چچا چھکن نے ایک خط لکھا
امتیاز علی تاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وثوق سے یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ چچا چھکن جب کسی کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو اس وقت ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے ۔خود نمائی کے شوق سے ناچار ہوتے ہیں یا محض دستگیرئ خلق کا جذبہ دامن گیر ہوتا ہے ۔ذر ادیر کو مان لیاکہ دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں ۔خود نمائی کا شوق بھی اور دستگیری خلق کا بھی ۔تو میں کہتا ہوں ،ایک بار یہ ہونا ممکن ہے ،دو بار ہونا ممکن ہے۔ ایک دو بار نہ سہی دس بیس بار سہی ،پر آخر دنیا میں تجربہ بھی تو کوئی شے ہے ۔کبھی تو خیال آئے کہ اے شخص!بیٹھے بٹھائے تجھے جو ہُلہُلا اٹھا کرتا ہے ،تو تو نے آج تک کوئی کام سلیقے سے نمٹایا بھی ؟کہیں حاصل بھی ہوئی سرخروئی ؟کسی نے داد بھی دی تیری کاردانی کی؟ چارہ گری کا دعویٰ وہ کرے جسے اپنی تجربہ کاری پر تکیہ ہوا اور جو یہ نہیں تو کیوں ایسی بات کرے جس سے کالی ہانڈی سر پر دھری جائے ۔
اب آج ہی کا دعویٰ ہے کہ چچی کو ایک دعوت نامہ کا جواب لکھنے کی ضرورت پیش آئی ۔اتفاق سے ان کا ہاتھ تھا رُکا ہوا، چچا چھکن حسب معمول فارغ بیٹھے تھے ،جواب مختصر سا لکھنا تھا ،کام بھی جلدی کا تھا ،پھر کیا امر انھیں اپنی خدمات پیش کرنے میں مانع ہو سکتا تھا ؟چنانچہ لکھا آپ نے جواب ۔اس کیلئے کیا کچھ اہتمام ہوا ،گھر میں کیسا ہلڑ مچا ،اور پھر کیا نتیجہ نکلا ،اس کی داستان سننے سے تعلق رکھتی ہے ۔
بات یوں ہوئی کہ صبح کے وقت چچی دالان میں چار پائی پر بیٹھی بچوں کو چائے پلا رہی تھیں ۔چچاچائے سے فارغ ہو کر صحن میں کرسی پر اکڑوں بیٹھے حقہ پی رہے تھے ۔ایک گائے خریدنے کی ضرورت اور اس کے متوقع فوائد و نقصانات کے انفرادی اور اجتماعی نتائج وعواقب کے متعلق چچی کو معلومات بخشی جا رہی تھیں ۔اتنے میں باہر دروازے پر کسی نے آواز دی ۔بندو بھاگتا ہوا گیا اور ایک خط لے کر واپس آیا، چچی پرچ سے چھٹن کو چائے پلا رہی تھیں ،خط لا کر ان کے قریب رکھ دیا ۔
اتنے پرچ کی چائے ختم ہو اور چچی خط اٹھائیں ،چچا نے دس مرتبہ پوچھ ڈالا ۔’’کس کا خط ہے؟کہاں سے آیا ؟کس نے بھیجا ہے؟کیا بات ہے ؟‘‘چچی چڑ گئیں ۔’’توبہ ہے !کھولنے پائی نہیں اور سوالات کا تانتا باندھ دیا ۔مجھے غیب کا علم تو آتا نہیں کہ دیکھے بغیر بتا دوں ،کس کا خط ہے؟‘‘
چچا کچھ خفیف سے ہو گئے ۔’’بھلا صاحب خطا ہوئی کہ پوچھا ہماری بلا سے کسی کا ہو ۔‘‘یہ کہہ کر سر موڑ جلد جلد حقے کے کش لینے لگے ۔
بندو نے کہا ۔’’بیگم صاحب آدمی جواب کے انتظار میں کھڑا ہے ۔‘‘یہ سن کر چچا سے نہ بیٹھا گیا ۔چار پانچ کش لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔کرتے میں ہاتھ دال پیٹ کھجاتے رہے ،پھر بے تکلفی کے انداز میں ٹہلتے ہوئے باہر نکل گئے۔
چند منٹ بعد واپس آئے ۔کچھ دیر بے ترتیبی سے صحن میں ٹہلے ،منتظر تھے کہ شاید چچی مخاطب کریں ۔آخر نہ رہا گیا تو خود ہی پوچھا ۔’’کیالکھا ہے منصرم صاحب کی بیوی نے ؟‘‘
چچی نے چائے کی پرچ چھٹن کے منہ سے لگاتے ہوئے بے پروائی سے کہا ۔’’رات کھانے پر بلایا ہے۔‘‘
چچا کا احتراز و تامل رخصت ہو گیا ۔’’کیا بات ہے ؟کوئی تقریب ؟‘‘
چچی نے کسی قدر سر سری انداز میں کہا ۔’’بات کیا ہوتی میر منشی صاحب کی بیوی مجھ سے ملنا چاہتی تھیں ،انھیں اور مجھے دونوں کو کھانے پر بلایا ہے ۔‘‘
شاید مزید اطمینان حاصل کرنے کو چچا بولے ۔’’تو گویا زنانہ ضیافت ہے!‘‘پھر غالباًخیال آیا کہ بیوی کا کہیں مدعو کیا جانا ایک طرح میاں ہی کی ہر دلعزیزی اور قدر و وقعت کا اعتراف ہے ،چنانچہ اس جذبے کے ماتحت منصرم صاحب کی بیوی کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے ۔’’بہت معقول بیوی ہیں ،ایسی ملنسار بیویاں کہاں نظر آتی ہیں آج کل ،ضرور جاؤ ضیافت میں بلکہ کوئی موقع ہو تو انھیں بھی اپنے ہاں مدعو کرو ۔‘‘ساتھ ہی ایک مشورہ بھی فیصلے کی صورت میں پیش کیا ،’’بچے تو جائیں ہی گے ساتھ۔‘‘
چچی نے کچھ بگڑ کر آہستہ سے کہا ۔’’ہمسایوں کو بھی نہ لیتی جاؤں ۔‘‘
چچا کو یہ جواب ناگوارنہ گزرا ۔ایک تو چچی بولی آہستہ سے تھیں،دوسرے کچھ زیادہ عام فہم بات نہ تھی ۔بہر حال پیٹ سہلاتے ہوئے مڑنے لگے ۔پھر رکے کہا ۔’’اُن کا ملازم جواب کا تقاضا کر رہا تھا ۔‘‘
چچی نے جواب میں چھٹن کو مخاطب کیا ۔’’کم بخت خُدا کیلئے کہیں ختم بھی کر چک چائے ۔کھیل کیے جا رہا ہے ۔کس وقت سے پرچ پیالی لیے بیٹھی ہوں ۔نہ خود پینی نصیب ہوئی ہے ،نہ ابھی نوکرو ں کو ملی ہے ۔ادھر چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے ،ادھر باہر سے جواب کا تقاضا چلا آرہا ہے۔‘‘
آپ جانئے ،ایسا موقع ہوا اور چچا اپنی خدمات پیش کرنے سے رک جائیں ۔بولے ’’ہم لکھ دیں جواب ؟‘‘
چچی بولیں ۔’’نہ بس معاف رکھیے ۔فارغ ہو کر میں آپ ہی لکھ لوں گی ۔‘‘
روکے جانے کا باعث چچاکیونکر بوجھیں ،بولے ’’کیا معنی ،ہم خط لکھنا نہیں جانتے ؟‘‘
چچی نے چپ ہی رہنا مناسب سمجھا ،چچا کی کچھ تسکین نہ ہوئی ۔
’’اب کوئی فارغ خطی تو لکھنی نہیں ،دعوت منظور کرنے ہی کا خط لکھنا ہے نا؟تو اس کا لکھنا ایسی کون سی جوئے شیر لانا ہے۔‘‘
اتنے میں چھٹن نے جو جلدی سے چائے کا گھونٹ بھرا ،اسے اچھو آگیا ۔چائے کی کلی چچی کے کپڑوں پر پڑی ۔وہ انڈیل رہی تھیں پرچ مین چائے ،ان کا ہاتھ ہل گیا ،ساری چائے کپڑوں پر آن پڑی ۔چچی ’’ہانا مراد !‘‘کہتی ہوئی تولیے سے کپڑے پوچھنے لگیں ۔اُدھر باہر سے آواز آئی ’’کیوں صاحب ملے گا جواب ؟‘‘چچی نے گھبرا کر چچا سے کہہ دیا ۔’’اچھا پھر اب تم ہی یہ لکھ دو کہ آجاؤں گی۔‘‘
اب کیا تھا ،چچا کو منہ مانگی مراد ملی ۔خط و کتابت کے متعلق ضرور ی سامان فراہم کیے جا نے کے احکام صادر ہونے لگے ۔’’بندو میرا بھائی ذرا لانا تو خط لکھنے کا سامان جھپاک سے ۔کیاکیا لائے گا بھلا؟قلم دوات اور کاگز،شاباش !مگر کون سے کاگز؟آسمانی رنگ کے بڑھیا ،رول دار ،جن کی کاپی سی ہے ۔ہاں ذرا دکھانا تو اپنی چال ۔اور سنیو……..چلا گیا ؟لفافہ بھی تو چاہیے ہو گا ۔ار ے بھئی !کوئی لفافہ بھی تو لاؤ ۔تو جا کر لائیو مودے ،پر نیلے ہی رنگ کا ہو لفافہ ۔صندوقچے میں رکھے ہیں ،لکڑی کے صندوقچے میں ۔الماری میں ہوگا صندوقچہ ،ہری الماری میں ۔سن لیا نا ؟ذرا پھرتی سے۔‘‘
یہ تو چچا کی عادت ہی نہ ٹھہری کہ ایک مرتبہ یاد کر کے کہہ دیں ،کیا کیا چیز چاہیے ہے ،ادھر مودا آگیا ،ادھر جاذب یاد آگیا ۔’’ارے ہاں اور جاذب بھی تو لانا ہے ۔بھئی جاذب!جاذب! کوئی نہیں سنتا ۔یہ امامی کہاں گیا ؟او امامی ۔ابے او امامی !دیکھیں اس بدمعاش کی حرکتیں ۔بس کام نکلنے کی دیر ہے اور یہ غائب ۔کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا ۔ذرا تم چلے جاتے میاں للو ۔وہ جوہری کاپی ہے نسخوں کی ،وہ جس میں ہم نسخے نہیں لکھا کرتے ؟عجب کوڑھ مغز ہو ،بھئی کیمیا کے نسخے ،لاحول ولا ،میاں کاپی ،ہری کاپی ،نسخوں والی ۔خیر اب تم نے دیکھی ہے یا نہیں ،وہ ہمارے تکیے کے نیچے رکھی ہے ،اس میں ایک جاذب ہے وہ نکال لاؤ ۔اور دیکھنا ،اماں سنوْ !ارے بھئی للو !ارے میاں للو !او للو کے بچے ۔عجب حالت ہے ان لوگوں کی ۔بس ایسے گھبرا جاتے ہیں جیسے ریل ہی توپکڑنی ہے ۔ودو تم جا کر کہو جاذب نہ لائیں کاپی ہی لے آئیں ۔آخر خط بھی تو کسی چیز پر رکھ کر لکھا جائے گا ۔ہاتھ پر تو رکھ کر میں لکھنے سے رہا ۔اور سننا میری بات وہ کہیں ہمارا چشمہ بھی رکھا ہوگا ،وہ بھی ڈھونڈتے لانا ۔‘‘
لیجئے صاحب ایک دو منٹ میں گھر کا گھر مصروف ہو گیا ۔ایک کو کوئی چیزمل گئی ،دوسرا خالی ہاتھ چلا آرہا ہے کہ فلاں چیز نہیں ملتی ۔کوئی کہتا ہے کہ فلاں چیز مفقل ہے ،کنجیوں کا گچھا ڈھونڈا جا رہا ہے ،چچا بگڑ رہے ہیں ۔مونچھوں سے چنگاریاں نکل رہی ہیں ۔
’’ آنکھیں ہوں تو چیز سجھائی دے ۔اور پھر یہ بھی تو نہیں کہ ہم یہاں کھڑے ہیں ،ہم سے آکر کہیں کہ صاحب فلاں چیز اپنے ٹھکانے پر نہیں ہے ،کہاں ہو گی ۔۔سراغرساں کے بچے خود تلاش کر کے رہیں گے ۔پوچھنے میں تو ان کی سبکی ہو تی ہے ۔آن پر حرف آتا ہے ۔پھر اب کیوں آئے ہو ؟ڈھونڈو خود جا کر۔اپنی جگہ پر نہیں چیز تو تم ہی بد معاشوں نے کہیں کی ہوگی غائب۔‘‘
خُدا خُدا کر کے تمام چیزیں جمع ہوئیں ،چچا نے چشمہ لگایا ،کرسی پر براجمان ہوئے ،لڑکے چیزیں لیے ارد گرد کھڑے ہو گئے ۔کاغذ سنبھالا ،کاپی نیچے رکھی ،قلم ہاتھ میں لیا ۔اب دیکھتے ہیں تو اس کانب ندارد!’’ہیں اور نب کہاں ہے ؟لاحول ولا قوۃالا باللہ ،ابے اندھے اس سے لکھوں گا خط؟ابے اس سے لکھنا ہوتا تو میں اپنی انگلی سے ہی لکھ لیتا ؟تجھے قلم لانے کو کیوں کہتا ؟مگر یہ اُتارا کس نے اس کا نب ؟اس بد تمیزی اور بد تہذیبی کے معنی کیا ؟میں آج معلوم کر کے رہوں گا ،یہ حرکت کس نا معقول کی ہے ۔‘‘
باہر سے آواز آئی ۔’’اجی صاحب جواب کے لیے کھڑے ہیں ۔‘‘
چچی یہ سب کیفیت دیکھ رہی تھیں اور دل ہی دل میں پیچ وتاب کھا رہی تھیں ۔آواز سن کر نہ رہا گیا ،بولیں ’’خُدا کے لیے اب تم اس جرح کو بند کرو اور لکھنا ہے تو لکھ دو ۔وہ غریب باہر کھڑا سوکھ رہا ہے ۔یہ قلم نہیں تو میرا قلم موجود ہے ،جا بنّو میرا قلم لادے ۔‘‘
چچا اس وقت جوش میں تھے اور بر عم خویش محض تکلیف پہنچنے کے خیال سے نہیں بلکہ ایک اُصول کی خاطر بات کو طول دے رہے تھے ،اس وقت چچی پر بھی برس پڑے ۔’’تمھاری ہی شہ پا کر تو نوکروں اور بچوں کی عادتیں بگڑ رہی ہیں ۔یہ ضرور ان ہی میں سے کسی کی حرکت ہے ۔کوئی بچہ یا ملازم ہمارے اس قلم سے تفریح کرتا رہا ہے اور اسی نے اس کانب ضائع کیا ہے۔قلم کو سب غور سے دیکھواور سچ سچ بتاؤ کہ یہ حرکت کس کی ہے؟‘‘
اتنے میں بنو چچی کی قلم لے آئی ۔چچا کا آخری فقرہ سن کر اس نے قلم پر نگاہ ڈالی تو بولی ۔’’لال قلم !ابا میاں کل آپ ہی نے تو ازار بند ڈالنے کو اس کا نب اتارا تھا ۔‘‘
چچا نے گھور کر بنو کو دیکھا ،قلم کو دیکھا ،کچھ سوچا،کھنکار کر گلا صاف کیا ،کرسی پر پینترا بدلا ۔کن انکھیوں سے چچی اماں پر نظر ڈالی ،قلم بنو کے ہاتھ سے لے لیا ،سر جھکا کر انگوٹھے کے ناخن پر اس کا نب پر کھنے لگے ۔بولے ’’چلو اب اسی سے کام چل جائے گا ۔‘‘
بمقابلہ پچھلی گفتگو کے آواز کا سر بہت مدہم تھا ۔
جو لڑکا دوات لیے کھڑا تھا ،اسے آگے بڑھنے کا حکم دیا ،خط لکھنا شروع کیا ،القاب ہی لکھا ہوگا کہ بولے ۔’’ہئی ہے ۔یہ کیا لفظ لکھ گیا میں !‘‘خط کا کاغذ پھاڑ ڈالا،دوسرا منگوایا ۔ڈوبا لیا لیکن لکھتے لکھتے رک گئے ۔بہت دیر تک مضمون سوچتے رہے ،آخر پھر لکھنا شروع کیا ۔نب اتنی دیر میں خشک ہو چکا تھا ،آپ سمجھے دوا ت میں سیاہی کم ہے ،قلم بے تکلف دوات میں ڈال دیا ۔تحریر شروع کرنے کی دیر تھی کہ سیاہی کا یہ بڑا دھبہ کاغذ پر!لاحول کہہ کر اس کا غذ کو بھی پھاڑ ڈالا ۔تیسرا کاغذ منگوایا،اس پر دو تین سطریں لکھ گئے ۔اس کے بعد قلم روک جو کچھ لکھا تھا پڑھا ۔چہرے ہر کچھ قبض کی سی کیفیات نمودار ہوئیں۔چچی کی طرف دیکھا ،خط کو دیکھا ،چپکے سے پھاڑ ڈالا ۔ہلکے سے مودے سے کہا ۔’’خط کے کاغذوں کی کاپی ہی لے آ۔‘‘
کاغذوں کی کاپی کی کاپی آگئی اور رُقعے کا جواب بے فکری سے لکھا جانا شروع ہو گیا ۔کبھی قلم کا شکوہ کہ نب درست نہیں ۔نیا نب ہے ۔کبھی دوات کی شکایت کہ سیاہی ٹھیک نہیں پھیکی ہے ۔کبھی جاذب برا کہ یہ جاذب ہے یا پتنگ بنانے کا کاغذ ۔ہر شکوہ ایک نیا کاغذ ضائع کرنے کی تمہید ۔اسی میں پون گھنٹہ ہونے آگیا ۔باہر ملازم آوازوں پر آوازیں دے رہا ہے،ادھر چچی فارغ ہو چکی ہیں ۔اور یہ قصہ ختم کرنے کا تقاضا کر رہی ہیں ،بار بار کہہ رہی ہیں کہ خدا کے لیے تم مجھے دو قلم دوات ،میں ابھی دو منٹ میں لکھے دیتی ہوں خط ،مگر چچا اپنی قابلیت کی یہ توہین کیونکر برداشت کر لیں ۔سٹ پٹا گئے ہیں مگر خط لکھنے سے باز نہیں آتے ،پینترے بدل رہے اور کاغذ پر کاغذ ردی کیے چلے جا رہے ہیں ۔
’’میں کیا کروں ،نہ قلم ٹھکانے کا ،نہ دوات درست ،لکھوں اپنے سرسے ؟ادھر یہ سب بلائیں میرے سر پر آن چڑھی ہیں ۔ارے کم بختوں !خدا کیلئے پرے ہٹ کے کھڑے ہو ،میرا دم الجھنے لگا ہے۔بھان متی کا تماشہ تو ہونہیں رہا کہ پلے پڑ رہے ہو ۔کبھی دیکھا نہیں خط کیونکر لکھا جاتا ہے؟……اچھا بھئی سن لیا سن لیا ،ذرا دم لو ،خالی تو بیٹھے نہیں ،جواب ہی لکھ رہے ہیں ……اور بھئی خدا کے لیے دوات ورے لاؤ ۔اب میں ہر بار کرسی پر سے اُ ٹھ کر ڈوبا لوں ……؟انھوں نے اور میرے رہے سہے حواس غائب کر دیئے ہیں ۔ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتی ہیں ۔نہ جانے کہاں کی عرضی نویس ہیں کہ دو منٹ میں جواب لکھ لیں گی ۔آخر دعوت منظور کرنی ہے ۔کچھ ٹکا سا جواب تو دینا نہیں کہ دو حرف لکھ کر قصہ نمٹا دوں ……ارے بھئی آرہا ہے جواب ۔تجھے کام ہے تو ہمیں کام نہیں ہے؟……ہئی ہے !اے لو ،اب نیچے اپنا نام لکھ گیا ۔میری عمر جُروا کی طرف سے خطوں کا جواب لکھنے میں تو گزری نہیں کہ ان باتوں کا خیال رہے ۔میں تھپڑ ماروں گا اگر پھر دوات پرے ہٹائی ،ایک جگہ ہاتھ ہی نہیں رکھتا ۔نالائق ،بے ہودہ کہیں کا ۔کام چور نوالہ حاضر۔‘‘
اب تفصیل کہا ں عرض کروں ،پورے ڈیڑھ گھنٹے میں خط ختم ہوا اور اسے جلدی جلدی بند کر کے چچا نے باہر ملازم کے حوالے کیا ۔اسے بھی ایک مختصر سا لیکچر پلایا۔’’یوں دوسروں کے گھروں پر توائی ڈالنا بڑی بد تمیزی کی بات ہے خط لکھنا کوئی مذاق نہیں ہے ۔ایسا ہی سہل کام ہوتا تو تم سر گاڑی پیر پہیا کر کے روزی کیوں کماتے ۔آج کہیں منشی گیری نہ کر رہے ہوتے ؟خیر اب زیادہ بحث کی ضرورت نہیں تمھیں کیا معلوم تمھارے میاں لکھنے سے پہلے کے گھنٹے سوچ بچار کرتے ہیں ۔‘‘
خط دے کر چچا گھر آئے ۔خوش تھے کہ دیر ہوئی تو کیا ہوا ،خط لکھا توگیا ،اطمینان سے ہاتھ ملنے لگے ۔چچی بھری بیٹھی تھیں ۔بولیں ۔’’خالی ہاتھ ملنے سے کیا ہوگا۔صابن ملو تو انگلیوں کی سیاہی چھوٹے۔‘‘
چچا نے انگلیوں کو دیکھا تو واقعی کالی سیاہ ہو رہی تھیں ۔ابھی کچھ بولنے نہ پائے تھے کہ چچی نے ایک اور فقرہ کسا۔’’خیریت گزری کہ بھنگن کے آنے سے پہلے خط لکھ لیا گیا ،ورنہ اسے بھی اطلاع دینی پڑتی کہ دوبارہ آئے،میاں نے آج ایک خط لکھا ہے۔‘‘
چچا نے کن انکھیوں سے صحن کو دیکھا ۔جس کرسی پر بیٹھ کر خط لکھا تھا ،اس کے چاروں طرف ردی کاغذوں کی پُڑیاں بکھری پڑی تھیں ۔کچھ کہنا چاہا ،مگر فقرہ منہ ہی میں رہ گیا ،ان سنی کر کے غسل خانے میں گھس گئے ،ہاتھ دھو کر مردانے میں جا بیٹھے ۔بھنگن آکر صحن صاف کر گئی تو اندر آئے ،حُقہ بھروایا ،بیٹھ کر پینے لگے ۔چچی کی باتیں دل میں کھٹک رہی تھیں ،ان کی گوش گزاری کے لئے اپنے آپ کو مخاطب کر کے باتیں شروع کر دیں ۔’’اعتراض کرنے کو سب تیار ہیں اس پھو ہڑ گھر میں جہاں نہ کوئی چیز اپنے ٹھکانے پر رہتی ہے ،نہ کوئی نوکر سلیقے کا موجود ہے ۔کوئی اس سے جلدی خط لکھ کر مجھے دکھائے تو میں جانوں اور خط لکھنے کا کیا ہے ،خط چاہو تو منٹ بھر میں لکھ لو مگر وہ کیا خط کہ جس کا نہ املا درست نہ انشا صحیح ۔خط وہ کہ جسے لکھا جائے وہ پڑھ کر جھومنے لگے اور اسے یاد گار کے طور پر سنبھال کر رکھے۔‘‘
چچی خوب جانتی ہیں کیسے موقعوں پر جلدصلح صفائی کر لینی چاہئے ۔معلوم تھا کہ بات نہ بھلا دی تو تمام دن ایسی ہی جلی کٹی جاری رہیں گی۔بولیں ۔’’تو یہ کب کہا میں نے کہ جواب اچھا نہ لکھا گیا ہوگا؟‘‘
بس خوش ہو گئے چچا ۔’’وہ تو ان کے نوکر کو جلدی پڑی تھی ،ورنہ میں پڑھ کر سناتا ،تب تم داد دے سکتیں ۔رات کو دعوت پر منصرم صاحب کی بیوی خط کے متعلق کچھ کہیں تو مجھے بتا ضرور دینا ۔ویسے یہ چاہے اُ ن سے نہ کہنا کہ ہم نے خط لکھا تھا ۔بہر حال تمھیں اختیار ہے۔‘‘
لیکن لطف اس وقت آیا جب دوپہر کو منصرم صاحب کی بیوی کے ہاں سے پھر ایک لفافہ آیا جس میں چچا چھکن کا لکھا ہوا خط رکھا تھا اور ساتھ ہی اس مضمون کا ایک رقعہ تھا ۔’’پیاری بہن!شاید غلطی سے کسی اور کے نام کا خط میرے نام کے لفافے میں رکھ دیا گیا ،واپس بھیجتی ہوں ۔براہ مہربانی اطلاع دیجیے کہ آپ رات کو تشریف لا سکیں گی یا نہیں ؟‘‘
چچی نے چچا کا لکھا ہوا خط پڑھا تو اس کی عبارت یہ تھی :
’’جمیل المناقب عمیم الاحسان زاد عنا یتکم !یہاں
بفضلِ ایزد متعال مالا مال خیریت ہے اور صحت
و تندرستی آپ کی بدر گاہِ مجیب الدعوات خمس الاوقات
مستعدی ہوں ۔صورت حال یہ ہے کہ تلطف
نامہ ساعت مسعود میں ورود ہوا۔ارشادِ سامی و
حکم گرامی کے امتشال میں عذر کرنا بندگانِ مروت
و فتوت سے کیونکر ممکن ہے ۔طمانیت کلی ہو کہ وقت
معین پر حاضری کے شرف و افتخار کا حصول مایۂ ناز
متصور ہو گا ۔‘‘
الہٰی در جہاں باشی با قبال
جواں بخت و جواں دولت جواں سال
(نمیقہ حقیر پُر تقصیر )
یہ خط آنے کے بعد چچا چھکن بار بار مختلف پیرایوں میں اپنی اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عورتیں عموماً اور منصرم صاحب کی بیوی خصوصاًناقص العقل اور نامعقول ہیں اور چچی کو ان کی دعوت ہرگز قبول نہیں کرنی چاہئے تھی۔