skip to Main Content
بولتی شمع

بولتی شمع

بہزاد لکھنوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک لڑ کا رہتا تھا۔جس کا باپ بھیک مانگا کرتا تھا۔یہ اس کاخاندانی پیشہ تھا۔چنانچہ شروع شروع میں وہ اپنے باپ کے پاس بازاروں میں بھیک مانگنے لگا۔وہ روتی آواز بنا کر راہ چلتوں سے کہتا:

’’ بابا خدا کے نام پر مجھے کچھ دو۔ میں دووقت کا بھوکا ہوں۔‘‘

لیکن رفتہ رفتہ جب اس کو بھیک مانگنے کا طریقہ اچھی طرح آگیا۔تو وہ اکیلا ہی مانگنے کے لئے جانے لگا۔

روز صبح اٹھ کر وہ پھٹے سے پھٹا اور میلے سے میلا کپڑا پہن کر بازاروں میں نکل جاتا۔اور ہر شخص کے پاس جا کر روتی آواز بناتا اور ہاتھ پھیلا دیتا۔ کوئی اسے دیتا اور کوئی نہ دیتا۔

غرض وہ جو کچھ شام تک کماتا ،لا کر اپنے باپ کے ہاتھ میں رکھ دیا کرتا تھا۔لیکن وہ دل سے اسے پسند نہ کرتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہر شخص اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ہر شخص اسے دھتکارتا ہے۔کیا وہ انسان نہیں ہے۔کیا اس کے ویسے ہی ہاتھ پیر نہیں ہیں جیسے اور لوگوں کے ہوتے ہیں۔لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔وہ ایک بھیک منگے کے گھر پیدا ہوا تھااور وہ بھیک مانگنے پر ہی مجبور تھا۔نہ وہ لکھا پڑھا ہی تھا کہ کہیں جا کر کوئی دوسرا کام کرکے پیٹ پال لے۔

ایک دن اس نے دل میں سوچا کہ وہ کسی طرح اپنے باپ کے پاس سے بھاگ جائے اور کسی دوسرے شہر میں نکل جائے۔تو وہ اپنی مرضی سے جس طرح کی زندگی چاہے بسر کرلے گا۔اس شہر میں تو غیر ممکن ہے۔یہ ارادہ آتے ہی اس کا پریشان دل ذرا مطمئن ہوا۔وہ بھیک مانگتے مانگتے شاہی محل کے سامنے پہنچ گیا ۔وہاں ہزاروں آدمیوں کو اندر جاتے دیکھ کر وہ بھی بھیڑ میں شامل ہو گیا۔ وہ اندر پہنچ گیا۔ اندرمحل خوب سجا ہوا تھا۔ہزاروں قسم کے جھاڑ اور فانوس چھت میں لٹک رہے تھے ۔سب جانے والے دو قطاروں میں ہوگئے۔ اور چپ چاپ کھڑے ہوگئے۔انہیں میں یہ لڑکا بھی شامل ہو گیا۔کسی نے اسے کچھ نہ کہا۔دس منٹ تک خاموشی چھائی رہی۔ یکایک شہنائی کی آواز آنا شروع ہوئی۔ پردہ ہٹا اور بادشاہ سلامت سب کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ جتنے بھی آدمی وہاں تھے آدھم آدھ جھک گئے۔انہیں کی دیکھا دیکھی لڑکا بھی جھک گیا۔ کسی آدمی کی آواز آئی:

’’سر اٹھاؤ۔جہاں پناہ تمہاری تعظیم قبول کرتے ہیں۔‘‘

اب سب آدمی پھر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ایسا ہی لڑکے نے بھی کیا۔ یکایک وہی آدمی پھر بولا:

’’ شہریو! تم کو جہاں پناہ نے آج اس لئے بلایا ہے کہ جہاں پناہ نے تین دن ہوئے ایک خواب دیکھا ہے اور وہ خواب یہ ہے کہ جہاں پناہ اپنے محل میں آرام فرما رہے ہیں کہ سرہانے کی شمع نے ان سے باتیں شروع کیں۔

شمع نے کہا’ اے بادشاہ تیری بادشاہی کس کام کی ہے ،اگر تیرے پاس بولتی شمع نہیں ہے۔ بولتی شمع تیرا درد، دکھ تیری پریشانی اپنے ہاتھوں سے دور کر دے گی۔‘

یہ خواب دیکھاتو جہاں پناہ کی آنکھ کھل گئی اور آج تین دن ہوگئے ہیں جہاں پناہ کو ایک پل بھی آرام نہیں ہے۔اور ان کو اس وقت تک آرام نہیں آ سکتا جب تک کہ بولتی شمع ان کی خدمت میں حاضر نہ کر دی جائے۔بولتی شمع کہاں ہے، یہ معلوم نہیں ۔ کیوں کر مل سکتی ہے، یہ نہیں معلوم ۔جو شخص بولتی شمع لا کر جہاں پناہ کی خدمت میں نذر کرے گا ۔جہاں پناہ بخوشی اس کو آدھی سلطنت دے دیں گے اور اپنی بیٹی کے ساتھ شادی بھی کر دیں گے۔اب آپ لوگ اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔‘‘

اجازت ملتے ہی تمام لوگ قطاروں میں خاموش باہر آگئے اور ان کے ساتھ لڑکا بھی۔وہ لوگ تو باہر آکر اپنے اپنے کاموں کو چلے گئے لیکن لڑکا اپنے کام پر نہ گیا۔اس کے دل نے یہ ٹھان لیا کہ وہ بولتی شمع لائے گا۔اور آدھی بادشاہت اور بادشاہ کی بیٹی کو حاصل کرکے ہی رہے گا۔

یہ ٹھان کر وہ بجائے گھر کی طرف چلنے کے شہر پناہ کی طرف چلا۔ چند منٹوں میں پھاٹک تک پہنچ گیا اور باہر نکل گیا۔

اس کو یہ بھی نہ معلوم تھا کہ یہ رستہ کہاں جاتا ہے۔ اور اس کو کہاں جانا ہے۔جس وقت وہ پھاٹک کے باہر آیا تھا اسکے پاس چند چھوٹے سکے تھے جو اس کو بھیک میں مل گئے تھے۔وہ چلتا رہا چلتا رہا۔راستے میں نہ اسے کوئی بستی ملی نہ گاؤں ،یہاں تک کہ جنگل میں اسے شام ہوگئی۔ جنگل کا سناٹا اور درختوں کی کڑکڑاہٹ نے اسے بہت ڈرایااور اسے یہ خوف لگنے لگاکہ کہیں کوئی جنگلی جانور اسے کھا نہ لے۔اس لئے وہ درخت کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا کہ رات اسی طرح بسر کر لے۔اس کو بیٹھے ہوئے بمشکل آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ اسے دور سے چھچھوندر کے بولنے کی آواز آئی ۔یہ آواز قریب آتی گئی، یہاں تک کہ درخت کے نیچے آنا شروع ہو گئی۔

اس نے غور سے دیکھا ۔اندھیرے کا عادی ہوچکنے کی وجہ سے اسے ہر چیز بخوبی نظر آرہی تھی۔اس نے دیکھا کہ ایک چھچھوندر جس کا قد بلی کے برابرہے۔ درخت کے نیچے سوں سوں کر رہی ہے۔وہ اسکو دیکھ کر بہت ڈرا۔ اس نے اپنی ساری زندگی میں اتنی بڑی چھچھوندر نہیں دیکھی تھی۔

اس چھچھوندر نے یکایک منہ سے ایک گولہ سا اگل دیا۔ یہ گولہ اس درجے روشن تھا کہ جیسے چاند۔ اس کی روشنی میں اسے چھچھوندر صاف نظر آئی۔

وہ چھچھوندر اس گولے کو اگل کر اس کی روشنی میں ادھر ادھر گھومنے لگی اور ایک بارگی کسی چیز کا پیچھا کرتی ہوئی بہت دور نکل گئی۔لڑکے کے دل میں یک بارگی یہ خیال پیدا ہوا کہ اس گولے کو اتر کر دیکھوں کہ یہ کیا چیز ہے۔یہ سوچ کر وہ چپکے سے نیچے اترا،اور اس نے گولے کے پاس ہاتھ بڑھایا۔یہ دیکھنے کے لئے کہ کہیں یہ گرم تو نہیں ہے۔ گرمی نہ محسوس کرکے اس نے چپکے سے وہ گولہ اٹھالیا اور جیب میں رکھ کر درخت پر چڑھ گیا۔روشنی کے غائب ہوتے ہی چھچھوندر تیزی سے اس درخت کے نیچے آئی۔ وہاں وہ گولہ نہ پاکر اس نے درخت سے سر ٹکرانا شروع کیا۔ رات بھر وہ تی رہی اور صبح کو کسی طرف بھاگ گئی۔

جب روز روشن ہوا تو لڑکا درخت سے نیچے اترا اور پھر آگے کو روانہ ہوا۔جب بھوک لگتی تو جنگل کے پھل پھلاری کھا لیتااور چشموں سے پانی پی لیتا۔

تمام دن چلتے چلتے پھر اسے جنگل میں رات ہوگئی اور وہ ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ تقریباً آدھی رات کے وقت ایک جانور نے دوسرے جانور سے کہا کہ’‘ بھائی کچھ باتیں کروجو رات کٹے۔ ‘‘

دوسرے جانور نے کہا:

’’ بات کیا کروں۔ایک پرانی کہانی یاد آئی ہے۔کہو تو سناؤں۔‘‘

وہ جانور بولا:

’’ اس سے بڑھ کر کیا بات ہے۔ ‘‘

دوسرے جانور نے کہا:

’’سنو،ہزارہا برس کی بات ہے کہ ایک جادوگر کوہ قاف کے نیچے رہا کرتا تھا۔وہ اتنا زبردست جادوگر تھا کہ تمام جادو گر اس کو خدا ماننے لگے۔اس نے اپنے جادو کے زور سے دو چیزیں بنائی تھیں۔ ایک بولتی شمع دوسری جادو کا گولہ۔

بولتی شمع میں یہ صفت تھی کہ جیسے ہی وہ جلائی جاتی، اگلی پچھلی باتیں بتا دیتی۔ اس کے علاوہ جس چیز کے متعلق اس سے پوچھا جاتا۔اس کا پورا پورا احوال سنا دیتی تھی۔‘‘

اب پہلے جانور نے کہا:

’’اس گولے میں کیا صفت تھی؟‘‘

دوسرے جانور نے کہا:

’’اس گولے میں یہ صفت تھی کہ وہ مثل چاند کے روشن ہے اور اندھیرے میں دور تک اس سے اجالا پھیل جاتا ہے۔جس کے پاس وہ گولہ ہو،اس پر جادو اثر نہیں کر سکتا۔وہ جانوروں کی بولی سمجھ سکتا ہے اور اگر دیوؤں اور8 جنوں سے مقابلہ پڑ جائے تو دیو اور جن دونوں اس آدمی سے نہیں جیت سکتے۔ جس کے پاس وہ گولہ موجود ہے۔‘‘

پہلے جانور نے کہا:

’’اور کوئی صفت؟‘‘

دوسرے نے کہا:

’’ ہاں اور صفت بھی ہے۔اگر کہیں کوئی دریا ملے تو وہ جادو گر کا گولہ دریا میں کشتی بن جاتا ہے۔آدمی ادھر پہنچ کراس کشتو کو اٹھا لے۔وہ دوبارہ گولہ بن جائے گی۔‘‘

پہلے جانور نے کہا:

’’پھر اس جادو گر کا کیا حشر ہوا؟‘‘

’’ہاں میں کہانی چھوڑ ہی گیا۔‘‘پہلا جانور بولا،’’ اور باتوں میں پھنس گیا ۔وہ جادو گر جب مرنے لگا۔تو اس نے جادو کے زور سے ایک باغ بنایا اور اس میں وہ شمع رکھ دی تاکہ وہ کسی کے ہاتھ نہ لگے۔‘‘

وہ جانور پھر بولا:

’’وہ باغ ہے کہاں؟‘‘

دوسرے جانور نے کہا:

ابے توتو بال پوچھتا ہے۔ بال کی کھال پوچھتا ہے۔وہ باغ یہاں سے ایک ہزا رکوس کے فاصلے پرکوہ قاف کے نیچے ہے۔راست میں دو دریا ایسے پڑتے ہیں جن پر نہ پل ہے اور نہ کشتی ہی ہے۔ جس سے وہ پار کئے جا سکیں اور راستے میں کئی دیوؤں اور جنوں کے ملک ہیں۔کوئی وہاں بھلا کیا پہنچ سکتا ہے۔

البتہ اگر کسی کے پاس جادو کا گولہ ہو اور وہ ہمت والا بھی ہوتو بولتی شمع تک پہنچ سکتاہے۔ تو جادو کا گولہ جادو گر نے اس سے بھی زیادہ حفاظت سے رکھا ہے۔اس جادو گر نے ایک چھچھوندر لے کر پالی تھی اور اس کو جادو کا کھانا کھلا کر اتنا بڑا کر لیا جتنی بڑی کہ بلی ہوتی ہے۔

پھر اس نے اس کو وہ گولہ نگلوا دیا۔دن بھر وہ چھچھوندر ادھر ادھر پھرا کرتی ہے۔رات کو وہ اس کو اگل دیتی ہے اور اس کی روشنی اپنا شکار مارا کرتی ہے۔پھر اس کو نگل کر چل دیتی ہے۔‘‘

یہ دونوں اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ آسمان پر صبح کی سفیدی پھیل گئی اور وہ دونوں اڑ کر چلے گئے۔

لڑکے نے غور سے ان دونوں کی باتوں کو سنا۔وہ سمجھ گیا کہ یہ گولہ وہی جادو کا گولہ ہے اور بولتی شمع کوہ قاف کے اوپر ہے۔لہٰذا وہ نیچے اترا اور آگے روانہ ہو گیا۔

جاتے جاتے اس کو ایک بستی نظر پڑی جس کے لوگ بہت حیران و پریشان تھے۔ لڑکے نے ان سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ ایک دیو یہاں لاگو ہو گیا ہے۔جو بستی کے آٹھ آدمیوں کو ہر آٹھویں دن کھا جاتا ہے۔آج اس کے آنے کا دن ہے اس لئے سب لوگ ادھر ادھر چھپتے پھرتے ہیں۔

لڑنے کہا:

’’ تم نہ گھبراؤ۔ میں اکیلا اس کو مار دوں گا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ بستی کے باہر اس مقام پر ٹھہر گیا جہاں دیو روز آکر ٹھہرا کرتا تھا۔ اس مقام پر چاروں طرف آدمیوں کی ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔یہ ان آدمیوں کی ہڈیا ں تھیں جن کو دیو مار کر کھا لیتا تھا۔

اس کو وہاں انتظار کرتے چند منٹ ہوئے تھے کہ لمبا چوڑا دیو جس کا رنگ کالا تھا اور آگے سے دانت بہت بڑے تھے، آسمان سے اتر کر اس کے سامنے آیا اور بولا:

’’ارے میرا پہلا ہی لقمہ اتنا ذرا سا۔بھلا مجھے کیا سیری ہوگی۔‘‘

لڑکے کو یقین تھا کہ اس کی جیب میں جادو کا گولہ موجود ہے۔لہٰذا وہ اکڑ کر بولا:

’’زیادہ باتیں نہ بنا ۔ پہلے مجھ سے مقابلہ کر لے۔پھر مجھے کھانے لا ارادہ کرنا۔‘‘

دیو اس کی بات پر ہنسا اور اپنا ہاتھ اس کو پکڑنے کے لئے بڑھایا۔لڑکے نے اس کا ہاتھ اپنی طرف آتے دیکھ کر اس کی انگلیوں کو اپنی گرفت میں لے لیااور ایک جھٹکا مارا۔اس کی انگلیاں ٹوٹ گئیں۔اب وہ مارے درد کے چیخنے لگا۔اب کے دیو نے دوسرا ہاتھ اس کو پکڑنے کے لئے بڑھایا۔

لڑکے نے اس کا وہ ہاتھ جو پکڑ کے کھینچا تو جڑ سے اکھڑ گیا۔اب تو دیو کا مارے دردکے برا حال ہو نے لگااور اس کو یقین ہو گیا کہ یہ لڑکا جان ہی سے مار دے گا۔لہٰذا وہ اس کے قدموں میں گر پڑا اور بولا:

’’مجھے جان سے نہ مارئیے۔ میں آپ کے بہت کام آؤں گا اور میں اس کا وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی اس بستی کا رخ نہ کروں گا۔‘‘

لڑکے نے کہا :

’’تیرے دونوں ہاتھ تو بیکار ہو گئے۔ تو میرے کیا کام آئے گا؟‘‘

دیو نے کہا :

’’اگر میری جان بخشی کر دیجئے گا تو میں چشمہء سلیمانی میں جا کر نہا لوں گا۔ میرے ہاتھ فوراً ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’اچھا میں تمہیں معاف کرتا ہوں، لیکن خبردار اب ادھر کا رخ نہ کرنا۔‘‘

دیو نے اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور بولا:

’’آپ یہیں ٹھہریئے، میں ابھی نہا کر آتا ہوں۔اگر آگے کہیں جانے کا ارادہ ہے تو میں منٹوں میں آپ کو پہنچائے دیتا ہوں۔‘‘

لڑکے نے اس کی بات مان لی اور وہیں انتظار کرنے لگا۔اتنے میں بستی کے آدمی اس کو زندہ سلامت دیکھ کر اس کے پاس آئے اور اس کے قدموں پر گر پڑے۔لڑکے نے ان سب کو تسلی دی کہ اب دیو آئندہ سے ان کو نہیں ستائے گا۔ وہ لوگ خوشی خوشی اپنے گھروں کوواپس گئے۔اتنے میں وہی دیو بالکل اچھا ہو کر واپس آگیا اور بولا:

’’چلئے !آپ کہاں چلنا چاہتے ہیں؟‘‘

لڑکے نے کہا:

’’مجھے کوہ قاف جانا ہے۔‘‘

اس نے کہا:

’’مجھے چلنے میں تو عذر نہیں ہے ،لیکن راستے میں ایک دیوؤں کی اور ایک جنوں کی سلطنت پڑتی ہے۔آپ وہاں سے کیسے گزریں گے؟‘‘

لڑکے نے کہا:

’’تم مجھ کو پہلے دیوؤں کی سلطنت تک پہنچا دینا۔جب میں اس کو جیت لوں تو آگے چلنا۔‘‘

دیو نے کہا:

’’ میں پہنچا کر وہیں چھپ جاؤں گا۔ جب آپ میرے بال کو جلائیں گے تو میں فوراً حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ لڑکے کو لے کر آسمان میں اڑ گیا۔کئی گھنٹے اڑنے کے بعد اس نے لڑکے کو ایک قلعہ کے سامنے اتاردیااور بولا:

’’یہ قلعہ دیو زادوں کا ہے۔اور یہاں سے ان کی حکومت شروع ہوتی ہے۔ میں یہاں سے جدا ہوتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ دیو فوراًوہاں سے روانہ ہو گیا۔ ادھر لڑکا جوں ہی قلعہ کی طرف بڑھا۔قلعے کی طرف سے ایک گرد اڑی اور ایک بہت بڑا دیو اکیلا آیا اور اس نے فوج پر حملہ کر دیا۔

اس اکیلے دیو کااتنا خوف فوج پر غالب آیا کہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔یہ دیکھ کر لڑکا آگے بڑھا اور اس اکیلے دیو سے بولا:

’’کیا ان بے چاروں سے مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ تو تجھ سے کمزور ہیں۔اگر تو بڑا بہادر ہے تو آ، اور مجھ سے مقابلہ کر۔‘‘

وہ دیو لڑکے کو دیکھ کر ہنسا اور بولا:

’’اے آدم زاد!توتو میرا ایک لقمہ بھی نہیں ہے، میں ان دیوؤں کو تو کچھ سمجھتا نہیں ہوں۔ تو میرے مقابلے میں کیوں آیاہے؟‘‘

لڑکے نے کہا:

زیادہ شیخی نہ بگھار اور اگر کچھ بہادرہے تو مجھ سے مقابلہ کر۔‘‘

وہ یہ بات سن کر جھلا گیا اور لڑکے کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھا۔لڑکے نے ایک گھونسہ تان کر دیو کے مار۔گھونسے کا پڑنا تھا کہ دیوچکرا کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی ناک سے خون جاری ہو گیا۔اپنے دشمن کو بے بس دیکھ کر سارے دیو دوڑ پڑے اور انہوں نے اس دیو کے ہاتھ پیروں میں ہتھکڑی اور بیڑی ڈال دی اور اس کو قید کرکے قلعہ کے اندر لے گئے۔دیوؤں کا بادشاہ قلعے سے باہر نکل آیا اور لڑکے کی بڑی خاطر مدارات کیں اور شکریہ ادا کیا اور بولا:

’’میرے لائق کوئی خدمت ہوتو بتائیے۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’کچھ نہیں بس اتنا کہ آپ مجھے ایک رقعہ لکھ دیجئے کہ آپ کی ساری سلطنت میں کوئی مجھے نہ روکے۔‘‘

دیوؤں کے بادشاہ نے فوراً وہ رقعہ لکھ دیا۔لڑکے نے بال جلائے اور اس کا دیو فوراً حاضر خدمت ہو گیا۔لڑکا فوراً دیو کے کندھوں پر بیٹھ گیا اور آگے روانہ ہو گیا۔تقریباً ایک گھنٹہ اڑنے کے بعد دیو اترپڑا اور بولا:

’’وہ دیکھئے سامنے دریا نظر آرہا ہے۔میں آپ کو لے کر اس کے پار نہیں ہو سکتاہوں۔البتہ اکیلا پار ہوسکتا ہوں۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’تم فکر نہ کرو۔ تم اوپر اوپر اڑو۔میں دریا دریا چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا۔واقعی ایک بہت بڑا دریا ٹھاٹھیں ماررہا تھا۔جس کا کنارہ کہیں سے کہیں تک نظر نہ آتا تھا۔لڑکے نے وہ گولہ جیب سے نکالا اور دریا میں ڈال دیا۔وہ گولہ ایک دم ایک کشتی بن گیا۔لڑکا اس کشتی پر بیٹھ گیا۔کشتی تیزی کے ساتھ آپ ہی آپ دریا میں چلنے لگی۔ سارا دن چلنے کے بعد شام کے قریب وہ کشتی اس کنارے پر پہنچی۔لڑکا کشتی سے اترا۔اس نے کشتی پانی سے باہر نکالی۔وہ باہر نکلتے ہی گولہ بن گئی۔اتنے میں وہی دیو بھی آموجود ہوا اور بولا:

’’میں آپ کو لے کر چلتا ہوں لیکن سوائے تاریکی کے اور کچھ نہیں ہے۔یہ راستہ کیوں کر طے ہوگا۔اس راستے کو طے کرنے کے بعد آپ کو جنوں کا ملک ملے گا۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’تم فکر نہ کرو اور چلو۔‘‘

دیو اس کو لے کر اڑا۔ کوئی ایک گھنٹے کے بعد وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچا جہاں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔لڑکے نے وہ گولہ پھر نکالا۔چاروں طرف روشنی ہوگئی۔اس گولے کی روشنی میں وہ دیو اڑ گیا یہاں تک کہ اس کو ایک مقام پر سورج کی روشنی نظر آئی۔ اب دیو رک گیا اور بولا:

’’یہاں سے جنوں کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور میں اب چھپا جاتا ہوں۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’ تم جا سکتے ہو۔‘‘

اب لڑکا خود آگے بڑھا۔وہ بمشکل چند قدم گیا ہوگا کہ بہت سے جنوں نے اسے پکڑ لیا اور اپنے بادشاہ کے سامنے اسے لے گئے، جو وہیں جنگل میں شکار کھیل رہا تھا۔جنوں کے بادشاہ نے اسے دیکھتے ہی پوچھا:

’’تم آدم زاد ہو۔ اور یہاں کیسے آئے ہو؟‘‘

لڑکے نے کہا:

’’آدم زاد سب کچھ کر سکتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

جنوں کے بادشاہ نے کہا:

’’اگر آدم زاد سب کچھ کر سکتے ہیں تو ہم سارے جنات بڑی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیا وہ مصیبت آدم زاد ٹال سکتے ہیں؟‘‘

لڑکے نے کہا:

’’بے شک بتائیے۔ آپ پر کیا مصیبت ہے؟‘‘

جنوں کے بادشاہ نے کہا:

’’ایک سال سے ہم پر کچھ عجیب قسم کی چڑیاں حملہ کرتی ہیں۔ وہ چڑیاں تنی بڑی ہیں کہ ہم نے آج تک ویسی چڑیاں نہیں دیکھیں۔ان کے سر انسانوں کے سے ہیں اور جسم چڑیوں کے۔ وہ جب ہم پر حملہ کرتی ہیں تو ہم بالکل بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ان کا حملہ ان کا گانا ہے۔ جب انہوں نے گانا شروع کیا،ہم سب مست ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے پنجوں سے ہمیں زخمی کر جاتی ہیں۔ہر مہینے ان کا غول کا غول آتا ہے اور ہم کو زخمی کر جاتا ہے۔ان سے بچنے کی کوئی تدبیر بتاؤ۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’ان کے آنے کا کون سا دن ہے؟‘‘

جنوں کے بادشاہ نے کہا:

’’کل صبح ان چڑیوں کو آنا چاہئے۔ ہم سارے جنات کل کے دن اپنے گھروں میں بند رہیں گے اور کوئی گھر کے باہر نہیں نکلے گا۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’کل میں باہر رہوں گا۔‘‘

جنات اس کو اپنے ساتھ شہر لے گئے اور اس کو اپنے ساتھ بہت آرام سے رکھا۔دوسرے دن صبح اس نے دیکھا کہ سارے کے سارے جنات اپنے مکانوں میں بند ہو کربیٹھ گئے۔ سارا شہر ویران نظر آنے لگا۔لڑکا یہ دیکھ کر باہر نکلا۔اتنے میں اسے ایک سیاہ آندھی آتی ہوئی نظر پڑی جو شہر کی جانب آرہی تھی۔اس نے جو غور سے دیکھا تو وہ آندھی نہ تھی۔بلکہ وہ عجیب و غریب چڑیاں تھیں، جن کا ذکر جنوں کے بادشاہ نے کیاتھا۔وہ چڑیاں سیدھی شہر پر آکر منڈلانے لگیں۔سارے شہرکو بند دیکھ کر ان کے چہروں پر غصے کے آثار پیدا ہوگئے۔

لڑکے کو تنہا باہر دیکھ کروہ سب کی سب اس پر حملہ کرنے کے لئے ایکبارگی جھپٹیں۔انہیں دیکھ کرلڑکے نے کہا:

’’ٹھہرو! میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘

لیکن چڑیاں نہ ہٹیں اور انہوں نے اپنے پنجوں سے اس پر برابر حملے شروع کئے۔ان کے اس حملے کاکوئی اثرلڑکے پر نہ ہوا۔کیوں کہ جادو کا گولہ اس کی جیب میں تھا۔جب وہ سب حملہ کرکے تھک گئیں تو لڑکے نے کہا:

’’تم نے ارمان پورا کر لیا نا،اب مجھے بتاؤ کہ تم یہاں ہر ہفتہ کیوں حملہ کرتی ہو؟یہاں والوں نے تمہارا کیا قصور کیا ہے؟‘‘

ان میں سے ایک بڑی چڑیاجو ان سب کی سردار معلوم ہوتی تھی، بولی:

’’یہاں کے رہنے والوں نے ہمارے دو بچے پکڑ کر گھر میں بند کر لئے ہیں۔وہ بچے چڑیوں کے بادشاہ کے ہیں۔ہم ان کی رہائی چاہتے ہیں۔اور ہم کو کوئی دشمنی نہیں ہے۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’آپ ٹھہرئیے، میں ابھی جا کر معلوم کرتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر لڑکا بادشاہ کے محل میں گیا اور دروازے پر دستک دی۔شاہی ملازموں نے ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولااور لڑکے کو اندر کرتے ہی بند کر لیا۔

لڑکا سیدھا بادشاہ کے پاس گیا اور بولا:

’’آپ کے ہاں ان چڑیوں کے بادشاہ کے دو بچے پکڑ لئے گئے ہیں۔اسی لئے یہ چڑیاں ہر ہفتے آکر یہاں حملہ کرتی ہیں۔‘‘

بادشاہ نے کہا:

’’مجھے نہیں معلوم ، میں ابھی تلاش کراتا ہوں۔‘‘

بادشاہ کے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ خود اسی کی چھوٹی لڑکی نے دو بچے ایک جال میں پہاڑی کے نیچے پائے تھے اور ان کو اس نے ایک پنجرے میں رکھ چھوڑا ہے۔لڑکے نے ان بچوں کو پنجرے سے نکلوایا اور اپنے ساتھ لے کر باہر آیا۔

چڑیاں ان بچوں کو دیکھ کر مارے خوشی کے دیوانی ہو گئیں۔لڑکے نے کہا:

’’جنوں کے بادشاہ نے معافی مانگی ہے کہ اس کی لڑکی نے ان بچوں کو پکڑ لیا۔اس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ آپ کے بچے ہیں۔بہر طور آپ ان بچوں سے پوچھئے ،ان کو کوئی تکلیف ہمارے ہاں نہیں ہونے پائی ہے۔‘‘

چڑیوں کے بچوں نے بھی اقرار کیا کہ ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائی تھی۔لہٰذا وہ تمام چڑیاں یہ کہہ کر چلی گئیں کہ اب سب آرام سے رہیں، ہم لوگ اب کبھی نہیں آئیں گے۔

ان کے جانے کے بعد لڑکے نے ان کا پیغام بادشاہ کو پہنچادیااور اطمینان بھی دلایا۔جنوں کا بادشاہ بڑا خوش ہوا اور بولا:

’’میرے لائق کیا خدمت ہے؟‘‘

لڑکے نے کہا:

’’بس اتنی کہ آپ اپنی سرحد تک مجھے پار کرادیں۔‘‘

بادشاہ نے کہا:

’’سرحد پارہوتے ہی ایک دریا آجاتا ہے اور وہ دریا کوہ قاف سے ملا ہوا ہے۔ اب آپ جائیے۔‘‘

یہ کہتے ہی اس نے جنوں کو حکم دیا اور وہ اس کو ایک اڑن کھٹولے پر بٹھا کر دریا تک پہنچا گئے۔دریا کے پاس پہنچتے ہی لڑکے نے بال جلائے۔دیو حاضر ہوا۔لڑکے نہ کہا:

’’تم اکیلے دریا کو پار کرو۔میں کشتی کشتی آتا ہوں۔‘‘

دیو نے کہا،’’بہت اچھا‘‘ اور اڑ کر آسمان پر چلا گیا۔

ادھر لڑکے نے وہی گولہ نکالا۔ اور وہی کشتی بن گئی۔اور اسی کشتی پر بیٹھ کر وہ دریا کے پار اترا۔دریا پار کرتے ہی اس نے کشتی کو پانی سے نکالا،وہ گولہ بن گئی۔اتنے میں دیو بھی آگیا۔

چونکہ شام ہو رہی تھی۔لہٰذا وہ دونوں دریا کے کنارے سو گئے صبح جب لڑکے کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا پہاڑ سامنے نظر آرہاہے جس کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔لڑکے نے دیو کو جگایا۔دیو نے اٹھتے ہی کہا:

’’یہی کوہ قاف ہے، اس پر چڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔میں آپ کو لے کر اس باغ تک پہنچائے دیتا ہوں جو جادو گر نے لگایا ہے۔میں باہر ہی ٹھہرا رہوں گا۔ اندر نہیں جا سکتا۔میں نے سنا ہے ،اندر بہت سی بلائیں ہیں۔ وہاں وہی جا سکتا ہے جس کے پاس جادو کا گولہ ہو۔‘‘

لڑکے نے کہا:’’اچھا۔‘‘

چنانچہ دیو اس کو کندھے پر بٹھا کر چوٹی پر لے گیا۔ چوٹی اوپر سے بہت چوڑی تھی اور اس پر ایک باغ لگا ہوا تھاجس کا پھاٹک بند تھا۔دیو نے اس کو اتارتے ہوئے کہا:

’’میں نے سنا ہے کہ جس کے پاس جادو گر کا گولہ ہو ۔ وہ گولے کو ہاتھ میں لے کر چلے گا تو کوئی بلا اس کو نہ ستا سکے گی۔‘‘

لڑکے نے کہا:

’’اچھا تم باہر ٹھہرو۔میں اندر جاتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے گولہ ہاتھ میں لیا۔دروازے کے پاس پہنچا۔ دروازے میں ایک بہت بڑاقفل(تالا) پڑا ہوا تھا۔یکایک گولے میں سے ایک کرن نکلی اور کنجی کی طرح قفل میں پڑ کر گھوم گئی۔ قفل کھٹ سے کھل گیااورنیچے گر پڑا۔اسی گولے سے ایک اور کرن نکلی اور اس نے دروازے کو باتوں باتوں میں کھول دیا۔

لڑکا جب اندر گیا تو اس نے دیکھا کہ دو لوہے کے آدمی تیر کمان ہاتھ میں لئے ہوئے کھڑے ہیں۔ان لوہے کے آدمیوں نے دو تیر لڑکے کی طرف پھینکے لیکن گولے سے ایک کرن نکل کر ان تیروں سے لپٹ گئی۔اور ان تیروں کو جلا دیا۔پھر وہی کرن ایک شعلہ بن کر ان دونوں پتلوں پر گری اور وہ دونوں پتلے دھڑا دھڑ جلنا شروع ہو گئے۔

لڑکا اور اندر بڑھا۔چاروں طرف طرح طرح کے پھول کھلے ہوئے تھے اور چمن بندی کی ہوئی تھی۔ان پھولوں سے ایسی خوشبو نکل رہی تھی جو لڑکے پر نیند کی کیفیت لا رہی تھی۔یکا یک اسی گولے سے شعلے نکلنا شروع ہوئے اور ان شعلوں نے ان چمنوں اور پھولوں کو جلانا شروع کیا۔

لڑکا آگے بڑھتا جا رہا تھااور تمام کے تمام چمن جل جل کر ختم ہوئے جا رہے تھے۔یہاں تک کہ لڑکا بیچوں بیچ باغ میں پہنچا ۔ وہاں ایک سنگ مرمر کی دریچی بنی ہوئی تھی ۔جس میں ایک شمع دان میں بولتی شمع تھی۔آواز آئی کہ’’ بولتی شمع اکھاڑ کر آپ اپنی کمر میں رکھ لیجئے۔‘‘

لڑکے نے ایسا ہی کیا۔شمع کااکھڑنا تھاکہ ایک بہت بڑا شور اٹھا ۔گویا کہ ہزاروں آدمی چیخ رہے ہوں۔یکایک وہ سارا باغ دھواں بن کر اڑ گیا۔اب جو دھواں صاف ہوا تو لڑکے نے دیکھا کہ خالی زمین پڑی ہے جس پر میں کھڑا ہوں اور سامنے دیو کھڑا تھر تھر کانپ رہا ہے۔

لڑکے نے اسے بہت تسلی دی اور شمع کو اپنی کمر میں رکھ کر بہت خوش ہوا۔پھر اسی دیو پر سوار ہو کر پھر اسی رستے واپس ہوا۔اسی طرح راستہ طے کرتے ہوئے وہ اپنے وطن کی شہر پناہ میں داخل ہوا۔ اس نے دیو کو وہاں سے رخصت کر دیااور اسی طرح وہ شاہی محل کے دروازے پر پہنچا اور سپاہیوں سے بولا:

’’مجھے بادشاہ سلامت کے حضور میں پہنچا دو۔‘‘

سپاہی اسے لئے ہوئے بادشاہ کے حضور میں گئے۔ بادشاہ اس وقت عدالت کر رہا تھا اور اس کے سامنے مقدمہ پیش تھا۔ مقدمہ یہ تھا کہ ہیرے کے دو دعوے دار تھے۔ ایک کہتا تھا میرا ہے۔ دوسرا کہتا تھامیرا ہے۔اور دونوں اس بات پر قسم کھاتے تھے ۔گواہ دونوں میں سے ایک کابھی نہیں تھا۔ بادشاہ مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے حیران تھا۔لڑکے کو عدالت میں دیکھ کرپوچھا:

’’یہ لڑکا کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘

لڑکے نے کہا:

’’جہاں پنا ہ میں بولتی شمع حضور کے واسطے لے کر آیا ہوں۔‘‘

بادشاہ کو اس کی بات کا یقین نہیں آیا۔اور قہقہہ مار کر بولا :

’’تو بولتی شمع لایا ہے۔لا کہاں ہے؟‘‘

لڑکے نے کمر سے وہ شمع نکال کربادشاہ کو دی۔ شمع معمولی قسم کی تھی۔

بادشاہ نے کہا:

’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ بولتی شمع ہے؟‘‘

لڑکے نے کہا:

’’حضور میں اسے روشن کئے دیتا ہوں۔ حضور کے مقدمے کا بھی فیصلہ کر دے گی۔‘‘

بادشاہ بہت خوش ہوا اور بولا:

’’اچھا روشن کرو۔‘‘

لڑکے نے بڑھ کر وہ شمع روشن کی اور کہا:

’’اے بولتی شمع! اس وقت جہاں پناہ کے سامنے کس قسم کا مقدمہ ہے؟‘‘

شمع نے صاف آواز سے کہا:

’’ایک ہیرے کے دو دعوے دار ہیں۔ دونوں قسمیں کھاتے ہیں۔ گواہ دونوں میں سے ایک کا بھی نہیں۔کیوں جہاں پناہ، ہے نا یہ بات!‘‘

بادشاہ نے کہا:

’’ہاں اے شمع یہی بات ہے۔‘‘

شمع نے کہا:

’’حضور اس کا فیصلہ یہ ہے کہ آپ اس ہیرے کو اسی وقت پسوا کر آدھی آدھی خاک دونوں کو دے دیجئے۔‘‘

اتنے میں ہیرے کا ایک دعوے دار بولا:

’’نہیں نہیں میں اپنا دعویٰ اٹھائے لیتا ہوں۔ جہان پناہ یہ ہیرا آپ اسی کو دے دیں۔کیا فائدہ کہ یہ دونوں کے مصرف کا نہ رہے۔‘‘

اب شمع پھر بولی:

’’جہاں پناہ یہ ہیرا اسی آدمی کا ہے ۔دوسرا جھوٹا ہے۔چونکہ یہ اس کا خریدار ہے اور اس کے دل کو دکھ ہوا ہے کہ اتنی رقم بے کار جائے گی۔دوسرے ہی کو فائدہ پہنچ جائے۔دوسرے کا چونکہ ہیرا خریدا ہوا نہیں تھا، لہٰذا اس کے دل کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔‘‘

باد شاہ اس عجیب و غریب فیصلے کو سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے اپنے وعدے کے مطابق اپنی آدھی سلطنت فوراً لڑکے کو دے دی۔

اور اس کی شادی بھی اپنی لڑکی سے کر دی۔

بچو! دیکھا تم نے جب آدمی کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ کام پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top