بے گناہ مجرم
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
بنوامیہ کی سلطنت اور خلافت کے بعد عباسی خاندان کی خلافت شروع ہوئی۔ اس خاندان کا دوسرا خلیفہ ابوجعفر منصور نے تھا۔ اس نے136ھ754/ء سے158 ہجری775/ ء تک حکومت کی۔ ایک دفعہ کسی شخص نے اس کو خبر دی کہ فلاں شخص کے پاس بنوامیہ کے بہت سے خزانے اور قیمتی چیزیں ہیں جو اس کے پاس ان (بنوامیہ) کی طرف سے امانت کے طور پر رکھے ہوئے ہیں۔
چونکہ عباسی خاندان بنوامیہ کا دشمن تھا اس لیے ابوجعفر منصور نے حکم دیا کہ اس شخص کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کیا جائے۔ جب اسے گرفتار کر کے منصور کے سامنے پیش کیا گیا تو منصور نے اس سے کہا:
”ہمیں خبر ملی ہے کہ تمہارے پاس بنوامیہ کے لوگوں کے خزانے اور امانتیں ہیں، وہ سب لاکر یہاں حاضر کرو۔“
قیدی نے کسی گھبراہٹ یا خوف کے بغیر جواب دیا۔
”اے امیر المومنین! کیا آپ بنوامیہ کے وارث ہیں؟“
منصور:”نہیں“
قیدی: ”تو کیا بنوامیہ نے آپ کے حق میں وصیت کی ہے کہ ان کا مال آپ کو دیا جائے؟“
منصور:”نہیں“
قیدی: ”جب نہ آپ ان کے وارث ہیں اور نہ انھوں نے آپ کے حق میں وصیت کی ہے تو آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ان کی امانتیں مجھ سے طلب کر یں۔“
منصور: (کچھ دیر سر جھکائے سوچنے کے بعد) ”مجھے یہ حق اس لیے پہنچتا ہے کہ بنوامیہ نے مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھائے تھے اور ان کے مال اسباب پرز بردستی قبضہ کیا تھا۔ اب میں ان مظلوم مسلمانوں کا مال ظالموں کے ہاتھ سے چھین کر سرکاری خزانے (بیت المال) میں جمع کرانا چاہتا ہوں۔“
قیدی:”امیرالمونین! آپ جو کچھ فرما رہے ہیں اسے اس وقت مانا جا سکتا ہے۔ جب آپ شر یعت کے مطابق یہ گواہی پیش کریں کہ جو امانتیں میرے پاس ہیں وہ بنوامیہ کے اس مال اسباب میں سے ہیں جس پر انھوں نے زبردستی ظلم سے قبضہ کیا تھا کیونکہ بنوامیہ ایسے مال اسباب کے بھی جائز مالک تھے جس پر انھوں نے زور زبر دستی اور ظلم سے قبضہ نہیں کیا تھا۔“
منصور قیدی کا جواب سن کر کچھ دیر خاموش رہا اور پھر اپنے وزیر ربیع سے مخاطب ہو کر کہا:
”کیوں ربیع! اس قیدی نے جو کچھ کہا ہے، وہ درست ہی تو ہے۔ شریعت کے مطابق اس کے ذمہ ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔“
پھر اس نے قیدی سے پوچھا:
”تمہاری کوئی حاجت ہوتو بیان کرو۔“
قیدی:”امیر المومنین!میری ایک حاجت تو یہ ہے کہ فوراً ایک قاصد کے ہاتھ میرا خط میرے گھر بھجوادیں تا کہ میرے گھر والوں کو اطمینان ہو جائے کہ میں خیریت سے ہوں۔ اس وقت میری گرفتاری کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہوں گے۔ میری دوسری حاجت یہ ہے کہ جس شخص نے آپ کو یہ خبر دی کہ میرے پاس بنو امیہ کی امانتیں پڑی ہیں،اسے یہاں میرے سامنے بلالیں۔ خدا کی قسم بنو امیہ کا کوئی مال اسباب میرے پاس نہیں ہے۔ اس شخص نے چھوٹی خبر آپ کو دی۔
منصور نے اپنے وزیر ربیع کو حکم دیا کہ اس شخص کو میرے سامنے پیش کرو جس نے یہ خبر دی تھی۔
وزیر نے تھوڑی دیر میں اس شخص کوخلیفہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اسے دیکھتے ہی بے گناہ قیدی نے عرض کیا:
”امیر المومنین! یہ شخص میرا ملازم تھا جو میرے تین ہزار دینار لے کر بھاگ گیا تھا۔“
منصور نے بھگوڑے ملازم سے گرج کر کہا:
”سچ بتاؤ کہ حقیقت کیا ہے؟“
بھگوڑ املازم:”حضور! جو کچھ انھوں نے بیان کیا ہے وہ حقیقت ہے۔ میں واقعی ان کے تین ہزار دینار لے کر بھاگا ہوں۔پھر وہ رو رو کر رحم کی بھیک مانگنے لگا۔
اب خلیفہ نے بے گناہ قیدی سے مخاطب ہو کر کہا،”میں آپ سے سفارش کرتا ہوں کہ اس پر رحم کیجیے اور اس کو معاف کر دیجیے۔“
بے گناہ قیدی: ”میں نے اس کا جرم معاف کیا اور جتنا مال لے کر یہ بھا گا،وہ بھی معاف کرتا ہوں اور تین ہزار دیناراپنے پاس سے دیتا ہوں تا کہ وہ حلال کی روزی کما کر کھائے۔“
خلیفہ اس بے گناہ قیدی کا حوصلہ دیکھ کر حیران رہ گیا، بڑی عزت واحترام سے اس کو رخصت کیا اور اس نے ایک ذلیل مجرم کے ساتھ جواچھا سلوک کیا اس کو ہمیشہ یادرکھا۔