بھلکڑ مرغی
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے گھنے جنگل میں جہاں بہت سے جانور رہتے تھے۔ ایک درخت کی کھوہ میں ایک مرغی نے بھی اپنا گھر بنا رکھا تھا، اس کے پر سرخی مائل بھورے تھے جنہیں دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتی تھی۔ کچھ دن پہلے ہی اس نے انڈے دیے تھے اور اب انہیں دل جمعی سے سہہ رہی تھی۔ درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر آتی روشنی میں وہ مزے سے انڈوں پر بیٹھی رہتی لیکن اسے چوکنا بھی رہنا پڑتا آس پاس بہت سے دشمن موجود تھے جو انڈوں کے رسیا تھے اور تاک میں رہتے۔
درخت کے اوپر ہی ایک بندر کا ڈیرہ تھا جو ہر وقت ایک شاخ سے دوسری شاخ پر چھلانگیں لگاتا رہتا اور شور کرنے میں تو وہ بہت ماہر تھا۔ مرغی بہت کم اپنی جگہ سے ہٹتی لیکن کھانے پینے کی تلاش میں اسے جانا پڑتا۔ وہ جب پانی پینے قریبی نہر پر جاتی تو بندر سے کہتی۔
” بھائی بندر! ذرا خیال رکھنا میں ابھی آتی ہوں۔“ بندر فوراً چوکس ہوجاتا اور کہتا۔
” بے فکر ہو کر جاؤ، آخر پڑوسی ہی پڑوسی کے کام آتا ہے۔“
دراصل بندر کو انڈے بالکل پسند نہ تھے اور وہ معصوم مرغی کا دل دکھانا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن مرغی ہمیشہ شک میں مبتلا رہتی ۔ وہ جھٹ پٹ نہر پر جاتی جیسے تیسے پانی پیتی اور دوڑی چلی آتی۔ بندر اوپر شاخ پر بیٹھا ہوتا وہ پہلے بندر کو دیکھتی پھر اپنے انڈوں پر نظر دوڑاتی ۔ ذرا بھی کوئی انڈہ ادھر ادھر ہوتا تو اسے ٹھیک کرتی اور پھر انہیں گننے بیٹھ جاتی وہ کل گیارہ انڈے تھے لیکن مرغی حساب میں بہت کمزور تھی۔ ہر بار اس کی گنتی غلط ہوجاتی وہ بار بار انہیں شمار کرتی۔ اوپر سے بندر دیکھ رہا ہوتا وہ قہقہہ لگاتا اور بولتا ۔” بی مرغی تمہارے انڈے پورے ہیں اطمینان رکھو۔“ مرغی بڑبڑاتی ہوئی انڈوں پر بیٹھ جاتی لیکن فکر مند ہی رہتی۔
قریب ہی پیپل کے درخت پر ایک سانپ کا بھی بسیرا تھا۔ وہ شاخوں پر جھولتا رہتا، اس کا رنگ سبز تھا وہ پتوں میں ایسا گھل مل جاتا کہ نظر ہی نہ آتا۔ مرغی اسے سب سے بڑا دشمن سمجھتی تھی۔ مگر وہ آج کل خود پریشان تھا۔ دراصل کچھ دور ایک سفید گردن والے عقاب نے اپنا گھونسلہ بنا لیا تھا وہ پرکھولے ہوا میں اڑتا رہتا اور اس کی عقابی نگاہیں شکار کی تلاش میں رہتی، جونہی شکار نظر آتا وہ پرسکیڑے ستر ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے غوطہ لگاتا اور اپنے مضبوط پنجوں میں شکار کو دبوچ کر بہت صفائی سے اڑ جاتا۔ سبز سانپ پر بھی اس نے ایسے ہی حملہ کیا تھا لیکن سانپ کی قسمت اچھی تھی وہ پتوں میں فوراً روپوش ہوگیا اور عقاب ناکام رہا ۔ سانپ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا کہ اسے ایسا رنگ عطا کیا۔ درحقیقت بہت سے جانور اپنی حفاظت کے لیے اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرتے ہیں وہ ایسے ماحول میں رہتے ہیں جو ان کے رنگ و روپ کے مطابق ہو اس طرح وہ اپنے دشمنوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
ایک دن جب مرغی خوراک کی تلاش میں نکلی تو دور تک اسے کچھ نہ ملا ۔ بہت دیربعد کچھ گندم کے دانے ملے جنہیں جلدی جلدی چگ کر وہ واپس بھاگی ۔ بندر کا شغل جاری تھا وہ ٹک کر بیٹھنا جانتا ہی نہ تھا۔ مرغی ہانپتی کانپتی انڈوں تک پہنچی اور اس کا دل دھک سے رہ گیا اسے لگا کہ انڈے کم ہیں اس نے گننے کی کوشش کی تو ایک کم پایا۔ اب تو بے چاری مرغی نے چلا چلا کر رونا شروع کر دیا۔ بندر فوراً متوجہ ہوا اس نے انڈے گنے تو واقعی ایک کم تھا۔ بندر حیران تھا کہ انڈہ کیسے کم ہو گیا ۔ یہاں تو کوئی آیا گیا نہیں۔ دوسری طرف مرغی کا رونا دھونا جاری تھا۔ برگد کے درخت پر رہنے والی چڑیوں کے جوڑے نے مرغی کو بہت تسلیاں دیں لیکن وہ چپ نہ ہوئی۔ بلندی پر اڑتا عقاب بھی آج ایک شاخ پر آبیٹھا ۔ ڈرتے ڈرتے سبز سانپ بھی پتوں سے باہر آگیا مرغی کو اس پر شک تھا لیکن اس نے قسم کھائی کہ وہ تو درخت سے اترا بھی نہیں۔ بندر کو بھی یقین تھا کیونکہ اس نے کل ہی سانپ کو ایک چوہا شکار کرتے دیکھا تھا ۔ اب کئی دن تک اسے مزید خوراک کی ضرورت نہ تھی۔
مرغی کا رو رو کر برا حال تھا۔ آخر سب نے فیصلہ کیا کہ انڈہ تلاش کیا جائے۔ چڑیوں کا جوڑا تلاش میں دور تک اڑتا چلا گیا۔ سانپ نے بل کھا کھا کر نظریں ادھر ادھر دوڑائی، عقاب نے اپنی باریک بین نگاہوں کا استعمال کیا اور بندر شاخ درشاخ چھلانگیں لگاتا دور تک چلا گیا۔
تھوڑی دیر میں وہ ایک چوزے کو لےے چلا آیا جو مزے سے چوں چوں کر رہا تھا، مرغی اسے دیکھ کر نہال ہو گئی دراصل جب مرغی خوراک کی تلاش میں گئی ہوئی تھی تب بچہ انڈے سے نکل آیا اور آس پاس کسی کو نہ پا کر دور نکل گیا۔ سب نے سکون کا سانس لیا اور اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔
٭….٭….٭