skip to Main Content

بھکاری

پیر نوید شاہ ہاشمی

…………………………………….

بھیک مانگنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔۔۔ اگر بھیک مانگنا اتنا آسان ہوتا تو ہر کوئی ہاتھوں میں کشکول لئے پھرتا۔۔۔ بھکاریوں کا بھی اپنا دماغ ہے۔ ہم نے کسی بھکاری کو کہا ’’خیرات کل لینا‘‘۔ تو فوراً بولا ’’کل ڈاک سے بھیجو گے کیا؟‘‘
ایک اور بھکاری سے ہم نے دریافت کیا ’’اس کام میں آپ کا استاد کون ہے؟‘‘
’’میرا ابا!‘‘ وہ فخر کے ساتھ بولا ’’وہ ایک این جی او کے لئے امداد مانگتا پھرتا تھا، اسے دیکھ دیکھ کے ہم نے بھیک مانگنا سیکھا، وہ ہی ہمارا استاد ہے جی‘‘۔
دنیا میں بھکاری بننا اتنا مشکل نہیں جتنا بھکاری سے یہ کہہ کے جان چھڑانا کہ معاف کرنا! آج کل بھکاری یوں چمٹ جاتے ہیں جیسے مقناطیس لوہے سے۔ بھکاری نفسیات کے ماہر بھی ہوتے ہیں بندے کو دیکھ کے اپنی صدا تیار کرتے ہیں، انہیں علم ہوتا ہے کہ کس کو کس طریقے سے قابو کرنا ہے۔ جیسا کہ خواتین کو دیکھیں گے تو پکار اُٹھیں گے ’’جیتی رہو بی بی جی۔۔۔ اللہ تعالیٰ عمر دراز کرے‘‘۔ بھکاری نے اتنا کہا نہیں کہ بی بی جی نے بے اختیار پرس سے نوٹ نکالا نہیں۔ وہ دل میں یہ سوچے گی کہ ’’چلو دس روپے میں دو چار برس عمر بڑھ گئی تو باقی دو چار برس کسی دوسرے بھکاری سے بڑھوا لوں گی‘‘۔
بھکاریوں کی بے شمار اقسام ہیں۔۔۔ گننے بیٹھیں گے تو ۔۔۔ وہ ہمیں بھی بھیک منگوا کے مار دیں گے۔ جیسے ایک بھکاری راستے میں ملا بولا ’’ملک سے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے ہم نے بھیک مانگنے کا ایک کوچنگ سینٹر قائم کیا ہے جہاں ہر سال ہم دو سو کے لگ بھگ ننھے منے اور جوان بھکاری تیار کرکے مارکیٹ میں سپلائی کرتے ہیں جو کہ مختلف بس اسٹاپوں، بازاروں اور اسپتالوں میں چیونٹیوں کی طرح پھیل جاتے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت، اپنی محنت سے اپنا روزگار حاصل کرلیتے ہیں۔۔۔!‘‘
’’اچھا تو ان بھکاریوں کو آپ کن طریقوں سے ٹرینڈ کرتے ہیں؟‘‘ دریافت کیا گیا۔
’’ان کو چھ چھ گھنٹے کا ریاض کروایا جاتا ہے۔۔۔ جس سے ان کی بنیادی و اہم ترین تربیت کچھ ایسی غیر معمولی بن جاتی ہے کہ دو میل دور سے کسی بندے کی صورت د یکھ کر ہی یہ اندازہ کرلیتے ہیں کہ تلوں میں تیل ہے کہ نہیں؟۔۔۔ مطلب یہ کہ فلاں شخص ایک گھنٹے کی فریاد سننے کے بعد بھی ایک کوڑی تک نہ دے گا یا فلاں شخص اپنی جیب میں رقم ایلفی سے چپکا کے باہر نکلا ہے! ہمارے بھکاریوں کا نعرہ ہے کہ ’’بڑا ہو کے جب ویسے ہی بے روزگار بننا ہے تو پھر اِدھر اُدھر کیوں مارے مارے پھرتے ہو لوگو۔۔۔ آجاؤ۔۔۔‘‘
تاریخ کے مطالعے سے بھی اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ دھرتی پر سب سے اول کس نے بھیک مانگی؟ یا یہ کہ سب سے پہلے کس نے کس کو بھیک منگوائی؟ مگر یہ بات یقینی ہے کہ بھیک مانگنا سب سے قدیم ترین پیشہ ہے اور آج کے بھکاری اس قدیم تہذیبی پیشے کا بھرم قائم رکھے ہوئے ہیں۔ کسی ایسے ہی بھکاری سے پوچھا گیا کہ ’’بھئی آخر تم بھکاری کس طرح بنے؟‘‘
’’دراصل میں بلدیاتی الیکشن میں کونسلر کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ میں ووٹ لینے کے لئے در در پہ گیا۔۔۔ گو کہ میں الیکشن ہار گیا لیکن لوگوں سے میں نے اتنے ووٹ مانگے کہ مجھے بھیک مانگنے کی لت پڑگئی‘‘۔ موصوف بتانے لگے ’’پھر میں نے مستقل طور پر یہ پیشہ اپنا لیا اور اپنے یاروں دوستوں کو بھی اس کام کی ترغیب دی۔۔۔ یوں ہم اس معزز پیشے سے وابستہ ہوئے اور پتہ چلا کہ لوگ تو بے وقوف ہیں جو خواہ مخواہ بے روزگاری کے باعث خودکشی کرلیتے ہیں۔۔۔ یہاں تو روزگار ہی روزگار بکھرا پڑا ہے‘‘۔
بھکاری دنیا کے ہر ملک میں ہوتے ہیں۔۔۔ مگر ہمارے ملک کے بھکاریوں کا طریقۂ روزگار ذرا جارحانہ ہوتا ہے۔۔۔ یہ یوں بھیک مانگتے ہیں گویا جھگڑا کررہے ہوں! جیسے کوئی بھکاری کسی راہ گیر سے ٹکرا گیا۔ راہ گیر اسے غصے سے بولا ’’ابے بیچ سڑک پر بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟‘‘
’’تو کیا آفس کھول کے بیٹھوں جی؟‘‘ بھکاری نے برجستہ جواب دیا۔
’’لیکن۔۔۔ بھیک مانگنے کا۔۔۔ یہ کیا طریقہ ہے؟‘‘ سوال کیا گیا۔
’’تو کیا بھیک مانگنے کے لئے آپ کے پاس درخواست جمع کرواؤں؟‘‘ جواب ملا۔
اساتذہ کسی بھکاری کو جب بھیک دیتے ہیں تو صورت ایسی مغموم بنا لیتے ہیں کہ ذرا دور سے دیکھنے پر پتہ ہی نہیں چلتا کہ دے رہے ہیں یا لے رہے ہیں؟؟ صحافی، بھکاری کو یوں تکتے ہیں کہ بے چارے کا آدھا دم وہیں نکل جاتا ہے۔۔۔ ایک ایسے ہی بھکاری کو بھیک دینے کے لئے جب کسی صحافی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو بھکاری رقص کرنے لگا۔۔۔! صحافی نے اس سے پوچھا ’’بھئی کس خوشی میں ناچ رہے ہو؟‘‘
بھکاری بولا ’’میری دادی کہتی تھی کہ جس بھکاری نے کسی صحافی سے بھیک نکالی سمجھو کہ اس نے بیک وقت سات بھینسیں دوہ لیں‘‘۔
یہ سن کے صحافی نے جھٹ سے پچاس پیسے کا سکہ نکالا اور بھکاری کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بولا ’’میں نے منت مانگی تھی کہ میری تنخواہ بڑھے گی تو خیرات کروں گا‘‘۔
’’سائیں! پھر۔۔۔ یہ کتنی۔۔۔ خیرات دے رہے ہیں۔۔۔ صرف پچاس پیسے!!؟‘‘ بھکاری نے حیرت سے پوچھا۔
’’میرے بھائی! تنخواہ بھی تو اتنی ہی بڑھی ہے‘‘۔ صحافی نے آہ بھر کے جواب دیا۔
دنیا میں سب سے زیادہ اظہار کی آزادی کا حق بھی بھکاریوں کو حاصل ہے۔ راہ چلتے کسی دوشیزہ کو روک لیں تو کوئی انہیں اُف تک نہ بولے گا۔ جیسے ایک بھکاری نے کسی دوشیزہ کو کہا ’’بی بی جی! آپ کو حسین و جمیل شوہر ملے گا‘‘۔
’’اچھا! تو میرے گھر میں جو گنجا شخص رہتا ہے۔۔۔ اس کا کیا بنے گا؟‘‘ دوشیزہ ایک دم بولی۔
ایسے ہی ایک نوجوان نے کسی بھکاری کو بھیک دیتے ہوئے دریافت کیا ’’بابا جی بتاؤ کہ میری شادی کب ہوگی؟‘‘
’’بیٹا! عنقریب تجھے خوبصورت دلہن ملے گی‘‘۔
’’بابا! تم نے میرے ایک دوست کو بھی کہا تھا کہ خوبصورت دلہن ملے گی مگر اسے بگڑی مورت نصیب ہوئی۔۔۔ پچھلی مرتبہ تم نے مجھے کہا تھا کہ میری شادی ہوگی مگر میری تو منگنی بھی ٹوٹ گئی!‘‘
’’ایک نہ ایک دن تجھے چاند جیسی دلہن ضرور ملے گی بچہ‘‘۔ بھکاری بدحواس ہوکے بولا۔
’’تو نے میرے بھائی کو بھی کہا تھا کہ اسے چاند جیسی دلہن ملے گی۔۔۔ اسے دلہن تو ملی مگر پہلی تاریخ کے چاند جیسی!۔۔۔ تو نے میرے ایک اور دوست کو کہا کہ اسے بیوی ملے گی۔۔۔ مگر اسے جیتا جاگتا، چلتا پھرتا۔۔۔ فل سائز ٹی وی ملا!!‘‘
’’بابو جی! میں بھکاری ہوں۔۔۔ دلہن بنانے کی کوئی فیکٹری نہیں!‘‘ بھکاری نے جل کر جواب دیا۔
’’بھیک مانگ کے اپنی گزر بسر کرنا بھی رزقِ حلال ہی ہے۔۔۔ مگر بہ شرط یہ کہ نیک نیتی کے ساتھ بھیک مانگی جائے۔۔۔! آپ کرائے پر کوئی دکان لیجئے۔۔۔ اسے آفس بنا کے باہر اس طرح کا بورڈ آویزاں کردیں۔ ’’غربت کے خلاف قومی پروگرام‘‘ پھر ایک ہی صدا پر مال سمیٹیے!
اس طرح کی این جی اوز کے ایک چیف ایگزیکٹو سے ہم نے پوچھا ’’اب تک کتنے غریبوں کو آپ بچا چکے ہیں؟‘‘
’’فی الحال تو ہم خود کو بچانے کے چکر میں ہیں جی!‘‘ چیف ایگزیکٹو فوراً بولے ’’انسان کو پہلے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے۔۔۔ ہم لوگوں نے بھی اس بات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہے۔۔۔ باقی بعد میں‘‘۔
اسے کہتے ہیں نیک نیتی! بہتر حکمت عملی رزقِ حلال فراہم کرسکتی ہے۔ اب صحرائے تھر کو ہی دیکھ لیجئے اسے سرزمین سندھ پر اسی لئے ہی خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے کہ اس کے نام پر لوگ کما سکیں! تھر کے نام پر اور اللہ کے نام پر بھیک مانگنے میں فرق صرف اتنا ہے کہ تھر کے نام پر بھیک مانگنے کے لئے ایک آفس کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ اگر تھر نہ ہوتا تو ان گنت لوگ بے روزگاری سے مر جاتے! شکر ہے کہ ہمارے ملک میں بھیک مانگنے پر کوئی پابندی وغیرہ نہیں۔۔۔ جس کا موڈ ہوتا ہے وہ صدا بلند کرنے لگ جاتا ہے! دیگر ممالک کی طرح اگر ہمارے ملک میں بھی اس روزگار پر پابندی عائد ہوتی تو بے روزگاری کی موجودہ شرح میں مزید اضافہ ممکن ہوجاتا، جبکہ یہ وہ واحد طبقہ ہے جسے بیک وقت چار چار ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ بھکاری، منگتا، گداگر اور فقیر۔
آئیے اب ایک اور برسرروزگار بھکاری سے ملتے ہیں، جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر آپ محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟‘‘ تو بولے ’’بھیک مانگنا بھی مزدوری ہی تو ہے‘‘۔
’’نہیں! ہمارا مطلب ہے کہ کسی مل وغیرہ میں یا کوئی اسی طرح کا دوسرا کام آپ کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔ اب بات سمجھ میں آئی‘‘۔ موصوف مسکراتے ہوئے بولے ’’جی بات دراصل یہ ہے کہ میرا خرچہ بڑا ہے۔۔۔ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لئے ہر روز 25۔30 روپے کرایہ رکشا والے کو ادا کرتا ہوں۔ دس بارہ مرتبہ ہوٹل سے چائے پیتا ہوں۔ دو وقت کا کھانا بھی اپنی جیب سے ہوٹل میں بیٹھ کے عزت کے ساتھ کھاتا ہوں۔ 40-50 روپے کی ہر روز چرس لے کے اُڑاتا ہوں۔۔۔ گھر میں ہر روز دو سو روپے دیتا ہوں۔۔۔ کمیٹی کی رقم کے تین سو روپے بھی یومیہ ادا کرتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کسی مل، فیکٹری وغیرہ میں لگوں یا کوئی اور محنت مزدوری کا کام کروں تو کیا اپنے اخراجات پورے کرپاؤں گا؟‘‘ بھکاری نے ہمیں ایسا لاجواب کردیا کہ اُلٹے پاؤں بھاگ اُٹھے۔
بھکاری کہتے ہیں کہ امسال بجٹ میں سب کو ملا۔ مگر ہمیں کچھ بھی نہیں! حکومت کم از کم کشکول ہی مفت میں دے دیتی! جیسے کسی مصنوعی اندھے بھکاری سے پوچھا گیا: ’’ابے جھوٹ موٹ کے اندھے کیوں بنے ہو؟‘‘
’’آج کل ہر کوئی اندھا بنا ہوا ہے۔۔۔ ہم بنے تو کون سی قیامت آجائے گی۔۔۔ آپ کسی بھی ادارے میں جائیں، آپ کو پانچ میں تین یقیناً اندھے ملیں گے‘‘۔ بھکاری نے دلیل کے ساتھ جواب دیا۔
’’اور باقی کے دو؟‘‘ پوچھا گیا۔
’’وہ اس دن چھٹی پر ہوں گے‘‘۔ بھکاری نے بتایا۔
ہمارے ایک دوست نے کسی بھکاری کی شکایت کی کہ اُس نے ان کی قمیض کا ایسا بُرا حشر کی ہے کہ ان کی بیوی نے بھی کبھی نہ کیا ہوگا! بھکاری سے پوچھا گیا کہ بھئی آپ کی ہمارے دوست کے ساتھ آخر کیا دشمنی تھی؟ بھکاری نے ڈھٹائی سے جواب دیا ’’یہ اول نمبر کا کنجوس ہے۔۔۔ میں نے خیرات مانگی تو جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کے مجھے دکھایا اور پھر اس نے وہ اپنی جیب میں واپس ڈال لیا۔۔۔ اب اس توہین پر میں اس کی قمیص نہ پھاڑتا تو اور کیا کرتا۔۔۔!!‘‘

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top