چوری پکڑی گئی
نذیر انبالوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نماز پڑھ رہے تھے یا چوری کر رہے تھے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سہیل تم نے پھر چوری شروع کر دی ہے۔‘‘دادا جان نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’دادا جان میں نے چوری شروع کر دی ہے؟‘‘ سہیل کامنہ حیرت سے کھلا تھا۔
’’ہاں تم نے۔‘‘
’’میں نے چوری نہیں کی۔‘‘
’’میں نے تمہیں خود چوری کرتے دیکھا ہے۔‘‘ دادا جان نے سہیل کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔میں چوری سے توبہ کرچکا ہوں۔‘‘
’’میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتیں۔‘‘
اس سے قبل کہ سہیل اپنی صفائی میں کچھ کہتا اس کا چھوٹا بھائی راحیل کمرے میں آ کر بولا:
’’دادا جان چوہدری اقبال صاحب آئے ہیں۔‘‘
’’انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
دادا جان کمر ے سے چلے گئے مگر سہیل کو سوچوں کے سپرد کر گئے۔وہ سوچ میں پڑ گیا کہ آخر دادا جان نے اسے کیا چراتے ہوئے دیکھا ہے۔اسے تو چوری سے توبہ کیے ہوئے کافی دن ہو گئے تھے۔وہ سوچ میں گم تھا کہ اس نے مختلف اوقات میں جو چوریاں کی تھیں وہ اس کی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح گردش کرنے لگیں۔ایک سال پہلے سکول میں مینا بازار تھا۔مینا بازار میں جا نے کے لیے ابا جان سے بیس روپے ملے تھے۔یہ روپے سہیل کی توقع سے بہت کم تھے ۔اس نے زیادہ پیسوں کے لیے اصرار بھی کیا مگر ابا جان کا مؤقف تھا کہ یہ پیسے مینا بازار میں خرچ کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ابا جان جب اپنے کمرے سے باہر گئے تو میز پر رکھے بٹوے پر اس کی نظر پڑی تھی۔ایک خیال اس کے ذہن میں پیدا ہوا۔اس نے اِدھر اُ دھر دیکھا کوئی آنکھ اس کو نہیں دیکھ رہی تھی ۔کچھ ہی دیر بعد وہ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ بٹوے سے روپے نکال رہا تھا۔اس کا د ل خوف کے مارے دھک دھک کر رہا تھا۔اس نے سو روپے کا ایک نوٹ نکال کر بٹوا فوراً میز پر رکھ دیا۔وہ خوش تھا کہ اب مینا بازار میں مزا آئے گا ۔وہ مزے مزے کی چیزیں کھائے گا اور یوں اپنے دوستوں پر رعب جمائے گا۔اس روز اس نے مینا بازار میں سارے پیسے خرچ کر دیے تھے ۔شام کے وقت ابا جان نے دودھ والے کو روپے دینے چاہے تو اس میں سو روپے کم تھے۔انہوں نے اپنی بیگم سے پوچھا کہ شاید انہوں نے بٹوے سے روپے لیے ہوں مگر ان کا جواب نفی میں تھا۔انہوں نے سوچا کے شاید کہیں روپے خرچ کر لیے ہوں اور اب یاد نہیں آ رہے۔ان کا خیال سہیل کی طرف نہیں گیا تھا ۔وہ صاف بچ گیا تھا۔وہ اپنی اس کامیاب چوری پر بڑا خوش تھا۔اس نے چوری کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا تھا ۔اب اس کے قدم کب رکنے والے تھے۔اس نے برائی کے اس راستے پر چلتے ہوئے اپنی جماعت کے بچوں کے جیو میٹری بکس سے ان کی چیزیں چرانا شروع کر دی تھیں۔جس بچے کی پنسل یار بڑ پسند آئی ‘وہ کب اس کی رہتی تھی۔وہ سہیل کی ہو جاتی تھی۔عمیر ہفتم بی میں نیا طالب علم آیا تھا۔ایک دن وہ جماعت میں آیا تواس کے ہاتھ میں ایک خوشبو دار سی ربڑ تھی۔اس نے سہیل کو ربڑ دکھاتے ہوئے کہا :
’’سہیل یہ دیکھو کتنی خوبصورت خوشبو دار ربڑ ہے۔‘‘
’’واقعی اس کی خوشبو تو بہت اچھی ہے ۔یہ ربڑ کہاں سے لی ہے؟‘‘سہیل نے پوچھا۔
’’یہ ربڑ میرے چچا لائے تھے‘‘ یہ کہہ کر اس نے ربڑ سہیل سے لے کر خلیل کو تھما دی ۔وہ جماعت کے سب بچوں کو اپنی ربڑ باری باری دکھا رہا تھا۔سہیل نے ربڑ کو بغور دیکھتے ہوئے سوچا کہ چھٹی ہونے تک یہ ربڑ اس کی ہو چکی ہوگی۔سہیل نے اپنی اس سوچ کو اس وقت عملی جامہ پہنایا جب جماعت ہفتم بی کے سارے بچے گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے اور سہیل جماعت میں گھسا عمیر کی خوشبو دار ربڑ کو اس کے جیو میٹری بکس سے چرا رہا تھا ۔ا س نے ربڑ چرا کر جماعت سے باہر لگے ہوئے ایک درخت کے پاس زمین پر ایک اینٹ کے نیچے چھپا دیا۔اب وہ بھی گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے بچوں میں شامل ہو چکا تھا۔عمیر کو تفریح ختم ہونے کے بعد اپنی ربڑ کی چوری ہونے کا علم ہوا۔ اس نے سر توقیر سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے جماعت کے بچوں سے ربڑ کے بارے میں پوچھا مگر سب کا جواب نفی میں تھا۔سہیل اطمینان سے اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا۔کسی کو بھی اس پر ذرا برابر شک نہ ہوا ۔چھٹی کے بعد اس نے جہاں ربڑ چھپائی وہاں سے نکال لی تھی۔اس نے اپنی جماعت میں ایک اور بھی چوری کی تھی۔وہ چوری تھی ویڈیو گیم کی ۔شہزاد کو کیا علم تھا کہ چھٹی تک یہ ویڈیو گیم اس کی نہیں رہے گی۔سہیل نے یہ چوری بھی تفریح کے وقفہ میں کی تھی۔اس چوری کے بعد کلاس انچارج نے تفریح کے دوران دو بچوں کی جماعت پر نگرانی کے لیے ڈیوٹی لگا دی تھی۔سہیل کے لیے چوری کا یہ راستہ بند ہوا تو اس نے ایک اور راستہ تلاش کر لیا۔تفریح کے وقت سکول کینٹین میں رش ہونے کی وجہ سے سہیل کا کام آسان ہو گیا تھا۔اتنی چوریاں کرنے کے باوجود وہ ایک بار بھی نہیں پکڑا گیا تھا۔چوری کرتے وقت اس کو اب خوف بھی محسوس نہ ہوتا تھا۔ابھی پچھلے ہفتے کی بات ہے۔آپی نے اپنی کاپی منگوانے کے لیے پچاس روپے کا نوٹ الماری میں رکھا تھا کہ سہیل کی اس پر نظر پڑ گئی۔سہیل نے آسانی سے پچاس روپے کا نوٹ چرایا اور گھر سے باہر جا کر شام تک اسے برابر کر دیا۔آپی نے جب اس سے پچاس روپے کے بارے میں پوچھا تو اس نے فوراً کہا۔
’’مجھے تو پچاس روپوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔‘‘
’’سچ …………سچ بتاؤ ورنہ…………‘‘
’’ورنہ کیا……….؟‘‘ سہیل نے آپی کی بات کاٹی۔
’’ورنہ تمھاری پٹائی کروں گی۔‘‘
’’میں نے کیا کیا ہے جس کی وجہ سے آپ پٹائی کریں گی ۔‘‘
’’تم نے پچاس روپے چرائے ہیں۔‘‘
’’نہیں چرائے میں نے آ پ کے پچاس روپے۔‘‘سہیل چلّایا۔
’’راحیل ابھی ٹیوشن سے نہیں آیا ‘گھر میں تمھارے ‘امی اور میرے علاوہ کوئی چوتھا آدمی موجود نہیں ہے۔ امی یہ کام نہیں کر سکتیں ۔تم مانو یا نہ مانو یہ حرکت تمہاری ہی ہے۔‘‘آپی بولتی چلی گئیں۔سہیل کب اپنی چوری ماننے والا تھا۔امی جان نے مداخلت کی۔
’’ثریا ہو سکتا ہے تم پچاس روپے کہیں رکھ کر بھول گئی ہو۔‘‘
’’امی جان مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے پچاس روپے الماری میں رکھے تھے۔میں کسی کام سے برآمدے میں گئی تھی کہ پچاس روپے غائب !سہیل نے اگر چہ اپنا جرم تسلیم نہیں کیا تھا مگرآپی کو پختہ یقین تھا کہ سہیل نے پچاس روپے چرائے ہیں۔سہیل یہاں سے تو بچ نکلا مگر سکول لائبریری میں لائبریرین نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔وہ پہلی بار پکڑا گیا تھا۔ایک ناول پر اس کی کافی دنوں سے نظر تھی۔جمعرات کے دن لائبریری پیریڈ میں اس نے الماری کی اوٹ میں ہو کر ناول کو شرٹ کے نیچے بنیان میں چھپا لیا۔جب پیریڈ ختم ہوا تو سبھی بچے اپنی جماعت کی طرف دوڑے۔سہیل جب لائبریری سے نکلنے لگا تو لائبریرین نے اسے رکنے کااشارہ کیا۔
’’سر! انگریزی کا پیریڈ ہے میں دیر سے جماعت میں پہنچوں گا تو مجھے سزا ملے گی۔‘‘یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف پڑھنے ہی لگا تھا کہ لائبریرین نے چلاّتے ہوئے کہا:
’’میں کہتا ہوں رک جاؤ۔‘‘
جب سارے بچے چلے گئے تو لائبریرین نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’تم نے جوکتاب چرائی ہے وہ میز پر رکھ دو۔‘‘
’’میں نے کوئی کتاب نہیں چرائی۔‘‘
’’جھوٹ مت بولو‘جلدی سے کتاب میز پر رکھ دو۔‘‘
’’میں سچ کہہ رہا ہوں کہ میں نے کوئی کتاب نہیں چرائی۔‘‘سہیل نے جھوٹ بولا۔
’’تم اس طرح نہیں مانو گے۔‘‘لائبریرین نے یہ کہہ کر سہیل کی تلاشی لی تو کتاب اس سے برآمد ہو گئی۔سہیل کا سر شرمندگی سے جھکا ہوا تھا۔
’’چلو پرنسپل صاحب کے پاس۔‘‘
’’سر! مجھے معاف کر دیں۔‘‘سہیل نے التجا کی۔
نہیں میں تمہیں پرنسپل صاحب کے پاس ضرور لے کر جاؤں گا۔‘‘
’سر! مجھے چھوڑ دیں میں آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔‘‘سہیل یہ کہتے ہوئے رو دیا۔
لائبریرین پر سہیل کی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔وہ کچھ ہی دیر بعد سہیل کو لیے پرنسپل صاحب کے آفس میں موجود تھے۔سہیل کے گھر فون کیا تو اس کے دادا جان سکول آئے ۔پرنسپل صاحب نے سارا واقعہ ان کو سنا دیا؟؟سہیل خاموش تھا۔سہیل نے اس چوری کے علاوہ جماعت اور کینٹین میں کی ہوئی چوریوں کا بھی اعتراف کیا۔اس کا چہرہ روتے روتے آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔’’میں تمہارے جیسے طالب علم کو اپنے سکول میں نہیں رکھ سکتا۔‘‘
’’سر! آپ سہیل کو ایک موقع دیں مجھے امید ہے کہ یہ آئندہ چوری جیسی بری حرکت نہیں کرے گا۔‘‘دادا جان نے پرنسپل کی بات سن کر کہا۔
’’ایسے بچوں سے سکول کا ماحول خراب ہوتا ہے۔میں سہیل کو سکول میں نہیں رکھ سکتا۔‘‘پرنسپل نے کہا۔’’اس وقت سہیل کو کسی دُوسرے سکول میں داخلہ نہیں ملے گا اس کاسال ضائع ہو جائے گا۔اس کو ایک مرتبہ معاف کر دیں۔‘‘دادا جان نے ذرا زور دیتے ہوئے کہا۔
’’سر! مجھے معاف کر دیں میں آئندہ چوری نہیں کروں گا۔‘‘سہیل کی بات سن کر پرنسپل صاحب سوچ میں پڑ گئے۔پھر سوچ کر بولے:
’’ٹھیک ہے میں سہیل کو ایک موقع دیتا ہوں مگر اس کے بعد اسے کوئی موقع نہیں ملے گا۔
’’شکریہ سر! ‘‘ دادا جان اور سہیل یک زبان ہو کر بولے۔سہیل چند دن تک چوری جیسی بری عادتوں سے دور رہا مگر کب تک وہ اس سے دور رہتا۔اتوار کے روز وہ ہفتہ بھر کی خریداری کے لیے امی جان کے ساتھ بازار گیا تو گوشت کی دُوکان کے ساتھ کھلونوں کی ایک دُوکان تھی۔وہاں خاصا رش تھا۔سہیل نے چپکے سے ایک باجا جیب میں ڈالا۔وہ آگے بڑھنے لگا تو ایک ہاتھ نے مضبوطی سے اس کی گردن کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
’’مجھے کیوں پکڑا ہے۔‘‘
’’چوری کر کے پوچھ رہے ہو کے مجھے کیوں پکڑا ہے۔‘‘دُکاندار نے سہیل کو گھورا۔
’’کیسی چوری ؟میں نے کوئی چیز نہیں چرائی۔‘‘
’’ابھی پتا چل جاتا ہے کہ تم نے کوئی چیز چرائی ہے یا نہیں۔‘‘یہ کہتے ہوئے دکاندار نے باجا اس کی جیب سے نکال لیا۔دُکاندار سہیل کو مارتے ہوئے دُکان کے اندر لے گیا۔سہیل کی امی جا ن بھی دکان میں چلی گئیں۔دُکاندار نے انہیں دیکھتے ہی کہا:
’’آپ تو سلیم صاحب کی بیگم ہیں ‘کیا یہ آپ کا بیٹا ہے؟‘‘
’’جی‘‘امی جان بمشکل یہ لفظ ادا کر پائیں۔
’’سلیم صاحب تو نہایت شریف آدمی ہیں اور ان کا بیٹا کس راستے پر چل نکلا ہے۔‘‘
’’ہم سب اس کے لیے بہت پریشان ہیں بھائی صاحب ! میں آپ کا نقصان پورا کرنے کے لیے تیار ہوں۔آپ اسے چھوڑ دیں۔‘‘
’’بہن جی میرا تو کوئی نقصان نہیں ہواالبتہ یہ خود اپنا نقصان کر رہا ہے۔بیٹا چھوڑ دو یہ بری عادت ورنہ بہت پچھتاؤ گے۔‘‘دُکاندار نے سہیل کو سمجھایا۔
’’اگر تم نے باجا ہی لینا تھا تو مجھ سے کہا ہوتا۔تمہاری ہر بات تو مانی جاتی ہے پھر کیوں چوری کرتے ہو؟خود بھی بے عزت ہو اور دوسروں کو بھی بے عزت کرتے ہو۔‘‘ امی جان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سہیل تڑپ کر رہ گیا۔اس کا دل چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔سہیل نے اسی لمحے پکا ارادہ کیا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ آئندہ کبھی چوری نہیں کرے گا۔گھر میں اور سکول میں وہ شرمندہ شرمندہ اور سر جھکائے پھرتا۔اس کی جماعت کے لڑکے اس کو عجیب نظروں سے تکتے تھے۔ایک دن کسی شرارتی لڑکے نے جماعت سے باہر دیوار پر لکھ دیا ’’سہیل چور اسی جماعت میں پڑھتا ہے ۔‘‘سہیل نے چوری تو چھوڑ دی تھی مگر بدنامی نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔آج اس کو دادا جان نے دوبارہ چوری کرنے کا کہہ کر چونکا دیا تھا۔وہ پچھلے دو دن سے بخار کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔وہ اس بات پر غور کر رہا تھا کہ دادا جان نے آخر اسے کیا چراتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچاتھا کہ چوہدری اقبال کو رخصت کرنے کے بعد دادا جان اس کے کمرے میں آ گئے۔سہیل دوبارہ دادا جان کے سامنے سوالیہ نشان بنا کھڑا تھا۔
’’میں جب پہلے کمرے میں آیا تھا تو تم کیا کر رہے تھے؟‘‘دادا جان نے پوچھا۔
’’میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘سہیل نے جواب دیا۔
’’نماز پڑھ رہے تھے یا چوری کر رہے تھے۔‘‘
’’کیا مطلب دادا جان ؟‘‘
’’جس تیزی سے تم نماز پڑھ رہے تھے اس سے تو یوں لگ رہا تھا کہ تم نماز پڑھ نہیں رہے نماز چوری کر رہے تھے۔‘‘
’’نماز کی چوری ‘یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘سہیل بولا۔
پیارے بیٹے !ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’بدترین چوری نماز کی چوری ہے۔‘‘لوگوں نے پوچھا‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں کوئی چوری کیسے کر تا ہے؟فرمایا رکوع اور سجدے ادھورے کر کے۔‘‘دادا جان کی اس بات سے سہیل نے جان لیا تھا اس کی کون سی چوری پکڑی گئی ہے ۔اس نے اسی لمحے عہد کیا کہ وہ دوسری چوریوں کی طرح یہ چوری بھی نہیں کرے گااور نماز کو اچھی طرح ادا کرے گا۔