بے وقوف کی نیکی
کاوش صدیقی
نوید بہت سادہ اور نرم مزاج لڑکا تھا۔ دل کا بہت اچھا، ہر بات پر جلدی یقین کر لینے اور دوسروں پر جلدی بھروسا کرنے والا۔ اس کی امی اکثر اسے سمجھاتیں:
’’دیکھو بیٹا! کسی کے کام آنا اچھی بات ہے لیکن پہلے سمجھ لوکہ وہ واقعی تمہاری رحم دلی کا مستحق بھی ہے یا نہیں یا پھر تمہیں بدھو بنارہا ہے۔‘‘
حمید نے دھیرے سے کہا:’’امی دل رکھنے کی کتنی ماہر ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟ ‘‘فریدہ نے بھائی کو گھورا۔
حمید نے مسکرا کے کہا:’’ اب دیکھو امی نے نوید کو بدھوکہا ور نہ سیدھا سیدھا گدھا بھی کہہ سکتی تھیں…!‘‘
فریدہ بولی۔’’ اصل میں اس لقب کے اصل مستحق تم ہو، اس لیے امی نے تمہارے لیے بچا کے رکھا ہے…!‘‘ حمید جھینپ کے خاموش ہو گیا۔
نویدا می کی بات سن کے کہنے لگا:
’’آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ میں آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔!‘‘
’’شاباش۔‘‘ امی نے پیار سے کہا اور اٹھ گئیں۔
امی کے جاتے ہی حمید نے نوید سے پوچھا:’’ اب کیا نئی بے وقوفی فرمائی ہے آپ نے۔؟‘‘
’’میں نے تو ماسی خالہ کوا پنی عیدی کے سارے پیسے دے دیے تھے۔ ان کا لڑکا بہت بیمارتھاناں۔ اس لیے۔‘‘
’’مگر ماسی خالہ کی تو شادی ہی نہیں ہوئی۔‘‘فریدہ نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا۔
’’ اب مجھے کیا پتا تھا؟‘‘ نوید نے تنک کے کہا۔’’اس نے کہا تو میں نے دے دیے، امی گھر پرنہیں تھیں تو اور کیا کرتا۔؟‘‘
’’ مگر ماسی خالہ اتنے دنوں سے ہمارے ہاں کام کر رہی ہیں تمہیں معلوم توہونا چاہیے تھا۔‘‘ حمیدہ نے بھی رائے دی۔
’’چلو خیر تم نے تو نیکی کی نا اپنی جانب سے۔‘‘ فریدہ نے بھائی کا دل رکھ لیا۔
۔۔۔۔۔
حمید کورنگ برنگی چڑیاں پالنے کا بڑا شوق تھا اور فریدہ کو باغبانی کا۔ گھر چھوٹا تھا اور کچی زمین بھی بس ذرا ہی سی تھی،لہٰذا ابو نے تیسری منزل پر حمید کواپنی چڑیاں پالنے کی اجازت دے دی۔ حمید کوکمپوزنگ کا کام بھی آتا تھا اور و ہ فارغ وقت میں اردو ان پیچ پر کتابوں کی کمپوزنگ کر کے اچھے پیسے کما لیتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی بچت سے بڑے بڑے پنجرے بنوائے اور اس میں چڑیاں اور آسٹریلین طوطے رکھ لیے۔ وہ کالج سے آ کر ان کی دیکھ بھال میں لگا رہتا، جب کہ فریدہ نے مختلف چھوٹے بڑے گملوں میں پھول پودے لگا لیے تھے۔ گاڑی کے کچھ پرانے ٹائروں میں مٹی بھر کے کسی میں پودینہ لگالیا اورکسی میں ٹماٹر، کر یلے اور ہری مرچیں لگا لیں۔ اس شوق کو تو امی کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اب چاہے ٹماٹر تین سو روپے کلو ہوں یا چالیس روپے، پودینے کی گٹھی چاہے تیس کی ہو یا بیس کی انہیں باہر سے منگوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ اس سے روزانہ کی نا صرف بچت ہو جاتی تھی بلکہ گٹر با غیچے کی سیوریج کے پانی سے کاشت کر دہ سبزیوں سے کسی حد تک حفاظت بھی ہو جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔
ایک دن نوید نے اسکول سے واپسی پر دیکھا کہ بلی کا ایک چھوٹا سا بچہ میاؤں میاؤں کر رہا ہے۔ سفید اور چمکتے ہوئے براؤن رنگ کا وہ بچہ اس کو بڑا اچھا لگا۔ اس نے پچکارا تو وہ ننھے ننھے پیروں سے چلتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔ نوید نے جلدی سے اسے ہاتھ میں اٹھالیا اور گھر لے آیا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ چلایا۔’’ دیکھیں دیکھیں میں کیا لایا…!‘‘
’’ کیالائے ہو۔؟‘‘ فریدہ نے صوفے کی گرد جھاڑ تے ہوئے پوچھا۔
’’ بلی کا بچہ۔!‘‘ نوید کی خوشی دیدنی تھی۔’’ اب میں اسے پالوں گا، دودھ پلاؤں گا۔‘‘
’’ بلی کا بچہ تو بڑا پیارا ہے۔‘‘حمید کوبھی وہ ا چھالگا۔
امی نے نوید کی خوشی دیکھتے ہوئے اس کو ایک چھوٹی سی پیالی میں دودھ ڈال کر دیا۔ بلی کا بچہ بڑے مزے سے اپنی ننھی سی زبان نکال کے لپ لپ کرتے ہوئے دودھ پینے لگا۔ وہ شاید بہت ہی بھوکا تھا اس لیے منٹوں میں سارا دودھ پی گیا۔
اس کے بعد وہ ا ٹھا اور انگڑائی لی اور نوید کی گود میں جا کے بیٹھ گیا۔ دو ایک بار اس نے سراٹھا کے ادھر ادھر دیکھا اور پھر نوید کی گود میں بڑے مزے سے لیٹ کر خرخرانے لگا اور پھر سو گیا۔ بھوک میں غذا اور پر یشانی میں تحفظ ملتے ہی انسان ہو یا جانور دونوں پر سکون ہوتے ہی نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ اس کا یہ انداز اتنا پیارا تھا کہ سب ہی کو اس پر پیار آ گیا اور وہ چند ہی دنوں میں سب کے دلوں میں گھر کر گیا۔
۔۔۔۔۔
دن گزرتے رہے، جہاں حمید کی چڑیوں،فریدہ کی باغبانی میں اضافہ ہوا و ہیں بلی کا بچہ بھی بڑا ہونے لگا۔ نوید نے بلی کے بچے کا نام موتی رکھا۔ جوں ہی وہ اسکول سے آتا موتی میاں بھاگتے ہوئے آتے اور اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے اور پنجوں سے اس کو سہلانے لگتے۔
دو پہر کے کھانے پہ امی نے دیکھا کہ حمید کچھ پریشان سا ہے۔
’’ کیا بات ہے، خیریت تو ہے نا۔؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’ امی پنجرے کے پاس چو ہے آنے لگے ہیں، وہ کہیں چڑیوں کو نقصان ناپہنچا دیں۔‘‘
’’ وہ بھلا کیا نقصان پہنچا ئیں گے۔؟‘‘ فریدہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’ اصل میں تم چڑیوں کو دانہ دنکا ڈالتے ہو تو چو ہے وہاں غذا کی تلاش میں آ جاتے ہیں۔‘‘امی نے کہا۔
’’جی آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔‘‘ حمید نے امی کی بات پر صاد کیا اور بہن سے کہنے لگا:’’ چو ہے نالیوں اور گھر کی گندگی سے گھومتے پھرتے آ جاتے ہیں، ان میں جراثیم ہوتے ہیں،اگر یہ چڑیوں کے دانے یا پانی میں شامل ہو جائیں تو پھرپرندے بیمار ہو جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات مر بھی جاتے ہیں۔ میری چڑیاں تو بڑی مہنگی ہیں، اس سیزن میں تو میں ان کے آٹھ، دس جوڑے فروخت بھی کروں گا۔ میرے کئی دوست لینے کو کہہ رہے ہیں۔‘‘
حمید جہاں چوہوں کی وجہ سے فکر مند بھی تھا، و ہیں متوقع آمدنی کے باعث بڑاپر جوش بھی تھا۔
کھانے کے بعد حمید تو چھت پر چلا گیا۔ نویدنے پوچھا:
’’بھائی کی پریشانی کا کیا حل ہوگا۔؟‘‘
’’پتانہیں۔!‘‘ فریدہ نے کندھے اچکا کے کہا۔
’’میں تو چوہوں کے پیچھے بلی چھوڑ دیتی۔‘‘فریدہ ہنسنے لگی۔
’’چوہا بھاگ بلی آئی۔ چوہا بھاگ بلی آئی۔‘‘ وہ مزے سے برتن دھوتے ہوئے گنگنانے لگی۔
۔۔۔۔۔
دوسرے دن جیسے صبح ہی صبح قیامت آگئی۔
حمید کا غصے اور صدمے سے برا حال تھا۔ وہ جب صبح چڑیوں کو دانہ ڈالنے گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ پنجرے کا درواز کھلا ہوا ہے اور چڑیوں کے پر پھیلے ہوئے ہیں۔کئی چڑیاں اڑ چکی تھیں اور دو چار چڑیاں ادھ کھائی پڑی تھیں کئی انڈ ے ٹوٹے ہوئے پڑے تھے۔
’’ یہ…یہ کس نے کیا؟‘‘ حمید سیڑھیوں سے اترتے ہوئے چلایا۔
’’ کیا ہوا؟‘‘ابو نے آفس جاتے ہوئے رک کے پوچھا۔ امی بھی باورچی خانے سے نکل آئیں۔
’’ہوا کیا ہے۔؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’کیوں پریشان ہو۔؟‘‘
’’او پر تو چلیں …!‘‘حمید روہانسا ہورہا تھا۔
وہ سب او پر پہنچے تو صورتحال دیکھ کر پریشان ہوگئے تھے۔
’’ یہ سب کیسے ہوا؟‘‘ ابو نے پوچھا۔ ’’کیا تم رات میں پنجرے کا درواز ہ بند کرنا بھول گئے تھے۔‘‘
’’نہیں ابو! میں نے شام کو دانہ وغیرہ ڈال کے خود پنجرہ بند کیا تھا اور اسے تالا لگایا تھا۔‘‘
’’ارے وہ دیکھو ،تالا تو کھلا ہوا اس طرف رکھا ہے۔‘‘ امی نے سامنے کارنس کی طرف اشارہ کیا۔
’’ اس کا مطلب ہے حمید درست کہہ رہا ہے۔ تالا کسی اور نے بعد میں کھولا ہے مگر ایسا کون، کیوں کرے گا بھلا۔؟‘‘ ابو نے کہا۔
امی نے کہا۔’’یہ تو بچے کی محنت ضائع ہوگئی۔‘‘
اچانک دروازے کے پیچھے سے موتی بلانکلا اور نوید کے پیروں میں منہ رگڑنے لگا۔
حمید کی نظر موتی پر پڑی اور ساتھ ہی وہ چلایا۔’’ و ہ دیکھیے، وہ دیکھیے اس نے ماری ہیں میری چڑیاں،اس کے منہ پرخون لگا ہوا ہے۔‘‘
سب نوید کے بلے کی طرف متوجہ ہو گئے جوان سب سے بے نیاز نوید کے پیروں میں اٹھکھلیاں کررہا تھا۔
’’مگر موتی تالا کیسے کھول سکتا ہے پنجرے کا۔؟‘‘ امی نے حیرت سے پوچھا۔
نوید خاموش کھڑا رہا۔ ایک لفظ نہ بولا۔
ابو نے نوید کے پاس آ کے اس کا ہاتھ پکڑا اورو ہیں ایک اسٹول پر بیٹھ کے بولے:
’’ہاں بیٹا! بتاؤ تم نے تالا کھولا ہے۔؟‘‘
’’جی…!‘‘نوید نے آہستہ سے سر جھکا کے کہا۔
’’ کیوں۔؟‘‘ ابو نے نرمی سے پوچھا۔
’’وہ آپی نے بتایا تھا۔!‘‘
’’ کیا بتایا تھا۔؟‘‘ فرید ہ زور سے بولی۔
ابو نے اسے سخت نگاہوں سے گھورا تو وہ خاموش ہوگئی۔
ابو نے نوید سے دوبارہ نرمی سے پوچھا۔’’ کیا بتایا تھا آپی نے۔؟‘‘
نوید نے کہا۔ ’’آپی نے کہا تھا چوہے بلیوں سے ڈرتے ہیں اس لیے میں نے سوچا جب چو ہے بلیوں سے ڈرتے ہیں اور آپی گا بھی رہی تھیں، چوہا بھاگ بلی آئی، چوہا بھاگ بلی آئی، تو میں نے پنجرے کا تالا کھول کر موتی کو اندر چھوڑ دیا کہ اب چوہے نہیں آئیں گے۔‘‘ نوید نے بڑی معصومیت سے سارا ماجرا سنا دیا۔
امی نے غصے سے کہا۔’’ تمہاری سمجھ میں نہیں آیا کہ بلا چڑیوں کو کھا جائے گا۔‘‘
’’بھلا موتی چڑیوں کو کیسے کھا تا وہ تو دودھ پیتا ہے۔‘‘نوید نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔
اس کا جواب سن کر امی، ابو اور آپی توعلیحدہ خود حمید بھی اپنا غصہ بھول کر ہنسنے لگا۔
امی نے کہا:’’واقعی کسی نے سچ کہاہے بے وقوف کی نیکی نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔
حکایت:
ایک آدمی نے جو بہت رحم دل تھا، ایک آوارہ بلی کو بھوکا دیکھ کر اسے دودھ اور چھیچھڑے ڈالنا شروع کر دیے۔ چند دنوں میں بلی عادی ہوگئی اور روز آنے گئی۔ پھر ایک دن آدمی نے دیکھا کہ ایک چڑیا بھوکی پیاسی ہانپ رہی ہے۔ اس نے ایک طشتری میں باجرہ، پانی رکھ دیا۔ چڑیا نے دانہ چگا اور وہ بھی روز آنے لگی۔ ایک دن بلی نے چڑیا کو جھپٹا مار کے پکڑ لیا اور کھا گئی۔ آدمی کو بہت غصہ آیا اور اس نے بلی کو دودھ اور چھیچھڑے دینا اور چڑیوں کو دانہ ڈالنا چھوڑ دیا اور کہنے لگا نیکی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔
سبق:
حالاں کہ اگر وہ آدمی ذرا بھی عقل مندی سے کام لیتا اور بلی اور چڑیا کے برتن ایک دوسرے کی پہنچ سے دور رکھتا تو چڑیا بھی جان سے نہ جاتی اور آدمی کی نیکی بھی جاری رہتی۔ سچ ہے کہ بیوقوف کی نیکی بھی بالآخر پر یشانی کا باعث بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے