چالاک مرغا
میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیڑیا اور لومڑ ہر وقت اس چکر میں لگے رہتے تھے کہ کسی طرح مرغے کو پکڑ کر کھا لیا جائے،لیکن۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی جنگل میں ایک بھیڑیا اور ایک لومڑ رہتے تھے۔دونوں کی آپس میں دوستی تھی۔وہاں پر ایک مرغا بھی رہتا تھا،جو کھا کھا کر خوب موٹا ہو گیا تھا۔تھا بڑا چالاک۔ان دونوں سے دور دور رہتا تھا اور کسی طرح بھی ان کے قابو میں نہ آتا تھا۔یہ مرغا تھا ایک گڈریے کا،جو جنگل ہی میں ایک طرف رہتا تھا۔بھیڑیا اور لومڑ روز مرغے کو دیکھتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اگر یہ مرغا کسی دن ہمارے قابو میں آ جائے تو ہماری عید ہی ہو جائے۔کس مزے سے دعوت اڑائیں ہم۔مرغا ان کی نیت جانتا تھا،لہٰذا کبھی ان کے قریب نہیں آتا تھا۔
ایک دن دونوں دوست ملے تو بھیڑیا بولا،”ہمیں تو بھیڑیے اور لومڑ کے بجائے بکریاں ہونا چاہیے تھا۔گھاس کھا کر سوتے رہتے۔“
لومڑ آہ بھر کر کہنے لگا،”ٹھیک ہی کہتے ہو۔دیکھو نا،یہ مرغا ہمیں کس طرح ستا رہا ہے۔گھاس کھاتے ہوتے تو آج اس طرح ترستے کیوں؟یہاں گھاس کی کوئی کمی نہیں ہے،مگر یہ مرغا! ہائے یہ کب ہمارے قابو میں آئے گا۔“
بھیڑیے نے کہا،”ہم تو نرے بدھو ہیں،بدھو۔“
لومڑ بولا،”ہاں بدھو،بدھو بھی کیا گدھے ہیں گدھے،مگر نا امید کیوں ہوتے ہو بھائی! میں نے ایک بات سوچی ہے۔یہ مرغا بڑا پیٹو ہے۔ہر وقت کھاتا رہتا ہے۔میں اس کی دعوت کرتا ہوں۔مزےدار چیزیں جمع کرتا ہوں اور بلاتا ہوں اسے کھانے پر۔بالکل انکار نہیں کرے گا۔ آئے گا تو دونوں کی عید ہو جائے گی۔کیوں مانتے ہو نا استاد؟“
بھیڑیا ہنس کر بولا،”نرے الو ہو۔وہ تمہاری دعوت پر آئے گا کیوں؟جانتا نہیں،ہماری نیت خراب ہے؟“
لومڑ نے جواب دیا:” آئے گا،ضرور آئے گا۔“
دوسرے دن مرغا اپنے کوٹھے پر جو پہنچا تو لومڑ نیچے آ کر بولا:” اے بھائی صاحب! آپ ہم سے اتنی دور کیوں رہتے ہیں۔ایک ہی جنگل میں رہتے ہیں۔ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ۔ہمسایوں کو تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔“
مرغا کہنے لگا:” فرمائیے حضور! کیا حکم ہے؟کہیے تو اپنے مالک کو بلا لاؤں۔جوتوں سے ذرا جناب کی خاطر تواضع کردے۔“
لومڑ کہنے لگا:” واہ دوست! مہمان کی یہ عزت۔میں تو آیا تھا آپ کو کھانے پر بلانے۔بڑی اچھی اچھی چیزیں جمع کر رکھی ہیں۔طرح طرح کے پھل، کھیر، حلوا اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔آ کر ایک بار دیکھئے تو۔آپ کے دل میں کوئی بات ہو تو بتا دیجیے۔میں دعوت کے روز گھر میں رہوں گا ہی نہیں۔غریب خانے کا دروازہ کھلا رہے گا۔ضرور آئیے۔ کہیں سب کچھ ضائع نہ ہو جائے۔“
یہ کہہ کر لومڑ چلا گیا۔مرغا سوچنے لگا: ”یہ لومڑ کا بچہ مجھے ضرور فریب دینا چاہتا ہے،مگر یہ کھیر اور حلوا! اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔دیر تک سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا:” ضرور جاؤں گا اس کی دعوت پر۔اس نے کہا جو ہے،میں گھر پر نہیں رہوں گا۔پھر کیا خطرہ ہوگا مجھے؟گھر پر وہ ہوگا نہیں، میں کھا پی کر آ جاؤں گا۔“
دوسرے دن وہ پہنچ گیا لومڑ کے گھر۔طرح طرح کے کھانے رکھے تھے۔وہاں نہ تو بھیڑیا تھا اور نہ لومڑ۔مرغا اندر چلا گیا۔جیسے ہی وہ اندر آیا تو لومڑ کے گھر کا دروازہ فوراً بند ہوگیا۔اب مرغے کو معلوم ہوا کہ وہ بہت بڑے خطرے میں پھنس گیا ہے۔دونوں اندر چھپے بیٹھے ہیں اور ابھی مجھے پکڑ لیں گے۔وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا ۔جھٹ ایک بات اس کے دل میں آگئی۔
بولا:” ہائے بدقسمتی! آج ہی میرا بڑا بھائی شہر سے آرہا ہے۔جی چاہتا ہے اسے بھی لے آؤں۔یہ چیزیں تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھی ہوں گی۔“
بھیڑیا اور لومڑ دونوں اندر چھپ کر بیٹھے تھے۔انہوں نے جو یہ بات سنی تو آپس میں مشورہ کرنے لگے۔بھیڑیا بولا:
” ایسا موقع پھر کب ہاتھ آئے گا۔آنے دو اس کے بھائی کو بھی۔ہمارے مزے آ جائیں گے۔“
لومڑ بھی لالچ میں آگیا۔اس لیے دروازہ کھول دیا۔مرغا دروازے کے باہر جاکر بولا: ”جناب یہ دھوکہ کسی اور کو دیجیے گا۔میں نہیں آتا اس دھوکے میں۔اور وہ بھاگ کر اپنے کوٹھے پر جا چڑھا۔“
دونوں کو اپنے اوپر بڑا غصہ آیا،مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔شکار تو ہاتھ سے نکل چکا تھا۔بھیڑیا کہنے لگا: ”خیر کوئی بات نہیں۔اب دیکھوں گا کس طرح بچ کر جاتا ہے۔تم کل اسے بتانا کہ بھیڑیا مر گیا ہے۔مرنے سے پہلے اس نے کہا تھا کہ میرا سارا سامان میرے عزیز بھائی مرغے کو دے دینا اور میں تمہیں اطلاع دینے آیا ہوں۔اس کے گھر پہنچ جاؤ۔آخری بار اپنے بھائی کو دیکھ بھی لو اور سامان بھی لے لو۔“
لومڑ کو یہ تجویز بڑی پسند آئی:” ٹھیک ہے تم مردہ بن کر لیٹ جانا۔“اور لومڑ اگلے روز گڈریے کی چھت کے نیچے جا کر رونے لگا۔
مرغا چھت پر سے بولا:” کیا ہوا لومڑ میاں!“
لومڑ روروکر بتانے لگا کی اس کا بھائی بھیڑیا مر گیا ہے اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر گیا ہے۔ مرغا دل میں ہنسا۔مجھے پکڑنے کی ایک اور تجویز سوچی جارہی ہے،مگر مجھے دھوکہ دینا کوئی آسان کام نہیں۔
وہ بولا:” ہائے بھائی لومڑ! کتنی بری خبر سنائی ہے تم نے۔میرا تو دل غم سے پھٹا جا رہا ہے۔اچھا اللہ کی مرضی،میں ابھی حاضر ہوتا ہوں اور آخری بار اپنے پیارے بھائی کو دیکھتا ہوں۔“
لومڑ نے جب یہ لفظ سنے تو خوش خوش لوٹ گیا اور بھیڑیے کو بتا دیا کہ مرغا آرہا ہے۔بھیڑیا مردہ بن کر لیٹ گیا۔تھوڑی دیر بعد مرغا آگیا۔ بھیڑیا گھر کے اندر پڑا تھا اور بالکل حرکت نہیں کر رہا تھا۔اس نے اپنا سانس بھی روک رکھا تھا۔مرغا بھیڑیے سے کافی دور ہو کر بولا:” افسوس میرا بھائی مرگیا۔اب میں کہاں ڈھونڈوں گا اپنے پیارے بھائی کو۔“
بھیڑیا خوش ہو گیا۔اب تو وہ ضرور آجائے گا قابو میں۔مرغا وہیں کھڑا رہا اور کہنے لگا:” بھیڑیا مرتا ہے تو اپنی ٹانگ ہلاتا ہے،مگر میرے بھائی کی ٹانگ کیوں نہیں ہل رہی،حال آنکہ یہ مر چکا ہے۔“
بھیڑیا نے یہ بات سنی تو اپنی ٹانگ ہلانے لگا۔مرغا ہنس کر بولا:” حضور! سلام عرض کرتا ہوں۔کبھی مردے بھی ٹانگ ہلاتے ہیں؟میں آپ کے دھوکے میں نہیں آسکتا۔“
اور یہ کہہ کر وہ ہنستا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔لومڑ اور بھیڑیا اسے دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔