بُرائی کا سفر
کہانی: It came back to him in the end
مصنف: Enid Blyton
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان واقعات کا آغاز اس وقت سے ہوا جب ٹام نے ایک بری اور احمقانہ حرکت کی۔ وہ بس اسٹاپ پر دو اور لڑکوں کے ساتھ گھر جانے والی بس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ بینچ کے دوسرے سرے پر مسز مائیک بیٹھی تھیں جو بس کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے تقریباََ سوچکی تھیں۔ ان کے برابر میں شاپنگ کی ٹوکری رکھی تھی۔ جو اوپر تک بھری ہوئی تھی۔ ایک لڑکے نے ٹام کو ٹہوکا دیا۔ ”تم نے دیکھا، بوڑھی خاتون کی ٹوکری میں سب سے اوپر کیا رکھا ہے؟“ ٹام نے دیکھا۔ مسز مائیک نے اپنے پوتے کے لیے چاکلیٹ کی بڑی بار خریدی تھی اور وہ باسکٹ میں سب سے اوپر موجود تھی۔ ”اسے نکال لو!“ لڑکے نے ٹام سے دوبارہ سر گوشی کی۔ ”وہ سورہی ہیںاور ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ہمت کرو!“
ہمت کا غلط استعمال بعض دفعہ احمقانہ ہوتا ہے۔ وہ آپ کو خطر ناک یا برے کاموں پر اکساتا ہے اور آپ کو ”نہیں“ کہنے کے لیے بہت عقل مندی اور بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹام عقل مند نہیں تھا اور نہ ہی اتنا بہادر کہ اپنے ساتھی لڑکوں کو انکار کرنے کی جرات کر سکے۔ لہٰذا وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسز مائیک کی جانب بڑھا۔ اسے امید تھی کہ اس برے کام کو کرنے سے پہلے پہلے بس آجائے گی اور اس کی بہادری کا بھرم رہ جائے گا۔ ٹام حقیقتاً برا لڑکا نہیں تھا۔ وہ صرف دوسرے لڑکوں کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ وہ بہت ہوشیار اور بہادر لڑکا ہے۔ اس نے ٹو کری میں اپنا ہاتھ ڈالا، اس کی انگلیا ں چاکلیٹ سے ٹکرائیں اور اس نے آہستہ آہستہ اسے اوپر اٹھالیا اور پھر اچانک کچھ اور ہوگیا۔
کسی طرف سے اچانک ایک بڑا کتا اچھلتا ہوا آیا اور اس سے ٹکرا گیا۔ چاکلیٹ اس کے ہاتھ سے نکل کر زمین پر گر پڑی اور کتا ایک دم اس پرجھپٹ پڑا۔ اس نے چاکلیٹ کو کاغذ سمیت دوٹکڑوں میں دبائی ہوئی تھی۔ مسز مائیک جاگ اٹھیں۔ انھوں نے کتے کو اپنی قیمتی چاکلیٹ کھاتے ہوئے دیکھا۔ تو وہ سخت غصہ ہوئیں۔ انھوں نے اپنی چھتری اٹھائی اور کتے کو پیٹنا شروع کر دیا۔….”عف…. عف“…. کتا تکلیف سے چلانے لگا۔ تینوں لڑکے خوف زدہ ہو کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ٹام چقندر کی طرح سرخ ہورہا تھا۔ اس کی غلطی کی سزا کتے کو مل رہی تھی۔ وہ اتنا جرات مند تو تھاکہ دوسرے لڑکوں کے کہنے پر ایک غلط حرکت کر کے دکھادے تاہم وہ اتنا بہادر نہیں تھا کہ اپنے جرم کا اقبال کر سکے۔ لہٰذا وہ کتے کو بے دردی سے پٹتے ہوئے دیکھتارہا۔
ایک غصیلی آنکھوں والی عورت جو کتے کی مالکن تھی۔ اب وہاں پہنچ چکی تھی اور چلا رہی تھی۔ ”تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے کتے کو اس طرح مارنے کی! اپنی چھتری فوراً نیچے رکھو! میں تمہیں بتارہی ہوں۔ بے چارہ کتا! تم نے تو تقریباََ اس کی کمر ہی توڑدی ہے۔ مجھے تواس بات پر حیرت ہے کہ اس نے تم پر حملہ کیوں نہیں کیا!“
”اس نے میری ٹوکری سے چاکلیٹ چرائی ہے۔“ مسز مائیک چلائیں: ”یہ چور کتا ہے۔ لوگوں کی ٹوکریوں سے چیزیں اٹھاتا ہے۔“
”مجھے یقین ہے کہ یہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔“ دوسری عورت نے اپنے کتے کو نرمی سے تھپ تھپاتے ہوئے کہا: ”اس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی چیز نہیں چرائی۔ تمہیں میرے کتے کو اس بے دردی سے مارنے پر معافی مانگنی ہوگی ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔“
”میں ایک کتے سے معافی نہیں مانگوں گی۔“ مسز مائیک نے اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے کہا کیوںکہ انھوں نے بس کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ”اور مزید یہ کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔“ دوسری عورت مسز مائیک کو بس میں سوار ہوتے دیکھ کر چلائی: ”اوہ! تو تمہارا خیال ہے کہ میں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی؟ خیر! توسن لو! تم میری دکان سے اپنی بلی کے لیے مچھلی کی آلائش خریدتی ہو ناں! مگر اب تم میری دکان سے مزید خریداری نہیں کر سکوگی۔“
وہ عورت دراصل مسز جیک تھی، جس کی قصبے میں مچھلی کی واحد دکان تھی۔ ہر دوسرے دن وہ مسز مائیک کی بلی کے لیے مچھلی کی آلائش کا ایک پارسل بنا کر انھیں دیتی تھی۔ بلی کو مچھلی کی آلائش بہت پسند تھی اور وہ بے چینی سے ان کے پکنے کا انتظار کر تی تھی۔ مسز جیک تینوں لڑکوں کی طرف مڑیں جو خود بھی بس میں سوار ہورہے تھے: ”میرے کتے کو چور کہنے پر میں اسے ضرور سبق سکھاﺅں گی ورنہ کل کو وہ کہے گی کہ تم لوگ بھی چور ہو!“
ٹام یہ بات سن کر پہلے سے زیادہ سرخ ہوگیا۔ وہ واقعی بہت شرمندہ تھا مگر غلط حرکت تو سر زد ہوچکی تھی اور جس وقت ٹام اقبال جرم کر کے اس کا ازالہ کر سکتا تھا، وہ ڈر کے مارے نہیں کر پایا تھا۔
مسز جیک اپنی بات کی پکی تھی۔ اس نے مچھلی کی تمام آلائش مسز مورس کو ان کی سیامی بلی کے لیے دے دی۔ جب مسز مائیک دکان پر آئیں تو ان کے خریدنے کے لیے ایک چھیچھڑا بھی نہیں بچا تھا۔
”میں تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ میں تمہیں مزید آلائش نہیں دے سکتی کیونکہ تم نے میرے کتے کو مارا تھا۔“ مسز جیک نے سختی سے کہا ۔ ”ہاں! تم اپنی بلی کے لیے پوری مچھلی خرید سکتی ہو۔ دس پنس کی آلائش خریدنے کے بجائے تم کو پچاس پنس کی مچھلی خریدنی ہوگی۔“
”تم جانتی ہو کہ میں اتنی مہنگی مچھلی نہیں خرید سکتی۔“ مسز مائیک نے مایوس ہوکر کہا۔ ”یہ تو تمہیں اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب تم نے میرے کتے کو مارا تھا اور اسے چور کہا تھا۔“ مسز جیک نے سرد مہری سے کہا: ”اب ذرا اگلے گاہک کے لیے راستہ چھوڑدو!“
مسز مائیک خالی ہاتھ گھر گئیں تو ان کی بلی دروازے پر بیٹھی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ مچھلی کی بو نہ پاکر وہ میاﺅں، میاﺅں کر نے لگی۔ ”میری غریب بلی! آج سے تمہیں مچھلی نہیں ملے گی۔“ مسز مائیک نے افسردہ لہجے میں کہا۔ ”میں تمہیں اپنے کھانے میں سے بچا کھچا دوں گی مگر وہ تمہارا پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی ہوگا۔ اب سے تمہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے خود کھانے کی تلاش کرنی ہوگی۔“ بلی نے مچھلی کے لیے کافی دیر تک انتظار کیا۔ مگر وہاں مچھلی ہوتی تو ملتی۔ مسز مائک نے اپنے کھانے میں سے بچا کچھا اس کو دیا مگر وہ بڑی بلی تھی اور ہمیشہ ہی بھوکی رہتی تھی۔ چند ہی دنوں میں وہ دبلی پتلی اور فاقہ زدہ نظر آنے لگی۔ پیٹ بھرنے کی خاطر وہ باہر گلی میں گھومتی رہتی۔ وہ جانتی تھی کہ لوگوں کے گھروں کے آگے رکھے کوڑے دانوں میں لوگ ہر طرح کی چیزیں پھینکتے ہیں اگر وہ کسی طرح کوڑے دان کا ڈھکن ہٹا سکے تو وہ اندر جاکر اپنی پسند کا کھانا تلاش کر سکتی ہے۔
وہ ایک بڑی اور ذہین بلی تھی۔ اس نے جلد ہی سیکھ لیا کہ کوڑے دان کا ڈھکن کیسے ہٹایا جاسکتا ہے۔ وہ چھلانگ لگا کر کوڑے دان کا ڈھکن فرش پر گرا دیتی اور پھر اندر گھس کر اپنی پسند کی چیزیں ڈھونڈ کر کھایا کر تی تھی۔
ایک دن چوہا محلے میں آگیا۔ وہ ایک بڑا لیکن نسبتاًکمزور چوہا تھا، کیوںکہ پچھلے دو ہفتوں سے اسے کھانے کو خاطر خواہ نہیں ملا تھا۔ بلی کی بو پاکر وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اس نے چھپ کر بلی کی نگرانی کا فیصلہ کیا تاکہ پتہ چل سکے کہ بلی کہاں رہتی ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت کا بندوبست کرے اور پھر چوہے نے دریافت کر لیا کہ بلی کو ڑے دانوں کے پاس جاتی ہے اور جھٹکے سے ڈھکن گرا کر اندر بیٹھ کر کھانا کھاتی ہے۔ چوہا یہ دیکھ کر خوش ہوگیا۔ ”میں بھی کوڑے دان کا ڈھکن ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔“ اس نے سوچا: ”یہ تو بڑی اچھی بات ہے! میں انتظار کروں گا جب تک بلی ایک کوڑے دان کو چھوڑ کر اگلے کا رخ نہیں کرتی اور پھر جیسے ہی وہ آگے چلی جائے گی، میں اس کے پیچھے ہر کوڑے دان کے اندر گھسوں گا۔ جو کچھ بلی سے بچ رہے گا وہ میرے لیے بہت کافی ہوگا۔“
پھر اس نے ایسا ہی کیا۔ ہر رات ایک محفوظ فاصلے پر رہتے ہوئے وہ بلی کا پیچھا کرتا اور کھلے ہوئے کوڑے دانوں میں گھس کر کھانا کھاتا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ بہت موٹا تازہ اور خوش حال ہوگیا۔ اب چوہے نے سوچنا شروع کر دیا کہ اسے شادی کر لینی چاہیے۔ ”میں اپنے خاندان کے لیے ہمیشہ اچھے سے اچھا کھانا ڈھونڈ سکتا ہوں۔“ اس نے سوچا: ”ہاں! میں اب ایک خوب صورت چوہیا سے شادی کروں گا۔“ لہٰذا جلد ہی اس نے شادی کرلی اور وہ ایک باغیچے میں بل بنا کر رہنے لگے۔ ان کے ہاں دس بچے پیدا ہوئے۔ چوہا اور چوہیا بہت خوش تھے۔ ”جلد ہی ہم پورے محلے پر چھا جائیں گے۔“ چوہے نے کہا: ”اگر چہ ہمیں کوئی پسند نہیں کرتا ہے مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ جب تک بلی ہمارے لیے کوڑے دانوں کے ڈھکن اٹھاتی رہے گی۔ ہمیں کھانے پینے کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی لیکن جلد ہی محلے کے لوگ رات میں کوڑے دانوں کے ڈھکن گرنے کی آوازیں سن سن کر تنگ آگئے۔ کچھ لوگوں نے رات کو گلی کی نگرانی کا فیصلہ کیا اور آخر کار مسٹر ولسن نے بلی کو پکڑ ہی لیا۔ ”ارے! یہ تو مسز مائیک کی بلی ہے!“ وہ چلائے: ”انھیں اپنی بلی کو رات کے وقت گھر میں بند کر کے رکھنا ہوگا۔ ہم اسے اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ روز رات میں ہمارے کوڑے دانوں کے ڈھکن اٹھا اٹھا کر پھینکے اور کوڑا بکھیر کر چلی جائے۔ ہر گز نہیں!“
محلے داروں نے مسز مائیک کو اپنا فیصلہ سنایا۔ لہٰذا مسز مائیک رات کے وقت اپنی بلی کو گھر میں بند کر کے رکھنے پر مجبور ہوگئیں اور یوں رات کو محلے کے کوڑے دانوں کے ڈھکن گرانے اور کھانا چرانے کا سلسلہ بند ہوگیا۔ جب رات کو چوہا گلی میں نکلا تو یہ دیکھ کر سخت حیران اور غصہ ہوا کہ تمام کوڑے دانو ں کے ڈھکن اپنی جگہ پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ خود سے انھیں ہٹا نے کے قابل نہیں تھا۔ لہٰذا وہ اپنے اور بیوی، بچوں کے لیے کھانا تلاش نہ کرسکا۔ ”اس کاکوئی فائدہ نہیں کہ ہم بلی کے پاس یہ پوچھنے کے لیے جائیں کہ اب وہ راتوں کو کوڑے دانوں میں کھانا ڈھونڈ نے کیوں نہیں جاتی۔“ اس نے چوہیا سے کہا۔ ”وہ الٹا مجھ پر ہی جھپٹ پڑے گی۔ سب بلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔“
”اچھا خیر! پھر کھاناڈھونڈنے کے لیے تمہیں خود باہر نکلنا پڑے گا۔“ چوہیا نے کہا: ”ہمارے دس بچے ہیں اور ان کا پیٹ بھرنا مشکل کام ہے۔ جاﺅجاکر اچھی طرح باہر کھانا تلاش کرو۔“ چوہے نے ساری رات کھانا تلاش کیا مگر وہ صرف آلو کے کچھ پرانے چھلکے ہی ڈھونڈ سکا۔ ”یہ ہمارے بڑے کنبے کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی نہیں!“ چوہیا نے کہا۔ ”ہمیں اس سے زیادہ محنت کرنی ہوگی۔ کیا تم کچھ چوزے یا بطخ کے بچے تلاش نہیں کر سکتے ؟ اگر آس پاس کوئی فارم ہے تو وہاں جاکر دیکھو۔“
اب سنیے! ٹام کے والد کا فارم چوہے کے گھر سے بہت نزدیک تھا۔ ٹام کو فارم پر رہنے والے گھوڑے، گائے، بھیڑ، بطخ اور مرغیوں سمیت تمام جانوروں سے پیار تھا۔ اس سال اس کی بطخ نے دس بچے دیے تھے۔ جو ایک ڈبے میں اپنی ماں کے ساتھ رہتے تھے اور ایک رات چوہے نے ان کی بو پالی۔ وہ پنجوں کے بل چلتا ہوا دڑبے کے قریب گیا اور اپنی ناک دڑبے کی جالیوں سے لگا دی۔ بطخ نے فوراََ اپنی چونچ ماری اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ گھر واپس جاکر اس نے چوہیا کو بتایا: ”وہاں باڑے پر بطخ کے بچے ہیں، ایک بے وقوف بطخ ان کی نگران ہے۔ میں جلد ہی ان سب کو حاصل کرلوں گا۔“
چوہا بہت عیار اور مکار تھا۔ اس نے دڑبے کی پچھلی سمت ایک چھوٹا سا سوراخ تلاش کر لیا اور وہا ں سے جالی کترنے گا۔ بطخ کوئی آواز نہ سن سکی۔ جب وہ سوراخ اتنا بڑا ہوگیا کہ چوہا اندر گھس سکے تو اس نے جھپٹا مار کر ایک ننّے بچے کو دبوچ لیا۔ بچہ خوف سے چلایا مگر اس سے پہلے کہ ماں کچھ کر سکتی، چوہا بچے کو لے کر فرار ہوچکا تھا۔ اس رات وہ تین بچے لے گیا۔ بے چاری بطخ دڑبے میں ادھر سے ادھر دوڑتی بھاگتی اور چیختی رہی مگر وہ مکار چوہے کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
جب اگلے دن ٹام بطخ کے بچے دیکھنے گیا تو وہاں صرف سات بچے رہ گئے تھے۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ تین بچے کہاں گئے؟ کیا کوئی چوہا انھیں لے گیا؟ اس نے دڑبہ اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا مگر چوہے نے جلد ہی نئی جگہ بھی تلاش کرلی۔ ہفتے کے آخر تک ایک بچہ بھی نہ بچ سکا۔ چوہے نے سب شکار کرلیے۔ ٹام آنکھوں میں آنسو بھر کر اپنی امی کے پاس گیا۔ ”امی! میرے سارے چوزے چوہا لے گیا۔ وہ اتنے پیارے بچے تھے۔ میں نے تو سوچا تھا کہ جب وہ بڑے ہوکر انڈے دیں گے تو میں انھیں فروخت کروں گا۔“
”مجھے بھی افسوس ہے ٹام!“ اس کی امی نے کہا۔ ”یہ میرے ساتھ ظلم ہے!“ ٹام نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔ ”میں نے آخر ایسا کیا کیا تھا۔ میرے ساتھ اتنا بُرا ہوا۔ میں نے تو کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا۔“
ٹام یہ کہتے ہوئے بھول گیا تھا کہ اس نے کچھ عرصے پہلے ہی مسز مائیک کی ٹوکری سے چاکلیٹ چراکر برائی کاآغاز کیا تھا۔ وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ مسز مائیک نے، مسز جیک کے کتے کو چاکلیٹ چرانے کے جرم میں کس بے دردی سے مارا تھا اور وہ خاموشی سے کھڑا تماشا دیکھتا رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس لڑائی کی وجہ سے مسز جیک، مسز مائیک کی بلی کے لیے مچھلی کی آلائش دینا بند کر دیں گی جس کی وجہ سے ان کی بلی لوگوں کے کوڑے دانوں کے ڈھکن الٹ کر کھانا ڈھونڈنا سیکھ لے گی۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ ایک چوہا ان کے محلے میں آجائے گا اور کھلے ہوئے کوڑے دانوں میں موجود کھانا پاکر شادی کرے گا اور اس کھانے پر ایک بڑے خاندان کی پرورش شروع کرے گا۔ ٹام یہ اندازہ نہیں لگاسکتا تھا کہ جب بلی کو رات کے وقت گھر میں بند کر دیا جائے گا تو وہ کوڑے دان نہیں کھول سکے گی اور چوہے کو اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے اس کے باڑے کا رخ کرنا پڑے گا اور یوں برائی کے اس سفر کا انجام اس کے چوزوں کی موت پر ہوگا۔
بے چارہ ٹام! وہ واقعی نہیں جانتا تھا کہ ایک برائی دوسری بہت سی برائیوں کا راستہ کھول دیتی ہے اور گھوم پھر کر اس برے کام کے نتائج آخر اسی شخص کو بھگتنا پڑتے ہیں جس نے برائی کا آغاز کیا ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے ایک اچھے کام کی بنیاد رکھنی چاہیے تاکہ واپس پلٹ کر بھی آخر کار میرے پاس اچھائی ہی آئے، برائی نہیں!! آپ کا کیاخیال ہے؟
٭….٭