skip to Main Content

کیئر ٹیکر

سید آصف جاوید نقوی

۔۔۔۔۔

سیٹھ دائود آفس جانے کی تیاری مکمل کرکے ناشتے کی ٹیبل پر پہنچے جہاں مسز دائود اور اُن کا بیٹا ذیشان ان کے منتظر تھے۔ مسز دائود نے کپ میں چینی ڈال کر اُن کے لئے چائے بنانا شروع کی، جبکہ انہوں نے حسبِ معمول اخبار کی طرف ہاتھ بڑھایا جو ٹیبل پر ایک طرف رکھا تھا۔ اُن کی عادت تھی کہ ناشتے کے دوران اخبار کی شہ سرخیاں ضرور پڑھتے یا پھر کوئی خاص خبر… انہوں نے اخبار اُٹھایا اور چند لمحات بغور دیکھنے کے بعد اخبار سے نظریں اُٹھا کر دیکھا، مسز دائود چائے کا کپ تیار کرکے اُن کے سامنے رکھ چکی تھیں اور اب ذیشان کے لئے بریڈ پر مکھن لگانے میں مصروف تھیں، جبکہ ذیشان نظریں چرانے کی کوشش کررہا تھا۔ سیٹھ دائود کے چہرے پر ناگواری اور ناراضگی کے تاثرات اُبھرے اور انہیں یقین ہوگیا کہ یہ حرکت ذیشان کی ہے جو انہیں اچھی نہ لگی۔
سیٹھ دائود کے ہاتھ میں انگریزی اخبار ابھی تک موجود تھا جس پر ایک پرانے اردو اخبار کا کالم والا صفحہ کھول کر رکھا گیا تھا، یہی نہیں، بلکہ ایک کالم کے گرد سرخ پین سے دائرہ لگا کر توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی تھی… سیٹھ دائود نے اردو اخبار کا وہ پرانا صفحہ بے اختیار ہاتھ میں مروڑ ڈالا… ارادہ تھا کہ اُسے پھینک ڈالیں اور ذیشان کو اس حرکت پر تنبیہ کریں، پھر کسی خیال سے انہوں نے اردو اخبار کا صفحہ کھول کر اس میں دائرہ لگے کالم پر نگاہ ڈالی جس کا عنوان ’’کیئر ٹیکر‘‘ تھا۔
سیٹھ دائود نے بے زاری سے اُس کی ابتدائی تین چار سطریں پڑھیں… اس کالم میں ایک امیر شخص کی کہانی تھی…
مسز دائود انہیں غور سے دیکھ رہی تھیں… کچھ دیر بعد گویا ہوئیں۔ ’’اجی ناشتہ تو کرلیجئے… چائے بھی ٹھنڈی ہورہی ہے‘‘۔
’’ہونہہ… ہاں ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ سیٹھ دائود کی نگاہیں کالم پر مرکوز تھیں اور وہ اُسے پڑھتے ہی چلے گئے۔ کالم میں شیخ زاہد نامی ایک شخص کی کہانی تھی جو کچھ اس طرح تھی…
’’شیخ زاہد لاہور میں لوہے کا کاروبار کرتا تھا اور ایک شخص جس کا نام نذیر تھا وہ بحیثیت مالی اُس کے گھر میں پودوں کی گوڈی، درختوں، بیلوں اور کیاریوں کی دیکھ بھال کرتا، انہیں پانی دیتا تھا۔ شیخ زاہد پر اللہ کا بڑا کرم تھا اور وہ ہر مہینے لاکھوں روپے کماتا تھا، جبکہ نذیر مالی صرف پندرہ سو روپے کا ملازم تھا۔ ایک روز جب شیخ زاہد دوپہر کے کھانے کے لئے گھر آیا تو اُس وقت نذیر مالی لان میں پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ شیخ زاہد گاڑی سے اُترا، لان کے کنارے کنارے چلتا ہوا گھر کی طرف بڑھا، اس دوران نذیر مالی کی توجہ بٹ گئی، پائپ کا زاویہ ذرا سا ٹیڑھا ہوا اور پانی کا تیز ریلا کیاری کے کناروں سے ٹکرایا، چھینٹے اُڑے اور سیدھے شیخ زاہد کے سفید کرتے پر آگئے۔ شیخ زاہد ایک دھیمے مزاج کا شخص تھا۔ وہ عموماً نوکروں کی اس قسم کی غلطیوں پر درگزر کرتا تھا، لیکن اس دن اسے غصہ آگیا۔ اس نے نذیر مالی کو جھاڑ دیا۔ اس نے تاویل پیش کرنے کی کوشش کی تو شیخ کو مزید غصہ آگیا اور اُس نے اسی وقت اُسے گھر سے نکال دیا۔
نذیر مالی چلا گیا۔ وہ سال شیخ زاہد پر بڑا بھاری پڑا۔ سب سے پہلے فیکٹری پر ڈاکہ پڑا، ڈاکو ایک کروڑ روپے لوٹ کر لے گئے۔ کچھ عرصے بعد بینک سے جھگڑا ہوا اور فیکٹری بند ہوگئی۔ اسٹاک ایکسچینج کریش ہوئی۔ شیخ کا سارا سرمایہ ڈوب گیا۔ بڑے بیٹے کے معدے میں کینسر ظاہر ہوگیا۔ باقی جمع پونجی اس کے علاج پر صرف ہوگئی۔ مال روڈ پر ایک کمرشل پلاٹ تھا، وہ سالے نے بیچا اور رقم لے کر امریکہ بھاگ گیا۔ سال کے آخر تک شیخ زاہد حقیقتاً کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ شیخ کنگال ہوتے بھی برسوں لگا دیتے ہیں۔ شیخ زاہد بھی کسی نہ کسی طرح سفید پوشی کا بھرم رکھتا رہا، مگر اگلے سال بیٹے نے بنگلے کا سودا کیا۔ سارا خاندان کرائے کے مکان میں آیا، رقم کاروبار میں لگائی، لیکن شراکت داری کی نذر ہوگئی۔ ان دنوں شیخ زاہد کی یہ حالت تھی کہ وہ سونے کو ہاتھ لگاتا تو وہ تانبے کے بھائو فروخت ہوتا۔
ان مشکل حالات میں شیخ زاہد نے خود کو زندہ رکھنے کے لئے روحانیت کا سہارا لیا۔ ان کو کسی ذریعے سے ایک پرہیزگار بزرگ کا معلوم ہوا۔ شیخ زاہد ان تک جاپہنچا۔ بزرگ نے توجہ فرمائی اور مسکرا کر بولے:
’’اللہ تمہیں ہر مہینے لاکھوں روپے اس لئے دیتا تھا کہ تم ان میں سے نذیر مالی کو پندرہ سو روپے دے سکو۔ تم نے اسے اپنے رزق کے کھاتے سے خارج کردیا، اللہ نے تمہارا ہی کھاتا بند کردیا۔‘‘
شیخ زاہد نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا… بزرگ گویا ہوئے:
’’ہم سب گارڈین ہیں، کیئر ٹیکر ہیں۔ ہمارے دفتروں، ہمارے گھروں میں ایسے بے شمار لوگ ہوتے ہیں جو دو تین ہزار روپے کے لئے ہماری خدمت کرتے ہیں۔ ان کا رزق ہمارے رزق سے نتھی ہوتا ہے، یہ لوگ اللہ کے صابر بندے ہوتے ہیں، اللہ ہمیں رزق عنایت فرماتا ہے، تاکہ ہم ان لوگوں کا حصہ ان تک پہنچاسکیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں کس مالی، کس چپڑاسی، کس خانسامے، کس چوکیدار اور کس ڈرائیور کے صدقے یہ ساری نعمتیں، یہ ساری آسائشیں مل رہی ہیں۔ وہ کون ہیں جن کا شکر ہمارے رزق کو وسعت دے رہا ہے، مگر پھر ہمارا تکبر، ہماری نخوت، ہمارا غرور ہمیں ڈنک مارتا ہے اور کسی کمزور لمحے ہم اس کو اپنی زندگی سے خارج کردیتے ہیں اور پھر ان ساری آسائشوں، ساری نعمتوں کا سورج بھی اس شخص کے ساتھ ہمارے صحنوں سے رُخصت ہوجاتا ہے، ہم لوگ کتنے بے وقوف ہیں، ہم تو محض ایک کیئر ٹیکر، ایک گارڈین ہیں، منی آرڈر پہنچانے والے ڈاکیے ہیں اور ہماری زندگی کی یہ ساری لش پش یہ گاڑیاں، بنگلے، دفتر اور چیک بکس اسی ڈیوٹی، اسی فرض کا معاوضہ ہیں۔ جس دن ہم نے ڈیوٹی چھوڑی اللہ ہمیں نوکری سے برخاست کردے گا اور پھر اس کے ساتھ یہ ساری چیک بکس، دفتر، بنگلے اور گاڑیاں بھی واپس لے لی جائیں گی، زندگی کی یہ لش پش بھی بجھ جائے گی۔‘‘
شیخ زاہد اُٹھا اور نذیر مالی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ یہ خوشاب کا نواں گائوں تھا اور نذیر مالی کی تلاش کا تیسرا دن۔ شیخ زاہد اپنے دوست کے ساتھ صبح سویرے نکلتا، سارا دن ایک گائوں سے دوسرے گائوں اور تیسرے سے چوتھے گائوں میں مارا مارا پھرتا۔ اس نذیر مالی کی تلاش میں جو کبھی لاہور میں کام کرتا تھا اور شیخ زاہد نے نوکری سے نکالا تو لاہور چھوڑ کر خوشاب اپنے گائوں واپس آگیا۔ شیخ زاہد کے پاس اس کا ایڈریس نہ تھا، بس اتنا معلوم تھا کہ وہ خوشاب سے تانگے پر گائوں جاتا تھا، تین دنوں میں وہ تمام گائوں کھنگال ڈالے جن تک کوئی تانگہ، بیل گاڑی یا ریڑھا جاتا تھا، لیکن نذیر مالی کا سراغ نہ مل سکا۔ بہت کوشش کے بعد ہمت ہار کر واپسی کا ارادہ کیا، مگر شیخ زاہد نذیر مالی کے بغیر واپسی پر تیار نہ تھے، کیونکہ بوڑھا مالی اس کی آخری اُمید تھا۔
شیخ زاہد چالیس پینتالیس سال کا شخص تھا، لیکن حالات سے اُلٹے چکر نے اس کے چہرے پر جو لکیریں چھوڑی تھیں، انہوں نے اسے ستر پچھتر برس کا بنادیا تھا۔ اب تو اس کی کھانسی میں بھی بلغم کا بوجھ محسوس ہونے لگا تھا۔ چار دن مارے مارے پھرنے کے بعد جب تلاش ثمربار نہ ہوسکی تو واپسی ہوئی، لیکن چند روز بعد شیخ زاہد پھر نکل کھڑا ہوا۔ پندرہ دن بعد اس کا بیٹا اسے واپس لایا۔ پہلی بار اس میں مجذوبیت کی جھلک دیکھی گئی۔ چند دن بعد وہ گھر سے سبزی لینے نکلا اور ایک بار پھر خوشاب جاپہنچا، اس بار لانے کی ذمہ داری دوست کی تھی، شیخ زاہد بس اڈے کے باہر فقیروں کے ساتھ بیٹھا ملا۔ اُسے واپس لایا گیا، لیکن اب وہ شیخ زاہد نہیں تھا۔ سرتاپا ایک تلاش تھا۔ اس کی آنکھیں ہر وقت کچھ کھوجتی رہتی تھیں۔
وہ ہر چہرے کو غور سے دیکھتا تھا اور نذیر نام کے ہر شخص کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا تھا، اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا وہ خوشاب گیا۔ وہ پھر خوشاب گیا اور پھر وہاں سے اس کی نعش ہی واپس آئی۔
سیٹھ دائود اخبار کا کالم آخر تک پڑھ چکے تھے۔ لیکن نظریں ابھی تک کالم پر ہی مرکوز تھیں۔ چہرے پر پریشانی اور تفکر کے تاثرات اُبھر آئے اور پیشانی پر پسینے کے قطرے صاف دیکھے جاسکتے تھے… وہ کچھ بولنا چاہتے تھے، لیکن لگتا تھا کہ ان کی قوتِ گویائی ساتھ نہیں دے پارہی… معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ یہ وہی سخت مزاج سیٹھ دائود ہیں… مسز دائود اور اُن کا بیٹا ذیشان ان کی جانب دیکھ رہے تھے، لیکن ماحول پر خاموشی طاری تھی۔
ذیشان نے ہمت کرکے کہنا شروع کیا… ’’ڈیڈی کل آپ کی غیر موجودگی میں جب آپ ممی کے ساتھ شاپنگ کے لئے گئے ہوئے تھے، آپ کے آفس کا چپڑاسی احمد آیا تھا جو کہ بہت پریشان تھا۔ میرے بہت اصرار پر اُس نے بتایا کہ ایک معمولی سی غلطی پر آپ نے اُسے نوکری سے برخاست کردیا ہے اور بہت منت سماجت کے بعد بھی اُسے معاف نہیں کیا۔ ڈیڈی اُس نے بتایا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، بیوی بیمار ہے، ایسے میں ملازمت سے نکال د یا جانا اُس پر مشکلات کے پہاڑ سے کم نہیں… ڈیڈی اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور قدم بوجھل… ڈیڈی اُس کے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ شاید اُسے تو کہیں اور بھی نوکری جلد مل جائے، لیکن اگر خدانخواستہ شیخ زاہد کی طرح اللہ نے آپ کو اس جرم کی پاداش میں پکڑ لیا تو… آپ سے بات کرنے کی ہمت نہ کرپا رہا تھا، لہٰذا میرے ذہن میں ترکیب آئی اور میں نے اخبار کا یہ کالم آپ کے اخبار کے ساتھ رکھ دیا۔‘‘
سیٹھ دائود اُٹھ کھڑے ہوئے… ’’جی ناشتہ… ناشتہ تو کرلیجئے‘‘۔ بیگم دائود نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں… مجھے بھوک نہیں رہی۔‘‘سیٹھ دائود نے کہا۔ پھر آگے بڑھ کر محبت سے ذیشان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا ذیشان میں تمہارا ممنون ہوں کہ تم نے بروقت مجھے میری غلطی کا احساس دلا کر اس کی تلافی کا موقع دیا ہے… شکریہ بیٹا‘‘۔
سیٹھ دائود لمبے لمبے قدم بھرتے ہوئے باہر نکل گئے… یقیناً اُن کی منزل احمد چپڑاسی کا گھر ہی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top