skip to Main Content

بوڑھا بچہ

ڈاکٹر عزیزہ انجم
۔۔۔۔۔۔

پیارے بچو آج ایک مزے کی کہانی سنتے ہیں بہت ہی مزے کی۔۔۔
بھئی ایک دن تو بہت عجیب واقعہ ہوا۔ہنسی بھی آتی ہے اور خوشی بھی ہوتی ہے۔اور دنیا کے سب سے بڑے انسان کی عظمت بھی سامنے آتی ہے۔شاید بچوں نے اور بہت سے بڑوں نے بھی اس واقعے کو کم ہی سنا یا پڑھا ہوگا۔
بچو جیسا کہ آپ جانتے ہیں عرب میں صحرا بھی ہیں،پہاڑ بھی اور پہاڑوں کے درمیان وادیاں بھی۔پہاڑ کے دامن میں جو ہموار میدان یا علاقہ ہوتا ہے اسے وادی کہتے ہیں جیسے پاکستان کی وادی نیلم،وادی سوات اور کشمیر کی وادی۔یہ سارے سر سبز و شاداب علاقے پہاڑوں کے دامن میں ہیں، اس لئے انہیں وادی کہا جاتا ہے۔وادیاں چھوٹی بھی ہوتی ہیں،بڑی بھی۔جہاں وادیاں ہوں گی وہاں بچوں کے کھیلنے کی اس سے اچھی جگہ کہاں ہوگی۔
عرب میں چھوٹی بڑی بہت سی وادیاں ہیں۔کوئی پتوں اور پھولوں سے بھری اور کوئی خالی مٹی اور ریت سے اٹی ہوئی۔ایسی ہی ایک چھوٹی سی وادی تھی اور فرصت کے دن۔بچے وہاں کھیل رہے تھے۔کون سا کھیل یہ معلوم نہیں۔بچے عموماً بہت سارے کھیل خود بھی بنا لیتے ہیں اور کھلی جگہ ہو، ہوا ہو اور چھپنے کی جگہیں تو…… چھپنے اور ڈھونڈنے والا کھیل کھیلنا بہت اچھا لگتا ہے۔بچے کتنے بڑے تھے۔یہی کوئی آٹھ نو سال کے بچے جیسے ہماری چوتھی یا پانچویں کلاس کے بچے۔اس عمر کے بچے بہت شرارتیں کرتے ہیں۔سمجھ داری والی شرارتیں۔ایسی شرارتیں جو مل کر منصوبہ بنا کر کی جاتی ہیں تو وہ بچے بھی آپ میں سے کچھ بچوں کی طرح شریر بھی تھے،سمجھ دار بھی۔شرارت اگر سمجھ داری کے ساتھ ہو تو مزا دے جاتی ہے۔بچے کھیل میں مصروف تھے کہ انہیں ایک آواز آئی پہاڑ کے دامن میں گونجتی اذان کی آواز۔
ہوا یوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے ساتھوں کے ساتھ ایک غزوے سے واپس آرہے تھے۔غزوے کانام تھا ”غزوہئ حنین۔“غزوہ کسے کہتے ہیں یہ آپ اپنی امی سے پوچھئے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اسی پہاڑ کے دامن سے ہوا جس کی دوسری طرف بچے کھیل رہے تھے۔جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو نماز کا وقت ہوگیا۔آپ کو تو پتا ہے پیارے نبی کو نماز کتنی پیاری تھی۔نماز تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو اذان دینے کے لئے کہا۔
آپ کو معلوم ہے نا پیارے نبی کے ساتھیوں کو کیا کہتے ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ۔بالکل ٹھیک۔
”اللہ اکبر،اللہ اکبر“ پہاڑ کے دامن میں اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھی۔اذان کی آواز سن کروہ سارے شریر بچے بھی اذان کے الفاظ کو اسی طرز پر زور زور سے دہرانے لگے۔ادھر سے ”حی علی الفلاح“کی صدا بلند ہوتی۔ ادھر وہ بچے بھی”حی علی الفلاح“ اونچی آواز میں کہتے۔یوں سمجھو جیسے کوئی نقل اتار رہا ہو۔نقل اتارنا اگر کسی کا مذاق اڑانے کے لئے ہو تو سخت معیوب اور نا پسندیدہ بات ہے۔ اللہ اس بات سے ناراض ہوتا ہے کہ کسی کا مذاق اڑایا جائے یا نقل اتاری جائے۔پیارے نبی ﷺنے بھی نقل اتارنے سے منع کیا ہے، اس لئے کہ جس کی نقل اتاری جائے اس کا دل بہت دکھتا ہے۔
کیا کوئی نقل اچھی ہوتی ہے؟اگر کسی کی اچھی بات اچھی صفت یا خوبی کی نقل اس لئے کی جائے کہ وہ مجھ میں بھی پیدا ہو جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔مثلاً سعودی عرب کے مشہور قاری شیخ سدیس کی قرأت بے حد پیاری ہے۔دل سن کر جھوم اٹھتا ہے۔ جی چاہتا ہے سنتے ہی رہو۔اگر قرأت میں شیخ سدیس کی طرز کی نقل کی جائے تو یہ احسن اور اچھی بات ہے۔
تو ہوا کچھ یوں کہ بچے اذان میں پیارے نبی کے نام کی نقل اتار رہے تھے۔ ہم ہوں تو شاید ہمیں غصہ ہی آجائے۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو بلایا۔بچے تو ڈر ہی گئے۔لیکن پیارے نبیﷺ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔بہت رحیم اور شفیق تھے۔پیارے نبیﷺ نے بچوں کو پیار کیا۔ان کے نام پوچھے اور سب سے باری باری اذان سنی۔
ایک بچے کانام تھا”ابو محذورہ۔“اس بچے کی آواز بہت اچھی اور بلند تھی۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر کے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا تم حرم میں اذان دینا۔
پتا ہے بچو! بعد میں کیا ہوا۔ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔جوان ہوئے اور پھر بوڑھے ہوگئے۔آپ حرم میں اذان دیتے تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی وجہ سے ان کے سر کے بال ہمیشہ سیاہ رہے، سفید نہیں ہوئے۔وہ بڑھاپے میں بھی سیاہ گھنے بالوں کے مالک تھے۔یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کی معجزاتی برکت تھی۔
دل چاہتا ہے نا ہم بھی ابو محذورہ رضی اللہ عنہ ہوتے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top