skip to Main Content

بُرے پھنسے

اشعرانجم

۔۔۔۔۔

ہائے ہماری قسمت… خیر قسمت کو کیا رونا… کِیا دھرا تو سارا انسان کا ہی ہوتا ہے… ارے ارے ابھی تو ہم یہ سوچ رہے تھے کہ غلطی سے لکھ بھی بیٹھے اور آپ نے بھی اس کو پڑھنا شروع کردیا! خیر پڑھ لیجئے اب آپ کو کون روکے گا! لکھنے والا کبھی کبھار غلطی سے سچ لکھ جاتا ہے، لیکن ایک بات یاد رکھیے گا یہ جو رسالہ آپ کے ہاتھ میں ہے نا! بہت اچھا ہے، لیکن یہ جو آپ پڑھ رہے ہیں ’’بہت بور ہے‘‘ لیکن کبھی کبھار ’’بور‘‘ چیزیں بھی پڑھ لینی چاہئیں۔ اوہو! بھئی ہم یہ کیا اُلٹی سیدھی باتیں لکھ گئے اب ہمیں ٹرین کی پٹری پر آجانا چاہئے، ہمارا مطلب ہے سیدھے راستے پر… اور وہ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آج ہم نے آپ کو اپنا ایک اسکول کا واقعہ بتانا ہے اور بتانے کے لئے بولنا بہت ضروری ہوتا ہے، لیکن افسوس! ہم تو آپ کو نظر ہی نہیں آرہے، لیکن اس سے کیا ہوتا ہے۔ ہم لکھ دیتے ہیں اور آپ اس کو پڑھ لیں، لیکن ذرا غور سے پڑھیے گا، کیونکہ یہ ہمارے اسکول کے زمانے کا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک دن ہمارا کیمیا کا ٹیسٹ تھا اور حسبِ روایت یاد ہمیں کچھ بھی نہ تھا۔ ٹیچر اتنے سخت تھے کہ ’’چٹان‘‘ بھی اُن کے آگے پگھل کر غائب ہوجائے، دھاڑتے ایسے تھے کہ کچھ دیر کے لئے تو بچے بہرے ہی ہوجاتے تھے اور مارتے اس طرح تھے کہ زلزلہ آجاتا تھا ور پٹنے والا اور دیکھنے والے دونوں کا خوف سے خون خشک ہوجاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سخت گرمی ہونے کے باوجود ہم ڈبل ڈبل کپڑے پہن کر آتے تھے۔ پہلے تو یہی سوچا تھا کہ چھٹی کرلیں، لیکن ہمارے ابا جان کو تو چھٹی کے نام ہی سے نفرت تھی، بھلے دنیا اِدھر کی اُدھر ہوجائے، مگر ہمارے ابا جان ہمیں صبح صبح اُٹھا کر اسکول میں ایسے باقاعدگی سے ڈال جایا کرتے تھے، جیسے گھروں میں بجلی کے بل ڈالے جاتے ہیں۔ اس لئے چھٹی کی خواہش تو حسرت بن کر دل ہی میں رہ گئی اور ہمارے دل نے شدتِ غم سے نڈھال ہوکر یہی کہا کہ ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
ہمیں تو ویسے شعر و شاعری سے کوئی لگائو نہیں، لیکن یہ ہمارا دل ہے نا! بات بے بات جو شعر ذہن میں آتا جھٹ سے بول پڑتا ہے، اب ہمارے دل کو کیا معلوم کہ یہ اُلٹی سیدھی شاعری ہمیں کتنی بُری لگتی ہے۔ خیر چھوڑئیے جناب! آگے کی پڑھیے تو ہوا کچھ یوں کہ اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لئے ہم ڈبل ڈبل کپڑے تو پہن ہی آئے تھے، لیکن پٹنے کو یہ دل پھر بھی نہ مانا اور ایسے حالات میں ہمارے دل میں ایک چور آیا اور اس چور کا نام تھا ’’شیطان‘‘ اس نے ہمیں ایک آئیڈیا دیا اور وہ یہ کہ ہم پرنسپل صاحب سے چھٹی لے کر اپنے اسکول کے قریبی ہوٹل میں وقت گزار لیتے ہیں اور اس میں تو ٹی وی بھی لگا ہوا ہے، لہٰذا ہمارا مزہ تو دوبالا ہوجائے گا، مگر مصیبت یہ تھی کہ ہم بہانہ کیا بنائیں۔ ابھی یہ خیال ذہن میں آیا ہی تھا کہ شیطان ایک بار پھر ہمارے دماغ میں حاضر ہوا اور اگلے لمحے ہمارے پاس ایک بہت اچھا بہانہ موجود تھا اور وہ تھا ’’پیٹ کا درد‘‘ ، کیونکہ اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ہم نے مانا کہ ایک دوسرا ’’چارا‘‘ بھی ہوتا ہے، مگر وہ جانور کھاتے ہیں، اُس کا بھلا ہم اس وقت کیا کرسکتے تھے۔ نقل کا خیال بھی آیا، مگر وہ تو ہم کر ہی نہیں سکتے تھے، جس طرح ہر کوئی جہاز نہیں اُڑا سکتا، ویسے ہی ہر کوئی نقل بھی نہیں کرسکتا، کیونکہ جب بھی شیطان ہمارے دل میں نقل کا خیال ڈالتا، ہمارے ہاتھ پیر ایسے کانپتے جیسے ہم بہت بوڑھے ہوگئے ہوں اور ہاتھ پیروں پر سے ہمارا کنٹرول ختم ہوگیا ہو اور پسینے ایسے چھوٹتے جیسے ہم کہیں سے پورا پہاڑ کھود کر آرہے ہوں اور ویسے بھی پہاڑ کھودنے سے تو چوہا ہی نکلا کرتا ہے، کیونکہ مشہور ہے کہ ’’کھودا پہاڑ نکلا چوہا؟ بہرحال ہم اپنی شیطانی تدبیر کو بروئے کار لاتے ہوئے چوتھے پیریڈ کے اختتام پر پرنسپل روم کے دروازے پر دستک دے رہے تھے، کیونکہ ایک پیریڈ کے بعد چھٹے اور ساتویں پیریڈ میں ہمارا ٹیسٹ ہونا تھا۔ دستک تو ہم بڑے ہی ادب اور شریفانہ انداز میں دے رہے تھے، کیونکہ عام طور پر تو ہم کچھ اس طرح سے دروازہ دھڑ دھڑاتے تھے جیسے کوئی طبلہ بجا رہا ہو یا ’’پاکستانی پولیس‘‘ کہیں چھاپہ مارنے آئی ہو۔ بہرحال اندر سے بڑی بھاری بھرکم آواز آئی۔
’’Come in‘‘ اتنی بھاری بھرکم آواز اور وہ بھی اتنے گرجتے ہوئے انداز میں، ہم نے بہت کم ہی سنی تھی، لہٰذا پہلے تو ہمت ہی نہیں ہوئی کہ اندر جائیں اور سوچا کہ بھاگ چلیں، لیکن پھر سوچا کہ کلاس میں ناکام واپس جائیں گے تو نظریں ہی نہ اُٹھا سکیں گے اور سب ہنسیں گے اور کہیں گے کہ ’’بُرے پھنسے‘‘ اور تو اور بعد میں کیمسٹری کے پیریڈ میں پٹنا بھی پڑے گا، اس لئے ہم نے پرنسپل کو ہی منہ دکھانا زیادہ بہتر سمجھا، لیکن اندر گئے تو سر چکرانے لگا۔ ایک تو ٹینشن ہمیں پہلے ہی بہت تھی، اوپر سے چھٹی کی غرض سے جو اتنا بھاری بیگ ہم نے اپنے کندھوں پر لادا ہوا تھا، اس کے وزن سے ہم پیچھے کی طرف جھکے جارہے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم نہایت ادب سے کھڑے ہونے کی کوشش کررہے تھے، کیونکہ عام طور پر ہمارے کھڑے ہونے کا انداز کچھ ایسا ہی تھا اور پھر اگر ایسی عجیب و غریب اور اُوٹ پٹانگ کیفیت میں ہمیں اور لوگ دیکھ لیتے تو یہی سمجھتے کہ ہم میں چارلی چپلن کی روح گھس آئی ہے۔ آخرکار ہمیں اس طرح کھڑا دیکھ کر پرنسپل صاحب ایک بار پھر دھاڑے ’’کیا ہے؟‘‘ یہ انہوں نے کچھ ایسے غضبناک اور غصیلے انداز میں کہا کہ ہماری تو جان ہی نکل گئی۔ بہرحال ہم نے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور نہایت ادب سے اور دردناک انداز میں کچھ اس طرح التجا کی کہ ’’جناب میں آج صبح سے پیٹ کے درد میں مبتلا ہوں اور اسے برداشت کرتے کرتے تھک گیا ہوں، لہٰذا یہ بندۂ خدا آدھی چھٹی کی گزارش کرتا ہے، اس وجہ سے ہمیں چھٹی عنایت کردیجئے‘‘۔
یہ سب کچھ ہم نے نہایت دردناک انداز میں تقریباً روتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو رو ہی پڑتا، لیکن نہیں بھئی! ہماری فقیرانہ فریاد سُن کر بھی انہوں نے اس کے جواب میں وہ لمبی ڈانٹ پلائی کہ بدہضمی کی وجہ سے واقعی ہمارے پیٹ میں درد ہونے لگا۔ شاید ان کو علم ہوگیا تھا کہ ہم کیمسٹری کا ٹیسٹ نہیں دینا چاہتے۔ بہرحال ہم لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ پرنسپل روم سے باہر نکلے۔
اب تو ہمیں اپنے آپ پر شدید غصہ آرہا تھا۔ اس لئے کہ کچھ یاد ہی نہ کیا تھا۔ ابھی ہم واپس کلاس میں جا ہی رہے تھے کہ شیطان نے ہمیں ایک پیغام اور بھیجا جس کے مطابق ہم نے کچھ اس طرح عمل درآمد کیا کہ ہم پہلوانوں کی طرح اپنی کلاس کے آگے جاکھڑے ہوئے اور بڑے مطمئن انداز میں کلاس کو اور کلاس والوں کو دیکھا اور ہاتھ ہلاتے ہوئے سامنے سے گزر گئے۔ ہمارے اس عمل سے سب ہی سمجھ گئے کہ ہمیں چھٹی مل گئی ہے، مگر کسی کو کیا پتہ کہ ہم اُس وقت اپنی زندگی کی سب سے زبردست ایکٹنگ کرتے ہوئے سب کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ بہرحال چونکہ پیریڈ لگنے والا تھا، لہٰذا ہم نظر بچاتے زینے کے ذریعے اسکول کی چوتھی منزل پر خیر خیریت سے پہنچ گئے، منزل کیا تھی بس چھت سمجھ لیجئے جس پر ایک ہی کمرا تھا جس میں اسکول کی پرانی ٹوٹی پھوٹی ڈیسکیں (Desks) اور کباڑ بڑی بے دردی سے پھینکا گیا تھا، لہٰذا ہم اس کمرے میں جاکر چھپ گئے۔ گرمی کی وجہ سے دم تو گھٹ ہی رہا تھا، ساتھ ہی ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں کوئی پرنسپل صاحب سے شکایت نہ کردے، مگر کسی کو کچھ پتہ ہوتا تو ہی وہ شکایت کرتا نا! ہم نے گھڑی پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ ابھی تو چھٹی ہونے میں پورے دو گھنٹے باقی ہیں۔ خیر ہم نے جیسے تیسے کرکے زندگی کے طویل ترین دو گھنٹے پورے کئے اور آخرکار چھٹی کی گھنٹی کی آواز کانوں سے ٹکرائی تو جان میں جان آئی اور دل نے کہا کہ مشن مکمل ہوگیا، لیکن ہمیں پندرہ منٹ مزید وہیں رُکنا پڑا، کیونکہ ہمیں اسکول خالی ہونے کا انتظار بھی کرنا تھا، کیونکہ اگر کوئی ہماری کلاس کا لڑکا ہمیں دیکھ لیتا تو بھانڈا پھوٹ جاتا۔ بالآخر جب ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ اسکول خالی ہوگیا ہے تو ہم شیروں کی طرح اُٹھ کھڑے ہوئے اور دھڑلے سے نیچے جھانکا تو پتہ چلا ساری (Vans) بھی جاچکی ہیں اور اسکول ویران پڑا ہے۔ البتہ پرنسپل کی گاڑی اور چند موٹر سائیکلیں ضرور کھڑی تھیں، کیونکہ پرنسپل سمیت ٹیچر حضرات بھی چھٹی کے کچھ دیر بعد ہی جایا کرتے تھے۔ اتنے میں کوئی جانی پہچانی سی شخصیت ہمیں پرنسپل کی گاڑی کی جانب بڑھتی ہوئی دکھائی دی۔ چونکہ ہم ذرا اونچائی پر تھے، اس لئے ذرا غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود پرنسپل تھے، یہ جان کر ہم ایک بار پھر پیچھے ہٹ آئے اور حیرت ہوئی کہ خلافِ معمول آج پرنسپل جلد ہی چلے گئے، شاید کوئی کام ہوگا، یہ سوچ کر ہم نے دوبارہ نیچے کی طرف جھانکا تو پرنسپل صاحب جاچکے تھے اور ساتھ ہی خوشی بھی ہوئی کہ آخری خطرہ بھی ٹل گیا، اب ہم آسانی سے اپنے گھر کو جاسکتے تھے۔ ٹیچرز کی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیونکہ وہ تو سارے کے سارے حسبِ روایت اسٹاف روم میں چیکنگ میں مصروف تھے اور آخرکار ہم خوشی خوشی خیر خیریت سے گھر پہنچ گئے۔ پندرہ منٹ دیر سے آنے پر ڈانٹ تو پڑی، مگر وہ بھی ہم نے مسکراتے ہوئے بڑی خوشی خوشی سن لی اور پورا دن ہم اپنے ماسٹر مائنڈ پلان پر اپنے آپ کو داد دیتے رہے۔
لیکن ہائے ہماری قسمت! اگلے دن جب ہم اسکول گئے تو دوستوں نے بتایا کہ ’’سر نے تو کل ٹیسٹ ہی نہیں لیا، کیونکہ انہیں کل کسی کام سے جلدی جانا تھا، اس لئے دو میں سے انہوں نے صرف ایک ہی پیریڈ لیا اور اس میں انہوں نے ایک نئے چیپڑ کے حوالے سے لیکچر دیا اور اگلا پیریڈ ہمیں فری ملا جس میں ہمیں بہت مزہ آیا اور سر نے کہا تھا کہ ’’میں آج کا ٹیسٹ کل لوں گا‘‘۔ اس لئے ٹیسٹ آج ہوگا۔ تمہاری تیاری تو ہے نا؟‘‘ یہ سننا تھا کہ ہمارا سر ایسا چکرایا کہ ہم بے ہوش ہوتے ہوتے بچے اور پیٹ میں ایسا درد اُٹھا کہ کیا ہی کبھی ہوا ہوگا۔
دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ خوب چیخ چیخ کر روئیں، لیکن افسوس کہ ہمارے اس طرح رونے کی عمر نہیں تھی۔ خیر جب ہم ذرا سنبھلے تو ایک بار پھر شیطان نے کئی تجاویز پیش کیں اور پیغامات بھیجے، لیکن اس بار ہم نے شیطان کو اور اس کی ترکیبوں کو ایک زبردست ٹھوکر رسید کی۔ اُس دن تو ہم ڈبل ڈبل کپڑے بھی پہن کر نہیں آئے تھے، مگر پھر بھی ہم نے اس مشکل کا مردانگی سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اور ٹیسٹ سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو فارغ وقت ہاتھ آیا اُس کو غنیمت جان کر بڑی محنت اور دل لگی کے ساتھ کافی کچھ یاد کرلیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ٹیسٹ میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہم نے اپنے دماغ کو داد دی کہ جس نے ہماری محنت کی وجہ سے بہت جلد بہت کچھ اپنے اندر سمولیا اور آئندہ کے لئے بھی ہم نے فیصلہ کیا کہ کبھی وقت کو فضول کاموں میں خرچ نہیں کریں گے اور شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے، کیونکہ وہ تو ہمیشہ نقصان ہی پہنچاتا ہے۔ مگر ہم جیسے بے وقوفوں کو فائدہ نظر آتا ہے…
بہرحال ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ دل لگا کر محنت کریں گے ۔
’’اللہ تعالیٰ بھی ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور وقت کی قدر کرتے ہیں‘‘۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top