skip to Main Content

بے مثال حکمران

کلیم چغتائی

…..
ایک عجیب وغریب حکمران کا قصہ…… حکمرانی ملنے کے بعد اُن کے انداز ہی بدل گئے

…..

اس عورت کی پانچ بیٹیاں تھیں، گھر میں کما کر لانے والا کوئی نہ تھا۔ سخت پریشان تھی کہ گھر کا خرچ کیسے پورا کرے۔ بہت سوچنے کے بعد آخر اس نے فیصلہ کیا کہ مملکت کے سربراہ کے پاس جاکر مدد مانگی جائے۔ مملکت کے سربراہ، اس عورت کے گھر سے دور دوسرے شہر میں رہتے تھے۔ عورت نے ہمت کی۔ طویل سفر طے کیا اور سربراہ مملکت کے شہر جا پہنچی۔ شہر میں اس نے سربراہ مملکت کا مکان تلاش کیا۔ اسے اُمید تھی کہ اتنے بڑے ملک کا سربراہ کسی عالی شان محل میں رہتا ہوگا، جس کے دروازے پر دربان مقرر ہوں گے لیکن اسے یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ سربراہ مملکت کا مکان معمولی سا تھا۔ دروازے پر روک ٹوک کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔
عورت مکان کے اندر چلی گئی۔ اس نے دیکھا کہ مکان میں موجود سامان بھی بے حد معمولی تھا۔ ایک عورت ایک طرف بیٹھی روئی دُھنک رہی تھی۔ معلوم ہوا یہ سربراہ مملکت کی اہلیہ ہیں۔ اس عورت کو بڑی حیرانی ہوئی۔ گھر میں نوکر چاکر کہیں نظر نہ آتے تھے۔ عورت نے مایوسی کے عالم میں سوچا: ”میں اس ویران مکان سے اپنا گھر آباد کرنے یہاں آئی تھی۔“
اتنے میں دروازہ کھلا اور باہر سے ایک شخص اندر آگیا۔ اس نے گھر کے کنویں میں پانی کے ڈول نکال نکال کر ایک طرف پڑی ہوئی مٹی پر ڈالنے شروع کردیے۔ باہر سے آنے والی عورت اجنبی مرد کو دیکھ کر ایک طرف ہوگئی لیکن سربراہ مملکت کی اہلیہ اسی طرح بیٹھی روئی دُھنکتی رہی۔ اس عورت نے سربراہ مملکت کی اہلیہ سے کہا: ”اس مٹی بنانے والے مزدور سے پردہ تو کرلیں، یہ آپ ہی کی طرف دیکھ رہا ہے۔“
سربراہ مملکت کی اہلیہ نے بتایا: ”یہ میرے شوہر اور امیر المومنین ہیں!“
عورت مزید حیران ہوئی کہ یہی سربراہ مملکت ہیں، خیر وہ انتظار کرنے لگی کہ مملکت کے سربراہ کام سے فارغ ہوں تو وہ اپنی درخواست پیش کرے۔
سربراہِ مملکت مٹی بنانے کے کام سے فارغ ہوئے، نماز ادا کی، پھر اپنی اہلیہ سے پوچھا: ”یہ عورت کون ہے؟“ جواب ملا کہ عراق سے آئی ہے۔ عورت کہنے لگی: ”میری پانچ بے کس اور بے سہارا بیٹیاں ہیں، میں آپ سے حسنِ شفقت کی امید لے کر آئی ہوں۔“
عورت کا اتنا کہنا تھا کہ امیر المومنین بے کس اور بے سہارا کے الفاظ دہرا کر رونے لگے۔ پھر کاغذ قلم لیا اور عراق کے والی کے نام خط لکھنا شروع کردیا۔ عورت سے پوچھا: ”بڑی بیٹی کا نام بتاؤ۔“
عورت نے نام بتایا۔ امیر المومنین نے بڑی لڑکی کا وظیفہ مقرر کردیا۔ عورت نے کہا ”الحمد للہ۔“ پھر امیر المومنین، دوسری، تیسری اور چوتھی لڑکی کا نام دریافت کرتے گئے اور نام بتانے پر اس کا وظیفہ مقرر کرتے گئے۔ ہر وظیفے پر عورت ”الحمد للہ“ کہتی جاتی۔ چوتھے وظیفے پر عورت نے خوش ہو کر امیر المومنین کی تعریف اور ان کے لیے دعائیں شروع کردیں۔ امیر المومنین نے ہاتھ روک لیا اور فرمایا: ”جب تک تم، اللہ کا شکر ادا کرتی رہیں، جو حمد کا حق دار ہے تو ہم وظیفہ مقرر کرتے رہے لیکن جب تم نے میری تعریف شروع کردی تو اس کے بعد کا وظیفہ گویا میں اپنی تعریف سے خوش ہو کر کروں گا، اس لیے اپنی چاروں لڑکیوں سے کہنا کہ اپنے وظیفوں سے پانچویں لڑکی کو بھی دے دیا کریں۔“
عورت عراق گئی تو عراق کے والی نے چاروں بیٹیوں کا وظیفہ مقرر کردیا۔
آپ کو معلوم ہے کہ اتنی سادہ زندگی گزارنے والے حکمران کون تھے؟ یہ تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز جو ایک بہت بڑی مملکت کے سربراہ تھے۔ اس مملکت میں افریقا کے تمام شہر، سندھ، کابل، فرغانہ، روم، قسطنطنیہ، قبرص شامل تھے، گویا اندلس (اسپین) کے آخری گوشے سے سندھ تک اور روم سے چین کی دیوار تک اسلامی ریاست پھیلی ہوئی تھی۔
اس زمانے میں حکمران کو ’خلیفہ‘ کہا جاتا تھا۔ ’خلیفہ‘ کے معنی ہیں نائب۔ خلافت کا نظام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نافذ ہوا۔ آپ جانتے ہیں کہ پہلے خلیفہ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے۔ ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت بہت یادگار ہے۔ ان چاروں خلفاء کے دور کو خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے مختصر دور خلافت میں مملکت کا انتظام اتنی اچھی طرح کیا کہ آپ کو پانچواں خلیفہ راشد اور عمر ثانی یعنی ’دوسرا عمر‘ کہا جاتا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز 61 ھ (680ء) میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی خوش قسمتی تھی کہ مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے آپ کے بچپن میں آپ کی تربیت اور پرورش فرمائی۔ ایک بہت بڑے عالم حضرت صالح بن کسیان کو آپ کا اتالیق مقرر کیا گیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ مختلف اساتذہ سے فقہ اور علم حدیث سیکھا۔ حدیث کے بڑے بڑے عالموں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے علم کی تعریف فرمائی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے عربی زبان اور شعر و شاعری کی تعلیم بھی حاصل کی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے والد کے انتقال کے بعد، آپ کے چچا عبدالملک بن مروان نے اپنی بیٹی فاطمہ سے آپ کی شادی کردی۔ 68ھ (687ء) میں ولید بن عبدالملک خلیفہ بنے تو اُنھوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مدینہ منورہ کا والی (گورنر) مقرر کردیا۔
ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنے۔ جب سلیمان بن عبدالملک 99 ھ (717ء) میں بیمار پڑے تو اُنھوں نے وصیت کی کہ ان کے بعد عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ بنایا جائے، چنانچہ اس وصیت پر عمل کیا گیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے خلیفہ بنتے ہی سب سے پہلے ان اموال اور جائیدادوں کی طرف توجہ کی جن کے بارے میں شکایات تھیں۔ آپ نے اعلان کروادیا کہ جس کو شکایت ہے کہ اس کے مال یا جائیداد پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا ہے، وہ اپنی شکایت درج کروادے۔ پھر آپ نے اپنے خاندان والوں کو بلوا کر ان سے کہا کہ تم لوگوں کے قبضے میں اُمت مسلمہ کا مال ہے، جن پر آپ کا کوئی حق نہیں، مال واپس کرو۔ آپ کے خاندان والوں نے اس پر احتجاج کیا کہ ہم یہ مال واپس نہیں کریں گے۔ ہم اپنی اولادوں کو مفلس نہیں بناسکتے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تمام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا۔ جائیدادوں کی دستاویزات منگوائیں۔ آپ کے ماتحت ان دستاویزات کو پڑھتے جاتے تھے اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ان دستاویزات کو قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے۔ صبح سے لے کر نماز ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ تمام جائیدادیں اصل مالکوں کے حوالے کردی گئیں۔
خلیفہ بننے سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا حال یہ تھا کہ آپ بہت قیمتی لباس پہنا کرتے تھے اور تھوڑی سی دیر میں اس لباس کو اُتار کو دوسرا قیمتی لباس پہن لیتے تھے لیکن خلیفہ بنتے ہی آپ نے گھر کا ایک ایک نگینہ بیت المال میں داخل کردیا۔ سرکاری سواری پیش کی گئی تو فرمایا: ”میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے۔“ اپنی تمام سواریوں کو فروخت کرکے رقم بیت المال میں جمع کروادی۔ حکمرانوں کے ساتھ، عوام کو خبردار کرنے والے نقیب اور دوسرے لوگ چلا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ سلسلہ بھی بند کروادیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکومت صرف دو سال پانچ ماہ تک جاری رہا لیکن اس مختصر مدت میں آپ نے نہایت اہم فیصلے کیے۔ آپ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بہت متاثر تھے۔ آپ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت سالمؒ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تمام فیصلے اور تحریریں طلب فرمائی تھیں تاکہ مملکت کے فیصلے کرنے میں ان سے مدد مل سکے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خلیفہ بننے کے بعد بیت المال کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا۔ دفتری اخراجات کم کردیے۔ ایک سرکاری اہل کار نے درخواست کی تھی کہ کاغذ، قلم، دوات کے لیے رقم بڑھادی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا: ”قلم باریک کرلو اور سطریں قریب قریب لکھا کرو، میں مسلمانوں کے خزانے سے کوئی ایسی رقم خرچ کروانا نہیں چاہتا، جس سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔“
مملکت میں جتنے معذور اور مجبور افراد تھے، حضرت عمر نے ان کی فہرست تیار کروائی اور ان سب کے لیے وظیفے مقرر کردیے۔ جب آپ نے ناجائز آمدنیوں اور ظلم کی روک تھام کردی اور مال دیانت کے ساتھ تقسیم ہونے لگا تو صرف ایک سال بعد یہ صورت تھی کہ لوگ صدقے کے لیے آتے تھے اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے۔
حضرت عمر نے ذمّیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ ”ذمّی“ ان غیر مسلم افراد کو کہتے ہیں جو اسلامی مملکت میں رہتے ہیں، اسلامی حکومت کو ”جزیہ“ ادا کرتے ہیں اور حکومت ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
آپ نے تمام حکام کے نام فرمان جاری کیا: ”نماز کے وقت ہر کام اور کاروبار چھوڑ دیا کرو۔ جو شخص نماز ضائع کرتا ہے وہ دوسرے فرائض کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔“
حضرت عمر نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں، ان میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کا حکم دیا۔ آپ نے شراب پینے اور فروخت کرنے پر سخت پابندی لگادی۔
آپ کے دور میں علم کو عام کرنے پر خاص توجہ دی گئی۔ علما کرام کے لیے بیت المال سے بھاری وظیفے مقرر کیے گئے۔ آپ نے مختلف ملکوں میں دین کا علم پھیلانے کے لیے علما بھیجے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا بڑا علمی کارنامہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہے۔ آپ نے جب دیکھا کہ حدیثوں کے حافظ، دنیا سے رخصت ہوتے جارہے ہیں تو آپ نے مدینہ کے والی قاضی ابو بکر بن حزام اور دیگر صوبوں کے والیوں کو ہدایت کی کہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تلاش کرکے ان کے بارے میں تحقیق کرلی جائے اور مستند احادیث کو لکھ لیا جائے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسلام کی دعوت کو دنیا میں پھیلانے پر بھی خصوصی توجہ دی۔ آپ نے فوجی حکام کو ہدایت کردی کہ کسی قوم سے اس وقت تک جنگ نہ کریں، جب تک اس تک اسلام کی دعوت نہ پہنچا دیں۔ خراساں کے والی، جراح بن عبداللہ کی تبلیغ سے ان کے ہاتھ پر چار ہزار افراد مسلمان ہوگئے۔
حضرت عمرؒ نے سندھ کے حکمرانوں اور زمینداروں کو اسلام کی دعوت دی۔ راجا داہر کا لڑکا جے سنگھ بھی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نہایت متقی، پرہیز گار انسان تھے۔ آپ سرکاری خزانے سے کوئی رقم اپنی ذات پر خرچ نہ کرتے تھے، نہ کوئی سرکاری شے اپنے استعمال میں لاتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ رجب 101ھ (720ء) میں بیمار پڑگئے۔ اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کو زہر دیا گیا تھا۔ آپ کو اس بات کا علم ہوگیا تھا لیکن آپ نے زہر دینے والے غلام سے کوئی بدلا نہ لیا، بلکہ اسے آزاد کردیا۔ 25 رجب 101ھ کو آپ اپنے رب سے جاملے۔ آپ کو حلب کے قریب دیر سمعانا میں سپرد خاک کیا گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top