس کانام لکھ کر دکھایا تو وہ اپنا نام دیکھتے ہوئے بولا :
’’اچھا تو میرا نام اس طرح لکھا جاتا ہے ‘میں اب اپنا نام خود لکھوں گا۔‘‘
’’ہاں ………..ہاں تم خود اپنا نام لکھو۔‘‘
میرے کہنے پر اس نے بڑی مشکل سے اپنا نام لکھا۔وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔
’’ماسٹر جی میں تو اپنا نام لکھ سکتا ہوں ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سلیٹ پر کافی مرتبہ اپنا نام لکھا۔اسے لام لکھنے میں دقت محسوس ہور ہی تھی ۔میرے تھوڑاسا سمجھانے پر وہ اس حرف کو بھی درست لکھنے لگا۔
ایک شام حویلی میں آرام کر رہا تھا کہ چاچا تاج دین گھبرایا ہوا میرے پاس پہنچا ۔اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔
’’چاچا جی کیا ہوا ہے؟‘‘
’’وہ ……….وہ اقبال۔‘‘
’ہاں …………..ہاں ………..کیا ہوا ہے اقبال کو۔‘‘
’’اقبال نے لطیف کو بہت مارا ہے‘اس کا سر پھٹ گیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں یہ سن کر چکرا سا گیا۔میں موقع پر پہنچا تو وہاں بہت سے لوگ جمع تھے۔سب بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے۔اقبال کو لوگوں نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔لطیف کو زیادہ گہرا زخم نہیں آیا تھااس لیے ہسپتال سے اسے دوسرے ہی دن فارغ کر دیا گیا۔میں نے پریشانی کے عالم میں اس دن بچوں کو پڑھایا بھی نہیں ۔اقبال کے والد لطیف کے لواحقین کی منت سماجت میں مصروف تھے ۔میرے سمجھانے کے بعد لطیف کے والد نے کہا:
’’باؤ اسلم میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں اس معاملے میں آپ مداخلت مت کریں ۔‘‘
’’رحمت چاچا اقبال بچہ ہے‘نادان ہے اسے معاف کر دیں۔‘‘
’’اقبال بچہ ہے مگر اس کے کرتوت تو بچوں والے نہیں ہیں ۔میں تو اس کو سزا دلوا کر رہوں گا۔‘‘چچا حنیف نے کہا۔
’’آپ غصہ تھوک دیں ‘غلطیاں بچوں سے ہی ہوتی ہیں ۔‘‘
انسان جب غصے میں ہوتا ہے تو کسی کی بات اسے سمجھ نہیں آتی۔چچا حنیف کا غصہ جب ٹھنڈا ہوا تو وہ حویلی میں میرے پاس آگئے۔میں نے انہیں ادب سے اوپر بٹھایا اور ان کی بات سنی۔ان کی باتوں سے میرا دل خوش ہو گیا۔فریقین کی باہمی رضامندی سے صلح نامہ لکھا گیا۔ میں صلح نامے پر دستخط کروانے کے موقع پر تھانے میں موجود تھا۔
’’اؤے بالے یہاں انگوٹھا لگا دو۔‘‘ تھانے دار نے کہا۔
’’میں انگوٹھا نہیں لگاؤں گا‘‘اقبال بولا۔
’’کیوں انگوٹھا نہیں لگاؤ گے‘کیا تم صلح نہیں کرنا چاہتے؟‘‘تھانے دار چلّایا۔
’’میں انگوٹھا لگانے کی جگہ اپنا دستخط کروں گا۔میں ماسٹر جی کی تعلیم سے اس قابل ہو گیا ہوں کہ اپنے دستخط کر سکوں۔‘‘یہ کہ کر اقبال نے صلح نامہ پر دستخط کر دئیے۔میں فریقین کی صلح سے بھی خوش تھا اور یہ بات بھی مجھے خوشی دینے کیلئے کافی تھی کہ اقبال نے صلح نامے پر اپنے دستخط کیے تھے ۔میری تربیت سے اقبال یکسر بد ل گیا تھا۔تین ماہ کے دوران وہ اس قابل ہوگیا کہ اردو کا قاعدہ آسانی سے پڑھ سکے ۔میں گاؤں میں گزرے ہوئے تین ماہ کی حسین یادوں میں کھویا ہوا تھاکہ بس نے شہر پہنچنے کا اعلان کر دیاتھا۔
چھٹیوں کے بعد میں پہلے دن کالج پہنچا تو اسٹاف روم میں بیٹھے اساتذہ چھٹیوں کے دوران ہونے والی اپنی آمدنی کا ذکر کرنے میں مصروف تھے۔
’’اس بار میں نے تو تین ماہ میں تیس ہزار روپے کمائے ہیں ۔مقبول بولا۔
’’صرف تیس ہزارروپے‘‘ شہزاد نے کہا۔
’’تم نے کتنے روپے کمائے ہیں ؟‘‘
’’ستر ہزار روپے میرے بینک اکاؤنٹ میں جا چکے ہیں۔‘‘
’’واہ بھئی تم نے تو کمال ہی کر دیا۔‘‘
کسی نے مجھ سے میری آمدنی کے بارے میں نہیں پوچھا۔ان کے بقول میں نے اس سال بھی اپنے تین مہینے ضائع کر دئیے تھے۔میری آمدنی کا بھلا یہ کس طرح اندازہ لگا سکتے تھے۔اقبال کا اچھا انسان بننا اور اس کا کہنا کہ ’’میں انگوٹھا نہیں لگاؤں گا‘‘۔کیا کم کمائی ہے!میں اگلے برس بھی بڑے ماسٹر سے چھوٹا ماسٹر بنوں گا اور گاؤں میں بہت سے اقبال جو میراانتظار کر رہے ہیں ان کو پڑھاؤں گا خواہ کوئی مجھے چھوٹا ماسٹر ہی کیوں نہ کہے۔