skip to Main Content
بے وقوفیاں

بے وقوفیاں

قاسم بن نظر

……………………………………………………

ہمارا مقصد نیکی جتانا یا مشہور ہونا نہیں تھا بلکہ ہم تو صرف یہ چاہتے تھے کہ ہم نیکی کی کوئی مثال قائم کریں۔

……………………………………………………

امتحان ختم ہوچکے تھے اور ہماری ہنسی خوشی زندگی کا آغاز ہوچلا تھا۔ ہماری شرارتوں کی وہ گٹھڑی جسے ہم قبل از امتحان سپرد خاک کرچکے تھے۔ اسے ہم دوبارہ منظر عام پر لے آئے۔ اور لوگوں کو از سر نو اپنی شرارتوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یہ وہ شراتیں تھیں۔ جن میں ہم تھپڑوں اور گھونسوں کی صورت میں کئی انعامات اور اسناد لے چکے تھے۔ لیکن ہم پھر بھی باز نہ آئے حالانکہ ہمارے بڑوں کے ہاتھوں میں درد رہنے لگا تھا۔ لہذا اس مرتبہ ہمیں بھی سدھارنے کا فیصلہ کیا گیا اور ہمیں دور ایک گاؤں میں چوہدری چاچا کے پاس منسوخی تعطیلات تک بھیجنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ چوہدری چاچا کے بارے میں ہلکی سے بات آپ کو بھی بتا کر اپنے غم میں شریک کرتے چلیں کہ موصوف جانوروں کو سدھارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ گھر والے ہمیں جانداروں کی کونسی کیٹگری میں رکھتے تھے۔
چوہدری چاچا کے پاس رہنے سے تو بہتر تھا کہ ہم ہاسٹل میں ہی رہتے لیکن ہاسٹل میں رہنے کیلئے اپنے گھر والوں کو آمادہ کرنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ آپ کو بھی ہوگا۔ چوہدری چاچا کے پاس نہ جانے کیلئے ہمارے پاس روایتی قسم کے بہانے تو بہت تھے۔ مثلاً پیروں میں درد ہونا، سفر میں متلی کی شکایت اور راستے میں ڈاکوؤں کا خوف، مگر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ چھوٹے موٹے بہانے سن سن کر بڑوں کے کان پک گئے ہیں۔ اور اب حقیقتاً اور واقعتا بھی ہمارے پیٹ میں درد ہو تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم بہانہ کر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر ایک شعر عرض کرتے چلیں تاکہ ذائقہ بدل جائے۔

 بچوں کو ٹٹول ٹٹول کر پرکھنے کی ضدکریں

بڑے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

ہماری شراتوں کی گٹھڑی اتنی بڑی نہیں تھی جتنی ہماری کپڑوں کی گٹھڑی بندھوائی گئی تھی۔ اتنے کپڑے لے جانے کا مطلب تھا کہ یا تو ہمیں دن میں تین تین دفعہ کپڑے بدلنے پڑیں گے یا پھر عمر بھر چچا چوہدری کے ہاں رہنا پڑے گا (اگر ہم نہ سدھرے تو) دوسرا مطلب کس قدر لرزا دینے والا تھا۔ اس کو الفاظ میں لکھنا ممکن نہیں۔۔۔ ہمارے پر آسائش سفر کے لئے کما حقہ انتظامات کئے گئے۔ ٹرین کے دو ٹکٹ خریدے گئے۔ ایک ہمارے لئے تھا۔ (قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں) لیکن یہ مت سمجھئے گا کہ دوسرا ٹکٹ اس شخص کے لئے تھا جو ہمیں چچا چوہدری کے ہاں چھوڑنے جارہا تھا۔ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ہمیں برداشت کرے ۔ یہ یقین دلانے کی ضرورت تو نہ تھی کہ ہم کسی کو بھی چلتی ٹرین سے نیچے نہیں پھینکیں گے۔ لیکن پھر بھی منت سماجت تو کی۔ مگر جانا ہمیں اکیلے ہی تھا۔
اکیلے جانے کے معاملے میں ہمیں عجیب وغریب قسم کے فلسفے سننے پڑے۔ ’’تنہا سفر کرنا زندگی کے تجربات میں سے ایک تجربہ ہے‘‘۔
’’تنہا سفر کرنا پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہے۔’’ کوئی ہم سفر نہ ہو تو تنہائی سب سے بڑی ساتھی ہے‘‘ اب اگر اب تک آپ کے خیالات میرے خیالات کی سطح تک پہنچ چکے ہوںآپ بھی میری بات سے اعتراف کریں گے کہ ایسے ناقابل فہم فلسفوں کی گہرائی میں جانا تو دور کی بات، اوپر اوپر سے ان کا مطلب سمجھنا بھی ہم جیسے کم عقل (بلکہ بے عقل) شخص کا کام نہیں۔
دوسرے ٹکٹ کے بارے میں بتاتے چلیں کہ یہ احتیاطاً ہمیں ہی دلوایا گیا تھا کہ مبادا بے دھیانی میں ایک ٹکٹ گم ہوجائے تو ہم دوسرے ٹکٹ سے کام چلاسکیں۔ اگر ہم بغیر ٹکٹ کے سفر کرتے ہوئے پکڑے گئے تو کہاں تھانے کچہری کے چکر لگاتے پھریں گے۔
بالآخر روانگی کا وقت آگیا۔ کراچی میں ہمارے جو عزیز واقارب موجود تھے۔ اور جن سے ہمارا کوئی نہ کوئی رشتہ تھا۔ وہ ہمیں الوداع کہنے آیا۔ ہم جانتے تھے کہ اگر چہ سب کی آنکھوں میں ہم سے بچھڑنے کیلئے آنسو ہیں مگر دل میں وہ سب کتنے خوش ہیں کہ چلو جان چھوٹی ورنہ یہ نامراد تو جان عاجز کئے رہتا۔
’’پوں‘‘ کی آواز آئی یعنی یہ ٹرین نے ہارن بجایا تھا کہ اب وہ اسٹیشن چھوڑنے والی ہے۔ ہم ٹرین میں سوار ہوگئے۔
ہم اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ٹرین نے کچھ ہی دیر میں رفتار پکڑلی۔ ہم نے وقتی طور پر اپنا غم بھلا کر ٹرین کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ اچھا! تو ٹرین ایسی ہوتی ہے۔ بچپن میں ہم اپنے بزرگوں سے ٹرین کے سفر کی دلچسپ کہانیاں سنتے آئے تھے۔ یقین ہوگیا کہ محض کہانیاں ہی تھیں۔ لگتا تھا کہ ٹرین بنانے والے نے بڑی عجلت میں ٹرین ایجاد کی۔ وہ کچھ اور بنانا چاہ رہا ہوگا (جیسے چاند گاڑی) لیکن جلدی میں یہ ٹرین بن گئی۔ جلدی کا کام ظاہر ہے برا ہوتا ہے۔ ٹرین میں دونوں اطراف میں چوکور چوکور سے خانے بنے ہوئے تھے۔ غالباً کھڑکیوں کے لیے جگہ چھوڑی گئی تھی۔ یا شاید آگ لگ جانے کی صورت میں لوگوں کو بھاگنے کیلئے شارٹ کٹ راستہ تھا۔ یا شاید ہوا گزرنے کا راستہ معلوم نہیں ٹرین بنانے والے کے پاس برابر برابر سائز کی اتنی جگہیں چھوڑنے کا کیا مقصد کار فرما تھا۔
پھر ہم نے چھت دیکھی۔ چھت کو دیکھ کر یوں لگا جیسے کسی تیز چونچ والے پرندے نے اپنی جونچیں مار مار کر چھت توڑنے کی کوشش کی ہو۔ اور یقیناًبرسات میں یہ چھت ضرور ٹپکتی ہوگی۔
ٹرین کے فرش کے بارے میں بھی ہمارے یہی خیالات ہیں۔ اگر ہم پھونک پھونک کر قدم نہ رکھتے تو ہمارا پیر یقیناًکسی کمزور اور کچی جگہ میں سوراخ کر کے دھنس جاتا۔
رات ہوئی تو ہمیں پتہ چلا کہ روشنی کے کیا انتظامات ہیں غالباً جس زمانے میں یہ ٹرین بنی تھی اس وقت بجلی نے اتنی ترقی نہیں پائی تھی۔ یا ہوسکتا ہے کہ ٹرین بنانے والے کے بجلی کا بل اس کے ماہانہ اخراجات سے باہر جارہا ہو۔ پانی کی سہولت کا نام ونشان نہ تھا۔ جیسے بسوں میں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ٹرین کی رفتار کے بارے میں ہماری رائے اس وقت سے اب تک یہی ہے کہ اگر ٹرین نہ بنتیں اور لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر میں جانے کیلئے گھڑ سواری ہی کرتے تو یہ بہتر تھا۔
ٹرین جیسی فالتو چیز پر سوچ بچار کرنے کے بعد ہم نے اپنے حالات پر نظر ڈالے۔ اگر گھر والے دو ٹکٹ خریدنے کے بجائے ایک ٹکٹ ہوا کے جہاز کا خرید لیتے (چاہے اس کے لئے ہمیں جیب خرچ کٹوانا پڑتا) تو یہ ہماری نسلوں پہ احسان ہوتا۔
بہرحال اب دوسرے ٹکٹ سے کچھ تو وصول کرنا تھا۔ ورنہ بے کار جاتا اور ہم اپنے خاندان میں اپنے بے کار ہونے کا جو گراف رکھتے ہیں وہ مزید اونچا ہوجاتا۔ ہم نے اس پاس نظر دوڑائیں۔ ایک آدمی کو پریشان دیکھا۔ ٹرین میں پریشان ہونے کے دوہی مطلب ہوتے ہیں۔ یا تو کوئی گم ہوگیا ہو۔ یا تو ٹکٹ نہ ہو۔ اور ہمیں پوچھنے پر یہی پتا چلا کہ مذکورہ شخص کے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ لو اس میں کون سی بڑی بات ہوئی۔ وہ شخص تھوڑا سا بھلکڑ تھا اور ٹرین میں چڑھنے سے قبل ٹکٹ خریدنا بھول گیا تھا۔ اب انسانیت کا تقاضا تھا کہ ہم اسے ٹکٹ آفر کریں۔
کیا آپ مجھ سے ٹکٹ خریدیں گے۔ ہماری آفر پر اس آدمی کو یقین نہ آیا۔ وہ ہمیں یوں آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا جیسے اس نے گھی یا چائے کا انعامی ڈبہ خریدا ہو اور ہم ساؤتھ افریقہ کا ٹکٹ لے کر اس کے پاس پہنچ گئے ہوں۔ ہم نے بہرحال ٹکٹ اسے فروخت کردیا۔ پوری قیمت وصول کرنا اور اپنا نام بتانا ہم نہ بھولے تاکہ جب بھی وہ آدمی ہمیں یاد کرے تو لوگوں کو ہمارے بارے میں بتائے۔ ہماری مقصد نیکی جتانا یا مشہور ہونا نہیں تھا بلکہ ہم تو صرف یہ چاہتے تھے کہ ہم نیکی کی کوئی مثال قائم کریں۔
جناب، پھر ٹکٹ چیکر آیا۔ اس آدمی نے اپنا ٹکٹ دکھایا۔ وہ آدمی بہت خوش تھا اور اب تک ہمیں احسان مند نظروں سے دیکھے جارہا تھا۔ سفر میں پہلے ہی روز شرارتوں اور بے وقوفیوں کو چھوڑ کر کوئی اچھا کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
پھر ٹکٹ چیکر ہمارے پاس آیا۔ ہم تو پہلے ہی خوشی سے پھولے بیٹھے تھے۔ ہم اسے اپنا ٹکٹ دکھانے لگے۔ مگر یہ کیا؟ ٹکٹ گیا کہاں ؟ دو ٹکٹ اچھی طرح ہمیں یاد تھے۔ ایک بیگ کی جیب میں رکھا تھا اور دوسرا اپنی جیب میں۔ بیگ والا ٹکٹ تو ہم نے فروخت کردیا تھا (بڑا شوق تھا نا حاتم طائی بننے کا) لیکن جیب میں سے تو ہم نے ٹکٹ نکالا ہی نہیں۔۔۔ ہم نے اچھی طرح اپنا سامان چیک کیا۔ مگر منحوس ٹکٹ نہ ملنا تھا نہ ملا۔
اب ظاہر ہے خاندان بھر کی عزت ہمارے ہاتھوں میں تھی۔ شرمندگی سے بچنے کے لئے ہم نے بڑی مسکین سی صورت بنا کے کہا کہ ٹکٹ کھو گیا ہے۔ جرمانے کے طور پر ہمارے پاس جتنی رقم ہے وہ لے لیں۔ بہرحال جرمانہ تو ہم نے ادا کردیا۔ لیکن ہمارے حافظے میں ابھی تک آیا نہیں کہ ٹکٹ گیا کہاں۔ ہم تو خیر تھے ہی بیوقوف، لیکن اگر گھر والے تھوڑی سی عقل اور استعمال کرتے اور دو کے بجائے تین ٹکٹ خرید لیتے تو ٹکٹ کھونے کا امکان بھی کم ہوتا اور پہلی کمائی (جو ہم نے ٹکٹ فروخت کر کے حاصل کی تھی) اور اپنا راستے بھرکا جیب خرچ جرمانے کی صورت میں نہ دینا پڑتا۔ بات یہاں تک رہتی تو بھی شاید ہمارے غم کا مداوا ہوجاتا۔ لیکن یہ سوچ سوچ کر ہمارا دماغ خراب ہوگیا کہ جب اسی آدمی نے (جسے ہم نے ٹکٹ بیچ کر دنیا کی سب سے بڑی غلطی کی تھی) ہمارا نام لے کے لوگوں کو بتایا ہوگا کہ خود کے پاس تو ٹکٹ نہیں تھا اور مجھے اپنا ٹکٹ بیچ دیا تو لوگ ہماری بے وقوفی پر کتنا ہنسے ہوں گے۔ اور ہمارا نام پر کتنا حرف آیا ہوگا۔ *

 

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top