چچا چھکن نو چندی دیکھنے چلے
امتیاز علی تاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا نہ کرے جو چچا چھکن کو کہیں کا سفر در پیش ہو ۔وہ آفت مچاتے اور دھومک دھیا کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ !بڑے شکر کا مقام تو یہ ہے کہ خودسفرسے کتراتے ہیں ۔چُھنو آپا کی شادی ہوئی ۔چچی بیچاری جانا جانا کرتی رہ گئیں ،پر چچا نے لکھ بھیجا ۔ننھی کو گئے دنوں پسلی ہو گئی تھی۔حکیم جی ابھی سفر کی اجازت نہیں دیتے ۔بنو آپا کے ہاں پہلو نٹھی کا لڑکا ہوا ۔چچی غریب نے بچے کیلئے کچھ نہیں تو درجن بھر جوڑے تیار کیے ہوں گے ۔خود لے کر جانا چاہتی تھیں ،پر چچا نے عین وقت پر ارادہ فسخ کر دیا ۔پارسل کے ساتھ خط میں لکھ بھیجا ۔’’چُھٹن کی باری ابھی نہیں ٹلی ۔مجبور ہوں کہ ابھی نہیں آسکتا ۔‘‘
چچی غریب کا کہنا تو بآسانی ٹل جاتا ہے ،پر جہاں کہیں یاروں دوستوں نے کسی میلے یا عرس پر جانے کی تیاریاں کیں ، چچا سے ساتھ چلنے پر اصرار کیا ،ذرا وہاں کی رونق اور گہما گہمی بیان کر دی ،ساتھ ہی طعنہ دیا ۔’’اما جا چکے تم ۔گھر سے اجازت ہی نہیں ملنے کی ۔ڈانٹ دیں گی بیگم صاحبہ ،‘‘بس تڑپ اٹھے چچا ۔
’’واہ! وہ نیک بخت تو خود مجھ سے کہتی رہتی ہے کہ کبھی گھر سے نکلا بھی کرو ۔اور اگر نہ بھی کہتی ہو تو میں کسی کا بندھا غلام ہوں کہ جی چاہے اور نہ جاؤں۔ بھئی تمھیں ہماری ہی قسم جواب جانے کا ارادہ ملتوی کرو۔‘‘
یہ صورت حالات ہو تو اللہ ہی نے کہا ہے کہ اس قسم کے ہر سفر پر چچا اور چچی میں کھٹ پٹ ہو جائے ۔
ابھی پچھلی ہی نو چندی پر منے مرزا اور نوشہ میاں نے میرٹھ چلنے کی ٹھانی ۔چچا سے ٹھہری ان کی دانت کا ٹی روٹی ۔دو چار فقرے جو کسے تو چچا چلنے پر آمادہ ہو گئے ۔شام کو روانگی کا ارادہ تھا ۔صبح ناشتے کے وقت باتوں باتوں میں چچی اماں سے اس کا ذکر کیا ۔
’’وہ منے اور نوشاہ جا رہے تھے نو چندی میں ۔کہو تو ہم بھی ہو آئیں ؟‘‘
چچی اماں بھڑک اٹھیں ۔’’اللہ سمجھے اس منے اور نوشاہ سے ۔خدائی خوار کہیں کے۔ کبھی کوئی نیک راہ نہ دکھائی۔ میں کہتی ہوں ،یہ تو تمھاری عمر۔ بال کھچڑی ہو گئے ۔خیر سے کئی کئی بچوں کے باپ بن چکے ۔
ابھی میلے ٹھیلے کا شوق نہیں گیا ؟مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کہو تو ہم بھی ہو آئیں ۔جیسے میرے ہی کہے میں تو ہیں ۔کنبے میں شادی غمی کے بیسیوں موقعے گذر گئے۔ کہتی رہ گئی کہ وقت گزر جاتا ہے ،بات رہ جاتی ہے۔ بس ایک دو روز کے لیے مجھے لے چلتے ۔ٹلا ٹلا دیا۔ غضب خدا کا سفید بال ہوتے جھوٹے بہانے لکھ لکھ کر بھیج دیے۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔ آ نوچندی کے لیے مجھ سے پوچھنے آئے ہیں کہ کہو تو ہم بھی ہو آئیں ۔جاؤ شوق سے جاؤ۔ میں نے پیروں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ میرا کیا ہے ،دنیا کہے گی، بوڑھے منہ مہا سے لوگ آئے تماشے دیکھنے ۔باسی کڑھی کا ابال۔ پڑی کہے مجھے تو جب خیال ہوتا جو میرے کہے میں ہوتے ۔‘‘
ایسے موقعوں پر بچے غریب ضرور کوئی خطا کر بیٹھتے ہیں۔چھٹن دکھیا صحن میں بیٹھا مرغی کے بچوں کو دانہ کھلا رہا تھا ،چچا کی نظر پڑ گئی۔’’یہ کیا ہو رہا ہے چھٹن ؟بس صبح ہوئی نہیں اور تیرا مرغی کے بچوں کا کھیل شروع ہو گیا ۔تختی لکھ لی ؟آموختہ دہرایا ؟نالائق کہیں کا۔ سال بھر ہو گیا مولوی صاحب سے پڑھتے ۔ابھی تک لکھنا نہیں سیکھا۔ جب دیکھو مرغی کے بچوں کا کھیل۔یہ ہوتے ہیں اشرافوں کے بچوں کے لچھن ؟مرغ باز بننا ہے تجھے ؟اٹھ یہاں سے۔ چل اپنی کتاب پڑھ۔‘‘
اس کے بعد چچا امامی کو حقہ تازہ کرنے کا حکم دے کر دیوان خانے میں چپ چاپ جا بیٹھے ۔
گھنٹے بھر کے بعد چچی نے ادھر سے گزرتے گزرتے دیوان خانے کا کواڑ کھول کر پوچھا ۔’’وہ کیا اسباب جائے گا ساتھ؟ بتا دیتے تو بندھ جا تا ۔‘‘
چچا نے بیٹھے بیٹھے کڑک کر جواب دیا ۔’’میں نہیں جا رہا ۔‘‘
چچی اندر چلی گئیں ۔بولیں ۔’’یہ بگڑ کس بات پر بیٹھے ؟اے بس اتنی سی بات میرے منہ سے نکل گئی نا کہ کنبے میں سے بلاوے آئے تو ٹال ٹال گئے اور نو چندی جانے کی جھٹ پٹ تیاری کرلی تمہیں کہو کچھ جھوٹ کہا تھا میں نے ؟‘‘
چچا نے بگڑ کر کہا ۔’’بس کان نہ کھاؤ میرے ۔کہہ جو دیا میں نہیں جا رہا ۔‘‘
چچی کو بھی غصہ آگیا ۔’’نہیں جاتے نہ جاؤ۔ میری بلا سے رانی روٹھیں گی اپنا سہاگ لیں گی ……اور نہیں تو ۔‘‘
یہ کہہ چچی زور سے کواڑ بند کر کے اندرچلی آئیں ۔
ذرا سی دیر بعد منے اور نوشاہ آ پہنچے ۔دروازے کی چِق اٹھا کر باہر ہی کھڑے کھڑے بولے ۔’’بس بس بیٹھیں گے نہیں اس وقت۔ پوچھنے آئے تھے کہ تیار ہونا ؟کہیں عین وقت پر بہانے بنانے بیٹھ جاؤ ۔ساڑھے چار چھوٹ جاتی ہے گاڑی ۔ذراا س کا خیال رہے ۔‘‘
دوپہر تک چچا دیوان خانے میں ہی بیٹھے رہے ۔دے حقہ پر حقہ اور پا ن پر پان ۔دوپہر کا کھانا بھی وہیں منگوایا ۔اما می جھوٹے برتن اٹھا کر چلنے لگا تو اس سے کہا۔ ’’دیکھ بیوی سے جا کر کہہ دے اسباب بندھ جائے گا، آپ بس ناشتے کا انتظام کر دیجیے۔‘‘
پیغام بھیج کر چچا کان کواڑ سے لگائے سنتے رہے ،کہ کیا جواب ملتا ہے ۔چچی سن کر چپ ہو رہیں، تو آپ کواڑ کھول اندر آگئے ۔دو ایک مرتبہ زنان خانے میں آئے گئے ۔کبھی رستے میں تھم گئے مڑنا چاہا نہ مڑے ۔بڑھے چلے گئے۔ پھر یک لخت مڑ گئے ۔کھڑے ہو کر داڑھی کے بالوں میں سے ٹھوڑی کھجائی۔ پھر سیدھا اپنے کمرے کا رستہ لیا۔ ذرا سی دیر کے بعد کرتے کے اندر ہاتھ ڈال کر سینہ کھجلاتے ہوئے باہر نکل آئے۔ کچھ دیر چبوترے پر کھڑے رہے پھر غراپ سے اندر ۔
آواز آئی ۔’’او امامی !یہاں آئیو!‘‘
گھر بھر کے کان کھڑے ہوئے کہ ہوئیں سفر کی تیاریاں شروع ذرا جائیو تو بھاگ کر اللہ بخش درزی کے ہاں۔ کہنا میاں آج نو چندی میں جا رہے ہیں انگر کھا سل گیا ہو تو دے دے ۔اور نہ سلا ہو تو یاد کر کے کہہ دیجیؤ،میاں کہتے تھے سلائی نہیں ملنے کی۔ سمجھ گیا ؟‘‘
ادھر امامی رخصت ہوا ادھر مودے کی باری آئی ۔’’مودے!ارے او مودے !یہاں آئیو!جانا ذرا ماتا دین کے ہاں ۔پرسوں اس نے وعدہ کیا تھا کہ آج ہمارے کپڑے دھو کر دے دے گا ۔اس سے کہیؤ۔ میاں آج نو چندی میں جا رہے ہیں کپڑے دھل گئے ہوں تو دے دے۔ سمجھ گیا؟جائیو تو جھپاک سے۔ اور ہاں سننا دو جوڑے ہیں ہمارے۔ ایک میں غرارہ ہے اور ساتھ ایک انگر کھا ہے……ہئی ہے! وہ امامی چلا گیا درزی کے ہاں ؟اب کیا کروں ؟یہ بندو کہاں گیا ؟او بندو !ارے بندو !جانا تو بھاگ کے امامی کے پیچھے اللہ بخش درزی کے ہاں اور اس سے کہیو کہ ایک انگر کھا جو نمونے کا دے رکھا ہے وہ بھی دے دے۔ میاں نو چندی میں جا رہے ہیں۔ نیا انگر کھا سلا ہو یا نہ سلا ہو ،نمونے کا۱نگر کھا لے لینا سمجھ گیا ؟دوڑ کر جا ۔۔۔ہاں تو کہیو ماتا دین سے کہ میاں نو چندی میں جا رہے ہیں۔سمجھ گیا۔ دو جوڑے ایک انگر کھا ،ایک رومال ،ایک بنیان ،ایک ازار بند ،سب چیزیں گن کر لیجیؤ،اور دیکھنا راستے میں کچھ گرا نہ دینا۔ دیکھوں تو کتنی جلدی آتا ہے ۔‘‘
ملازم کام پر روانہ ہو گئے تو اب گھر کے لوگوں کی باری آئی ۔’’ارے بھئی کہاں چھپ کر بیٹھ رہے تم سب لوگ ؟کام نظر آیا اور بس روح ہوئی فنا۔ یوں نہیں کہ مل ملا کر ختم کر دیں قصہ۔ ارے بھئی یہاں آؤ۔ تم میرا بستر اٹھا کر لاؤ للو۔ بنو بیٹی !جاؤ تم غسل کھانے میں سے ہماری صابن دانی ،منجن کی ڈبیااور تولیالے آؤ۔چھٹن !ارے چھٹن!جانا اپنی اماں کے کمرے میں۔وہاں سے ہمارا آئینہ ،کنگھا اور تیل کی شیشی اٹھالا ۔سب چیزیں لاکر یہاں فرش پر رکھ دو اور یہ تم کہاں چلے ددّو؟ارے بھئی کہا جو ہے کہ ٹھہرے رہو تھوڑی دیر یہیں ۔جانتے ہو شام کی گاڑی سے نوچندی دیکھنے جا رہا ہوں۔ کام کی یہ کثرت ہے اور سرک چلے !جاؤ میرا بکس اٹھا لاؤ ۔اور پھر اپنی چچی اماں سے جا کر کہنا پچھلی دھلائی آئی تھی تو ہمارے دو رومال آپ کے کپڑوں میں چلے گئے تھے ۔وہ نکال دیں ۔۔۔بنو بیٹی لے آئیں سب چیزیں ؟شابش شابش۔یہاں رکھ دو۔ پر یہ کیا اٹھا لائیں تم ؟یہ میری منجن دانی ہے سامنے رکھی ہوئی چیز نہیں دکھائی دیتی۔ ارے چھٹن کون سا آئینہ اُٹھائے لا رہا ہے ۔بھئی بڑا پریشان کیا ہے ان لوگوں نے ۔ارے احمق ہمارا آئینہ ہمارا آئینہ !‘‘
گھنٹے بھر کی تو تو میں میں کے بعد کہیں سب چیزیں کمرے میں جمع ہوئیں اور چچا نے اُنھیں بکس میں رکھنا شروع کیا۔ تمام نوکر اور بچے اردل میں موجود۔ چیزیں زیادہ ،بکس میں جگہ کم ۔چچا ایڑی چوٹی کا زور کا لگا کر انہیں ٹھونس رہے ہیں پر کسی طرح نہیں سماتیں۔ زور لگا لگا کر منہ لال ہو رہا ہے۔ پیشانی سے پسینے کی بوندیں ٹپک رہی ہیں ۔ایسے موقع پر کسی کو ہنسی آجانا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ چچا چونک کر مڑتے ہیں ۔’’کون تھا یہ؟نالائق بد تمیز کہیں کے ۔ہنسی کی کیا بات تھی ؟کوئی تماشہ ہو رہا ہے یہاں ؟ریل کا وقت سر پر آگیا ہے اور انہیں ہنسی سوجھ رہی ہے۔ نکلو یہاں سے باہر جا کر ہنسو ۔‘‘
ادھر کمرے میں سے قافلہ نکلتا ہے، ادھر آواز آتی ہے۔ ’’ارے کم بختو!کہاں جا کر مر رہے سب کے سب ؟او امامی !ارے او بندو !سانپ سونگھ گیا کیا ؟یہاں آخر بکس کا ڈھکنا بند کراؤ۔ بیٹھو اس کے اوپر چڑھ کر ۔‘‘
بکس بند ہو چکا تو اب بستر کی باری آئی ۔’’ابے یوں نہیں یوں۔ اس طرح موڑ۔ اندھے ادھر دیکھ ۔میں کیا کررہا ہوں۔ اب لپیٹ۔ اچھی طرح دبا کر جان بھی ہے ہاتھوں میں ؟کھانا کھا کر سانڈ تو بن گیا ہے اور بستر نہیں لپیٹ سکتا ؟ابے اس طرح۔ یوں۔ بس اب بیٹھا رہنا اوپر۔ ہٹیو مت ۔میں نکالتا ہوں رسی نیچے سے !ہا گدھے !ساری کی کرائی پر پانی پھیر دیا ۔‘‘
یہاں بستر ہی سے کشتی ہو رہی تھی، ادھر منے مرزا اور نوشاہ میاں تیار ہو کر آن بھی پہنچے ۔آوازیں آنی شروع ہو گئیں ۔’’اماں چلو۔ اب کیا ہو رہا ہے اندر ؟آدھ گھنٹہ رہ گیا ہے ریل کے چھوٹنے میں۔ ارے بھئی کون سا مہینوں کا سفر ہے کہ رخصت ہونے میں گھنٹے صرف ہو گئے ؟اب نکل بھی چکو گھر میں سے ۔سامان تو بجھوا دو کہ تانگے میں رکھ دیا جائے ۔‘‘
ادھر اندر چچا بستر باندھ رہے ہیں ۔ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ اور پکار پکار کر احکام سنا رہے ہیں ۔’’اماں للو!دیکھنا وہ ناشتہ بھی بندھ گیا؟اپنی اماں سے کہنا ایک لوٹا اور ایلومینیم کا گلاس بھی نکال دیں ۔ارے بھئی ودو!کسی سے کہو اسباب پاہر پہنچانا شروع کرے۔ ہئی ہئی وقت تو بہت ہی تھوڑا رہ گیا۔ ارے بھئی کہہ دو باہر کہ بس ابھی آیا ۔ذرا میری اچکن اور ٹوپی کھونٹی پر سے اتار دینا ۔اور اپنی چچی سے کہنا۔ کچھ روپے بھی سفر خرچ کیلئے نکال دیں ۔اماں آرہا ہوں منے آرہا ہوں۔ تم تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اسباب باندھ رہا تھا۔ بس آیا ۔‘‘
اتنے میں چچی کمرے میں آگئیں ۔بولیں ’’اور یہ نئی وصلی کی جوتی ساتھ نہ لیتے گئے ؟‘‘
چچاپاگلوں کی طرح مڑ کر دیکھتے ہیں تو جوتی بندھنے سے رہ گئی ہے ۔’’اب کیا کروں ؟ریل کا تو وقت ہو گیا۔ اماں ٹھونس بھی دو بستر میں کہیں ۔نہ نہ یوں تو گڑ پڑے گی۔ تم کھول لو بستر ۔ارے بھئی جلدی کرو۔ ریل کا وقت ہو گیا۔ اماں آرہا ہوں نوشے !چھٹن بیٹے باہر جا کر کہنا اسباب باندھ رہے ہیں۔ ابھی آئے ۔اماں کھول بھی چکو بستر۔ لاحول ولا۔ ارے بھئی کاٹ بھی دو رسیوں کو ذرا ساتو وقت رہ گیا ہے۔‘‘
بستر کھلا پڑا تھا۔ کہ چچی پوچھ بیٹھیں ۔’’کوئی موزوں کی جوڑی بھی رکھ دی صندوق میں ؟‘‘
چچا بستر چھوڑ چچی کا منہ تکنے لگے ۔’’موزے؟رکھ ہی لیے ہوں گے کہ اللہ جانے رہ گئے !کچھ یاد نہیں آتا۔ ارے بھئی کھولنا جلدی سے صندوق۔ تم بستر باندھو للو ۔یہ رہی چابی صندوق کی ۔کھولتا ہوں۔ ریل کا تو وقت ہو گیا۔ ارے اما ں ودو!جا کر کہنا باہر کہ بس میں آیا کہ آیا ۔بنو بیٹھی دیکھنا تو ذرا صندوق میں موزے ۔ارے بھائی بستر نہیں بندھا اب تک ؟ اب کہیں باندھ بھی چکو ۔اس کونے میں دیکھیو۔موزے ہونگے تو ادھر ہی ہوں گے ۔یہ رکھے تو ہیں ۔خواہ مخوا وقت ضائع کرواتی ہیں۔ دوسرے کو تو نرا احمق سمجھ رکھاہے ۔ارے بھئی بس بند کرو صندوق ۔یہ نفاستیں رہنے دو ۔چیزیں جیسی ہیں ،اب پڑی رہیں۔ خدا کے لیے تالا لگاؤ تم ۔کہاں گیا تالا ؟ارے بھئی کون لے گیا؟ کس نے اٹھا لیا تالا ؟‘‘
لیجیے تالے کی ڈھنڈیا پڑ گئی ۔جسے دیکھیے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر فرش پر تالا تلاش کر رہا ہے۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ چچا جان کے ہاتھ ہی میں تھا ۔
چچا شیروانی کی آستینوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے زنان خانے سے نکلے تو انتظار کر کر کے منے مرزا اور نوشاہ میاں اسٹیشن پر جا چکے تھے۔
’’ارے امامی !لپک کر کوئی اکا تو پکڑ۔ذرا آگے بڑھ کر دیکھ پیسے ٹھیک کر لیجو۔تم عدد گنو للو،اور ہمارے ساتھ کون جائے گا ؟وِدّو تم چلنا ۔اور تو امامی۔ اے لو وہ آگیا اکا۔اسباب لا دو۔ تم سوار ہو جاؤ وِدّو ۔تو بھی بیٹھ جا امامی۔ پیسے ٹھہرا لیے نا اکے والے سے ؟لے میرا بھائی ،اب ہوا کی طرح چل۔ نوچندی پر جا رہے ہیں ہم۔ ریل کا وقت ہو گیا ہے اڑکر چل۔ رہ نہ جائیں گاڑ ی سے ۔عدد گن لیے تھے ودو؟اور وہ پانوں کی ڈبیا ؟ہئی ہے خیال ہی نہ رہا ۔چلو نوشے کے پاس ہوں گے پان۔ارے بھئی ذرا چال دکھا جانور کی ۔۔۔ایسے نکمے لوگ ہیں کہ خدا کی پناہ !بس ذرا کام ہو بوکھلا جاتے ہیں ۔یوں نہیں آرام آرام سے مزے مزے سے فارغ ہو جائیں ۔گھنٹوں پہلے تیاری شروع کرو ،وقت پر وہی جھینکنا۔عاجز آگیا ہوں میں تو ۔‘‘
خدا خدا کر کے کہیں اسٹیشن پر پہنچنا ہوا ۔وہاں قلیوں سے بات نہ ٹھہر سکی۔ اچھی خاصی ردو قدح کے بعد بکس اور بستر امامی کے سر پر رکھ کر پل کا رخ کیا ۔وہاں بابو سے معلوم ہواکہ ٹکٹ کے بغیر ریل کے سفر کی کوشش جرم ہے ۔
چچا لاحول پڑھتے ہوئے ٹکٹ گھر کی طرف دوڑے بابو سے میرٹھ کا ٹکٹ مانگا تو معلوم ہوا کے کل صبح سے پہلے کوئی گاڑی میرٹھ روانہ نہ ہوگی۔