بُری عادتیں یا اچھی عادتیں
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔
بُری عادتیں رکھنے والے دو بچوں کی کہانی…. جب انھیں لینے کے دینے پڑگئے
۔۔۔۔۔۔۔
کہیں دو بچے رہتے تھے۔ جن کی تربیت نہیں ہوئی تھی۔ ان کے نام علی اور بیلا تھے۔ وہ تقریباً آپ کے ہم عمر ہی تھے یا شاید تھوڑے بڑے ہوں گے۔ انہیں اچھی باتیں جیسے سچ بولنا نہیں سکھایا گیا تھا۔ انہیں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ کسی ایسی شے کو چھونا بھی نہیں چاہیے جو تمھاری نہ ہو۔ حتیٰ کہ انہیں اتنی تمیز بھی نہیں تھی کہ کسی کو کام کہنے سے پہلے اسے کس طرح مخاطب کرنا چاہیے اور کام ہونے کے بعد اس کا شکریہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے حالانکہ چھوٹے سے چھوٹے بچے جنھیں ذرا بھی تمیز ہو وہ ان باتوں کو بخوبی جانتے ہیں۔
یہ باتیں پڑھنے کے بعد آپ علی اور بیلا کے متعلق یقینا کہہ سکتے ہیں کہ وہ بدتمیز اور بدتہذیب بچے تھے۔ سب سے بری عادت جو ان بچوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ یہ تھی کہ وہ پوچھے بغیر لوگوں کی چیزیں اُڑا لیتے اور انہیں بتانا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی اس عادت کے بارے میں ان کے سارے پڑوسی جانتے تھے۔ کلاس ٹیچر بھی ان دونوں بچوں سے پریشان تھے۔ وہ ان پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ وہ کوشش کرتے کہ کلاس روم میں انہیں کبھی اکیلا نہ چھوڑیں کیونکہ کلاس میں ان کے اکیلے رہنے کا مطلب تھا کہ کسی کی کتاب غائب ہو گئی یا کسی کی پینسل، حتیٰ کہ وہ دادی اماں کے بٹوے سے بھی چیزیں نکال لیتے تھے۔ دادی اکثر اس بات کا اظہار کرتیں کہ یہ بچے بہت بری عادتوں میں مبتلا ہیں اور وہ ان کی ان حرکتوں کو برداشت نہیں کرسکتیں۔ وہ کہتیں کہ ان بچوں کا بڑے ہو کر کیا حال ہوگا۔
ایک دفعہ تو علی دکان سے کچھ بسکٹ بھی اُڑا لایا۔ ایک دفعہ بیلا پڑوسیوں کے گھر ایک دعوت پر گئی اور وہاں سے اپنی سہیلی کی گڑیا لے کر آئی۔ اس کی سہیلی نے اگلے دن اُس سے اپنی گڑیا کے متعلق پوچھا تو وہ صاف مُکر گئی حالانکہ گڑیا اس کے کھلونوں والی الماری میں موجود تھی۔
ایک دن دونوں بہن بھائی سیر کے لیے قریبی جنگل میں گئے۔ جنگل میں بہت سبزہ تھااور وہ بہت گھنا تھا اور اس میں راستوں کے بجاے بہت سی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں تھیں۔ انھوں نے اس دفعہ جنگل میں جانے کے لیے ایک ایسا راستہ چنا جو سیدھا جنگل کے وسط میں جاتا تھا اور جہاں قریب کھڑے درختوں کی شاخیں ایک دوسرے سے اُلجھی ہوئی تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کررہی ہوں۔
علی نے بیلا سے پوچھا: ”بیلا کیا تمھیں یہ سناٹا عجیب سا نہیں لگ رہا اور وہ دیکھو مجھے تو ایک سفید مکان بھی درختوں کے بیچ میں نظر آرہا ہے۔“ وہ مکان کی سمت بڑھے، جلد ہی وہ مکان کے باغیچے میں موجود تھے اور مکان کا باہر سے جائزہ لے رہے تھے۔ مکان کے اوپر ایک چمنی بنی ہوئی تھی مگر اس میں سے کوئی دُھواں نہیں نکل رہا تھا۔ کھڑکیوں کے اندر پردے لگے ہوئے تھے۔ تاکا جھانکی کے بعد اِنھیں احساس ہوا کہ اس وقت گھر میں کوئی موجود نہیں ہے۔
علی نے دروازے پر دستک دی لیکن کوئی باہر نہیں نکلا۔ اس نے دروازے پر لگے ہینڈل کو گھمایا تو دروازہ کھل گیا۔ وہ دونوں اندر چلے گئے اور اس چھوٹے مگر صاف ستھرے گھر کو اندر سے دیکھنے لگے۔ سونے کے کمرے میں پانچ بستر بچھے ہوئے تھے۔ کمرے میں پانچ کرسیاں تھیں۔ الماری میں پانچ چاے کے کپ اور پانچ پلیٹیں تھیں۔ اس کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ اس گھر میں پانچ لوگ رہتے ہیں۔
”وہ دیکھو بیلا! کتنی خوب صورت پانچ گیندیں ہیں۔“ علی نے بیلا کو اشارہ کرکے فرش پر پڑی گیندیں دکھائیں اور ساتھ ہی ایک گیند اُٹھا کر جیب میں رکھ لی۔ پھر بیلا نے پانچ بیگ ٹنگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ایک سرخ رنگ کا بیگ اُتارا اور اسے کھول کر دیکھا۔ بیگ میں ایک نیلے رنگ کے رومال کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے علی کے کان میں سرگوشی کرکے بتایا کہ وہ یہ بیگ لینے لگی ہے۔ پھر وہ اندر پڑے ہوئے فریج کے نزدیک گئے اور اسے کھول کر دیکھا۔ فریج میں ایک برتن کے اندر آئس کریم رکھی تھی اور اسٹرابری ذائقے کا ایک کیک بھی تھا۔
علی نے بیلا سے پوچھا: ”کیا تمھیں بھوک لگ رہی ہے۔ مجھے تو بہت لگ رہی ہے۔“ اور پھر دونوں شرارتی بچوں نے بڑی بے تکلفی سے پورا کیک ہڑپ کر لیا اور ساری آئس کریم بھی ہضم کرگئے۔ اب انھوں نے ایک الماری سے بسکٹ نکالے اور انہیں کھا ہی رہے تھے کہ دروازہ کھلا اور پانچ بہت ہی چھوٹے قد کے اشخاص اندر آئے۔ وہ نہ تو پری زاد تھے نہ بھتنے تھے اور نہ ہی بونے تھے بلکہ ان سب کی کوئی ملی جلی شخصیت لیے ہوئے تھے۔
وہ کچھ دیر تو حےرت سے بچوں کو دیکھتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک نے دونوں بچوں سے پوچھا۔
”تم لوگ ہمارے بسکٹ کیوں کھا رہے ہو۔“
دوسرے نے حیرت سے کہا: ”اور کیا تم ہمارا کیک اور آئس کریم بھی کھا گئے ہو؟“
پھر تیسرے نے پوچھا: ”اور تم نے ہماری گیند اور بیگ کیوں لیا ہے۔“
چوتھے نے پوچھا: ”کیا تمام بچے ایسا ہی کرتے ہیں؟“
علی نے فوراً جواب دیا: ”ہاں ہاں کیوں نہیں؟ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں کہ پوچھے بغیر دوسروں کی چیزیں لے لی جائیں۔ ہم نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔“ پانچویں نے انہیں اپنی بات سمجھاتے ہوئے کہا: ”کیونکہ وہ بچوں کی دنیا کے متعلق زیادہ نہیں جانتے اس لیے سمجھنا چاہتے ہیں کہ بچوں کی دنیا میں دوسرے لوگوں کی چیزیں ان کی مرضی کے بغیر لینا جائز ہے۔ ہمیں اس بارے میں بتائیے کیوں کہ ہم اس اصول کے بارے میں نہیں جانتے۔“
دونوں بچوں نے سوچا کہ یہ پانچوں چھوٹے ضرور بے وقوف ہیں۔ انہوں نے آپس میں کانا پھوسی کی اور پھربہت ہی جھوٹی باتیں کیں۔
علی نے انہیں بتایا: ”ہماری دنیا میں کوئی چیز کسی کی ذاتی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہم نے آپ کی چیزیں لے لی تھیں۔ اسی طرح آپ بھی ہماری دنیا میں بغیر پوچھے کسی کی بھی چیز لے سکتے ہیں۔“
بیلا نے اس گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا: ”یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم تو ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں اب ہم نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ہے لہٰذا اب ہم چلتے ہیں۔“ یہ کہہ کر دونوں بہن بھائی چہلیں کرتے ہوئے گھر سے نکل آئے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ انہوں نے پانچ چھوٹوں کو اچھا دھوکا دیا ہے لیکن اِدھر وہ پانچوں چھوٹے اتنے بے وقوف نہیں تھے جتنا ان بچوں نے ان کے بارے میں سوچ لیا تھا انہوں نے بچوں کے جانے کے بعد اس موضوع پر خاصی سیر حاصل گفتگو کی۔ سب کا یہی فیصلہ تھا کہ اگر وہ آکر ہماری چیزیں لے سکتے ہیں تو پھر ہم بھی جا کر ان کی چیزیں لے سکتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑے نے کہا کہ ہمیں ان کا گھر ڈھونڈنے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہوگی کیونکہ ہم ان کے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئے آرام سے ان کا گھر ڈھونڈ لیں گے لہٰذا اس رات وہ پانچوں چھوٹے علی اور بیلا کے گھر کے باہر پہنچے اور گھر کے باہر ایک درخت کی شاخوں پر چڑھتے ہوئے ان دونوں کے کمرے میں پہنچ گئے۔ دونوں کا کمرہ کھلونوں سے بھرا ہوا تھا۔
ایک نے کہا: ”مجھے تو یہ گڑیا بہت پسند آئی ہے۔“ دوسرے نے کہا کہ یہ ٹرین کتنی خوب صورت ہے۔ باقی تینوں نے بیلا اور علی کی دیگر چیزوں، کلر بک۔ رنگین پنسلوں اور ایک سویٹر پر قبضہ کیا اور پھر وہ آرام سے یہ چیزیں لے کر واپس چلے گئے۔ اگلے دن بچوں کو چیزوں کے غائب ہونے کا احساس ہوا۔ بیلا پوچھ رہی تھی کہ اس کی گڑیا کہاں گئی؟ اور میری رنگین پنسلیں اور کلر بک؟ اسی طرح علی کو اس کی ٹرین کہیں نہیں مل رہی تھی۔ علی کو ایک اور مصیبت کا بھی سامنا تھا۔ وہ اسکول سویٹر کے بغیر گیا کیوں کہ وہ تو اب ان پانچ چھوٹوں میں سے ایک کے پاس تھا۔
اگلی رات پانچوں چھوٹے پھر ان کے گھر آدھمکے۔ وہ ایک دوسرے کو خوشی سے کہہ رہے تھے کہ کتنی مزے والی بات ہے کہ آپ کسی کی کوئی بھی چیز بغیر مانگے لے سکتے ہیں۔ بچوں نے یہ بہت ہی اچھی بات ہمیں بتائی ہے۔ اس دفعہ وہ بیلا کا اسکول کا کوٹ لے گئے۔ چھوٹوں میں سے ایک نے علی کے باتھ روم والے جوتوں پر قبضہ کیا جو اس کے پیروں میں بالکل فٹ تھے۔ انہوں نے ان کے کمرے کی دیوار سے ایک تصویر بھی اتار لی۔ ایک چاے کی کیتلی اور کمرے کی ایک کرسی بھی انہیں پسند آئی۔
اگلے دن بچوں کے ساتھ ان کی امی بھی سخت پریشان تھیں۔ وہ بچوں سے چیزوں کے متعلق پوچھتی پھر رہی تھیں۔ بچوں نے لاکھ صفائی دی لیکن امی سوچ رہی تھیں کہ یہ انہی بچوں کی کارستانی لگتی ہے۔ امی نے اب انہیں باقاعدہ ڈانٹنا شروع کر دیا تھا لیکن کسی ڈانٹ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نہ تو چاے کی کیتلی ملی اور نہ ہی گمشدہ کرسی۔ اگلی رات پانچوں چھوٹے اپنی مہم پر واپس آگئے۔ اب یہ ان کا مشغلہ بن چکا تھا کہ وہ آئے۔ چیزیں اُٹھائیں اور چلتے بنے لیکن وہ سوچتے تھے کہ انہیں چیزیں اٹھانے کا حق صرف انھی بچوں کے کمرے سے ہے۔ کسی اور جگہ سے نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ جائز نہیں کہ کسی ایسی جگہ یا شخص سے چیزیں لی جائیں۔ جس نے ان کے گھر سے کوئی چیز نہیں لی۔ ویسے بھی ان بچوں کے کمرے میں ابھی بہت سی چیزیں باقی تھیں۔ اگلی رات اُنھوں نے جو چیزیں کمرے سے لی تھیں۔ اُن میںکمرے کا قالین کمرے میں لٹکے ہوئے پردے۔ بیلا کی باقی گڑیاں اور علی کا کھلونا فوجی۔ اس کے علاوہ وہ دیوار پر لٹکا ہوا کلاک بھی ساتھ ہی لے گئے۔
کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟ امی کہتی تھیں: ”کتنی عجیب بات ہے، بچوں کے کمرے کے علاوہ پورے گھر سے کوئی چیز غائب نہیں ہو رہی۔“ وہ بار بار بچوں سے پوچھتیں کہ اگر وہ یہ شرارتیں کررہے ہیں تو وہ سمجھ لیں کہ ان شرارتوں کی کڑی سزا ملے گی۔ بچے بھی اب بہت پریشان تھے لیکن اب ان کے ذہن میں آہستہ آہستہ یہ خیال کُلبلا رہا تھا کہ ہونہ ہو یہ چیزیں وہی پانچ چھوٹے ہی غائب کررہے ہیں۔ جنھیں انھوں نے جنگل والے گھر میں دیکھا تھا۔ اس رات وہ دونوں بہن بھائی کھلونوں کی الماری میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ تاکہ دیکھیں کون چوری کررہا ہے؟ آدھی رات کے وقت اِن کی توقع کے عین مطابق کھڑکی سے پانچوں چھوٹے کمرے میں داخل ہوئے تو دونوں بچے ان پر پل پڑے اور انہیں چور اور ڈاکو جیسے القاب سے نوازنے لگے۔ پانچوں چھوٹے حواس باختہ ہو کر بچوں سے پوچھنے لگے۔
”تم ہمیں چور اور ڈاکو کیوں کہہ رہے ہو؟ ہم نے تو کبھی بے ایمانی بھی نہیں کی۔ تم نے خود ہی تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہم بغیر بتائے کوئی بھی چیز لے سکتے ہیں؟“ چھوٹوں نے کہا کہ یہ ان کی اپنی غلطی ہے۔ تمھیں ہماری چیزیں پوچھے بغیر نہیں لینی چاہیے تھیں۔ ہمارے ماں باپ تو ہمارے سر پر نہیں ہیں۔ جو ہمیں بتائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط لیکن تمھارے تو ماں باپ موجود ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ تمھیں معلوم ہوگا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط لیکن پھر بھی اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے غلط حرکت کی ہے۔ تو ہم تمھیں تمھاری چیزیں واپس کردیتے ہیں لیکن تمھیں بھی ہماری آئس کریم ہمارے کیک اور ہمارے بسکٹوں کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ جو تم نے ہم سے پوچھے بغیر کھائے تھے اور تمھیں ہماری گیند اور بیگ بھی واپس کرنا ہوگا۔ دونوں بچوں نے اپنی جمع کی ہوئی ساری رقم اکٹھی کی اور چھوٹوں کو دی۔ ان کی گیند اور بیگ بھی واپس کیا۔ چھوٹے یہ چیزیں لے کر واپس روانہ ہو گئے اور تھوڑی ہی دیر میں ان کی ساری چیزیں واپس لے آئے۔
اگلی صبح جب ان کی امی نے ساری چیزیں دیکھیں تو انہوں نے بچوں کو بری طرح ڈانٹا اور کہنے لگیں۔ ”میں جانتی ہوں کہ تم نے خود ہی یہ چیزیں کہیں چھپائی تھیں۔ تم اتنا بُرا مذاق کرسکتے ہو۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔“ بچوں نے ا ماں کو جنگل میں گھر کے متعلق بتانے کی کوشش کی لیکن وہ ان کی جھوٹی باتوں کی عادی تھیں۔ انھوں نے ان پر یقین کرنے کے بجاے انہیں سزا کے طور پر سارا دن ان کے کمرے میں بند کر دیا۔ انھوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا: ” میں نے ہی تمھیں سچ بولنا نہیں سکھایا اور نہ ہی ایمان دار بننے کی تلقین کی۔ میرا خیال تھا کہ بڑے ہو کر تم خود بخود اچھے ہوجاؤگے۔ لیکن میں غلطی پر تھی۔ تم جھوٹے اور برے بچے ہو جن پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔“ وہ دونوں کمرے میں بند روتے رہے۔
علی نے بیلا کو کہا: ”ہم امی سے کیسے امید کریں کہ وہ ہم پر اعتماد کریں گی کیوں کہ ہم ان سے ہمیشہ جھوٹ بولتے رہے ہیں۔“
بیلا علی سے بولی: ” بھیا آئندہ ہم کسی کی چیز کو پوچھے بغیر ہاتھ نہیں لگائیں گے۔اب ہمیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ایسا کرنے سے اس شخص کے دل پر کیا گزرتی ہے۔“
بچو! میرا خیال ہے علی اور بیلا کو ان کے کیے کی صحیح سزا ملی۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ انہوں نے چھپ کر دیکھ لیا کہ پانچ چھوٹے ہی ان کی چیزیں لے کر جا رہے تھے ورنہ وہ دن دور نہیں تھا۔ جب ان کے کمرے میں کچھ بھی باقی نہ بچتا۔
٭….٭