بے چارے
فوزیہ خلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دونوں گدی سے پکڑ کر اسٹور کے دروازے کے پیچھے سے نکال لیے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ارے ۔۔۔ ان نگوڑ ماروں کو گھر پر کیوں چھوڑے جارہے ہو۔ بہت ہی شرارتیں کرتے ہیں دونوں۔‘‘ دادی اماں نے پکار کر کہا۔ ابو نے پلٹ کر ہم دونوں کو گھور کر دیکھا۔
’’ ہم بڑے ہی ضروری کام سے جارہے ہیں امی۔ جلد ہی آجائیں گے۔ ان دونوں کو اچھی طرح سے سمجھا دیا ہے کوئی شرارت نہیں کریں گے۔‘‘ امی نے دادی اماں کو جواب دیا۔
’’فاران۔۔۔ زیان۔‘‘ ابو نے گھور کر ہم دونوں کو نیچے سے اوپر تک دیکھا۔‘‘ دادی اماں کو شکایت کا کوئی موقع نہ ملے۔‘‘
’’ جی بالکل ۔‘‘ ہم یہ بات ثابت کرکے رہیں گے۔‘‘ فاران نے ہوا میں مکا لہرایا۔
’’ٹھیک ہے۔ اگر آج کا پورا دن تم دونوں نے اچھے بچوں کی طرح گزارا تو میں تم دونوں کو ایک ایک انعام دوں گی۔‘‘
’’واہ۔ یہ ہوئی ناں بات۔‘‘ فاران بولا اور ہم دونوں کمرے سے نکل آئے۔ باہر گھنٹی بج رہی تھی۔
’’زیان جاؤ ۔۔۔ دروازہ کھولو۔ اور ہر لمحہ یہ خیال رہے کہ اچھے بچوں کی طرح دن گزارنا ہے۔‘‘ فاران نے مجھ سے کہا۔ میں دروازہ کی طرف بڑھ گیا اور فاران کچن کی طرف۔
باہر ایک چھوٹے سے قد کا آدمی کھڑا تھا۔ اس کی بہت موٹی توند تھی۔ ذرا سا جھک کر چل رہا تھا اس نے ہمارے مکان نمبر پر نظر ڈال کر کہا۔
’’ بیٹا تمہارے والد گھر پر ہیں۔‘‘
’’ جی نہیں۔ مگر آپ ڈرائنگ روم میں ان کا انتظار کرسکتے ہیں۔‘‘ میں نے بہت بااخلاق لہجے میں کہا اور اس آدمی کو ڈرائنگ روم میں لے آیا پھر میں کچن کی جانب مڑگیا۔
’’کون تھا؟‘‘ فاران نے مڑ کر مجھ سے پوچھا وہ ایک بڑی سی پتیلی میں کچھ گھول رہا تھا۔
’’ تمہیں یاد ہے ناں۔ کل ابو اپنی فرم کے چپڑاسی کا ذکر کررہے تھے کہ اسے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔ مجھے تو وہی چپڑاسی لگ رہا ہے۔ بہرحال میں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ اب اچھے میزبان کی طرح کچھ کھلانے پلانے کا بندوبست کرو۔‘‘
’’چائے بن سکتی تھی۔ دودھ تو تھا گھر میں۔ مگر میں نے اس میں چاول گھول لیے ہیں۔‘‘ فاران بولا۔
’’ کیوں ۔‘‘ میں نے جل کر کہا۔
’’ میرا ارادہ دادی اماں کے لیے کھیر بنانے کا تھا۔ میں اپنے حساب سے بہت عمدہ کھیر بنا رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ میں سوچ میں پڑ گیا۔ دادی اماں کو خوش کرنا بھی ضروری تھا۔ مہمان کی تواضح کرکے اچھے بچے ہونے کا ثبوت بھی دینا تھا۔
’’ایسا کرو اسی چاول والے دودھ کی چائے بنا دو۔ مہمان کو چائے پلانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پہلا اکرام اور تواضح تو چائے ہی ہے۔‘‘ میں بولا۔
’’ ٹھیک ہے۔‘‘ فاران فرمانبرداری سے چائے بنانے لگا۔
’’ کل جو تم بیکری کے تیز میٹھے بسکٹ لائے تھے۔ وہ بھی ایک پلیٹ میں سجا دو۔‘‘ ایک اچھی سی ٹرے میں ہم نے بسکٹ کی پلیٹ اور چائے کی پیالی رکھی اور ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے۔ وہ صاحب صوفے پر بیٹھنے کے بجائے نہایت عجلت میں کھڑے تھے۔
’’بدر الدین صاحب ابھی تک نہیں لوٹے۔‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ نہیں جناب۔‘‘
’’ پھر میں چلتا ہوں۔ میں رک نہیں سکتا۔ بدر الدین صاحب سے کہہ دینا کہ ارمغان صاحب آئے تھے۔ ‘‘ وہ باہر نکلنے کو تھے کہ فاران بولا۔
’’ نہیں جناب چائے بسکٹ کے بغیر نہیں۔‘‘ میں نے بڑھ کر ان کاہاتھ تھام لیا اور روکنے لگا وہ دھپ سے صوفے کے اوپر آگرے۔ فاران نے جلدی سے دو بسکٹ ان کے ہاتھوں میں تھما دیئے۔
’’پلیز جلدی جلدی کھا لیجئے۔‘‘
’’ نن۔۔۔ نہیں۔‘‘ وہ بوکھلائی ہوئی آواز میں بولے۔’’ میں میٹھا بالکل نہیں کھاتا۔‘‘
’’ اجی۔۔۔ تکلف کیسا؟ ابھی تو آپ کو یہ چائے بھی ختم کرنا ہے۔ ‘‘ میں نے جھک کر پیالی میں جھانکا اور پیالی ان کی طرف بڑھا دی۔ وہ خوفزدہ نظروں سے پیالی کو دیکھنے لگے۔ ’’ یہ سب کچھ ختم کریں۔ ہم ایک منٹ میں آتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
ہم کمرے سے باہر نکل آئے۔ میں نے ایک لفافہ لیا اس میں دس دس کے تین نوٹ ڈالے۔
’’فاران تم بھی اپنی جمع خرچ اس میں ڈالو جلدی کرو۔‘‘ فاران کے پاس پانچ کے دو نوٹ اور آٹھ دس سکے تھے۔ فاران نے وہ لفافے میں ڈال دےئے۔ لفافہ گوند سے چپکا کر ہم نے اوپر مارکر سے لکھ دیا۔
’’ارمغان چپڑاسی کے لیے۔ بدر الدین صاحب کی طرف سے۔‘‘
ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو ارمغاں صاحب دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ میں نے لپک کر لفافہ ان کی جیب میں ٹھونس دیا۔ انہوں نے نہایت الجھی ہوئی نظروں سے ہم دونوں کو دیکھا۔
’’ یہاں آنے کا تجربہ اچھا نہ رہا۔‘‘ لہجہ کافی تلخ تھا۔
’’گھر جا کر جب لفافہ کھولیں گے تو پتا چلے گا یہاں آنا کتنافائدہ مند رہا۔ ‘‘ میں ہنسا۔ وہ پیر پٹختے باہر نکل گئے۔ باہر سیاہ رنگ کی مٹسوبشی لانسر کھڑی تھی۔ دروازے پر باوردی ڈرائیور کھڑا تھا۔ اس نے دوڑ کر دروازہ کھولا۔ ارمغاں صاحب اندر بیٹھے۔ یہ جا ۔۔۔ وہ جا۔۔۔
’’زیان۔۔۔ یہ چپڑاسی نہیں ہو سکتا۔ فاران نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
’’تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ہم نے ان کے ساتھ کوئی برا سلوک تو نہیں کیا۔ کھلایا پلایا اور دے دلا کر رخصت کیا ہے اور پھر انہوں نے بتایا کہ کب تھا کہ وہ کون ہیں۔‘‘
ہم اندر مڑ گئے اور دادی جان کے لیے کھیر بنانے لگے۔ آدھے گھنٹے میں کھیر بن چکی تھی۔ میں نے چکھ کر دیکھی۔ بہت میٹھی تھی۔
’’ہوں۔۔۔ بہت مزے دار ہے۔ دادی اماں خوش ہوں گی۔‘‘ ہم ان کے کمرے کی طرف بڑھے۔ وہ سو رہی تھیں۔ ہم نے جگا کر پیالہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’چلیں ۔۔۔ جلدی جلدی کھائیں۔ ختم کریں۔ آج آپ کس قدر دبلی اور کمزور لگ رہی ہیں۔‘‘
’’ارے نگوڑ ماروں۔۔۔ مجھ شوگر کی مریضہ کو یہ میٹھا کھلاؤ گے۔ جاؤ مجھ کو ایک گلاس دودھ ٹھنڈا کرکے لادو۔ میرا بی پی کم ہو رہا ہے۔ جلدی کرو۔‘‘
’’دادی جان۔۔۔ تمام دودھ کی کھیر بن چکی ہے۔‘‘
’’ایسا کرو ۔ بازار سے ایک کلو دودھ خرید لاؤ۔ دادی اماں کو دودھ پلانا بہت ضروری ہے۔‘‘ میں بولا۔
’’ نہیں زیان۔ دودھ نہیں آسکتا۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ایسا کرتے ہیں اپنے دوست تابش کے گھر سے تھوڑا مانگ لاتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ دادی اماں آپ اپنا بی پی تھوڑا سا بلند رکھیں۔ ہم ابھی دودھ لے کر آتے ہیں۔‘‘ ہم دونوں کمرے سے نکل آئے۔
تابش کے گھر پر برقی قمقمے جل رہے تھے۔ مہمان تھے۔ گہما گہمی تھی۔
’’ میرے خیال میں تابش کے بڑے بھائی ، شمائل بھائی کی شادی ہے۔‘‘ ہم دونوں اندر داخل ہوگئے۔بڑے ہال میں کھانے کا انتظام کیا جا رہا تھا۔ ہم اندر رہائشی کمروں میں داخل ہو گئے۔ تابش کے دادا جان کی آواز آرہی تھی۔ وہ بہت اونچا بولتے تھے۔ نگاہ ان کی بڑی کمزور تھی۔
’’ارے۔۔۔ درزی نے میرا پاجامہ کتنا ڈھیلا کر دیا۔ اب کیا پہنوں گا میں۔‘‘
’’تمہیں یاد ہے ناں زیان۔ ہمیں اچھے بچوں کی طرح وقت گزارنا ہے۔ لہٰذا ہمیں تابش کے دادا جان کی مدد کرنا ہو گی۔‘‘ فاران نے کہا پھر بولا۔
’’اچھا تم یہیں ٹھہرو میں پانچ منٹ میں کپڑے لے کر آتا ہوں۔ تابش کے دادا جان قد و قامت ، جسم جسامت میں ہم دونوں کے ہی برابر ہوں گے۔‘‘
’’خیال رہے۔ وہ ڈھیلا پاجامہ ناپسند کررہے ہیں۔ ایسا کرنا میری چست والی جینز لے آنا۔‘‘ میں بولا۔ ’’ہم ان کے کپڑوں سے بدل دیں گے۔‘‘
’’ ہاں ان کی نگاہ کمزور ہے۔ ہمیں کچھ مشکل نہ ہوگی۔‘‘
پندرہ بیس منٹ میں ہم دادا جان کا پاجامہ کا سوٹ اٹھا کر اپنے کپڑوں سے بدل چکے تھے اور انہیں یہ اطمینان دلا چکے تھے کہ موجودہ کپڑے بالکل ڈھیلے نہیں ہیں آپ اطمینان سے زیب تن کر سکتے ہیں۔
’’چلو اب چکر مار کر آئیں۔ کسی اور کو تو ہماری مدد کی ضرورت نہیں۔‘‘ ہم آگے بڑھ گئے۔ آگے بھی جو آوازیں کانوں میں پڑیں وہ یہی تھیں کہ کسی کے کپڑے ٹیلر کے پاس سے نہیں آئے۔ کسی کا میک اپ پارلر والی نے اچھا نہیں کیا۔ کسی کا ہیئر اسٹائل صحیح نہ بن پایا تھا۔
’’ میرے خیال میں بجلی منقطع کر دی جائے تو سب کے حق میں بہتر ہو گا۔ کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔‘‘ میں بولا۔
’’ٹھیک ہے ۔ تم آگے چلو۔ بجلی کا کام میں اکیلا ہی بڑا مناسب طریقے سے کر لوں گا۔ فاران نے کہا۔
میں واپس پلٹ گیا۔ تو شمائل بھائی، تابش، ان کی باجی کے زور زور سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ دادا جان تنگ جینز اور ٹی شرٹ میں ہو لائے بولائے پھر رہے تھے۔
’’ یہ آپ نے کیا پہن لیا۔ آخر آپ کے کپڑے کدھر گئے۔‘‘ شمائل بھائی زور زور سے کہہ رہے تھے۔
’’تھوڑی دیر کا مسئلہ ہے۔ پھر کوئی کسی کو نہ دیکھ پائے گا۔ سب کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘‘ میں سوچ رہا تھا۔
اسی لمحے کان پھاڑ دینے والا ایک دھماکا ہوا اور گھپ اندھیرا پھیل گیا۔ دوڑتے قدموں کی آواز آئی۔ فاران تیزی سے باہر بھاگا۔
’’پکڑو۔ پکڑو۔ جانے نہ پائے۔‘‘ یہ تابش کے والد کی آواز تھی۔
یہ آواز سنتے ہی میں عقبی کھڑکی سے باہر کود گیا۔ کونے میں کھمبے کے پیچھے فاران نظر آیا۔ ہم دونوں پچھلی گلی کی طرف مڑے اور گھر کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھے۔ دروازہ بند تھا۔ ہم اوپر چڑھ کر ہلکے سے اندر کود گئے۔ دادی اماں کے کمرے سے شور کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’غضب خدا کا۔ اپنی دادی کو اس حال میں چھوڑ کر دونوں لڑکے غائب ہیں گھر میں دودھ کی ایک بوند نہیں کہ ان کو پلائی جا سکے۔‘‘ابو چلا رہے تھے۔ اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی۔ پھر امی کی آواز آئی۔
’’سنیں ۔ آپ کے باس ارمغان صاحب کا فون ہے وہ آج آئے تھے یہاں۔‘‘ ہم دونوں کے دل دھکڑ دھکڑ چلنے لگے ہم نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اسٹور کے دروازے کے پیچھے چھپ گئے۔
ذرا ہی دیر میں ابو کی آواز آنے لگی وہ امی سے کہہ رہے تھے۔
’’ کہاں گئے یہ دونوں۔ سنتی ہو تم۔ میرے باس کی جیب سے پینتالیس روپے نکلے ہیں اوپر لکھا ہے ارمغان چپڑاسی کے لیے۔ بدر الدین صاحب کی طرف سے۔‘‘
اس سے قبل کہ وہ امی سے مزید کچھ کہتے۔ باہر اطلاعی گھنٹی بجی اور تابش کے ابو کی زور زور سے بولنے کی آوازیں آنے لگیں بس ایک دو ہی لفظ سمجھ میں آرہا تھا۔ بجلی ۔۔۔ بجلی۔۔۔ جینز ۔۔۔ جینز۔۔۔ جینز۔
’’ آج ہم لوگوں کی زندگی کا شاید آخری دن ہو۔‘‘ میں تھر تھر کانپتی آواز میں بولا۔
’’پتا نہیں دادی اماں ہمیں کیا انعام دینے کا ارادہ رکھتی ہوں گی۔‘‘ فاران نے نئی کہی۔ میں نے گھور کر اسے دیکھا۔
اسی لمحے ہم دونوں گدی سے پکڑ کر اسٹور کے دروازے کے پیچھے سے نکال لیے گئے۔
پھر جو کچھ ہوا ۔ بڑا لمبا قصہ ہے۔ تاہم فاران کو ابھی بھی حیرت اور افسوس اس بات پر اکثر ہوتا ہے کہ آخر اس قدر نیکی کے کام کرنے کے باوجود وہ دادی اماں کے انعام کا حق دار کیوں نہ ٹھہرا۔ کیا کہتے ہیں آپ لوگ؟‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*