چمنی کا جن
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔
”تم اس جن کو قابو میں کیوں نہیں کر لیتے جو تمھارے آتش دان کی چمنی میں رہتا ہے“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’چانگ‘ ایک ماہ بعد گھر سے باہر آگیا ہے۔ وہ لوگوں سے نظریں چراتا گلی سے گزر رہا تھا۔ لوگ پلٹ پلٹ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ گلی کے موڑ پر ایک نوجوان نے اسے سلام کیا۔ اس کی ڈاڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ چانگ نے غور سے اسے دیکھا۔
وہ بولا: ”چچا! میں آپ کا بھتیجا ہوں۔“
”تم تو بہت بدل گئے ہو۔“
”آپ نے مجھے بہت دنوں بعد دیکھا ہے نا۔“ وہ بولا۔
”ہاں۔“
چانگ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا اور آگے بڑھ گیا۔
چانگ، چین کے ایک دور دراز گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ بہت شرمیلا آدمی تھا۔ لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتا، اگرچہ وہ درزی کا کام جانتا تھا لیکن اکثر بے روزگار رہتا۔ گزر اوقات کے لیے اس کی بیوی کو کھیتوں میں کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ چلتا ہوا گاؤں سے باہر نکل گیا۔ موسم خوشگوار تھا۔ اسے سیر میں مزا آرہا تھا۔ وہ سرسبز کھیتوں کے پاس سے گزرا۔ کسان فصلوں کو پانی دے رہے تھے۔ پھر مویشیوں کے باڑے نظر آئے جہاں گائیں ڈاکرا رہی تھیں۔ ایک جگہ پن چکی چل رہی تھی۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگا پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ چلتے چلتے وہ بہت دور نکل گیا۔ آخر تھک کر ایک پرانے باڑے کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ بے خیالی میں وہ بہت دور چلا آیا تھا۔ اس نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ قریب ہی جھاڑیوں میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ وہ جھنڈ کی شکل میں پرواز کرتیں پھر چہچہاتے ہوئے جھاڑیوں میں اُتر جاتیں۔ وہ اُنھیں دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کوئی سواری وہاں سے گزرے تو اس کے ساتھ گاؤں چلا جاؤں گا۔
کچھ دیر بعد گاؤں کا دھوبی اپنی گدھا گاڑی پر آتا نظر آیا۔ وہ مسکراتے ہوئے آگے سے گزرا۔ چانگ اس سے کہنا چاہتا تھا کہ مجھے ساتھ لے چلو لیکن جھجک کی وجہ سے کہہ نہ سکا۔ جب وہ دور چلا گیا تو چانگ نے ٹھنڈی سانس لی اور بڑبڑایا: ”اسے چاہیے تھا کہ مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیتا۔“
پھر اسے دور سے زمیندار ’یان‘ آتا نظر آیا۔ وہ ایک محنتی شخص تھا۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے خوب ترقی کی تھی۔ وہ اپنی زرخیز زمین پر چاول کاشت کرتا تھا۔ اس کے پاس مویشیوں کا باڑہ بھی تھا۔ جس مےں گائیں اور بھیڑیں پال رکھی تھیں۔ باڑے کا کام تیزی سے پھل پھول رہا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اگلے سال نمبردار کا انتخاب بھی جیت لے گا۔ وہ گھوڑے پر سوار تیزی سے آرہا تھا۔ چانگ کو خیال آیا کہ وہ بڑا آدمی ہے اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں لیکن یان سیدھا اس کے پاس آکر گھوڑے سے اُترا اور ہاتھ ملا کر بولا: ” چانگ! تم کیسے ہو؟“
”میں ٹھیک ہوں۔“ چانگ شرما کر بولا۔
”اور سناؤ! بہت دنوں بعد نظر آئے، میرا خیال ہے تم پہاڑوں پر کان کنی کے لیے چلے گئے تھے۔ تم نے اچھے پیسے کمائے ہوں گے۔ یا تم…. بڑے شہر کے سالانہ میلے میں دکانداری کرتے رہے ہو۔ تمھاری رنگت بتا رہی ہے کہ تم گرم علاقوں کی طرف نکل گئے تھے۔“
چانگ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے ’نہ…. نہ‘ کر رہا تھا۔
”اچھا تو کیا تم کشتی میں سامان تجارت دوسرے شہروں میں لے جانے لگے ہو؟“
”نہیں نہیں یان صاحب، میں کہیں نہیں گیا تھا، میں تو اپنے گھر میں ہی تھا۔“ چانگ شرمندگی سے بولا۔
”تم ایک ماہ تک گھر میں کیا کرتے رہے؟“ یان نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا۔
” کچھ نہیں…. بس میں گھر پر ہی تھا۔“
یان افسوس سے گردن ہلانے لگا پھر سوچتے ہوئے بولا: ”تمھارے مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے۔“
”کیا جناب! مجھے بتائیں۔“
یان چپکے سے بولا: ”تم اس جن کو قابو میں کیوں نہیں کر لیتے جو تمھارے آتش دان کی چمنی میں رہتا ہے؟“
”ہاں میں نے سرد راتوں میں اس کے سانس لینے (ہوا کی چمنی میں سے گزرنے کی سرسراہٹ) کی آوازیں سنی ہیں۔“
”ہاں اگر تم اسے قابو کرلو تووہ تمھارے سب کام کر دیا کرے گا۔ “
”لیکن میں اسے کیسے قابو کروں؟“
”تم اپنی چمنی توڑ ڈالو۔ وہ ویسے بھی بہت پرانی ہوگئی ہے اور ایک طرف جھک رہی ہے۔ جب جن باہر نکل آئے تو یہ منتر پڑھ کر اسے قابو کر لیتا۔ ششتم پشتم جن برجو…. لشتم پشتم جن برجو۔“
چانگ پرجوش لہجے میں بولا: ”ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔“
”اگر اینٹوں کی ضرورت پڑے تو میرے گھر کے باہر سے اٹھا لینا اور آؤ گھوڑے پر بیٹھ جاؤ۔ میں تمھیں گاؤں لے چلتا ہوں۔“
” نہیں شکریہ، میں خود ہی گھر چلا جاؤں گا۔ آپ کی باتوں سے میرے اندر ہمت پیدا ہوگئی ہے۔“ چانگ بولا۔
یان نے مسکراتے ہوئے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور وہاں سے چل دیا۔
دوسرے دن صبح ہی صبح چانگ ہتھوڑا لے کر چھت پر چڑھ گیا۔ چمنی کی حالت بہت خراب تھی۔ اس نے ہتھوڑا مارنا شروع کیا اور تمام اینٹیں اکھاڑ پھینکیں لیکن اس میں سے سواے کسی پرندے کے پرانے گھونسلے اور کالک کے کچھ نہیں نکلا۔ جن کا کہیں پتا نہیں تھا۔ چانگ بڑبڑاتا ہوا نیچے اتر آیا۔ بیوی کے پوچھنے پر اس نے چمنی توڑنے کی وجہ بتائی۔ وہ سرپیٹ کر بولی کہ سردیوں میں جب ہم آتش دان جلائیں گے تو کمرہ دھوئیں سے بھرجائے گا ۔ تم نئی چمنی بناؤ۔ چانگ سستی سے اُٹھا اور اینٹیں لا کر چمنی بنانے میں لگ گیا۔
دوسرے دن دونوں کی ملاقات گلی میں ہوئی۔ چانگ نے بچ کر نکلنے کی کوشش کی لیکن یان نے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا اور بولا: ” تم نے بہت اچھی چمنی بنالی ہے۔“
”لیکن جناب! اس میں سے کوئی جن نہیں نکلا۔“ چانگ نے کہا۔
”یہ جن بہت چالاک ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے وہ چمنی سے نکل کر چھپر میں چھپ گیا ہے۔ چھپر کی حالت بھی بہت خراب ہے کسی وقت بھی گر سکتا ہے تم اُسے توڑ کر نیا چھپر بنا لو۔ تمھیں منتر تو یاد ہے نا؟“
چانگ نے گردن ہلائی۔ ”اگر خشک گھاس پھوس کی ضرورت ہو تو میرے مویشی خانے سے لے لینا۔“ یان بولا۔
چانگ فوراً ہی کام میں لگ گیا۔ اس نے چھپر اُکھاڑ پھینکا لیکن اس میں سے بھی کوئی جن نہیں نکلا۔ وہ پھوس لے کر آیا اور سارا دن چھپر بناتا رہا۔
تیسرے دن اس نے ایک بار پھر یان کو اپنی ناکامی کا بتایا۔ یان سوچتے ہوئے بولا: ”وہ کنویں میں نہ اُتر گیا ہو۔ تمھارا کنواں بھی تو سوکھ گیا ہے۔ بس آج تم کنویں میں اُترو، جن کو قابوکرو اور کنویں کو کچھ اور گہرا کرلو۔“
”ٹھیک ہے جناب! لیکن میرا کدال کہیں کھو گیا ہے۔“
”کدال تم میرا لے لو۔“ یان نے کہا۔ چانگ کدال لے کر آیا اور کام شروع کیا۔ کنویں میں بھی کوئی جن نہیں تھا۔ وہ غصے سے کھدائی کرنے لگا۔ دن بھر کھدائی کرنے کے بعد آخر پانی کے نئے سوتے کھل گئے۔ پانی نکلنے لگا تو چانگ باہر آگیا۔
چوتھے دن یان خود ہی اس کے دروازے پر چلا آیا۔ چانگ نے افسردگی سے اسے بتایا کہ کنویں میں بھی جن نہیں ملا۔ وہ چانگ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا: ” میرے دوست! مجھے لگتا ہے وہ چالاک جن پھر تمھیں چکمہ دے گیا ہے اس کو قابو کرنے کے لیے تمھیں کسی ماہر سے ملنا پڑے گا۔ قریبی شہر کی فوجی چھاؤنی میں میرا ایک دوست درزی خانے کا نگران ہے۔ تم میرا خط اسے لے جا کر دو۔ وہ ضرور تمھارا مسئلہ حل کر دے گا۔“
چانگ بولا: ”جناب عالی! میں آپ کی بات ضرور مانوں گا۔ آپ ہی میرے مخلص دوست ہیں۔“
دوسرے دن چانگ شہر روانہ ہوگیا۔ وہ یان کے دوست سے ملا اور اسے خط دیا۔ دوست خط پڑھ کر بولا: ” میں تمھارا مسئلہ سمجھ گیا ہوں تمھیں کچھ وقت میرے ساتھ گزارنا ہوگا لیکن آج کل میں بہت مصروف ہوں۔ سردیاں شروع ہونے والی ہیں۔ نئی وردیوں کی سلائی کا کام ہو رہا ہے۔ مجھے درزیوں کی بھی ضرورت ہے اگر تم چاہو تو معقول تنخواہ پر یہاں کام کرسکتے ہو۔“
چانگ راضی ہو گیا اس نے ایک پرانی سائیکل خرید لی جس پر بیٹھ کر وہ سویرے اپنے کام پر روانہ ہوجاتا تھا۔ دن گزرتے رہے پھر ایک صبح دونوں کی ملاقات ہوگئی۔ چانگ چہک کر بولا: ”یان صاحب! کیسے مزاج ہیں۔ میں تو آج کل بہت مصروف ہوں۔ مجھے اچھی تنخواہ مل رہی ہے۔ کچھ بچت بھی ہوجاتی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں ، میں اپنا مرغی خانہ بنا لوں گا۔“
”بہت اچھا خیال ہے اسی طرح محنت کرتے رہو۔ ایک دن ضرور کامیاب ہوگے۔“ یان بولا۔
” یہ سب آپ کا کمال ہے۔ آپ نے مجھے درست راستہ دکھایا ہے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔ “ اس نے زور زور سے سائیکل کو پیڈل مارے اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے جن سے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔
یان اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ اسی وقت ان کا ایک پڑوسی وہاں آگیا اور بولا۔
” یان تم نے اس پر کیا جادو کیا ہے یہ تو بالکل بدل گیا ہے؟“
یان ہنس کر بولا: ”جادو نہیں میں نے تو بس اس میں حوصلہ پیدا کیا ہے دراصل کچھ لوگ کم حوصلہ ہوتے ہیں اُنھیں کوئی کام کرنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح رکی ہوئی گاڑی ذرا سا دھکا لگانے سے چل پڑتی ہے۔“ دوست بات سمجھ کر سر ہلانے لگا۔
دونوں مسکراتے ہوئے چانگ کو جاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ درختوں کے پاس سے گزر رہا تھا۔ ہوا مخالف سمت کی چل رہی تھی۔ اسے بہت زور لگانا پڑ رہا تھا اس کی لمبی سرخ ٹوپی ہوا میں لہرا رہی تھی۔
٭چمنی کا جن ایک تشبیہ ہے اس سے مراد چانگ خود ہے۔
٭….٭