بیوی
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”وہ مارا… بہت اچھی ترکیب ذہن میں آگئی… اب دیکھنا میں کیا کرتا ہوں!“
آصف نذیر نے مکّا ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔ ان کی بیوی نے حیران اور پریشان نظروں سے اپنے خاوند کی طرف دیکھا، پھر بولیں:
”کیا مطلب… آپ کسی سلسلے میں کوئی ترکیب سوچ رہے ہیں؟“
”میں آج جواد نسیم کو نیچا دکھا کر رہوں گا… وہ ہر معاملے میں آگے نکل جاتا ہے، لیکن آج میں اسے پیچھے چھوڑ دوں گا۔“
”خدا کے لیے کوئی غلط بات نہ سوچیں… کسی کے خلاف کوئی بُرا منصوبہ نہ بنائیں… پہلے مجھے بتا دیں کہ بات کیا ہے؟“
”نہیں بیگم… میں تمہیں کوئی بات نہیں بتاﺅں گا، ورنہ تم جواد نسیم کی بیوی کو بتاد و گی، میں عورتوں کی فطرت سے بہت اچھی طرح واقف ہوں… وہ پیٹ میں بات رکھ ہی نہیں سکتیں۔“ آصف نذیر بُرا سا منہ بنا کر بولے۔
”دیکھیے، میں انہیں کچھ نہیں بتاﺅں گی… آپ مجھے کچھ نہ بتائیں… لیکن خدا کے لیے ان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں… وہ ہمارے بہت اچھے پڑوسی ہیں۔“
”تم نہیں سمجھو گی بیگم… ہم دونوں ایک ہی ادارے میں کام کرتے ہیں… ہم دونوں کی تنخواہ بھی برابر ہے، لیکن مل کا مالک جواد نسیم کو حد سے زیادہ پسند کرتا ہے اور مجھ سے تو بس وہ کبھی کبھار ہی بات کرتا ہے… جب بھی مل کے بارے میں اسے مشورے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ فوراً جواد نسیم کو دفتر میں بلا لیتا ہے اور دونوں بعض اوقات تو دو دو گھنٹے اندر گٹ پٹ کرتے رہتے ہیں… سچی بات تو یہ ہے بیگم! یہ سب مجھے ہی نہیں دوسروں کو بھی بہت بُرا لگتا ہے… لہٰذا میں نے سوچا ہے کہ کوئی ایسی ترکیب کی جائے کہ مالک کا اس پر اعتماد ختم ہوجائے اور وہ ہم سے مشورے کرنے لگ جائے۔“
”میرے خیال میں آپ کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے… آپ بس اپنا کام پوری دیانت داری سے کرتے رہیں اور پوری محنت سے کریں… آپ بھی مالک کی نظروں میں اچھے بن جائیں گے… درست طریقہ یہ ہے، وہ نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں۔“
”تمہیں نہیں معلوم بیگم… معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے… جواد نسیم مل کے مالک کااس قدر منظورِ نظر بن چکا ہے کہ اب یہ معاملہ کسی کے لیے بھی برداشت کے قابل نہیں رہا… اس لیے سب لوگ اس کے خلاف کوئی نہ کوئی قدم اٹھانے کے لیے بے چین ہیں اور منصوبہ سوچنے کی ذمے داری انھوں نے مجھ پر ڈال دی ہے… اللہ کی مہربانی سے میری سمجھ میں ایک بہت جان دار ترکیب آگئی ہے۔“
”خیر چلیے یونہی سہی… مجھے بتا تو دیں… آپ لوگ ان کے خلاف کرنا کیا چاہتے ہیں۔“
”سنو بیگم! میں اتنا بے وقوف نہیں… ابھی تمہیں کچھ نہیں بتاﺅں گا۔“
”میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتی ہوں… ایسا کوئی کام نہ کریں… عزت و ذلت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے… مجھے ڈر ہے کہ اس منصوبہ بندی میں ان کو اور آپ کو نقصان نہ پہنچ جائے۔“ ان کی بیوی نے کہا۔
”کیا بات کرتی ہو بیگم! بھلا مجھے کیوں نقصان پہنچنے لگا… مل کے تمام ملازمین میرے ساتھ ہیں۔“
”فرض کیا آپ اپنے منصوبے پر عمل کر لیتے ہیں، آپ کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچتا… آپ کے منصوبے کی وجہ سے جواد نسیم مل کے مالک کی نظروں سے گر جاتا ہے تو پھر آخر آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟“
”واہ… اتنی بات سمجھ میں نہیں آئی اب تک… اس کے بعد ہوگا یہ کہ میں مل کے مالک کا منظورِ نظر بن جاﺅں گا… اب تک جو فائدے جواد نسیم اٹھاتا رہا ہے، وہ میں اٹھاﺅں گا۔“
”اور کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا فائدے اٹھاتا رہا ہے۔“
”تم ان باتوں کو چھوڑو… یہ باتیں تمہارے سمجھنے کی نہیں… اپنے کام سے کام رکھو اور بس۔“
یہ کہتے ہوئے آصف نذیر گھر سے نکل گئے… ان کی بیوی خلا میں تکتی رہ گئی…
پندرہ دن بعد آصف نذیر نے اسے بتایا۔
”مبارک ہو بیگم… ہمارا منصوبہ کام یاب رہا… تیر نشانے پر بیٹھا… جواد نسیم کو مل سے فارغ کر دیا گیا ہے۔“
”کیا!!! وہ ہکا بکا رہ گئی۔“
”ہاں بیگم… منصوبہ ہی ایسا تھا۔“
”آخر آپ نے کیا کیا؟“
”ہاں! اب میں تمہیں بتا سکتا ہوں، دراصل ہم نے مل کے اکاﺅنٹنٹ کے ذریعے کام کیا ہے… حساب کتاب میں جواد نسیم کی گڑ بڑ ثابت کر دی … بس مل کا مالک تپ گیااور اس نے کھڑے کھڑے اسے فارغ کر دیا اور اب میں اس کی جگہ لے چکا ہوں۔“
”اوہ!“ بیوی کے منہ سے تکلیف دہ انداز میں نکلا۔
پھر چھ ماہ گزر گئے… ایک دن آصف نذیر تھکن سے چور گھر میں داخل ہوئے تو بیوی گھر میں نہیں تھی… اسے ایک رقعہ… کتاب کے نیچے دبا نظر آیا… اس پر لکھا تھا:
”آصف نذیر صاحب! میں آپ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی… آپ نے ایک بے گناہ کو ملازمت سے فارغ کروایا ہے… یہ ظلم ہے اور میں ظالم کے ساتھ نہیں رہ سکتی… میں نے ساری بات اپنے ماں باپ کو بتا دی ہے… وہ اس معاملے میں پوری طرح سے میرے ساتھ ہیں، اب اس کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ آپ مل کے مالک کو ساری بات صاف صاف بتا دیں، وہ جواد نسیم صاحب کو واپس مل میں لے آئیں… اس وقت میں آپ کے ساتھ رہ سکتی ہوں، ورنہ نہیں … آپ نے کوئی قدم نہ اٹھایا تو میرے ماں باپ پوری طرح میرے ساتھ رہیں گے۔“
رقعہ پڑھ کر آصف نذیر کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے… اس نے کسی کے لیے جو گڑھا کھودا تھا، وہ خوداس گڑھے میں جاگرا تھا… وہ خود کو اس وقت ایک ایسے کنارے پر محسوس کر رہا تھا جس کے ایک طرف دریا تھا اور دوسری طرف آگ تھی… بیوی کو گھر لانے کے لیے مل کے مالک کو ساری کہانی سناتا تو خود اسے مل سے نکلنا پڑتا اور ایسا نہ کرتا تو بیوی اس کے ساتھ رہنے کے لیے تیارنہیں تھی… اسے دور دور تک تاریکی ہی تاریکی نظر آرہی تھی… آخر وہ اپنے سسرال گیا، بیوی کے ماں باپ سے ملااور ان سے گویا ہوا:
”دیکھیے میں واقعی مجرم ہوں… اب اگر میں مل کے مالک کو سب کچھ بتا دیتا ہوں تو میری ملازمت جاتی ہے… کیا آپ کی بیٹی ایک بے روزگار آدمی کے ساتھ گزر بسر کر لے گی۔“
”ہاں بالکل کرے گی۔“ اس کی بیو ی کے والد نے کہا۔
”کیا کہا آپ نے… بالکل کرے گی۔“
”ہاں! ہم اس سے پوچھ چکے ہیں، وہ کہتی ہے کہ دیانت داری کی روکھی سوکھی بددیانتی کی چپڑی روٹیوں سے بہتر ہے۔“
”اوہ!“ وہ دھک سے رہ گیا۔ کتنی ہی دیر سکتے کے عالم میں بیٹھا رہا۔ آخر اس نے اٹھتے ہوئے کہا©:
”میں مل کے مالک کو ساری کہانی سنانے جارہا ہوں۔“
٭٭٭