چلو بھاگو یہاں سے
نذیر انبالوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے تمہارے اس عمل سے کوئی بے ضمیر ضمیر والا بن جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پیارے دوست خوش آمدید …….خوش آمدید…….‘‘…………….سب نے یک زبان ہو کر نئے آنے والے دوست کا نہایت خوش دلی سے استقبال کیا ۔نیا آنے والا افسردہ تھا ‘……….اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔وہ حیرت سے سب کو تک رہا تھا۔
’’اچھے دوست !اپنے آنسو پونچھ لو اور خوش ہو جاؤ۔’’ ساتر نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ آنسو پونچھ لوں اور کس بات پر خوشی مناؤں؟ ‘‘ساج نے کہا۔
’’اس لیے آنسو پونچھ لو کہ اب تم اپنوں میں آگئے ہو کیا یہ بات خوشی کی نہیں ہے کہ تم ایک برے آدمی کی قید سے آزاد ہو گئے ہو ۔‘‘ساتر بولا۔
ابھی یہ باتیں جاری تھیں کہ ایک اور نیا دوست آگیا ۔اس نے پہلے کی طرح اس کا بھی پر تپاک استقبال کیا۔
’’کیا یہاں ہر وقت اسی طرح ہوتا رہتا ہے؟‘‘ساج نے پوچھا۔
’’ہاں یہاں چوبیس گھنٹے اسی طرح ہوتا ہے کچھ دوست ہوتے ہیں اور کچھ چلے جاتے ہیں ۔‘‘سار نے جواب دیا ۔
’’کیا یہاں آنے والے ہمیشہ یہاں نہیں رہتے؟‘‘ساج نے ایک اور سوال کیا۔
’’یہ ضروری نہیں ‘بہت سے ساتھی یہاں سے چلے بھی جاتے ہیں ۔‘‘سار بولا۔
’’میں تو یہاں سے نہیں جاؤں گا۔‘‘ساج نے کہا۔
’’تو مت جانا تمہیں بھیج کون رہا ہے۔یہاں آرام سے رہو یہاں سب تمہارے اپنے ہیں ۔یہاں تمہیں پیار ملے گا توجہ ملے گی ۔‘‘
سجل بولا۔یہ باتیں ساج کے دل پر اثر کرتی گئیں۔وہ مطمئن ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔چند ساعتوں بعد شور مچاسب شور مچانے والے کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
’’میں چھوڑ آیا ہوں اس بے ایمان کو۔میں دوبارہ اس کے پاس نہیں جاؤں گا۔‘‘ساؤ نے آتے ہی کہا۔
’’مت جانا بے ایمان کے پاس تم یہاں رہو ہمارے پاس۔‘‘سادھ بولا۔
’’یہاں تو اس بے ایمان جیسا کوئی نہیں ہے؟‘‘ساؤ نے پوچھا۔
’’بالکل نہیں ………یہاں سبھی تمہارے جیسے ہیں ایماندار……نیک……اچھے …….‘‘سبھ نے جواب دیا۔
’’اس کا مطلب ہے میں اپنوں میں آگیا ہوں ۔‘‘ساؤ نے کہا
’’ہاں تم اپنوں میں آگئے ہو‘تمہیں یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے…….ساتر بھی بول پڑا۔
’’ اگر وہ بے ایمان میرا تعاقب کرتا ہوا یہاں آگیا تو پھر کیا ہوگا؟‘‘ساؤ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’یہاں وہ بے ایمان آ ہی نہیں سکتا تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘ساتر نے ساؤ کو تسلی دی۔
’’وہ بہت چالاک ہے مکار ہے بے ایمان ہے میں سب کو اس کے بارے میں بتاؤں گا۔اس کو بے نقاب کروں گا۔ساؤ بولتا چلا گیا۔
’’ہاں ……..ہاں……..ضرور اس بے ایمان کو بھی بے نقاب کرنا مگر ابھی اس کاوقت نہیں ہے۔تم بھی رات کے وقت اپنے بارے میں بتانا اور اس بے ایمان کو بھی بے نقاب کرنا جس کے پاس سے تم آئے ہو۔بس تم اب آرام سے بیٹھ جاؤ اور فکر مت کرو۔‘‘ساہ نے آگے بڑھ کر ساؤکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
رات کا اندھیرا چھایا تو سبھی ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے ۔یہاں کے دستور کے مطابق اس دن نئے آنے والے دوستوں نے اپنے بارے میں بتانا تھا۔
’’سب سے پہلے کون اپنے بارے میں بتائے گا؟‘‘سائر نے پوچھا۔
’’میں ……میں …….میں ایک بے ایمان کے بارے میں بتاؤں گا ۔‘‘ساؤ نے فوراً کہا ۔
’’چلو تم ہی اپنے بارے میں بتاؤ۔‘‘ساتر نے اتنا کہا تو ساؤ بولا۔
’’آج صبح میں ما سٹر طفیل کے ساتھ تھا اس کی ڈیوٹی میٹرک کے امتحان میں بطور نگران تھی جب پرچہ شروع ہوا تو اس نے ایک لڑکے کے پاس جا کر کہا تھا۔
’’فارغ کیوں بیٹھے ہو؟‘‘
’’ویسے ہی۔‘‘لڑکے نے جواب دیا۔
’’لگتا ہے پیپرمشکل ہے ۔‘‘
’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘لڑکا بولا۔
’’ میں یہ مشکل حل کر سکتا ہوں ۔‘‘ماسٹر طفیل نے کہا۔
’’وہ کس طرح؟‘‘
’’تم نوٹ نکالو باقی کام میرا ہے۔‘‘
’‘یہ تم کیا کر رہے ہو۔‘‘میں نے مداخلت کی تھی۔
’’تم چپ رہو۔‘‘
لڑکے نے سو سو کے تین نوٹ ماسٹر طفیل کو تھمائے اور اس نے اپنی جیب سے سوالوں کے جواب اس کو پکڑا دیے اس عمل کے بعد وہ دوسری رو میں آگیا یہاں بھی اس نے ایک لڑکے سے سودے بازی شروع کی تو میں نے احتجاج کیا ۔
’’باز آجاؤ اپنی حرکتوں سے ورنہ ۔‘‘
’’ورنہ کیا کر لو گے؟‘‘ ماسٹر طفیل بولا۔
’’ورنہ میں تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔پھر تم بے سکون رہو گے‘‘
’’بس ……..بس بند رکھو اپنی زبان مجھے اپنا کام کرنے دو ۔‘‘میرے منع کرنے کے باوجود ماسٹر طفیل اپنے کام میں مصروف رہا پرچہ ختم ہونے تک اس کی جیب نوٹوں سے بھر گئی تھی ۔میں اس لمحے ماسٹر طفیل کو چھوڑ کر یہاں آگیا تھا۔میں اب اس بے ایمان کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتا جب وہ بے چین ہو گا تو میری یاد آئے گی مجھے یقین ہے کہ وہ میرے بغیر ضرور بے چین ہو گا ۔
اس کے بعد سر خیل آگے بڑھا اور یوں سب سے مخاطب ہوا ۔
’’اس دن ملک کا نامور جج اپنے کمرے میں موجود تھا ۔میں بھی اس کے پاس تھا ۔نوکر نے جب کچھ لوگوں کے آنے کی اطلاع دی تو وہ ڈرائنگ روم میں آ گیا تھا۔‘‘
’’جی فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ۔‘‘جج نے آنے والوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’خدمت تو ہم آپ کی کریں گے ۔‘‘کالی رنگت والا شخص بولا۔
’’کیا مطلب؟‘‘جج نے فوراً کہا۔
’’آپ ہمارا کام کر دیں ہم آپ کی خدمت کریں گے‘جتنا روپیہ چاہیں گے آپ کو ملے گا …….بس ہمارا آدمی بری ہونا چاہیے۔‘‘
’’آپ کس مقدمے کی بات کر رہے ہیں؟‘
’’شوکت عظیم قتل کیس……‘‘کالی رنگت والا شخص بولا۔
’’اب میں سمجھا ہوں مگر اس کیس میں تمام شہادتیں ملزمان کے خلاف ہیں ۔‘‘
’’شہادتیں بھی تو انسانوں نے دی ہیں یہ بدل بھی تو سکتیں ہیں ۔گواہ خریدنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔آپ ہا ں کریں باقی کام ہمارا ہے ۔‘‘ کالی رنگت والے نے جج کی بات بھی پوری نہ ہونے دی تھی ۔میرا سودا طے ہو رہا تھا تو میں چیخا چلاّیا مگر جج نے میری ایک بات نہ سنی ۔نوٹوں کا بھرا ہوا بریف کیس ملنے کے باوجود میں جج کے پاس رہا کہ شاید کل عدالت جانے تک وہ راہ راست پر آجائے مگر ایسا نہ ہوا ۔جھوٹے گواہ پیش ہوگئے اور قاتل رہا ہو گئے ۔جب جج نے فیصلہ سنایا تو عدالت میں ایک شور برپا ہوا تھا ۔بھاگو یہاں سے …….بھاگو یہاں سے …….سب یہاں ہمارے دشمن ہیں بھاگو یہاں سے،میں اور میرے بہت سے دوست عدالت سے بھاگ کر یہاں پناہ لینے کے لیے آئے ہیں ۔ہمارے یہاں آنے سے ہمارا سودا کرنے والے بے سکون ہو نگے۔انہیں کسی پل سکون نصیب نہیں ہو گا۔‘‘
سر خیل کی بات سن کر سبھی نے یک زبان ہو کر کہا۔
’’یقیناًوہ بے سکون رہیں گے۔‘‘
’’اب تم اپنے بارے میں بتاؤ ۔‘‘سادھ نے سرون کو مخاطب کیا تھا۔
’’یہ آج صبح کی بات ہے میں سردار کے ساتھ گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک گھر کے سامنے سو روپے کا نوٹ پڑا تھا سردار نے اِدھر اُدھر دیکھ کر فوراً سو روپے کا نوٹ اپنی جیب میں رکھ لیا ۔اتنی دیر میں ایک شخص اپنے گھر سے نکلا وہ کچھ تلاش کر رہا تھا ۔اس نے سردار کے پاس آ کر پوچھا ۔
’’آپ نے گلی میں سو روپے کا نو ٹ تو گرا ہوا نہیں دیکھا ۔‘‘
’’نہیں تو۔‘‘سردار نے کہا ۔
’’جھوٹ مت بولو سو روپے اس کے مالک کو دے دو۔‘‘میں نے کہا تھا۔
ٍٍ ’’تم چپ رہو۔‘‘
’’سو روپے کا نوٹ تلاش کرتے اس کا مالک گلی کی نکڑ تک جا پہنچا تھا اس لیے وہ ہماری گفتگو نہ سن سکا تھا ۔سردار نے صرف سوروپے کے لیے مجھ سے دوستی ختم کر لی تھی۔میں اب بھلا سردار کے ساتھ کس طرح رہ سکتا تھا سو میں یہاں چلا آیا ۔جب سردار بے قرار ہو گا تو اسے میری یاد ستائے گی۔تب اسے میری اہمیت کا پتہ چلے گا ۔‘‘
’’جب سرون کی بات ختم ہوئی تو کونے میں بیٹھے سجات نے اپنی بات کا آغاز کیا۔
’’کل شام میں نواب دین کے ساتھ اس کی دُکان میں موجود تھا۔ایک پگڑی والے شخص نے آ کر جب کرنل چاول کی قیمت پوچھی تو نواب دین نے جواب دیا تھا۔
’’اصلی کرنل چاولوں کی سو کلو کی بوری تین ہزار روپے کی ہے۔‘‘
’’زیادہ بوریاں لوں گا تو کچھ رعایت ہو سکتی ہے؟‘‘
’’کتنی بوریاں لیں گے؟‘‘
’’بیس بوریاں ……‘‘پگڑی والے نے جواب دیا۔
’’آپ سے 2800روپے فی بوری لگا لوں گا۔‘‘
’’نہیں میں تو 2500روپے فی بوری دوں گا۔‘‘
’’آخر تھوڑی سی بحث کے بعد 2600روپے کے حساب سے سودا طے پا گیا۔پگڑی والا رقم ادا کر کے اپنا پتا لکھوا کر چلا گیا ۔اس کے جاتے ہی نواب دین کے بیٹے نے کہا۔
’’یہ چاول تو خود ہم نے 2600روپے فی بوری کے حساب سے خریدے ہیں اس طرح ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‘‘
’’2600روپے میں چاولوں کی بوری بیچنے پر بھی نفع ہوگا۔‘‘نواب دین بولا۔
’’وہ کس طرح ؟‘‘
’’بیس بوریوں میں تین چار بوریاں ہلکی کوالٹی کے چاول ملا دےئے جائیں تو کسی کو کیا پتہ چلے گا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے بے ایمانی……‘‘نواب دین کا بیٹا بولا۔
’بے ایمانی نہیں کاروبار……اسی کو کاروبار کہتے ہیں ۔‘‘نواب دین نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
’’میں نے نواب دین کو سمجھایا مگر میری باتوں کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔میں نے اپنا راستہ بدل لیا اور یہاں آگیا۔‘‘
’’تم نے اپنا راستہ بدل کر بہت اچھا کیا ہے۔‘‘سبھ نے کہا۔
دائرے کی شکل میں بیٹھے تمام دوست ہمہ تن گوش تھے ۔12بجے کے قریب کچھ اور نئے ساتھی بھی آگئے ۔ یہاں کی روایت کے مطابق ان کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔ان دوستوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد ساج آگے بڑھا‘ اب اس کے بولنے کی باری تھی۔
’’پرسوں میں اقبال کے ساتھ اس کے گھر میں تھا ۔اس کے سامنے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے پوسٹر پڑے تھے ‘وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ ووٹ کسے دے؟امیدواروں میں محلے ہی کا پڑھا لکھا ایک نوجوان تھا جس کے خاندان کو وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔اس خاندان کو علاقے بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔اس کے مقابل ایک پہلوان تھا جس کی شہرت تو اچھی نہ تھی مگر دولت اس کے پاس بہت تھی ۔علاقے کے سبھی لوگ اس سے ڈرتے تھے ۔وہ بھی اس کشمکش میں تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔چند لمحوں بعد اقبال دستک دینے والے کے سامنے تھا ۔
’’آؤ آؤ توفیق آجاؤ۔‘‘
’’توفیق نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیاتو اقبال بولا۔
’’تو کیا ووٹ پہلوان کو دے دوں مگر اس کی شہرت کچھ اچھی نہیں ہے ۔‘‘
’’ہمیں کسی کی شہرت سے کیا لینا ہمیں تو پیسہ چاہیے پیسہ، تم پہلوان کو ووٹ دینے کی حامی بھرو میں ایک ہزار روپیہ تمہیں دلا سکتا ہوں ۔‘‘
اقبال توفیق کی باتوں میں آگیا ۔مجھے ایک ہزار روپے میں بیچ دیا۔میں پولنگ بوتھ تک اس کے ساتھ رہا جب اس نے پہلوان کے انتخابی نشان پر مہر لگائی تو میں اقبال سے الگ ہو کر یہاں آگیا ۔ایک ہزار روپے میں ووٹ جیسی قیمتی چیز کو بیچنے والے کے ساتھ میرا گزارا کس طرح ہو سکتا تھا……!‘‘
’’تم کیوں اس قدر خاموش بیٹھے ہو ‘اپنے بارے میں کچھ بتاؤ ۔‘‘ساتر نے دائیں طرف بیٹھے سروال کو دیکھتے ہوئے کہا ۔’کل رات میں وارث کے ساتھ اس کے دفتر میں موجودتھا ۔وہ فائلوں پر جھکا اپنے کام میں مصروف تھا کہ ایک گنجا شخص اس کے پاس آیا‘اس نے آتے ہی وارث کو گھورتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’کیا کام ہو گیا ہے……؟‘‘
’’جناب کام بھی ہو جائے گا اتنی جلدی بھی کیا ہے ۔‘‘
’’آپ کو تو نہیں مگر مجھے تو جلدی ہے ۔‘‘
’’پہلے کچھ طے تو پا جائے ۔‘‘
’’آپ کو پہلے ہم سے کبھی شکایت ہوئی ہے ؟‘‘گنجا شخص بولا۔
’’نہیں …..! وارث نے جواب دیا ۔
’’تو بتائیے کس قیمت پر سودا ہو گا؟‘‘
’’اس دفعہ کا کام ذرا مشکل ہے ۔آپ جس سڑک کا بل پاس کروانا چاہتے ہیں اس کا تو ابھی کام بھی شروع نہیں ہوا۔‘‘
’’کام شروع ہوگا بھی نہیں اور بل بھی پاس ہوگا۔دو ٹوک بتاےئے ایک دستخط کے کتنے پیسے لیں گے ؟‘‘گنجا شخص فیصلہ کن انداز میں بولا۔
’’ 10لاکھ روپے میں سودا طے ہو سکتا ہے ۔‘‘
’’مجھے منظور ہے ۔‘‘
’’یوں 10لاکھ روپے میں میرا سودا طے پا گیا ۔وارث کے ایک دستخط سے سارا کام ہو گیا ۔وارث نوٹوں سے بھرا بریف کیس لیے گھر چلا گیا اور میں یہاں آ گیا۔‘‘
یہاں آنے والے اپنے ساتھ ایسی ہی کہانیاں لاتے ہیں ۔یہ سبھی انسانوں کے ہاتھوں تنگ آ کر اس طرف کا رخ اختیار کرنے پر مجبور ہو تے ہیں ۔کچھ تو مدت سے یہاں ہیں اور کچھ تھوڑا عرصہ پہلے ہی یہاں آئے ہیں ۔یہاں آنے والوں میں کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جن کو انسان دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کیلئے آتے ہیں ۔جب بھی یہاں کسی کے رونے ‘فریاد کرنے یا گڑ گڑا کر توبہ کرنے کی آواز سنائی دیتی ہے ‘وہ سمجھ جاتے ہیں کوئی انسان ان کے در پہ آیا ہے۔
چند دنوں بعد انہیں کسی کے رو رو کر توبہ کرنے کی آواز سنائی دی تھی ۔سبھی اس انسان کو دیکھنے کے لیے امڈ آئے تھے ۔اس کو دیکھ کر ساؤ نے کہا۔
’’یہ تو ماسٹر طفیل ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے تم اسے چھوڑ کر یہاں آئے ہو۔‘‘ساتر بولا۔
’’ہاں یہی وہ بے ضمیر ہے جو چند ٹکوں کی خاطر قوم کے معماروں کو غلط راستے پر چلا رہا ہے۔‘‘
’’میں اب ایسا نہیں کر رہا ‘میں تمہارے بغیر بے چین ہوں ‘میں تمہیں یہاں سے لینے آیا ہوں۔‘‘ماسٹر طفیل بولا۔
’’میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤ ں گا ‘تم بے ضمیر ہو اور بے ضمیر رہو گے ‘چلو بھاگو یہاں سے ۔‘‘ماسٹر طفیل کے گڑ گڑ انے کے باوجود ساؤ ماسٹر طفیل کے ساتھ جانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ماسٹر طفیل بے مراد ہی وہاں سے لوٹ گیا ۔اسی شام جج بھی بے سکون ہو کر وہاں پہنچ گیا تھا ۔اس کے رونے پیٹنے پر سبھی اس کی طرف متوجہ ہو ئے تھے۔سبھی ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ یہ انسان کس کو لینے آیا ہے۔سرخیل نے جج کو مخاطب کیا تھا ۔
’’جاؤ جا کر جھوٹی شہادتوں پر مقدمات کے فیصلے سناؤ ‘روپیہ کماؤ۔‘‘
’’میں بے سکون ہوں مجھے سکون چاہیے۔‘‘
’’نہیں ملے گا تمہیں سکون ‘چلے جاؤ یہاں سے ……‘‘سر خیل چلاّیا۔
’’میں توبہ کرتا ہوں آئندہ ایسا نہیں کروں گا ۔‘‘جج کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
’’مجھے اب تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں ‘اپنا وقت ضائع مت کرو چلو بھاگو یہاں سے ۔‘‘جج یہ سن کر وہاں سے خالی ہاتھ چلا گیا ۔
کچھ عرصہ بعد ایک اور انسان وہاں اپنے آنسو بہا رہا تھا ۔سروال نے اس کو دیکھتے ہی کہا تھا ۔
’’یہ تو وارث ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے تمہارا وارث آگیا ہے۔‘‘سار بولا’’میں تو اس کے ساتھ نہیں جاؤں گا ۔‘‘
’’ہاں تمہیں اس کے ساتھ نہیں جانا چاہیے ۔اس نے 10لاکھ روپے میں تمھارا سودا کیا تھا۔‘‘
’’اس کو غلط رستہ مت دکھاؤ‘اس کو وارث کے ساتھ جانا چاہیے۔اس کے آنسو اس کی دلی کیفیت کا اظہار کر رہے ہیں ‘اس کو ایک موقع ملنا چاہیے۔جاؤ جلدی کر و وارث تمہیں لینے کے لیے آیا ہے۔‘‘ساتر نے سروال کو سمجھایا ۔
’’اب نہ جانے یہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے‘ہو سکتا ہے یہ میرا سودا کر دے ۔‘‘
’’میں اب ایسا نہیں کروں گا ‘میں تمہارا سودا کر کے پہلے ہی بڑا بے چین ہوں ۔میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں ‘تم، میرے ساتھ چلو۔‘‘وارث نے روتے ہوئے کہا ۔
’’پھر سروال اپنے دوستوں کو الوداع کہہ کر وارث کے ساتھ ہو لیا۔
تین چار ماہ کے بعد سروال دوبارہ آیا تو کچھ پرانے دوستوں نے اسے پہچان لیا تھا۔
’’تم پھر آگئے ہو؟‘‘ساؤ بولا۔
’’میں یہاں رہنے کے لیے نہیں آیا ۔‘‘سروال نے فوراً کہا۔
’’تو پھر کیوں آئے ہو ؟‘‘سادھ نے سوال کیا ۔
’’میں یہاں ایک پیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘
’’کیسا پیغام؟‘‘سبھ نے پوچھا۔
’’وارث واقعی ہی میرا وارث ثابت ہوا ہے۔اس نے تین چار ماہ میں جس طرح میری حفاظت کی ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ایک پارٹی نے ایک پل کے بل پاس کروانے کے لیے اس سے میرا سودا کرنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا میں اب اپنے ضمیر کا سودا نہیں کروں گا۔یہ پہلے ہی بہت مشکل سے میرے ساتھ آیا ہے۔اس کے انکار پر اس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔جب اس سے بھی کام نہ بن پایا تو اس کے بیٹے کو اغوا کر لیاگیا مگر پھر بھی وارث نے میرا سودا نہ کیا ۔آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ ظالموں نے اس کے بیٹے کی جان لے لی مگر اس نے مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھا۔پارٹی کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی پاداش میں اس کا تبادلہ ایک دور افتادہ علاقے میں کر دیا گیا ۔میں اب وہیں سے آرہا ہوں ۔بے ضمیر لوگوں کی اس دنیا میں اب بھی ضمیر کی حفاظت کرنے والے موجود ہیں ۔میری آپ سے درخواست ہے کہ جب بھی کوئی آپ کے در پر آئے اور معافی کا طلبگار ہو تو اسے معاف کر کے اس کے ساتھ چلے جاؤ کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ’’اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیاہ صحرا میں گم ہو گیا ہو اور اس شخص کے کھانے پینے کا سارا سامان اسی گمشدہ اونٹ پر لدا ہوا ور وہ شخص چاروں طرف صحرا میں اونٹ کو تلاش کر کے مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے اپنی موت کے انتظار میں لیٹ گیا ہو ‘ٹھیک اسی حالت میں اس کا گمشدہ اونٹ اس کے سامنے آجائے تو اس کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہو گا ‘تمہارا رب بھی اس شخص سے زیادہ اس وقت خوش ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی بھٹکا ہوا بندہ اس کی طرف پلٹتا ہے اور گمراہی کے بعد فرمانبرداری کی روش اختیار کرتا ہے‘‘میرے ضمیر بھائیو! جب بھی کوئی بے ضمیر توبہ کا کشکول لیے ضمیر نگر آئے تو اس کے ساتھ چلے جاؤ۔ہو سکتا ہے تمہارے اس عمل سے کوئی بے ضمیر ضمیر والا بن جائے ۔اپنے دروازے پر آئے کسی سوالی کو ’’چلو بھاگو یہاں سے ‘‘مت کہو۔سروال کی یہ باتیں سن کر سبھی ضمیر یک زبان ہو کر بولے۔
’’ہم ایسا ہی کریں گے ……!