skip to Main Content

بھائی جان

سمیرا امیر

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں ان کے نوکری سے نکالے جانے کی وجہ معلوم ہوئی تو ہم خوب ہنسے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر پر بالوں کا گچھا ، ہاتھ میں ہر وقت کتاب۔ آنکھوں میں موٹے عدسوں کا چشمہ۔ بیٹھیں ہوں تو ہر وقت ایک پاؤں ہلاتے ہیں جبکہ کھڑے ہونے کی صورت میں وہی پاؤں زمین پر رکھے انگلیاں مسلتے ہیں، اکیلے بیٹھنے کی صورت میں انگلی سے خلاؤں میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں، بقول ان کے ’’اس سے خوش خطی ہوتی ہے۔ مطلب لکھائی اچھی ہوتی ہے۔‘‘
’’ یہ ہیں ہمارے قطب دین بھائی، لقب پروفیسر، تاریخ پیدائش ۱۹۸۳ء، تاریخ وفات کا علم ابھی تک نہیں معلوم ہوا۔ ٹائم مشین بھی معلوم نہ کرسکی کہ ان کی حیات کتنی ہے جب کہ غصہ ہر وقت ناک پر، جس سے لوگوں کی ناک میں دَم ہوجاتا ہے۔ غصے میں بھی ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ بندہ ان کے غصے کو چھوڑ کر الفاظ پر غور کرتا ہے۔
’’ارے نافہم، تم نے یہ کیا تماشا گھر بنارکھا ہے۔ اپنا حدودو اربعہ دیکھو اور اپنے افعال دیکھو، اُٹھاؤ یہ تمام الم غلم اور نکالو ہمارے دار سے ان اطفال کو ،ایک ساعت سے شور و غل مچا رکھا ہے۔ جلدی سے ہمارے امر کو بجا لاؤ ورنہ ہم تم کو بجا دیں گے ہم کا مطلب ہاتھ اٹھا دیں گے تم پر۔‘‘
’’ اوہ لگتا ہے ارم پھر سے ان کی زد میں آ گئی ہے۔‘‘
’’چہ چہ چہ بیچاری دن میں پتا نہیں کتنی مرتبہ ڈانٹ کھاتی ہے۔‘‘
’’ پھر کیا کر دیا ارم؟‘‘
ہم خبر لینے کمرے کی طرف گئے، جبکہ بھائی جان غصے سے کھڑی زمین پر انگلیاں مسل رہے تھے۔
’’انس لوگوں کو سمجھا دو تفریح کی جگہ داد نہیں ہے، یہاں سے فوراً نقل مکانی کرو بلکہ نکل مکانی کرو۔ ورنہ ہمارا منھ ہوگا اور انس لوگوں کا ہاتھ۔‘‘
’’نہیں بلکہ انس لوگوں کا منھ ہوگا اور ہمارا ہاتھ۔‘‘ بھائی جان نے سنبھلتے ہوئے جملہ بدل کر کہا۔
ان کی لغت کے مطابق اگر مخاطب سے کسی غائب یا حاضر کی بات کی جائے اور وہ بے تمیز ہو تو غائب کے لیے اُس اور حاضر کے لیے اِس کا صیغہ درست ہے۔ اور اگر باتمیز ہو تو غائب کے لیے اُن اور حاضر کے لیے اِن کا صیغہ بہتر ہے۔ اور اگر بے تمیز اور باتمیز کا مجموعہ ہو تو اِنس یا اُنس بہترین ہے۔
جبکہ تم کو ہم کو ، کہنا ان کی بچپن کی عادت تھی جو اب پختہ ہوچکی تھی۔قطب دین بھائی دل ٹھنڈا کرکے اپنی غرض کی طرف چلے گئے بقول ان کے 
تم کے لیے یہ کمرہ ہے اور ہم کے لیے غرضہ
اس لیے ایک کپ چاے فوراً پیش کی جائے۔
چاے سے یاد آیا۔ ایک شام چند مہمان ہمارے گھر تشریف لائے، ان کے جانے پر ہم نے اصرار کیا چاے شاے پی کر جائیے گا۔
پھر کیا پروفیسر بھائی کے کانوں تک یہ آواز پہنچ گئی۔ مہمانوں کے سامنے ہی ہماری عزت افزائی ہوئی: ’’ارے یہ چاے شاے کیا ہوتا ہے؟ چاے کو مقرر ذکر کرنے سے کیا مہمان لوٹ آئیں گے؟ اگر کہنا ہی ہے تو چاے چاے کہو یا پھر شاے شاے؟‘‘
شاے بھی عربی میں چاے کو ہی کہتے ہیں۔ اب تم ان لوگوں کو ایک کپ پاکستانی اور ایک کپ عربی چاے پلاؤگی؟ تو پھر ٹھیک ہے جی اس کے ہاتھ کی چاے شاے پی کر جائیے گا۔‘‘
بھائی صاحب نے مہمانوں کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا۔ جبکہ مہمانان گرامی منھ کھولے بھائی جان کو تَک رہے تھے۔ ہم نے پہلے کھلا منھ بند کیا اور پھر دھپ دھپ کرتے سیڑھیاں چڑھ گئے تاکہ کھلی فضا میں آسانی سے رویا جا سکے۔
*۔۔۔*
ہم بڑے کمرے میں داخل ہوئے تو ارم اور اس کی سہیلیوں نے اُودھم مچایا ہوا تھا یعنی اب بھی ارم سدھری نہ تھی۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اب ڈانٹ کو کان پر مکھی کی طرح اُڑا دیتی ہے۔ ہم نے بھائی جان کے کمرے کی طرف رخ کیا۔ تو ان کو خلاؤں میں انگلیاں چلاتے پایا، ہم نے بھائی جان کا موڈ قدرے بہتر دیکھ کر دھپ سے دروازہ کھول دیا۔
انھوں نے ایک بے تاثر نگاہ ہم پر ڈالی اور پھر سے خلاؤں میں مصروف ہو گئے جیسے ان کا ہوم ورک ابھی مکمل نہ ہوا ہو۔ 
’’بھائی جان!‘‘ ہم نے گلا کھنگارتے ہوئے کہا۔ ’’اک بات سمجھ میں آئی نہیں اور امی نے سمجھائی نہیں۔‘‘
ہم اُنھیں گدگدی کرکے تو ہنسا نہیں سکتے تھے سو ایسے کچھ تفریح کرکے ہنسانے کی کوشش کی۔
’’تو بھئی ابو سے جا کر پوچھ لو۔‘‘ بھائی جان نے جان چھڑانے والے انداز سے کہا۔
’’نہیں ناں بات ایسی ہے کہ صرف آپ سے ہی پوچھ سکتی ہوں۔‘‘
’’ ہنہ ۔۔۔ ہی یعنی مجھ سے ہی؟ تو ٹھیک ہے ہمشیرہ جی پوچھیے؟‘‘ بھائی جان اکڑتے ہوئے بولے ۔
’’وہ بات دراصل یہ ہے ناں کہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ آپ کا کہنا ہے نا کہ ۔۔۔ خلاؤں میں لکھنے سے لکھائی اچھی ہوتی ہے؟ تو پھر آپ کی لکھائی اب تک تمیز کے دائرے میں کیوں نہیں آئی؟‘‘
ہم دوڑلگانے کے انداز میں تیار بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ بھائی جان کی انوکھی سزا ہم اچھی طرح جانتے تھے ، مگر افسوس شکار ، شکاری کے جال میں آچکا تھا۔ انھوں نے گردن دبوچ کر ہمیں بیچ راستے میں جالیا اور باتھ روم میں بند کرکے دوپہر کا کھانا بھی بند کر دیا۔ یہ تھی بھائی جان کی انوکھی سزا جو ناجانے کیوں آج ہمیں کھلانے کے لیے کھینچ لائی تھی، ہم تین گھنٹے باتھ روم میں خاموشی سے بند خود کو کوس رہے تھے کیونکہ ہمارے احتجاج اور چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہ تھا، یہ بات تو گھر کا ہر فرد جانتا تھا لیکن ہم نے پھر بھی مظلوم بنتے ہوئے اپنی سی کوشش کی کہ پانی ہی پلا دو؟ شاید اس بہانے ہم پانی پلانے والے کو دھکا دے کر فرار ہو سکیں، مگر جواب وہی دھاک کے تین پات کہ فوارہ کھول کر جتنا چاہے پی لو جتنا چاہے گرا لو۔‘‘
*۔۔۔*
’’تم کو طریقہ نہیں معلوم راستے میں بیٹھنے کا۔‘‘ ارم کی پھر شامت آئی ہوئی تھی جو اپنے کھلونوں کو راستے میں پھیلا کر بیٹھی تھی۔ ہم ابھی ابھی جیل سے آزاد ہوئے تھے سو گرمی سر پر چڑھی ہوئی تھی۔
’’ کیا ہے آپ کو؟ دو منٹ بچی بیچاری کو آرام سے کھیلنے بھی دے دیا کریں۔‘‘ ہم نے نڈر بنتے ہوئے کہا۔ ’’کھیلو ارم میں دیکھتی ہوں تمھیں کون منع کرتا ہے؟‘‘
’’اچھا یعنی تم کو ہم سے خوف نہیں؟‘‘ بھائی جان نے غصیلی آنکھیں ہمیں دکھائیں۔
ڈر ڈر کر مرنے سے اچھا ہے ایک ہی بار مار دیں۔‘‘
’’ارم کو؟‘‘
ہم نے بھائی جان کا پارہ چڑھتے دیکھا تو مارنے کا رخ ارم کی طرف پھیر دیا، جبکہ ارم ہکا بکا ہمیں تکتی رہ گئی کیونکہ ہم پھر سے باتھ روم میں قید ہوچکے تھے، یعنی اب رات کا کھانا بھی بند، پارسل کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہ تھا کیونکہ بھائی جان نے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھی، تالہ لگا کر چابی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
*۔۔۔*
آج ہمیں جو خوشی ملی تھی شاید ہی کسی کو ملی ہو کیونکہ بھائی جان اسلام آباد جا رہے تھے نوکری کے سلسلے میں۔۔۔
’’اب تو مہینوں بعد ہی آمد ہوگی یعنی آزادی کھلی آزادی۔‘‘ یہ ہوئی نا بات ہم نے خوشی سے ہوا میں مکا مارا۔
بروز پیر بھائی جان جا چکے تھے اور ہم خوشی سے ہواؤں میں اُڑ رہے تھے لیکن کب تک آخر ہمیں تھک کر زمین پر بھی اُترنا تھا۔
بدھ کے دن صبح دیر سے ہم اپنی مرضی کے مطابق اُٹھے لیکن یہ کیا اٹھتے ہی ہمیں گردن سے دبوچ لیا گیا ۔ یہ کیا ساعت ہے بیدار ہونے کی؟ میں نہیں تھا تو اس کا مطلب تم لوگ اپنی مرضیاں کرتی پھرو؟
بھائی جان کی آواز نے ہمیں صدمے سے دوچار کر دیا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم بھائی جان کی سزا کا نشانہ بنے بیٹھے تھے اور سوچ رہے تھے کہ وہ واپس کیوں آئے شاید وہاں کوئی ان کے غصہ کو برداشت کرنے والا نہ تھا اور نہ ہی ہماری طرح کوئی مظلوم ۔
وہ تو بعد میں ہمیں ان کے نوکری سے نکالے جانے کی وجہ پتا چلی تو ہم خوب ہنسے۔
’’پتا ہے کیوں؟‘‘ کیونکہ اُنھوں نے اپنے باس کو بھی باتھ روم میں بند کر دیا تھا۔
*۔۔۔*
نئے الفاظ
کھنگارنا: کھانسی کی سی آواز نکال کرحلق صاف کرنا
ہمشیرہ: بہن ساعت: گھڑی

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top