skip to Main Content

بوری

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگو ں کا خیال تھا کہ وہ چور ہے لیکن پھر….!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماسٹر حمید الدین سرجھکائے تھانے میں بیٹھے تھے، نگاہیں فرش پر جمی تھیں، تھانیدار پیپر ویٹ سے کھیلتے ہوئے پر خیال نظروں سے انہیں گھور رہا تھا۔ ان کی کہنیاں گھٹنوں پر ٹکی تھیں۔ وہ گھبراہٹ اور شرمندگی سے ہاتھوں کو رگڑ رہے تھے، وقفے وقفے سے ستواں ناک پر پھسل آنے والے چشمے کو اوپر کرلیتے، کشادہ پیشانی پر عرق ندامت بھی چمک رہا تھا۔
تھانے میں چند اور لوگ بھی نظر آرہے تھے ان میں دو خواتین اور صاحب شامل تھے۔ خواتین آپس میں کھسر پھسر کررہی تھیں، وہ بار بار تھانے کے فرش پر رکھی اس بوری کی طرف دیکھتیں، جس کا منہ مضبوطی سے باندھا گیا تھا۔
”سنتے تھے کہ بلی بھی ساتھ گھر چھوڑ کر منہ مارتی ہے لیکن ماسٹر صاحب نے تو دوست کا گھر بھی نہ چھوڑا۔“ ایک خاتون نے سرگوشی کی۔
”ہاں بہن بہت برا زمانہ آگیا ہے۔“ دوسری بولیں۔
”پتا نہیں کیا کچھ اڑالیا تھا، پروفیسر مرحوم کا بیٹا فرانس سے ایک سے ایک کرسٹل کے شوپیس لایا کرتا تھا۔“ پہلی خاتون پراشتیاق نظروں سے بوری کو تکتے ہوئے بولیں۔
”جب بوری کھلے گی تو پتا چلے گا، نہ جانے پروفیسر کی بیٹی کب آئے گی۔“ دوسری گھڑی دیکھتے ہوئے بولیں۔
پروفیسر عظمت اور ماسٹر حمید الدین آپس میںگہرے دوست تھے۔ ان کے مشاغل یکساں تھے۔ دونوں علم و ادب کے رسیا تھے، لکھنے لکھانے سے بھی دلچسپی تھی۔ دونوں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوچکے تھے۔ گو کہ ان میں بہت بڑا طبقاتی فرق تھا لیکن روز ہی ملاقات کرتے تھے۔ ماسٹر صاحب ان کے بنگلے سے کچھ دور ایک متوسط طبقے کی آبادی میں رہتے تھے، وہ سر شام ہی پروفیسر کے ہاں چلے آتے اور رات گئے واپس جاتے۔ پروفیسر صاحب ان پر بہت اعتماد کرتے تھے، انہیں گھر کی چابی تک دے رکھی تھی۔
ایک دن پروفیسر صاحب خاموشی سے انتقال کرگئے۔ بیوی کا پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا۔ اولادوں میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے۔ بیٹا فرانس میں تھا، بیٹی اسی شہر میں رہتی تھی، اب مہینے بھر سے گھر خالی پڑا تھا۔
ایک سراغ رساں پڑوسن نے ماسٹر صاحب کو نو بجے کے وقت پروفیسر صاحب کی روش پر ٹہلتے دیکھا۔ وہ بجری پر چلتے دروازے تک گئے پھر واپس پلٹ گئے، ان کے بغل میں ایک بوری دبی تھی، پڑوسن نے جلدی سے دور بین نکال لی، ماسٹر صاحب واپس آرہے تھے، دروازے تک آکر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور جیبیں ٹٹولنے لگے۔ پڑوسن پردے کی آڑ سے نظر رکھے ہوئے تھیں۔ انہوں نے چابی نکال کر دروازہ کھولا اور اندر چلے گئے۔ پڑوسن نے فوراً اپنے میاں صاحب کو بتایا۔ دونوں اپنے دروازے پر آکھڑے ہوئے، ایک اور پڑوسن بھی انہیں دیکھ کر وہاں آگئیں۔ پروفیسر کے بنگلے میں مختلف کمروں کی بتیاں جلتی بجھتی رہیں پھر اسٹڈی (کمرہ مطالعہ) کی بتی دیر تک جلتی رہی۔
”پولیس کو اطلاع دینی چاہیے۔“ میاں صاحب بولے اور ایمرجنسی نمبر پر فون کیا۔ پولیس موبائل قریب ہی کہیں موجود تھی۔ وہ دس منٹ میں پہنچ گئے جس وقت پولیس آئی۔ ماسٹر صاحب بوری کندھے پر اٹھائے بوجھ سے دہرے ہوئے باہر نکلے تھے۔ پولیس کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئے۔ پھر بے چوں و چرا تھانے چلے آئے اور اب شرمندگی کا مجسمہ بنے بیٹھے تھے۔ پروفیسر صاحب کی بیٹی کا انتظار تھا۔
باہر گاڑی آکر رکی۔ ”میرا خیال ہے آپ لوگوں کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔“ بیٹی بیٹھتے ہوئے بولی۔
”بی بی! آپ نے ابھی دنیا نہیں دیکھی، ہم نے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔“ تھانیدار تیزی سے بولا پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا: ”آئیں دیکھتے ہیں کیا کچھ سمیٹا ہے، کیس تو پکا ہے۔“
اس نے بوری کا منہ کھول کر اندر جھانکا۔ سب کی نظریں بوری پر جمی تھیں۔ اس نے بوری کو الٹنے کے لیے نیچے ہاتھ ڈالا۔
”ذرا احتیاط سے!“ ایک خاتون کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
تھانیدار نے بوری فرش پر الٹ دی۔ ڈھیر ساری کتابیں فرش پر پھسلتی چلی گئیں۔ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔
”ہائیں! انکل آپ کتابیں لینے آئے تھے؟“ بیٹی حیرانگی سے بولی۔ ماسٹر صاحب نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور ہکلا کر بولے۔ ”جی…. میں پروفیسر صاحب سے کتابیں لے کر پڑھتا رہتا تھا ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، دراصل کتابیں اتنی منہگی ہوگئی ہیں کہ غریب آدمی خرید ہی نہیں سکتا، مطالعہ کی طلب مجھے وہاں کھینچ کر لے گئی، میرے پاس چابی تھی، میں نے سوچا ایک ساتھ بہت سی کتابیں لے آتا ہوں، پڑھ کر واپس رکھ آﺅں گا۔ میری چوری کی نیت نہیں تھی۔“ وہ اٹک اٹک کر بول رہے تھے۔
”انکل آپ مجھے فون کردیتے میں آکر دے دیتی۔“
”میرے پاس تمہارا نمبر نہیں تھا۔“
بیٹی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی: ”آپ کو تو شاید ابو کی وصیت کا بھی پتا نہیں ہوگا۔ اس میں انہوں نے سب کتابیں آپ کو دینے کا ہی لکھا ہے، بھائی کا انتظار ہے وہ آجائے تو وصیت پر عمل کریں۔“
ماسٹر صاحب غم زدہ بیٹھے تھے۔ تھانیدار تیزی سے کچھ سوچ رہا تھا۔ پروفیسر کی بیٹی تھانیدار کے خیالات کو بھانپ کر معاملے کو نمٹاتے ہوئے بولی: ”لائیں انکل چابی مجھ کو دے دیں آپ کو جب بھی کتابوں کی ضرورت ہو مجھے فون کردیا کریں۔ آئیں میں آپ کو گھر چھوڑ دیتی ہوں، کتابیں بھی لے لیں یہ تو آپ کی ہی ہیں۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
تھانیدار ہار مان کر بے زاری سے کسی کو فون کرنے لگا۔ خواتین جمائیاں لیتے ہوئے پلکیں جھپکارہی تھیں۔ میاں صاحب اٹھتے ہوئے بولے۔ ”خواہ مخواہ اتنا وقت برباد ہوا“۔

٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top