skip to Main Content

بھوت کی توبہ

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

قریشی صاحب کا خاندان ہی کتنا تھا۔ دو بچے، وہ خود اور ان کی اہلیہ، البتہ مکان خاصا بڑا تھا۔ مکان کیا تھا، حویلی تھی۔ بڑے کمرے، بالکونیاں، تہہ خانے، چکر کھاتی سیڑھیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ کھانے کا کمرہ الگ، پڑھنے کا الگ، بچوں کے کھیلنے کا الگ۔ قریشی صاحب عموماً رات کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں جاکر مطالعہ کیا کرتے۔ ان کے پاس صرف ایسے مصنفین کی کتابیں موجود تھیں جو خدا کو
نہیں مانتے تھے۔
ایک رات قریشی صاحب کھانے کے بعد حسب معمول مطالعہ کی غرض سے اپنے کمرے میں پہنچے۔ الماری سے کتاب نکالی اور آرام دہ کرسی پر دراز ہو گئے۔
اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا ہو گیا۔ وہ’اوہ‘ کہہ کر اٹھنے لگے کہ کسی نے ان کا سر پکڑ کر بڑے زور سے جھنجھوڑ دیا۔ وہ گھبرا گئے، اس لئے کہ ایک عجیب و غریب مخلوق ان کے سامنے کھڑی تھی،جس کے سر پر دو عدد سینگ تھے۔ اس کی آنکھیں یوں لگ رہی تھیں جیسے دو ننھے منے بلب روشن ہوں، بدن پر لمبے لمبے بال اور انگلیوں میں لمبے لمبے ناخن…… قریشی صاحب ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ اس عجیب مخلوق نے ان کے بال پکڑ کر انہیں زمین پر پٹخ دیا اور ایک زور دار ٹھو کر ان کی پسلیوں ں میں رسید کی۔ قریشی صاحب کی آدھی جان تو ویسے ہی نکل گئی تھی۔ رہی سہی کسر اس بلا کی مار پیٹ نے پوری کر دی۔ اتنے میں باہر سے ان کے بچوں کی آواز آئی۔”ابو! کیا آپ یہاں ہیں؟“
پھر فوراً ہی ان کے چیخنے اور بھاگنے، دوڑنے کی آواز یں بلند ہوئیں اور کسی کے دھڑام سے گرنے کا شور سنائی دیا۔ بچوں نے شاید اس بلا کو دیکھ لیا۔ بلا نے بھیانک ساقہقہہ لگایا:
”تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔“
”مگر ک…… ک……کیوں؟“ قریشی صاحب ہکلائے۔
”اس لیے کہ یہاں ہم رہیں۔ ہم۔! ہم بھوت ہیں۔“
بھوت نے گونجیلی آواز میں کہا اور جیسے ہی بھوت نے اپنی بات ختم کی مکان کے دوسرے کمروں میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ قریشی صاحب اسپرنگ کی طرح اچھلے اور تیز رفتاری کے ریکارڈ توڑتے ہوئے بھاگ اٹھے۔
مکان کا دروازہ کھلا تھا اور کافی دور گلی کے موڑ پر ان کی اہلیہ اور بچے کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ انہوں نے ہانپتے ہوئے کہا:
”چلو۔ متین کے ہاں چلو،جان بچ گئی۔“
متین ان کے چھوٹے بھائی کا نام تھا۔ ان کی اہلیہ کہنے لگیں۔ ”میں تو اب مرتے دم تک وہاں نہیں جاؤں گی۔“
قریشی صاحب نے تھوڑے ہی دنوں میں محلہ چھوڑ دیا، اس لیے کہ ان کے بچے روزانہ رات کو سوتے میں چیخ مار کر اٹھ بیٹھتے تھے۔ قریشی صاحب تو گئے۔ لیکن ان کی حویلی پر بھوت کا قبضہ ہو گیا۔ رات کے سناٹے میں کبھی وہاں میزیں گھسیٹنے کی آواز آتی۔ کبھی اچانک کچھ کمروں میں بلب جل اٹھتے،پھر یکدم تاریکی چھا جاتی۔ کبھی گھنٹیاں بجنے لگتیں، کبھی قہقہے بلند ہونے لگتے۔ لوگوں نے تو شام کے بعد وہاں سے گزرنا ہی چھوڑ دیا۔
اب جتنے منہ اتنی باتیں۔کوئی کہتا۔”ارے بھئی وہ بھوتوں کا سردار ہے۔! اس کے چھ سینگ تو میں نے خود دیکھے تھے۔“
کوئی کہتا۔ ”ارے اس کی پانچ آنکھیں ہیں۔“
کوئی انکشاف کرتا۔”وہ تو الٹا بھی چلتا ہے۔“
کچھ دنوں میں ایک نئی مصیبت آپڑی، محلے کے ایک جنرل اسٹور کا مالک جب صبح دکان کھولنے آیا تو ایک پرچی اس نے اپنی دکان کے دروازے میں لگی دیکھی۔ پرچی نکال کر دیکھی، اس پر ایک کھوپڑی اور دو تین ہڈیوں کی تصویر بنی ہوئی تھی اور اس کے نیچے دکان کے مالک کے نام پیغام تھا کہ فوری طور پر ایک ہزار روپے بھوت کی حویلی کے صدر دروازے پر لگے لیٹر بکس میں ڈال دو۔ ورنہ بھوت تمہاری کل تک جان لے لے گا…… مالک کی تو جان نکل گئی۔ اس نے شام پانچ بجے ہی دکان بند کردی۔ رقم لے کر کانپتا ہوا حویلی کے دروازے تک پہنچا اور رقم لیٹر بکس میں ٹھونس کر بغیر ادھر ادھر دیکھے سرپٹ بھاگ لیا۔
اب تو ہر روز کسی نہ کسی کی شامت آنے لگی۔ کبھی حلوائی کے نام پیغام لگا ہو تا کہ اتنے سیر مٹھائی حویلی کے دروازے پر رکھ آؤ۔ کبھی پھل فروش کے نام پر چی ہوتی کہ اتنے سیر پھل حویلی پہنچا دو۔کبھی کسی اور کے نام بھوت احکامات جاری کر دیتا۔ لوگ پرچی پڑھتے اور روتے پیٹتے مطلوبہ شے حویلی تک پہنچا دیتے۔
کچھ لوگوں نے ایک پیر صاحب کو زبردستی آمادہ کیا کہ وہ اپنے عملیات کے ذریعے بھوت کو بھگا دیں۔ پیر صاحب اور بہت سے پیروں کی طرح خواہ مخواہ کے پیر تھے۔ پیری تو انہوں نے کھانے پینے کے دھندے کے طور پر اختیار کی ہوئی تھی۔ وہ حویلی میں گھسے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ کہتے ہوئے آگئے۔ ”اس بھوت کے ساتھ جنوں کی پورے ٹیم ہے۔ میں اکیلا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔“
اس کے بعد محلے کے دو چار نوجوانوں نے بھی بھوت سے دو دو ہاتھ کرنے کی کوششیں کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ بھوت کا مقابلہ کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔
راشد اور آصف دو بھائی تھے۔ دونوں ایک اسلامی انجمن کے کارکن تھے۔ وہیں بھوت کی حویلی کے پاس ان کا گھر تھا۔ محلے کے دوسرے بچے تو اپنا وقت ٹی وی پر فلمیں دیکھنے، پتنگ اڑانے یا بیکار آوارہ گردی میں گزارتے لیکن یہ دونوں بھائی یا تو گھر کا کام کاج کرتے یا اپنے اسکول کی پڑھائی کرتے یا اچھی اچھی انجمن کی کتب پڑھتے جو وہ اپنے اسکول گروپ کی لائبریری سے لیا کرتے…… وہ تمام نمازیں، باقاعدگی سے مسجد میں باجماعت ادا کرتے تھے اور جمعیت کے تمام پروگراموں مثلاً، اجتماع کارکنان، اسٹیڈی سرکل اور اجتماعی مطالعہ میں شرکت کرتے تھے۔
ایک دن راشد نے آصف سے کہا۔ ”بھلا یہ بھوت ہے کیا؟ پتہ لگانا چاہیے۔“
آصف نے ڈر کر کہا۔”اور جو کھا گیا پکڑ کر تو؟“
”ارے سب بیکار باتیں ہیں۔“ راشد نے منہ بناتے ہوئے کہا۔”موت اللہ میاں نے اسی حویلی میں لکھ دی ہے تو ڈر کس بات کا؟“
”ابو کو پتہ چل گیا تو؟“ آصف نے ایک اندیشہ ظاہر کیا۔
”ارے پتہ نہیں چلے گا۔ چپکے سے چلیں گے۔“ راشد نے بڑی دانشمندی سے کہا۔
رات کو جب گیارہ بج گئے اور گھر والے سو گئے تو راشد چپکے سے اٹھا، آصف کو اٹھایا۔ پنجوں کے بل چلتے ہوئے دونوں کمرے سے باہر نکلے۔ اتنے میں ایک بلی ان کے مکان کی دیوار سے برابر والی چھت پر کود گئی اور صحن میں سوئے ہوئے ان کے ابو نے کروٹ لی۔ دونوں ایک طرف دبک گئے۔ پھر آہستہ سے آگے بڑھے۔ ان کے ابو بدستور بلند آواز سے خراٹے لے رہے تھے۔ ”خررر…… خر رر……“
راشد نے آہستگی سے دروازہ کھولا اور دونوں باہر آگئے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے راشد اور آصف نے گھر سے باہر نکلنے کی دعا پڑھی۔ انجمن کے اکثر کارکنان دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ دعا انہوں نے اپنے ناظم صاحب سے سن کر یاد کی تھی۔ اس دعا کے بارے میں ناظم صاحب نے انہیں بتایا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب کوئی گھر سے نکلتے ہوئے یہ دعا پڑھے:
’بسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔‘
’میں اللہ کا نام لے کر نکل رہا ہوں۔ اللہ ہی پر میرا بھروسہ ہے۔ کسی خبر کے حاصل کرنے یا کسی شرسے بچنے میں کامیابی اللہ ہی کے حکم سے ہو سکتی ہے۔‘
تو اس سے کہا جاتا ہے:
’تیرا یہ عرض کرنا تیرے لئے کافی ہے۔ تجھے رہنمائی مل گئی اور تیرے حفاظت کا فیصلہ ہو گیا۔‘
اور شیطان مایوس ہو کر اس سے دور ہو جاتا ہے۔“
گلی پر تاریکی کا راج تھا۔ صرف گلی کے نکڑ پر بجلی کے کھمبے سے لٹکا ہوا بلب پیلے رنگ کی روشنی بکھیر رہاتھا لیکن اس کی روشنی زیادہ دور تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف کہیں کہیں کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آجاتی۔ بھوت کے آنے سے پہلے تو ہر رات تھوڑی تھوڑی دیر بعد چوکیدار کی لاٹھی کی’ٹھک ٹھک‘ اور سیٹی کی آواز یں سنائی دیتی تھیں لیکن اب بھوت کے ڈر سے لوگ شام ہی کو گھروں میں دبک جایا کرتے تھے۔
آصف نے راشد کا ہاتھ بڑی مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ راشد نے چھوٹے بھائی کے خوف کو محسوس کر لیا اور ذرا مسکرا کر بولا۔”ڈر لگ رہا ہے؟ کیوں؟“
”نہیں تو……!“ اپنے متعلق ایسی بات سن کر آصف کا چہرہ سرخ ہو گیا۔”ڈر کس بات کا۔“
”او ہو!“ راشد نے جلدی سے کہا۔ ”تم تو ناراض ہو گئے۔ ذرا میرا ہاتھ تو چھوڑو۔ تم نے اتنی سختی سے پکڑ رکھا ہے جیسے میں پھر سے اڑ جاؤں گا۔“
آصف نے ذرا شرمندہ سا ہو کر بڑے بھائی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ راشد نے جیب میں ہاتھ ڈال کر مسنون دعاؤں کی چھوٹی سی کتاب نکالی۔ یہ کتاب وہ کل ہی انجمن کی لائبریری سے لایا تھا۔ اس کتاب میں بہت سی چھوٹی چھوٹی ایسی دعا ئیں درج تھیں جنہیں رسول اللہ پڑھا کرتے تھے۔
چلتے چلتے راشد ذرا رک گیا۔
”کیا ہوا؟“ آصف بھی ٹھٹک کر پوچھنے لگا۔
”یہ دیکھو!“ راشد نے دعاؤں کی کتاب کھول کر ایک صفحے پر انگلی رکھ دی۔ ”دیکھو! یہاں ایسی دعا لکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہر روز صبح اور شام کو تین دفعہ یہ دعا پڑھ لیا کرے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور وہ کسی حادثے سے دو چار نہیں ہو گا۔“
”اچھا؟ واقعی؟“ آصف نے حیران ہو کر پوچھا۔
”ہاں بھئی…… یہ بات اللہ کے رسول نے کہی ہے۔“ راشد ذرا بزرگوں کے انداز سے بولا۔
اس وقت اسے اپنے اسکول کے اسلامیات کے استاد یاد آگئے تھے جو اسی طرح بولا کرتے تھے۔ ”ہاں بھئی یہ بات اللہ کے رسول نے کہی ہے…… اولڑ کے!“
در اصل یہ صاحب اسلامیات پڑھاتے اچانک دیکھتے کہ کوئی لڑکا شرارت کر رہا ہے تو وہ”اولڑ کے“ پکار اٹھتے۔
”دعا کیا ہے؟“ آصف نے پوچھا۔
”یہ ہے۔“ راشد نے دعا کے نیچے انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔ پھر دونوں نے مل کر دعا پڑھی:
”بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شئی فی الارض ولا فی السماء، و ھو السمیع العلیم۔“
”اس اللہ کے نام سے جس کے پاک نام کے ساتھ زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ سب سننے اور جاننے والا ہے۔“
دونوں بھائیوں نے تین بار دعا پڑھی اور آگے بڑھ گئے۔ سامنے بھوت کی حویلی کا دروازہ تھا۔ دونوں نے چوکنا ہو کر چاروں طرف دیکھا۔دور دور تک تاریکی تھی۔ حویلی کے دروازے پر جو بلب لگا ہوا تھا اس کی روشنی میں ارد گرد کا ماحول صاف دکھائی دے رہا تھا۔
”دروازے پر چڑھنا ہو گا۔!“ ارشد نے آصف کے کان میں سرگوشی کی۔

آصف نے جواب میں صرف سرہلا دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اسے اس تجویز سے اتفاق ہے۔
دونوں بڑی احتیاط کے ساتھ دروازے پر چڑھ کر اندرا اتر گئے۔ اس وقت ان کے دل بڑے زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ دبے پاؤں آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ سامنے سے جو راستہ جا رہا ہے وہ آگے جاکر ایک وسیع بر آمدے میں کھلتا ہے۔ اس راستے کے برابر سے بائیں ہاتھ کو ایک اور راستہ جا رہا تھا جو کسی کمرے کی جانب رہنمائی کرتا ہو گا۔ ایک طرف اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں تھیں۔ بڑے غور سے دیکھنے پر انہیں اوپر کی منزل میں ایک کھڑکی روشن نظر آئی۔ وہ آہستگی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپرپہنچ گئے۔
پہلے دو کمرے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے،البتہ تیسرے کمرے سے روشنی جھلک رہی تھی۔ راشد نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر دروازے سے جھانکنے لگا۔
روشنی دراصل ایک اور کمرے سے پھوٹ رہی تھی جو پہلے کمرے کی پشت پر بنا ہوا تھا۔ اس کمرے تک جانے کے لئے پہلے کمرے سے راستہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کمرے تک جانے کے لئے کوئی اور راستہ بھی ہو۔
راشد اور آصف دونوں روشن کمرے تک پہنچ گئے۔ اندر ایک تخت پر دو بچے بیٹھے کتابیں پڑھ رہے تھے۔ راشد سوچ میں پڑ گیا۔ ”یہ دو بچے کہاں سے آگئے؟ کیا یہ بھوت کے بچے ہیں؟ نہیں! بھوتوں کے بچے ایسے تو نہیں ہوتے!“ بہر حال اس نے جی کڑا کر کے قدم آگے بڑھایا اور زور سے کہا۔ ”السلام علیکم ……!“
”کون ہو تم……؟“ ایک ساتھ دونوں کے منہ سے نکلا۔
”یہ سوال ہم تم سے کریں گے۔“ اب کے بار آصف نے جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا۔
”میرا نام شارق ہے۔“
”اور میرا شفقت۔“
دونوں بچوں نے اپنا اپنا تعارف کرایا۔
”ہم راشد اور آصف ہیں۔ لیکن تم لوگ کون ہو؟ کیا تم بھوت کے بچے ہو۔“ راشد نے پوچھا۔
”ارے چھوڑو۔“ بڑے والے بچے نے ذرا ٹالنے والے انداز میں کہا۔”یوں سمجھو کہ ہم تمہارے دوست ہیں۔“
”اونہہ“ آصف نے کہا۔ ”تم دوست؟ ایسی بیکار پریوں، جادو گروں کی کہانیاں پڑھتے ہو۔ تم اچھے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔“
”اور کیا…!“ راشد نے بھی تائید کی۔”ہمارے رسول ﷺنے تو فرمایا ہے کہ اچھا دوست وہ ہے جس کی صورت دیکھیں تو خدا یا د آئے، جس کی باتیں سنیں تو دین کے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کودیکھیں تو آخرت یاد آئے۔“
بچے ذرا شرمندہ سے نظر آنے لگے۔ بات کا رخ بدلنے کے لئے بڑے والے بچے نے جس نے اپنا نام شارق بتایا تھا، اٹھ کر الماری کھولی۔ آصف اور راشد نے دیکھا کہ الماری میں پانچ مٹھائی کے ڈبے رکھے ہوئے تھے۔ شارق نے ایک ڈبہ نکال کر ان کی طرف بڑھایا۔”لو گلاب جامن کھاؤ۔“
شفقت نے ڈبہ کھول کر ان کے قریب کر دیا۔”لیجئے۔ لیجئے آپ تو ہمارے دوست ہیں۔“
راشد ڈبہ دیکھتے ہی حیران رہ گیا۔ یہ محلے کے کلن حلوائی کا ڈبہ تھا۔ حیرانی کی وجہ یہ نہ تھی کہ یہ ڈبہ کلن حلوائی کا تھا بلکہ یہ کہ ڈبے کے اندر کلن حلوائی نے ایک پرچہ لکھ کر چپکایا ہوا تھا جس پر غلط سلط اردو میں کلن نے بھوت کے نام درخواست لکھی ہوئی تھی:
”بخدمت جناب بھوتوں کے سردار عاظم آلی مخام!
گزارش یہ ہے کہ آپ فدوی سے اب تلک پینتیس کلو مٹھائی لے چکے ہیں جس کی لاگت لگ بھگ چار سو روپے بنتی ہے۔ اے بھوتوں کے سردار آزم۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،میرے پر رحم کر۔ نئیں تو وہ بھوکے مرجائیں گے۔
فقط بد نصیب کلن۔“
اب سارا معاملہ راشد کی سمجھ میں آچکا تھا کہ بچے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر مختلف چیزیں وصول کرتے ہیں، بھوت کا تو بہانہ ہے۔ راشد نے غصے کے عالم میں ڈبہ میز پر پٹخ دیا۔ اس کے منہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔
”یہ…؟ حرام کا مال…؟ ہمیں کھلا رہے ہو……! لوگوں سے لوٹی ہوئی مٹھائی تم ہمیں کھلاؤ گے……؟ شرم نہیں آتی…؟ قیامت میں کیا جواب دو گے؟“
”مگر……“ شارق نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن راشد نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ٹھیک ہے… ٹھیک ہے… خوب مٹھائی کھاؤ… لیکن پتہ ہے…؟ دوزخ میں کیا ملے گا……؟ خار دار گھاس! پگھلا ہوا تار کول…… گرم پانی……!“
”ہاں بھائی جان…… ہم نے تو وہ حدیث بھی پڑھی تھی نا۔۔ جس میں حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو بدن حرام کمائی سے پرورش پائے وہ جنت میں جانہیں سکتا۔ اس کے لئے جہنم کی آگ ہی بہتر ہے۔“
اچانک ایک جانب سے ایک پر دہ ہٹا اور کسی آدمی نے کود کر راشد کو گلے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”بیٹے! میں تمہارا احسان کبھی نہ بھولوں گا۔ تم نے مجھے راستہ دکھایا، اف… میں نے کتنے گناہ کیے۔ کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا؟“
دونوں لڑکے ایک طرف سہمے ہوئے شرمندہ سے کھڑے تھے۔ راشد اور آصف کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ آخر اس آدمی نے آنسو بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا:
”بیٹے!میں وہی بد نصیب شخص ہوں جس نے بھوت کا ڈرامہ رچا رکھا تھا۔ آرام وسکون کی زندگی بسر کرنے کی خواہش نے مجھے حرام طریقوں پر لگادیا۔ میں نے بھوت بن کر اس حویلی پر قبضہ کر لیا۔ کل ہی میں اپنے آپ کو تھانے میں پیش کردوں گا۔“
دوسرے دن تو ایک آفت آگئی، جب لوگوں نے سنا کہ اسلامی انجمن کے اسکول گروپ کے دو چھوٹے چھوٹے کارکنوں نے بھوت کا سراغ لگا لیا۔ بھوت نے تھانے جا کر اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا۔ وہ تو کہیے کہ راشد اور آصف نے اپنے ابو کو سارا واقعہ کہہ سنایا۔ ان کے ابو بڑے نیک اور خدا ترس آدمی تھے۔ انہوں نے دوڑ دھوپ کر کے ”بھوت“ کو حفاظت میں پہنچوا دیا ورنہ لوگ شاید اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے۔
کوئی کہہ رہا ہے۔”میرے ایک ہزار روپے اس کم بخت کے پاس ہوں گے۔“
کوئی چلا رہا ہے۔ ”بیس گز کپڑا اس کی نذر کر دیا میں نے۔“
کوئی دہائی دے رہا ہے۔ ”مجھے درجن بھر گھڑیاں اس بھوت کو دینی پڑیں۔“
ادھر اخباری نمائندوں کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ بھاگتے آئے۔ کئی نمائندوں نے راشد اور آصف سے طرح طرح کے سوالات کئے۔ ان کی، ان کے ابو کی اور بھوت اور اس کے بچوں کی تصویریں کھینچی گئیں۔ ہر طرف راشد اور آصف کی بہادری کا چرچا تھا۔ انجمن کے کارکنان بھی راشد اور آصف کے گرد جمع تھے۔
راشد کے ابو نے بھوت کے معاملے کو شہر کے بااثر افراد کے سامنے رکھا۔ ”بھوت“ حقیقی تو بہ کرنے کے لئے تیار تھا بلکہ سزا بھگتنے کے لئے راضی تھا۔ راشد کے ابو کا خیال تھا کہ ایک فرد اگر گھناؤنی زندگی سے تو بہ کرنا چاہے تو اسے موقع ملنا چاہیے۔ خاصی کوششوں کے بعد انہوں نے لوگوں کی لوٹی ہوئی اشیاء کا بیشتر حصہ انہیں واپس دلوا دیا پھر بھی بھوت کو دو سال کی سزا ہو گئی۔ مقدمے کے دوران راشد کے ابو ”بھوت“ سے جس کا اصل نام شوکت تھا ملتے رہے، اسے اچھی اچھی نصیحتیں کیں۔
جس روز فیصلہ سنایا گیا، بھوت عدالت میں، راشد اور آصف سے ملا، انہیں پیار کیا اور بولا:
”بیٹے! لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹا مجرم جیل جا کر بڑا مجرم بن کر نکلتا ہے لیکن اللہ تمہیں اور تمہارے ابو کو اجر دے۔ تمہاری اور تمہارے ابو کی نصیحتوں کو میں نے دل میں بٹھالیا ہے۔ ان شاء اللہ میں نیک بن کر دکھاؤں گا۔ میرے لئے دعا کرنا۔“
راشد کے ابو نے شوکت کے بچوں کو بھی اپنے ہی پاس رکھ لیا۔ انہیں بھی راشد اور آصف کے اسکول میں داخل کرا دیا۔ دونوں بچے بہت جلد اسلامی انجمن کے کارکن بن گئے۔ ادھر قریشی صاحب کو بھوت کی اصلیت کا پتہ چلا تو وہ دوڑتے آئے۔ راشد اور آصف سے ساری داستان سن کر بولے:
”بیٹے! اب تک میں خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ بے ایمانی کو جائز سمجھتا تھا لیکن جب کسی نے میرے ساتھ بے ایمانی کی تو مجھے ہوش آیا۔ اللہ تو تمہیں اس نیک کام کا اجر دے گا ہی۔ لو یہ میری طرف سے پانچ سو روپے تم دونوں کے لئے……“
پھر انہیں کچھ خیال آیا۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر ہنستے ہوئے انہوں نے مزید پچاس روپے نکالے اور بولے۔ ”اور یہ…… ’بھوت‘ کے بچوں کے لئے……!“
راشد اور آصف نے ان پیسوں سے اچھی اچھی کتابیں، انجمن کا لڑ پچر خریدا۔ اس ماہ دونوں نے انجمن کو سو سو روپے اعانت بھی دی۔ دو سال بعد بھوت یعنی شوکت بھی واپس آگیا۔ اس نے راشد کے ابو کے کہنے پر ان کے باغ کا کام سنبھال لیا اور وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ رہنے لگا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top