بے گناہ گناہ گار
مصنف: ٹالسٹائی
مترجمہ: زرینہ طاہر
۔۔۔۔۔
روس کے ایک قصبے وِلادی میر میں ’ایوان‘ نام کا ایک شریف اور نیک تاجر رہتا تھا۔تمام لوگ اسے دل و جان سے چاہتے تھے۔ اس قصبے سے دور، ایک دوسرے قصبے میں سالانہ میلا لگا کرتا تھا۔ایوان بھی ہر سال تجارت کا سامان لے کر وہاں جاتاتھا۔
ایک دفعہ وہ میلے میں جانے لگا تو اس کی بیوی بولی۔”ایوان!میرا دل کہ رہا ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت آنے والی ہے۔رات میں نے خواب میں دیکھاکہ جب تم میلے سے واپس آئے ہوتو تمہارے بال سفید ہو چکے تھے۔میری مانواس دفعہ نہ جاؤ۔“
ایوان نے ہنس کر کہا۔”یہ تو بہت اچھاخواب ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس دفعہ تجارت میں بہت نفع ہوگا۔“یہ کہ کر وہ گاڑی میں سوار ہوا اور چلا گیا۔
ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ راستے میں ایک اور سوداگر ملا۔وہ بھی میلے میں جا رہا تھا۔دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔جب شام ہوئی تو ایک سرائے میں ٹھہر گئے، اور کھانا کھاکر ایک ہی کمرے میں سو گئے۔
ایوان کو صبح سویرے جاگنے کی عادت تھی۔ابھی رات کی سیاہی اچھی طرح دور نہ ہوئی تھی کہ وہ اٹھ بیٹھا اور اپنے ساتھی کو بھی جگایا مگر یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہو گئے کہ اس کا ساتھی تاجر مردہ پڑا ہے۔اس نے سوچا کہ اگر میں یہاں ٹھہرا تو پولیس مجھے پکڑ لے گی اور ناحق کھچا کھچا پھروں گا۔اس نے جھٹ پٹ سامان اٹھایا اور گاڑی میں لاد کر روانہ ہوگیا۔
دوپہر کے وقت راہ میں ایک سرائے پڑی تو وہاں ٹھہر گیا لیکن ابھی مشکل سے آدھا گھنٹا ہی گزرا ہوگا کہ سرائے کے سامنے ایک کار آکر رکی۔اس میں سے ایک پولیس افسر اترا اور اس نے ایوان سے کہا۔”تمہیں ایک تاجر کے قتل کے جرم میں گرفتار کیاجاتا ہے۔تم دونوں ایک ہی کمرے میں سوئے تھے اور دروازہ اندر سے بند تھا۔لہٰذاتم ہی اس کے قاتل ہو۔“
یہ کہ کر اس نے ایوان کی تلاشی لی تواس کے تھیلے سے خون میں لتھڑا ہوا چاقو نکلا۔ ایوان بہت چیخا چلایا، رورو کر اپنی بے گناہی کا یقین دلایا لیکن پولیس افسر نے ایک نہ سنی اور اسے گرفتار کرکے تھانے لے گیا۔کچھ عرصے بعد ایوان کے خلاف مقدمہ چلا اور اسے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزاہوگئی۔
دن آہستہ آہستہ بیتتے گئے اور ایوان کو جیل میں پورے 26برس گزر گئے۔اس کے چہرے پر جھریاں پڑ گئیں، بال سفید ہو گئے، داڑھی بڑھتے بڑھتے پیٹ تک آگئی۔وہ ہر وقت اللہ اللہ کرتا تھا اور دوسرے قیدیوں کو بھی نیک باتوں کی ہدایت کرتا تھا۔جیل کے تمام قیدی اور افسر اس کی عزت کرتے اور ادب سے اسے دادا کہتے تھے۔
اس دوران میں اور بہت سے قیدی جیل میں آئے۔ان میں ایک لمبا تڑنگا آدمی بھی تھا۔اس نے بتایا کہ آج سے بہت عرصہ پہلے میں نے ایک بہت بڑا جرم کیا تھا۔اس وقت مجھے کسی نے نہیں پکڑا، مگر اب خواہ مخواہ پکڑا گیا ہوں۔حال آں کہ میں بے گناہ ہوں۔اس نے بتایا کہ اس کا نام’مارکر‘ ہے اور وہ ولادی میر کا رہنے والا ہے۔
اپنے قصبے کا نام سن کر ایوان نے اس سے کہا کہ ولادی میر میں ایوان نام کا ایک تاجر رہتا تھا،جسے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔اس کے بیوی بچوں کا کیا حال ہے؟مارکر نے بتایا کہ اس کی بیوی مر چکی ہے، مگر بچے سب کے سب خوش حال ہیں۔پھر اس نے ایوان سے پوچھا کہ وہ کس جرم میں یہاں سزا بھگت رہا ہے۔ایوان تو خاموش رہا مگر ایک قیدی نے بتایا کہ کسی آدمی نے ایک تاجر کو قتل کرکے خون میں لتھڑاہوا چاقو ایوان کے تھیلے میں رکھ دیا تھا۔اُس کے جرم کی سزا اس بے چارے کو ملی اور اب یہ 26سال سے یہاں قید ہے۔
مارکر کا یہ سننا تھا کہ اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی اور وہ گھبرا سا گیا۔ایوان نے سوچا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اس نے مارکر سے پوچھا۔”آپ کو تاجر کے قتل کے متعلق کچھ علم ہے؟“
مارکر ہنس کر بولا۔”اُس کا قاتل تو وہی ہو سکتا ہے جس کے نیلے تھیلے سے چاقو برآمد ہوا تھا۔“اب ایوان سمجھ گیا کہ یہی شخص اس تاجر کا قاتل ہے،کیوں کہ ایوان کے تھیلے کا رنگ نیلا ہی تھا۔
ایک رات ایوان جیل کی دیوار کے ساتھ ساتھ پھر رہا تھا کہ ایک جگہ کھٹ کھٹ کی آواز آئی۔اس نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کوئی شخص دیوار میں سوراخ کررہا ہے۔یہ مارکر تھا۔اس نے ایوان کو بتایا کہ میں دیوار توڑ کر یہاں سے بھاگنا چاہتا ہوں۔آدھا سوراخ ہو گیا ہے اور آدھا کل تک ہو جائے گا۔تم بھی میرے ساتھ فرار ہو جانا لیکن تم نے یہ بھید کسی کو بتایا تو میں تمہیں جان سے مارڈالوں گا۔
ایوان نے کہا۔”مارکر!تم مجھے آج سے 26سال پہلے ہی مارچکے ہو۔مجھے اب یہاں سے نکلنے کی رتی بھر بھی خواہش نہیں۔ میں تمہارا بھید کسی کو نہیں بتاؤں گا۔“
دوسرے دن اُس سوراخ کا راز فاش ہو گیا۔جیل کے افسر نے اعلان کیا کہ جو قیدی مجرم کو پکڑوائے گا، اسے رہا کردیا جائے گا۔ تمام قیدی خاموش رہے،کیوں کہ سوائے ایوان کے اور کسی کو اُس سوراخ کا علم نہ تھا، ایوان نے اس کے متعلق ایک لفظ تک نہ کہا۔
اس رات ایوان سونے کے لیے لیٹا تو مارکر اس کے پاس آیا اور بولا۔”ایوان! مجھے معاف کردو۔میں نے ہی اُ س سوداگر کو قتل کرکے چاقو تمہارے تھیلے میں رکھ دیا تھا۔میں کل صبح جیلر کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کر لوں گا، اور پھر تمہیں اس قید سے نجات مل جائے گی۔“
دوسرے دن مارکر نے جیلر کے پاس جا کر اپنے جرم کا اقبال کرلیا اور ایوان باعزت بری ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔