بے وقوف گدھا
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بے وقوف گدھے نے چالاکی سے اپنے مالک کی جان بچائی تو۔۔۔ کیا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دورکہیں ایک بہت ہی بے وقوف گدھا رہتا تھا۔ اس کا نام چِٹّا تھا۔ اس کے مٹیالے رنگ کے بڑے بڑے کان تھے۔ تقریباً اسی رنگ کی موٹی کھال تھی اور ایک دُم جو وہ ہر وقت مکھیاں اُڑانے کے لیے ہلاتا رہتا۔
اس کے مالک کا نام ثناء اللہ تھا۔ چٹے کو اپنے مالک سے بڑی اُنسیت تھی لیکن ثناء اللہ اب گدھے کو ذرا بھی پسند نہیں کرتا تھا کیوں کہ کئی بار چِٹا انتہائی حماقت سے بھرپور حرکتیں کرتا تھا۔ کئی دفعہ ثناء اللہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر سڑک کے بیچوں بیچ جارہا ہوتا اور اچانک چِٹّا ٹھہر جاتا۔
ثناء اللہ بار بار اسے کہتا کہ چلو لیکن چٹے کے کان پر جوں نہیں رینگتی کیوں کہ وہ فیصلہ کرچکا ہوتا کہ اس نے رُکنا ہی ہے اور اگر اس کا دل نہ کرتا تو وہ سارا دن سڑک کے درمیان میں ہی کھڑا رہتا۔ آپ ہی بتائیں اس سے بڑی حماقت کیا ہوسکتی تھی کہ وہ عین کسی پل کے درمیان کھڑا ہوجائے اور پل سے نہ کوئی چھکڑ گزر سکے اور نہ کوئی گاڑی۔
پھر کئی موقع ایسے بھی آئے کہ وہ اتنا برق رفتار ہوجاتا کہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آتا۔ وہ کھیتوں میں اِدھر اُدھر پھدکتا پھرتا اور ثناء اللہ بے چارہ پوری طاقت سے اس کے پیچھے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہا ہوتا۔ وہ چیخ رہا ہوتا۔ ہانپ رہا ہوتا لیکن چٹے کو قابو نہیں کرپاتا تھا۔ کم از کم اتنی دیر تک جب تک چٹے کا خود دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ پکڑا جائے۔ اس میں شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ چِِٹّا حد سے زیادہ بے وقوف گدھا تھا۔
ایک دن ثناء اللہ کے کانوں میں یہ خبر پہنچی کہ اس کے چچیرے بھائی الیاس کو ایک گدھے کی شدت سے ضرورت ہے۔ ثناء اللہ نے یہ خبر سن کر شکر ادا کیا اور بولا: ’’میں اس بے وقوف چٹے کو اپنے بھائی کے حوالے کردیتا ہوں۔ ہوسکتا ہے وہ اس سے کوئی کام لے لے لیکن مجھے اس بات کی بھی امید ہرگز نہیں ہے کیوں کہ اس سے زیادہ بے وقوف گدھا میں نے روئے زمین پر نہیں دیکھا۔‘‘
لہٰذا اگلے ہی دن اس نے چٹے کو کاٹھی پہنائی۔ پھر وہ چھلانگ مار کر اس کی کمر پر سوار ہوگیا اور اسے دوڑایا۔ آج چِٹّا بہت غم زدہ تھا۔ وہ اپنے مالک سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ دل میں نہایت شرمندہ ہورہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش وہ اتنا بے وقوف نہیں ہوتا لیکن وہ کیا کرسکتا تھا۔ یہ مسئلہ تو سبھی گدھوں کا تھا کہ وہ چالاک نہیں ہوسکتے تھے۔
راستے میں وہ ایک ایسے مقام سے گزرے جہاں جادوگرنیاں رہتی تھیں۔ ثناء اللہ کو راستے کا مکمل علم نہیں تھا اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اگر ان کا سامنا راستے میں کسی جادوگرنی یا جادوگر سے ہوا تو ان کا سلوک کیسا ہوگا؟ لہٰذا وہ ایک مناسب رفتار سے آگے بڑھتے رہے تاکہ انھیں کوئی نہیں روکے۔
لیکن جلدی ہی وہ راستہ بھول گیا۔ وہ ٹھہرا اور اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اسے دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دیا، ماسواے ایک جادوگرنی کے جو اپنے باغ کے کنویں کے کنارے بیٹھی ہوئی سویٹر بن رہی تھی۔ اس نے اپنی شاطر سبز آنکھوں سے ثناء اللہ کو گھورا۔ ثناء اللہ کو وہ ایک آنکھ نہیں بھائی لیکن اس کے سوا اور کوئی بھی نزدیک نہیں تھا جس سے وہ راستہ پوچھتا۔ وہ چٹے پر سوار جادوگرنی کے پاس گیا اور ادب سے اس سے پوچھنے لگا۔
’’صبح بخیر! کیا آپ مجھے میرے چچیرے بھائی الیاس کے گھر کا پتا بتاسکتی ہیں؟‘‘ جادوگرنی نے پھر ثناء اللہ کو دیکھا اور پھر اس کمر پر لدے ہوئے پھولے چمڑے کے تھیلے کو بھی۔ اس کے کانوں میں میں پہلے ہی سکوں کی چھن چھن پڑچکی تھی۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
وہ بولی: ’’میں تمھیں راستہ بتاتی ہوں لیکن ایک شرط پر کہ تم مجھے بتاؤ کہ بدلے میں تم مجھے کتنی رقم دو گے؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے سویٹر بننا تیز کردیا۔ ثناء اللہ نے پوچھا: ’’آپ بتائیں کتنی رقم لیں گی۔‘‘
جادوگرنی لالچی انداز میں بولی: ’’تمھارے تھیلے میں جتنی رقم ہے وہ ساری۔‘‘ جادوگرنی کی بات سن کر ثناء اللہ کا رنگ پیلا پڑگیا۔
وہ بولا: ’’میں آپ کو ساری رقم نہیں دے سکتا۔‘‘ یہ سن کر جادوگرنی نے غصے سے سویٹر زمین پر دے مارا اور اپنی جادو کی چھڑی سنبھال لی۔ وہ ثناء اللہ کو جادو کے زور سے مینڈک بنانے والی تھی۔ چِٹّا انتظار کرکے اُکتا چکا تھا اور وہ پیاسا تھا ۔اس کا دل کررہا تھا کہ وہ دوڑ کر پانی کے تالاب پر پہنچے اور پانی پی کر پیاس بجھائے لہٰذا اس نے اپنا بڑا سا منھ کھولا اور زور سے ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکال کر تالاب تک جانے کی اجازت طلب کی۔ آواز اتنی اُونچی اور خوفناک تھی کہ جادوگرنی کو اچانک جیسے دھکا لگا۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور وہ کنویں کی منڈیر سے کنویں میں جاگری۔ وہ جیسے ہی ٹھنڈے پانی میں گری اس نے چلانا شروع کردیا۔ ’’بچاؤ۔۔۔ بچاؤ۔‘‘
اس کے ملازم نے اس کی آواز سنی، وہ دوڑتا ہوا باغ کے کنویں کے پاس آیا۔ اتنی دیر میں چٹے نے ایک دفعہ پھر ڈھینچوں ڈھینچوں کیا اور پھر تالاب کی طرف دوڑ لگادی۔ ثناء اللہ چٹے کا بہت شکر گزار تھا کہ اس کی وجہ سے جادوگرنی کنویں میں پڑی تھی لیکن اب وہ چاہ رہا تھا کہ جادوگرنی کے باہر نکلنے سے پہلے اُنھیں وہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ ثناء اللہ نے چٹے کی باگیں کھینچ کر اسے بھگانے کی کوشش کی لیکن کہاں، چِِٹّا ابھی جی بھر کر پانی پینا چاہتا تھا۔ کم از کم چار گیلن پانی چِِٹّا پیتا تو پھر کہیں وہ سڑک پر بھاگ سکتا تھا۔ اتنی دیر میں جادوگرنی کا ملازم اسے ایک بالٹی کے ذریعے کنویں سے نکال چکا تھا۔
ثناء اللہ تنگ آکر چٹے سے بولا: ’’بے وقوف گدھے! تم اپنی پیاس بجھاؤ اور اتنی دیر میں جادوگرنی ہمیں مینڈک بنادے گی پھر تم ہمیشہ پانی میں ہی رہنا۔ اب خدا کے واسطے جلدی چلو۔‘‘
پیاس بجھا کر چٹے کو ہوش آیا اور وہ دوڑ پڑا۔ اب ثناء اللہ پریشان تھا کہ پتا نہیں وہ صحیح راستے پر جا بھی رہے ہیں یا نہیں؟ اچانک راستے میں ثناء اللہ نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب سا شخص ان کی طرف آرہا ہے۔ یہ ایک بونا تھا جو جادو بھی جانتا تھا۔ وہ قد میں بہت چھوٹا تھا۔ اس کی ناک مڑی ہوئی تھی۔
ثناء اللہ تیزی سے اس کے قریب سے گزر جانا چاہتا تھا لیکن بونے نے اسے روک لیا اور بولا: ’’اتنی تیز مت چلو، پہلے اپنی رقم میرے حوالے کرتے جاؤ۔‘‘
ثناء اللہ بولا: ’’ہرگز نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ ثناء اللہ بونے سے اتنا خوفزدہ نہیں ہوا تھا۔ اسے غصہ چڑھا ہوا۔ اس نے آگے جھک کر بونے کو ایک مکا رسید کرنے کی کوشش کی لیکن بونا جھکائی دے گیا اور اس نے خود کو ایک درخت میں تبدیل کرلیا۔ ثناء اللہ کا ہاتھ زور سے درخت سے ٹکرایا اور زخمی ہوگیا۔ ثناء اللہ غصے سے پاگل ہوگیا۔
بونا اتنی دیر میں دوبارہ اپنی اصل شکل اختیار کر چکا تھا۔ وہ ثناء اللہ سے تھیلا چھیننے کی کوشش کرنے لگا وہ چلا رہا تھا۔ ’’تھیلا مجھے دے دو۔‘‘ اب ثناء اللہ نے زور سے اسے ٹانگ رسید کی لیکن تب تک بونا ایک سخت چٹان کی صورت اختیار کرچکا تھا، ثناء اللہ کا پیر اس سے ٹکرایا تو اس کی چیخ نکل گئی۔ بونا پھر اپنی اصل شکل میں واپس آگیا۔ وہ پھر چلایا۔ ’’رقم میرے حوالے کردو۔‘‘
ثناء اللہ غصے سے گدھے سے نیچے اُترا اور بونے کی طرف بھاگا تاکہ اسے ہاتھوں میں دبوچ لے لیکن لمحہ بھر میں بونا ایک کانٹوں بھرے ببول کے پودے کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ ثناء اللہ کے ہاتھوں میں کانٹے چبھ گئے اور وہ درد سے بلبلا اُٹھا۔ چِٹّا بڑے صبر سے کھڑا انتظار کررہاتھا لیکن جب اس نے اپنا من بھاتا ببول دیکھا تو اس کی باچھیں کھل گئیں کیوں کہ گدھے کے لیے اس سے مزے دار چیز کیا ہوسکتی ہے۔ ثناء اللہ کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا تھا کہ گدھے نے مزے سے ببول کو چبانا شروع کردیا۔
ثناء اللہ چلایا۔ ’’چٹے! تم جادوگر بونے کو کھا رہے ہو۔‘‘ وہ دل ہی دل میں خوش بھی تھا اور خوفزدہ بھی لیکن پھر اندازہ لگائے بغیر کہ آگے کیا ہونے والا ہے وہ چھلانگ لگا کر گدھے پر سوار ہوگیا جو ابھی بھی ببول کھانے میں مگن تھا حالاں کہ اسے ببول کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔
وہ آگے بڑھ گئے اور جلد ہی الیاس کے گھر کے نزدیک پہنچ گئے۔ جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنا ہوا تھا لیکن ابھی وہ منزل تک نہیں پہنچے تھے کہ راستے میں انھیں ایک بوڑھی اور لالچی عورت ملی جو قد کاٹھ سے بہت مضبوط لگ رہی تھی اور اصل میں تھوڑا بہت جادو بھی جانتی تھی۔ وہ چلا کر بولی ۔ ’’رکو! مجھے فوراً اپنا گدھا دے دو۔ مجھے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔‘‘ ثناء اللہ نے دیکھا کہ وہ بہت طاقتور عورت ہے تو وہ گدھے سے اُتر آیا اور سرجھکا کر مؤدبانہ انداز میں بولا: ’’یہ گدھا بکاؤ ہے آپ اس کے سات سونے کے سکے ادا کرکے لے سکتی ہیں۔‘‘
بوڑھی عورت غصے سے بولی: ’’میں اسے مفت میں لے رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چٹے کے پاس گئی تاکہ اس پر سوار ہوسکے لیکن چٹے نے جلدی سے اپنا منھ عورت کی طرف کرلیا۔ وہ اسے ذرا بھی پسند نہیں کررہا تھا۔ وہ دوبارہ اس پر چڑھنے لگی لیکن چٹے نے دوبارہ منھ عورت کی طرف کرلیا۔
وہ سخت غصے میں آگئی اور اس نے چٹے کو ایک چھڑی رسید کی۔ چٹے نے اپنے کان اٹھائے اور رینکنا شروع کردیا۔ پھر اس نے اپنی پیٹھ جادوگرنی کی طرف پھیری اور جتنی زور سے اسے دولتی مارسکتا تھا ماری۔ وو۔۔۔ش! کی آواز سے بوڑھی عورت اُڑی اور پٹخنیاں کھاتی ہوئی خاصی دور جاگری اور چٹے سے اتنا ڈری کہ اُٹھتے ہی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑی ہوئی۔ چِٹّا فاتحانہ انداز میں رینکا اور اپنے مالک کو دیکھنے لگا۔
اب ثناء اللہ آنکھوں میں حیرانگی لیے چٹے کو دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ سرکھجانے لگا۔ اس نے اپنی ناک رگڑی۔ اپنے ہونٹ چبائے اور بولا: ’’ چٹے یا تو تم بہت بے وقوف ہو اور یا بہت ہی چالاک۔ آج تم نے ٹانگ مار کر ایک جادوگرنی کو بھگادیا۔ صرف رینک کر ایک جادوگرنی کو کنویں میں گرادیا اور ایک جادوگر کو مزے سے کھاگئے۔
چِٹّا خوش ہو کر پھر رینکا اور اتنی تیزی سے دم کو ہلایا کہ ثناء اللہ کی پگڑی سر سے گرگئی لیکن اس دفعہ ثناء اللہ نے قطعی بُرا نہیں منایا لیکن اب وہ مسلسل چٹے کو گھور رہا تھا۔
ثناء اللہ بولا: ’’میں ابھی بھی فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں۔ تم کئی دفعہ تو بہت ہی بے وقوف دکھائی دیتے ہو لیکن پھر سوچے بغیر ایسے کارنامے انجام دیتے ہو جو بڑے بڑے عقل مند انجام نہیں دے سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ تم چالاک ہو لیکن تم اتنے بے وقوف ہو کہ تمھیں اپنی اس خوبی کا علم ہی نہیں۔ میرا خیال ہے مجھے تمھیں ہرگز نہیں بیچنا چاہیے۔ تم اب میرے دوست ہو۔ اب واپس مڑو، گھر چلیں، گھر چل کر ہی چاے پییں گے۔‘‘
لہٰذا وہ مڑے اور چِٹّا پوری توانائی سے گھر کی طرف دوڑنے لگا۔ مجال ہے اس دفعہ کسی جادوگرنی یا جادوگر نے انھیں روکنے کی کوشش کی ہو۔
اب آپ کا چٹے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
دورکہیں ایک بہت ہی بے وقوف گدھا رہتا تھا۔ اس کا نام چِٹّا تھا۔ اس کے مٹیالے رنگ کے بڑے بڑے کان تھے۔ تقریباً اسی رنگ کی موٹی کھال تھی اور ایک دُم جو وہ ہر وقت مکھیاں اُڑانے کے لیے ہلاتا رہتا۔ اس کے مالک کا نام ثناء اللہ تھا۔ چٹے کو اپنے مالک سے بڑی اُنسیت تھی لیکن ثناء اللہ اب گدھے کو ذرا بھی پسند نہیں کرتا تھا کیوں کہ کئی بار چِٹا انتہائی حماقت سے بھرپور حرکتیں کرتا تھا۔ کئی دفعہ ثناء اللہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر سڑک کے بیچوں بیچ جارہا ہوتا اور اچانک چِٹّا ٹھہر جاتا۔ ثناء اللہ بار بار اسے کہتا کہ چلو لیکن چٹے کے کان پر جوں نہیں رینگتی کیوں کہ وہ فیصلہ کرچکا ہوتا کہ اس نے رُکنا ہی ہے اور اگر اس کا دل نہ کرتا تو وہ سارا دن سڑک کے درمیان میں ہی کھڑا رہتا۔ آپ ہی بتائیں اس سے بڑی حماقت کیا ہوسکتی تھی کہ وہ عین کسی پل کے درمیان کھڑا ہوجائے اور پل سے نہ کوئی چھکڑ گزر سکے اور نہ کوئی گاڑی۔ پھر کئی موقع ایسے بھی آئے کہ وہ اتنا برق رفتار ہوجاتا کہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آتا۔ وہ کھیتوں میں اِدھر اُدھر پھدکتا پھرتا اور ثناء اللہ بے چارہ پوری طاقت سے اس کے پیچھے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہا ہوتا۔ وہ چیخ رہا ہوتا۔ ہانپ رہا ہوتا لیکن چٹے کو قابو نہیں کرپاتا تھا۔ کم از کم اتنی دیر تک جب تک چٹے کا خود دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ پکڑا جائے۔ اس میں شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ چِِٹّا حد سے زیادہ بے وقوف گدھا تھا۔ ایک دن ثناء اللہ کے کانوں میں یہ خبر پہنچی کہ اس کے چچیرے بھائی الیاس کو ایک گدھے کی شدت سے ضرورت ہے۔ ثناء اللہ نے یہ خبر سن کر شکر ادا کیا اور بولا: ’’میں اس بے وقوف چٹے کو اپنے بھائی کے حوالے کردیتا ہوں۔ ہوسکتا ہے وہ اس سے کوئی کام لے لے لیکن مجھے اس بات کی بھی امید ہرگز نہیں ہے کیوں کہ اس سے زیادہ بے وقوف گدھا میں نے روئے زمین پر نہیں دیکھا۔‘‘ لہٰذا اگلے ہی دن اس نے چٹے کو کاٹھی پہنائی۔ پھر وہ چھلانگ مار کر اس کی کمر پر سوار ہوگیا اور اسے دوڑایا۔ آج چِٹّا بہت غم زدہ تھا۔ وہ اپنے مالک سے جدا نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ دل میں نہایت شرمندہ ہورہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش وہ اتنا بے وقوف نہیں ہوتا لیکن وہ کیا کرسکتا تھا۔ یہ مسئلہ تو سبھی گدھوں کا تھا کہ وہ چالاک نہیں ہوسکتے تھے۔ راستے میں وہ ایک ایسے مقام سے گزرے جہاں جادوگرنیاں رہتی تھیں۔ ثناء اللہ کو راستے کا مکمل علم نہیں تھا اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اگر ان کا سامنا راستے میں کسی جادوگرنی یا جادوگر سے ہوا تو ان کا سلوک کیسا ہوگا؟ لہٰذا وہ ایک مناسب رفتار سے آگے بڑھتے رہے تاکہ انھیں کوئی نہیں روکے۔ لیکن جلدی ہی وہ راستہ بھول گیا۔ وہ ٹھہرا اور اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اسے دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دیا، ماسواے ایک جادوگرنی کے جو اپنے باغ کے کنویں کے کنارے بیٹھی ہوئی سویٹر بن رہی تھی۔ اس نے اپنی شاطر سبز آنکھوں سے ثناء اللہ کو گھورا۔ ثناء اللہ کو وہ ایک آنکھ نہیں بھائی لیکن اس کے سوا اور کوئی بھی نزدیک نہیں تھا جس سے وہ راستہ پوچھتا۔ وہ چٹے پر سوار جادوگرنی کے پاس گیا اور ادب سے اس سے پوچھنے لگا۔ ’’صبح بخیر! کیا آپ مجھے میرے چچیرے بھائی الیاس کے گھر کا پتا بتاسکتی ہیں؟‘‘ جادوگرنی نے پھر ثناء اللہ کو دیکھا اور پھر اس کمر پر لدے ہوئے پھولے چمڑے کے تھیلے کو بھی۔ اس کے کانوں میں میں پہلے ہی سکوں کی چھن چھن پڑچکی تھی۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ وہ بولی: ’’میں تمھیں راستہ بتاتی ہوں لیکن ایک شرط پر کہ تم مجھے بتاؤ کہ بدلے میں تم مجھے کتنی رقم دو گے؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے سویٹر بننا تیز کردیا۔ ثناء اللہ نے پوچھا: ’’آپ بتائیں کتنی رقم لیں گی۔‘‘ جادوگرنی لالچی انداز میں بولی: ’’تمھارے تھیلے میں جتنی رقم ہے وہ ساری۔‘‘ جادوگرنی کی بات سن کر ثناء اللہ کا رنگ پیلا پڑگیا۔ وہ بولا: ’’میں آپ کو ساری رقم نہیں دے سکتا۔‘‘ یہ سن کر جادوگرنی نے غصے سے سویٹر زمین پر دے مارا اور اپنی جادو کی چھڑی سنبھال لی۔ وہ ثناء اللہ کو جادو کے زور سے مینڈک بنانے والی تھی۔ چِٹّا انتظار کرکے اُکتا چکا تھا اور وہ پیاسا تھا ۔اس کا دل کررہا تھا کہ وہ دوڑ کر پانی کے تالاب پر پہنچے اور پانی پی کر پیاس بجھائے لہٰذا اس نے اپنا بڑا سا منھ کھولا اور زور سے ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکال کر تالاب تک جانے کی اجازت طلب کی۔ آواز اتنی اُونچی اور خوفناک تھی کہ جادوگرنی کو اچانک جیسے دھکا لگا۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور وہ کنویں کی منڈیر سے کنویں میں جاگری۔ وہ جیسے ہی ٹھنڈے پانی میں گری اس نے چلانا شروع کردیا۔ ’’بچاؤ۔۔۔ بچاؤ۔‘‘ اس کے ملازم نے اس کی آواز سنی، وہ دوڑتا ہوا باغ کے کنویں کے پاس آیا۔ اتنی دیر میں چٹے نے ایک دفعہ پھر ڈھینچوں ڈھینچوں کیا اور پھر تالاب کی طرف دوڑ لگادی۔ ثناء اللہ چٹے کا بہت شکر گزار تھا کہ اس کی وجہ سے جادوگرنی کنویں میں پڑی تھی لیکن اب وہ چاہ رہا تھا کہ جادوگرنی کے باہر نکلنے سے پہلے اُنھیں وہاں سے بھاگ جانا چاہیے۔ ثناء اللہ نے چٹے کی باگیں کھینچ کر اسے بھگانے کی کوشش کی لیکن کہاں، چِِٹّا ابھی جی بھر کر پانی پینا چاہتا تھا۔ کم از کم چار گیلن پانی چِِٹّا پیتا تو پھر کہیں وہ سڑک پر بھاگ سکتا تھا۔ اتنی دیر میں جادوگرنی کا ملازم اسے ایک بالٹی کے ذریعے کنویں سے نکال چکا تھا۔ ثناء اللہ تنگ آکر چٹے سے بولا: ’’بے وقوف گدھے! تم اپنی پیاس بجھاؤ اور اتنی دیر میں جادوگرنی ہمیں مینڈک بنادے گی پھر تم ہمیشہ پانی میں ہی رہنا۔ اب خدا کے واسطے جلدی چلو۔‘‘ پیاس بجھا کر چٹے کو ہوش آیا اور وہ دوڑ پڑا۔ اب ثناء اللہ پریشان تھا کہ پتا نہیں وہ صحیح راستے پر جا بھی رہے ہیں یا نہیں؟ اچانک راستے میں ثناء اللہ نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب سا شخص ان کی طرف آرہا ہے۔ یہ ایک بونا تھا جو جادو بھی جانتا تھا۔ وہ قد میں بہت چھوٹا تھا۔ اس کی ناک مڑی ہوئی تھی۔ ثناء اللہ تیزی سے اس کے قریب سے گزر جانا چاہتا تھا لیکن بونے نے اسے روک لیا اور بولا: ’’اتنی تیز مت چلو، پہلے اپنی رقم میرے حوالے کرتے جاؤ۔‘‘ ثناء اللہ بولا: ’’ہرگز نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ ثناء اللہ بونے سے اتنا خوفزدہ نہیں ہوا تھا۔ اسے غصہ چڑھا ہوا۔ اس نے آگے جھک کر بونے کو ایک مکا رسید کرنے کی کوشش کی لیکن بونا جھکائی دے گیا اور اس نے خود کو ایک درخت میں تبدیل کرلیا۔ ثناء اللہ کا ہاتھ زور سے درخت سے ٹکرایا اور زخمی ہوگیا۔ ثناء اللہ غصے سے پاگل ہوگیا۔ بونا اتنی دیر میں دوبارہ اپنی اصل شکل اختیار کر چکا تھا۔ وہ ثناء اللہ سے تھیلا چھیننے کی کوشش کرنے لگا وہ چلا رہا تھا۔ ’’تھیلا مجھے دے دو۔‘‘ اب ثناء اللہ نے زور سے اسے ٹانگ رسید کی لیکن تب تک بونا ایک سخت چٹان کی صورت اختیار کرچکا تھا، ثناء اللہ کا پیر اس سے ٹکرایا تو اس کی چیخ نکل گئی۔ بونا پھر اپنی اصل شکل میں واپس آگیا۔ وہ پھر چلایا۔ ’’رقم میرے حوالے کردو۔‘‘ ثناء اللہ غصے سے گدھے سے نیچے اُترا اور بونے کی طرف بھاگا تاکہ اسے ہاتھوں میں دبوچ لے لیکن لمحہ بھر میں بونا ایک کانٹوں بھرے ببول کے پودے کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ ثناء اللہ کے ہاتھوں میں کانٹے چبھ گئے اور وہ درد سے بلبلا اُٹھا۔ چِٹّا بڑے صبر سے کھڑا انتظار کررہاتھا لیکن جب اس نے اپنا من بھاتا ببول دیکھا تو اس کی باچھیں کھل گئیں کیوں کہ گدھے کے لیے اس سے مزے دار چیز کیا ہوسکتی ہے۔ ثناء اللہ کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا تھا کہ گدھے نے مزے سے ببول کو چبانا شروع کردیا۔ ثناء اللہ چلایا۔ ’’چٹے! تم جادوگر بونے کو کھا رہے ہو۔‘‘ وہ دل ہی دل میں خوش بھی تھا اور خوفزدہ بھی لیکن پھر اندازہ لگائے بغیر کہ آگے کیا ہونے والا ہے وہ چھلانگ لگا کر گدھے پر سوار ہوگیا جو ابھی بھی ببول کھانے میں مگن تھا حالاں کہ اسے ببول کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ آگے بڑھ گئے اور جلد ہی الیاس کے گھر کے نزدیک پہنچ گئے۔ جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنا ہوا تھا لیکن ابھی وہ منزل تک نہیں پہنچے تھے کہ راستے میں انھیں ایک بوڑھی اور لالچی عورت ملی جو قد کاٹھ سے بہت مضبوط لگ رہی تھی اور اصل میں تھوڑا بہت جادو بھی جانتی تھی۔ وہ چلا کر بولی ۔ ’’رکو! مجھے فوراً اپنا گدھا دے دو۔ مجھے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔‘‘ ثناء اللہ نے دیکھا کہ وہ بہت طاقتور عورت ہے تو وہ گدھے سے اُتر آیا اور سرجھکا کر مؤدبانہ انداز میں بولا: ’’یہ گدھا بکاؤ ہے آپ اس کے سات سونے کے سکے ادا کرکے لے سکتی ہیں۔‘‘ بوڑھی عورت غصے سے بولی: ’’میں اسے مفت میں لے رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چٹے کے پاس گئی تاکہ اس پر سوار ہوسکے لیکن چٹے نے جلدی سے اپنا منھ عورت کی طرف کرلیا۔ وہ اسے ذرا بھی پسند نہیں کررہا تھا۔ وہ دوبارہ اس پر چڑھنے لگی لیکن چٹے نے دوبارہ منھ عورت کی طرف کرلیا۔ وہ سخت غصے میں آگئی اور اس نے چٹے کو ایک چھڑی رسید کی۔ چٹے نے اپنے کان اٹھائے اور رینکنا شروع کردیا۔ پھر اس نے اپنی پیٹھ جادوگرنی کی طرف پھیری اور جتنی زور سے اسے دولتی مارسکتا تھا ماری۔ وو۔۔۔ش! کی آواز سے بوڑھی عورت اُڑی اور پٹخنیاں کھاتی ہوئی خاصی دور جاگری اور چٹے سے اتنا ڈری کہ اُٹھتے ہی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑی ہوئی۔ چِٹّا فاتحانہ انداز میں رینکا اور اپنے مالک کو دیکھنے لگا۔ اب ثناء اللہ آنکھوں میں حیرانگی لیے چٹے کو دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ سرکھجانے لگا۔ اس نے اپنی ناک رگڑی۔ اپنے ہونٹ چبائے اور بولا: ’’ چٹے یا تو تم بہت بے وقوف ہو اور یا بہت ہی چالاک۔ آج تم نے ٹانگ مار کر ایک جادوگرنی کو بھگادیا۔ صرف رینک کر ایک جادوگرنی کو کنویں میں گرادیا اور ایک جادوگر کو مزے سے کھاگئے۔ چِٹّا خوش ہو کر پھر رینکا اور اتنی تیزی سے دم کو ہلایا کہ ثناء اللہ کی پگڑی سر سے گرگئی لیکن اس دفعہ ثناء اللہ نے قطعی بُرا نہیں منایا لیکن اب وہ مسلسل چٹے کو گھور رہا تھا۔ ثناء اللہ بولا: ’’میں ابھی بھی فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں۔ تم کئی دفعہ تو بہت ہی بے وقوف دکھائی دیتے ہو لیکن پھر سوچے بغیر ایسے کارنامے انجام دیتے ہو جو بڑے بڑے عقل مند انجام نہیں دے سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ تم چالاک ہو لیکن تم اتنے بے وقوف ہو کہ تمھیں اپنی اس خوبی کا علم ہی نہیں۔ میرا خیال ہے مجھے تمھیں ہرگز نہیں بیچنا چاہیے۔ تم اب میرے دوست ہو۔ اب واپس مڑو، گھر چلیں، گھر چل کر ہی چاے پییں گے۔‘‘ لہٰذا وہ مڑے اور چِٹّا پوری توانائی سے گھر کی طرف دوڑنے لگا۔ مجال ہے اس دفعہ کسی جادوگرنی یا جادوگر نے انھیں روکنے کی کوشش کی ہو۔ اب آپ کا چٹے کے بارے میں کیا خیال ہے؟