چچا بھلکڑ نے چھتری خریدی
ذکیہ بلگرامی
۔۔۔۔۔
بارش تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ رُکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ حمیرا نے فکر مندی سے آسمان کی طرف دیکھا۔بادل بہت گہرے تھے۔ گویا خوب برسیں گے، اور اب دفتر کی چھٹی کا وقت بھی ہو گیا تھا۔
’’ اب کیا ہو گا؟ میاں جی کس طرح گھر آئیں گے؟ یقینا بھیگ جائیں گے۔ بے چارے کے پاس چھتری بھی تو نہیں ہے۔ ‘‘حمیرا نے فکر مندی سے سوچا۔ اتنے میں دروازے پر مخصوص کھٹ کھٹ ہوئی۔
‘‘ لو وہ آگئے! ‘‘حمیرا نے جاکر دروازہ کھولا۔ چچا بھلکڑبھیگا ہوا چوہا بنے کھڑے تھے۔
’’ ارے، جلدی آئیے۔ کپڑے تبدیل کر لیجیے۔ آپ تو بالکل ہی بھیگ گئے۔ ‘‘
چچا بھلکڑ بھاگ کر اندر آئے۔ اب حمیرا کی نظر اُن کے کپڑوں پر پڑی۔
’’ارے! یہ کیا؟ یہ نیلا گر تا شلوار سوٹ؟ غضب کر دیا آپ نے!‘‘حمیرا نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا ۔’’آپ میراسوٹ پہن کر چلے گئے۔ ستیاناس ہو گیا میرے نئے سوٹ کا۔ میں بھی کہوں، کہاں چلا گیا۔ کل ہی تو خرید کر لائی تھی آپ کا تو براؤن سوٹ تھا۔ بھول کی بھی حد ہوتی ہے۔ ‘‘
چچا بھلکڑ کو غصہ آگیا۔ ’’ہر وقت بھول کا طعنہ۔ میں بھولانہیں تھا۔ میں نے جان بوجھ کر نیلا سوٹ پہنا۔ آخر حرج ہی کیا ہے؟ کرتا شلوار مرد اور عورت دونوں ہی پہنتے ہیں۔مجھے یہ رنگ پسند آیا۔ پہن لیا۔ ‘‘
’’لیکن یہ تو میرا سوٹ تھا۔ سب خراب ہو گیا۔ ‘‘
’’ تمہیں اپنے سوٹ کی پڑی ہے۔ میرے بھیگنے کی پروا نہیں۔ اور ہاں، اگر تمہارا سوٹ خراب ہو گیا ہے تو تم میرا براؤن سوٹ پہن لو۔ ‘‘
’’جی نہیں۔ مجھے نہیں پہننا مردانہ سوٹ۔ ‘‘یہ کہ کرحمیرا اُن کا براؤن سوٹ اُٹھا لائی۔ ’’یہ پہن لیجیے۔ میںچائے بنا کر لاتی ہوں۔ ‘‘
چچا بھلکڑ نے کپڑے تبدیل کر کے چائے پی تو موڈ بحال ہوا۔ حمیرا نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’آپ ایک چھتری کیوں نہیںخرید لیتے؟ بارش کا زمانہ ہے۔ آرام رہے گا۔ ‘‘
’’ہاں، تجویز تو اچھی ہے مگر بارش رُکے تو بازار جایا جائے۔‘‘
’’کراچی کی بارش بس ایسی ہی ہوتی ہے۔ ابھی برسی،ابھی ختم۔ بہر حال، چھتری آج ہی آئے گی۔ ‘‘
’’اب اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے؟‘‘چچانے کاہلی سے کہا۔
’’کیوں؟ کیابارش کا موسم گزرنے کے بعد خریدیں گے؟‘‘
’’افوہ! تم تو بحث کرنے لگتی ہو۔ ‘‘
’’اچھا، ٹھیک ہے۔ میں آپ سے کچھ نہ کہوں گی۔ خودہی لے آؤں گی۔ ‘‘
’’اچھا بابا، میں ہی لے آؤ گا۔ بارش تور کنے دو۔ ‘‘
حمیرا خاموش ہو گئی۔ دونوں بچے، عابد اور شاہد، اپنے ابا کے پاس آ گئے تھے اور توتلی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ شام تک بارش رک چکی تھی۔ چچا بھلکڑ کا دل تو نہیںچاہ رہا تھا مگر بیوی کے ڈر سے بازار جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ چھتریاں خاصی مہنگی تھیں۔ چچا بھلکڑ کا اصرار تھا کہ سستی چھتری چاہیے۔ کئی دکان داروں سے بحث و مباحثہ ہوا۔ آخر کار ایک پرانی چھتری کافی سستے داموں مل گئی۔ چچا بھلکڑ خوش خوش گھر واپس آئے۔
’’دیکھو، میں آدھی قیمت میں چھتری لے آیا۔‘‘
’’ لیکن یہ تو پُرانی چھتری ہے۔ کیا خبر کب ٹوٹ جائے۔‘‘
’’ارے بھئی، کچھ نہیں ہوتا ۔‘‘چچا بھلکڑ نے کہا اور چھتری ایک طرف رکھ دی۔ حمیرا نے چھتری کو کھولا تو کافی دقت پیش آئی۔بہر حال، اچانک چھتری کھل گئی۔ مگر پھر بند کرنا مشکل ہو گیا۔ عابد اور شاہد چھتری کے نیچے کھڑے ہو گئے اور اپنے لیے بھی ایسی ہی چھتری کی فرمائش شروع کر دی۔ حمیرا نے بچوں کو ڈانٹ دیا۔ وہ رونے لگے۔
چچا نے کہا ۔’’کیوں ڈانٹ رہی ہو بچوں کو؟ بچوں کی چھتریاں بھی بکتی ہیں۔ میں کل ان کے لیے بھی لے آؤںگا۔‘‘
’’اب یہ اور خرچہ… آپ بھی کمال کرتے ہیں۔‘‘
’’ ہونے دو خرچہ… آخر بچے ہیں۔ فرمائش تو پوری کرنی ہی ہوگی ۔‘‘
دوسرے دن چچا نے اپنا کہا پورا کر دکھایا۔ بچوں کے لیے بھی چھوٹی چھوٹی چھتریاں خرید لائے۔ شاہد اور عابد بے حد خوش ہوئے۔ لال اور ہری چھتریاں لیے پورے گھرمیں گھومتے پھرے۔
آج پھر بارش ہو رہی تھی۔ مگر اب حمیرا کو اطمینان تھاکہ میاں بھیگیں گے نہیں۔ چناں چہ وہ دفتر کے لیے تیارہوئے اور کسی نہ کسی طرح چھتری کھول کر روانہ ہو گئے۔ وہ فخریہ انداز میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہے تھے۔
’’بھئی، واہ! مزہ آگیا۔ بارش ہو رہی ہے اور میںمزے سے چلا جا رہا ہوں۔ چھتری بھی کتنی عمدہ چیز ہے۔ کس طرح بارش سے بچاتی ہے۔ ہاں بھئی، سائنس نے ترقی جوکر لی ہے۔ ‘‘چچا دل ہی دل میں سائنس کی ایجادات پر غورکرتے ہوئے جا رہے تھے کہ کسی کی جانی پہچانی آواز آئی۔یہ ان کے پڑوسی شوکت صاحب تھے۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتے چچا کے پاس آئے اور اُن کی چھتری تلے گھس گئے۔
چچا شوکت صاحب سے ڈرتے تھے۔ وہ تھے بھی بے حد خوف ناک۔ حد سے زیادہ موٹے۔ بڑی بڑی مونچھیں۔ رنگ کالا سیاہ۔ اب یہ حال تھا کہ شوکت صاحب چھتری کے اندر اور چچا تقریباً باہر تھے، اور خاصے بھیگ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے بس اسٹاپ آیا۔ شوکت صاحب بھاگ کر بس میں چڑھ گئے۔ لیکن چچا کی چھتری بند ہی نہ ہو سکی اور بس نکل گئی۔ جب بہت کوشش کر کے، زور لگا کے چھتری بند کی تو بھیگنے لگے۔ پھر جلد ہی دوسری بس آگئی۔ چچا خیریت سے دفتر پہنچے۔ تب تک بارش بھی رک گئی تھی، ورنہ اور زیادہ بھیگ جاتے۔
چچا نے چھتری کی روداد دفتر کے ایک ساتھی کو سنائی تو اُس نے چھتری کی تیلیوں میں تیل لگا کر اُسے نرم کر دیا۔ اب چھتری آسانی سے کھل اور بند ہو رہی تھی۔ چچا بڑے خوش تھے۔ دل ہی دل میں بارش ہونے کی دعائیں مانگنے لگے تاکہ چھتری لگا کر گھر جائیں۔ مگر اُن کی دُعا قبول نہ ہوئی۔ بارش رکی رہی اور چچا مایوس شکل لیے گھر واپس آ گئے اور آہستہ آہستہ پوری روداد بیوی کو سنائی۔ حمیرا کوغصہ آیا۔
’’آخر آپ کو کیا ضرورت تھی کہ شوکت صاحب کوچھتری میں گھسا لیا۔ اور پھر وہ تو اتنے موٹے ہیں کہ اُن کے لیے تو ایک چھتری ویسے ہی نا کافی ہے ۔‘‘
’’ کیا کروں؟ زبر دستی آ گئے کس طرح منع کرتا؟ ‘‘
’’کمال ہے! بھاڑ میں گئی ایسی مروت ۔‘‘حمیرا بڑ بڑاتی ہوئی گھر کے کاموں میں لگ گئی۔ دوسرے روز چچا چھتری احتیاطاً دفتر لے گئے کہ واپسی میں بارش نہ ہو جائے۔
پھر کئی روز گزر گئے بارش نہ ہوئی۔ چھتری دفتر ہی میں پڑی رہی یہاں تک کہ چچا کے ذہن سے یہ بات نکل ہی گئی کہ وہ ایک عدد چھتری کے مالک ہیں۔ چناں چہ ایک دن بارش میں بھیگتے ہوئے گھر پہنچے اور زور زور سے دروازہ دھڑ دھڑایا۔ یہ اُن کی عادت تھی۔ گھنٹی نہیں بجاتے تھے۔حمیرا اپنے میاں کی دھڑ دھڑ اچھی طرح پہچانتی تھی۔ وہ اطمینان سے اٹھی اور دروازہ کھولا۔
’’اتنی دیر سے دھڑ دھڑ کر رہا ہوں۔ دروازہ دیر سے کیوں کھولا؟ ‘‘میاں جی بگڑ گئے۔
’’ارے! آپ تو بھیگے ہوئے ہیں۔ چھتری کہاں ہے؟ ‘‘حمیرا نے پوچھا۔
اب چچا کو اپنی چھتری یاد آئی ۔’’لاحول ولا قوۃ ۔چھتری؟اُسے تو میں بھول ہی گیا تھا۔ دفتر میں ہوگی ۔‘‘
’’بھول؟ آپ نے تو بھولنا چھوڑ دیا ہے، بقول آپ کے۔‘‘ حمیرا نے جل کر کہا۔
’’اچھا، بحث مت کرو۔ فوراً چائے بنا کر دو ۔‘‘
دوسرے دن حمیرا نے تاکید کی کہ دفتر سے چھتری لانا نہ بھولیں۔ چناں چہ چچا چھتری گھر لے آئے۔ لیکن اپ بارش بند تھی۔ اتنے دنوں میں چچا کی چھتری کی پورے محلے میں خبر پھیل چکی تھی۔ مسجد کے مولانا تو چھتری دیکھنے بھی آئے تھے کہ اُنہیں بھی ایک عدد چھتری کی ضرورت تھی۔حمیرا کو اب چھتری کے ذکر سے چڑ ہونے لگی تھی۔
جمعے کا دن تھا۔ صبح سے ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ ظاہر ہے چھٹی کے دن دفتر تو جانا نہیں تھا، اس لیے چھتری بھی بے کار پڑی تھی۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ چچا نے دروازہ کھولا تو سامنے کے گھر کا لڑکا انور کھڑا تھا۔ اُس نے کہا:
’’چچا ذرا چھتری دے دیجیے ۔‘‘
’’وہ کیوں بھئی؟ ‘‘
’’سبزی لینے جاناہے۔ بارش تیز نہ ہو جائے ۔‘‘
چچا نے چھتری انور کو تھما دی۔ حمیرا سب کچھ سن رہی تھی۔ منہ سے کچھ بولنا مناسب نہ سمجھا، لیکن جب کافی دیر گزر گئی اور انور چھتری واپس کرنے نہ آیا تو بولی:
’’کمال ہے! لڑکا چھتری لے کر ہی نہیں آیا۔ آخرآپ کو بھی تو سودا سلف لینے کے لیے گھر سے نکلنا ہوگا۔‘‘
’’لے آئے گا۔ جلدی کیا ہے؟ ‘‘چچا بے زاری سے بولے۔
دوپہر کو چچانے انور کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔
‘‘کون ہے؟ ‘‘اندر سے آواز آئی۔
’’میں ہوں، چچا۔‘‘
’’دیکھو، چچا بھلکڑ آئے ہیں ۔‘‘اندر سے کسی کی آواز آئی۔ پھر کچھ دیر بعد انور نکل کر باہر آیا۔
’’کیوں میاں؟ چھتری کہاں ہے؟ ‘‘چچا بھلکڑ نے کہا۔
’’چچا، شام کو واپس کر دوں گا۔‘‘
’’وہ کیوں، بھئی؟‘‘
’’ایک دوست مانگ کر لے گیا ہے۔ شام کو واپس کرے گا۔‘‘
’’کون سا دوست؟ اور کیوں لے گیا؟ ‘‘
’’ ارشد ہے۔ میری کلاس میں پڑھتا ہے۔ کہنے لگا، تھوڑی دیر کے لیے دے دو۔ میں نے دے دی۔ ‘‘
’’کمال ہے، بھئی! ‘‘چچا نے حسب عادت دائیں بائیںگردن ہلائی اور گھر آ گئے۔
شام کو ارشد اور اُس کے والد چچا کے گھر آگئے۔اب چچا حیران کہ الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے؟
’’جناب، یہ چھتری ہماری ہے۔‘‘ ارشد کے والد نے کہا۔
’’کیا کہا؟ یہ چھتری آپ کی کس طرح ہو گئی؟ ‘‘
’’دو ہفتے قبل ہمارے گھر میں چوری ہوئی تھی۔ کافی قیمتی سامان گیا۔ ساتھ ہی یہ پرانی چھتری بھی چور لے گئے…یہ دیکھیے، چھتری پرA کھدا ہوا ہے، میرا نام اکرم ہے۔‘‘
’’تو جناب میں کیا کر سکتا ہوں؟ ‘‘چچا بگڑ کر بولے۔’’میں نے تو ایک دکان سے خریدی ہے ۔‘‘
’’ وہی تو معلوم کرنے ہم آئے ہیں کہ کس دُکان سے خریدی ہے؟ ‘‘
’’زبانی پتا سمجھانا تو مشکل ہے ۔‘‘چچا نے کہا۔
’’ تو پھر آپ کل ہمارے ساتھ چلیے گا۔ آج تو جمعہ ہے۔ بازار بند ہو گا۔‘‘
چار و ناچار دوسرے روز چچا کو چھتری والے کی دکان پر جانا پڑا۔ اکرم صاحب نے دُکان دار سے جرح کی تو اُس نے بتایا کہ ایک شخص سستے داموں یہ چھتری فروخت کر گیا تھا۔
’’کیا حلیہ تھا اُس شخص کا؟‘‘اکرم صاحب نے پوچھا۔
’’لمبا تھا، دبلا پتلا۔ بالکل سیاہ رنگت ۔‘‘
’’اُس کے سر پر بال تھے؟ ‘‘
’’نہیں۔ گنجا تھا ۔‘‘
’’اچھا، اچھا۔ ہم سمجھ گئے۔ یہ سب کالو مالی کی کارستانی ہے۔ اسی نے چوری کی ہے۔ ابھی اُسے پکڑتے ہیں۔‘‘
اکرم صاحب نے چچا بھلکڑ کا شکریہ ادا کیا اور چھتری لے کر وہاں سے نودو گیارہ ہو گئے۔ چچا تھکے تھکے قدموں سے گھر واپس آگئے، چھتری کے بغیر۔
’’ارے! کیا ہوا؟ چھتری کہاں ہے آپ کی؟‘‘حمیرانے پوچھا۔
’’چوری کا مال تھانے میں جمع ہوتا ہے نا؟ لے گئے وہ اپنی چھتری’۔‘‘یہ کہ کر چچا بھلکڑ نے اپنا سر تھام لیا۔
اچانک کچھ سوچ کرحمیرا مسکرانے لگی۔ بولی۔ ’’اب غم کس بات کا؟ شکر کریں، جان چھوٹی اُس پرانی چھتری سے۔ اور پھر فائدہ بھی کیا تھا اُس کا؟ اُلٹی مصیبت ہی تھی۔‘‘
تھوڑی دیر بعد حمیرا پلیٹ میں حلوا لے کر آگئی۔ ’’یہ لیجیے۔ حلوا کھائیے۔ ابھی بنایا ہے۔ آؤ بچو، تم بھی کھائو۔‘‘
عابد اور شاہد بھاگ کر آئے۔ چچا بھلکڑ سب کچھ بھول کر حلوا کھانے لگے۔ اب وہ مطمئن نظر آ رہے تھے۔ چھتری کا بوجھ سر سے اُتر گیا تھا۔